Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

حضرت سلطان باہو اور علامہ اقبال کا شاہین

حضرت علامہ اقبال ؒ سلسلہ قادریہ سے بیعت تھے۔ان کے والد بھی صوفی بزرگ تھے۔ حضرت علامہ کے کلام میں جا بجا صوفیا ئے کرام سے عقیدت ومحبت کا اظہار ملتا ہے۔ اقبالؒ مولانا روم کے مرید ہندی ہیں تو وہ سنائی ؒ اور فرید الدین عطار ؒ کو بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں ان صوفیا کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے ۔
یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فلاسفی کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہے وہ سلطان باہو کی فراہم کردہ ہیں۔ اگرچہ حضرت سلطان باھُو اور علامہ اقبال کے ادوار میں دو صدیوں سے زائد کا فرق ہےلیکن دونوں صوفیاء میں گہری فکری مماثلت نظر آتی ہے۔

 

شاہین اور شہباز :


سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ اور علامہ اقبال ؒکے درمیان فکری اصطلاحات میں جو مشاہدات کا اشتراک ہے وہ آدمی کو بعض دفعہ حیران کر دیتا ہے مثلاً اقبال کا استعارہ شاہین دراصل سلطان باہو کا شہبازہے۔ سلطان باہو فرماتے ہیں۔ 

میں شہباز کراں پروازاں وچ دریا کرم دے ہُو
زبان تاں میری کن برابر موڑاں کم قلم دے ہُو
افلاطون ارسطو جیہں میرے اگے کس کم دے ہُو
حاتم جیہں لکھ کروڑاں در باہُو دے منگدے ہُو

اِس بیت میں حضرت سُلطان باھُو فرماتے ہیں :
میں شہباز بن کر دریائے لُطف و کرم میں پرواز کناں ہوں، میری زبان میں خالق کی عنایت کردہ ‘‘کُن’’اور قلم موڑنے کی تاثیر ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلسفی افلاطون اور ارسطُو بھی میرے سامنے ادنیٰ اور کروڑوں حاتِم بھی میرے سامنے مانِند گداگر ہیں۔
اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو بلند پروازی کی بنا پر ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں :

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں


قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

سلطان باہو فرماتے ہیں۔ 

جائے کہ من رسیدم امکان نہ ہیچ کس را
شہبازِ لامکانم آنجا کجا مگس را

‘‘قرب الٰہی کے جس مرتبے پرمَیں پہنچا ہوں وہاں ہر کسی کے پہنچنے کاامکان نہیں ہوتا۔ میں لامکان کاشہباز ہوں،لامکان میں مکھیوں کی جگہ نہیں ہے-’’
حضرت سلطان باھُو مزید فرماتے ہیں :

ہر منتہٰی آغازِ من
مگسی کجا شہبازِ من
کس نیست محرم رازِ من
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

‘‘ہر انتہا میری ابتدا ہے- میرے راز کا محرم کوئی نہیں ، کہاںمکھی اور کہاں میرا شہباز؟ مَیں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں، اپنی جان سے بیگانہ ہوں’’-

مرشد عنقا بود شہباز پر 
مگس مرشد کی برد کوہ سر بسر

‘‘عنقا صفت مرشد بلند پرواز شہباز ہوتا ہے، لیکن مکھی صفت مرشد کوہِ معرفت کی بلندچوٹیوں تک کہاں پہنچ سکتا ہے-’’
اقبال فرماتے ہیں:

 جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
میرا نےلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ؟

 

فقرِ اقبال ، فقرِ باہو:

 

 

فقر بھی اقبال کے نزدیک مرد درویش کی بڑی خصوصیت ہے :

 اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان ِ بے نیازی
کنجشک و حمام کے لئے موت
ہے اس کا مقام شہبازی


فقر کے ہیں معجزات،تاج وسریر وسپاہ
فقر ہے میروں کا میر،فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکی ٔ عقل وخرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب ونگاہ

 

اقبال کا فقر، فقرِ سلطانِ باہو ہے، باہوکہتے ہیں:

نیم نظرِ فقیر بہ از کیمیا
زاں نظر واصل شوی عارف خدا

(فقیر کی نیم نگاہ بھی کیمیا سے بہتر ہے کہ اس سے تو اللہ تعالیٰ سے واصل ہو کر عارف باللہ ہو سکتا ہے )

 

نظر فقرش گنج قدمش گنج بر
فقر لایحتاج شد صاحبِ نظر

(فقر کی نظر بھی خزانہ ہوتی ہے اور اس کے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے لیکن فقر اس کے باوجود لا یحتاج رہتا ہے۔)
علامہ اقبا ل فرماتے ہیں۔

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے

حضرت سلطان باھُو مزید فرماتے ہیں :

 فقر شاہے ہر دوعالم بے نیاز و باخدا
احتیاجش کس نہ باشد مدِّ نظرش مصطفیٰؐ

(فقر بادشاہ ہے جو قرب ِ الٰہی کی بنا پر دونوں جہاں سے بے نیاز ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں ۔ وہ ہر وقت حضورِ اکرم ﷺ کی نظر رحمت میں رہتاہے۔)
علامہ اقبال فرماتے ہیں:

  فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضااست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفیٰؐ است

(فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کا نام ہے۔ یہ محمد مصطفی ﷺ کی میراث ہے اور ہم امین ہیں۔)

 

مرد مومن:

حضرت علامہ کے ہاں مرد مومن کا تصوربھی بڑی حد تک سلطان العارفین کے مرد مومن سے ملتا جلتا ہے ۔علامہ کہتے ہیں:۔

غالب وکار آفریں کار کشا کار ساز
خاکی ونوری نہاد،بندۂ مولا صفات
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا و کار ساز

حضرت سلطان العارفین کے ہاں مرد مومن ذات حق کی عین ہوتا ہے۔وہ فنائے نفس اور بقائے روح کی حالت میں ہوتاہے۔وہ فقر وشجاعت اور سخاوت و مصلحت سے مزین اور عارف باللہ ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں:

مردان خدا خدا نہ باشد
لیکن ز خدا جدا نباشد

(مردان خدا خدا تو نہیں ہوتے مگر خدا کے ذکر و خیال سے جدا بھی نہیں ہوتے)

 

تصورِ علم:


حضرت علامہ ؒکے ہاں تصور علم بھی حضرت سلطان العارفین ؒسے ملتا جلتا ہے ۔حضرت علامہ علم کی بے مقصدیت اور ایسی تعلیم کے خلاف ہیں جو بے علمی اور بے یقینی کو جنم دیتی ہے اور جس سے ملت کے نوجوانوں کی صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں:

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو

حضرت سلطان العارفینؒ کے علم کے حوالے سے افکار بھی ایک جامع نظام رکھتے ہیں اور ان کا تصور علم بھی دیگر افکار کی طرح الہامی ہے :

علم با عمل است بشنوای ہوشمند
نیست بر تو کتب خواندن فرض چند
زاں علم عالم شوئی صاحب نظیر
علم یک حرف است بروشن نظیر
نظر ِ مرشد می بر با مصطفی
واقف اسرار گردد از الہ
ختم گردد علم حلم و ہر مقام
ایں چنیں تحصیل عارف شد تمام
رفت عمرش با مطالعہ
معرفت حاصل نشد افسوس غم

(اے عاقل سن علم وہ ہے جس پر عمل کیا جائے۔تو علم کو زیر عمل رکھ ورنہ اتنی زیادہ کتابیں پڑھنا فرض نہیں ہے ۔علم تو ایک حرف ہے جس کو اگر پڑھ لیا تو دل روشن ہو جاتا ہے ،اس علم کو پڑھنے والا صاحب نظر عالم بن جاتا ہے ۔
نگاہِ مرشد بندے کو حضور ﷺ کی مجلس میں پہنچا دیتی ہے ،جہاں اس پر اسرار الہی کھلتے ہیں۔اس مرتبے پر پہنچ کر عارف حق ایسا عالم بن جاتا ہے جس کے سامنے علم وحلم ومراتب کی تمام حدود معدوم ہوجاتی ہیں۔
جو آدمی ساری عمر پڑھائی لکھائی میں مشغول رہا مگر معرفت الہی حاصل نہ کر سکا،تو افسوس وغم کاوبال اس کی اپنی گردن پر رہا’’ ۔

 

عشق:

باہو اور اقبال کے درمیان ایک اہم قدر مشترک عشق ہے ، ان کے ہاں عشق ایک لازوال قوت کے طور پر نظر آتا ہے- حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں :

جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ھوُ

مزید فرماتے ہیں :

اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ھوُ
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاہڑے ھوُ

حضرت سلطان باھُوؒ کے نزدیک مرشد کامل کی ایک نظر عرفانِ ذاتِ تعالیٰ کی منزل تک پہنچاتی ہے-
علامہ اقبال بھی عشق کی اسی رمز کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 اقبال نے سلطان باہو کی زمینوں میں غزلیں کہی ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کی مشہور نظم :

‘‘خود ی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ’’

کی نا صرف زمین بلکہ اس غزل کے موضوعات تک سلطان باہو کی فارسی غزل سے لئے گئے ہیں۔ سلطان باہو فرماتے ہیں:

نجاتِ مردمِ جاں لا الہ الا اللہ
کلیدِ قفلِ جناں لا الہ الا اللہ
چہ خوف آتشِ دوزخ چہ باکِ لعین
ورا کہ کردبیاں لاالہ الا اللہ

اس زمین میں علامہ اقبال کہتے ہیں :

خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

 

یہ بھی دیکھیں

یونس ایمرے

اگر برصغیر پاک و ہند میں کسی سے پوچھا جائے کہ ترکی کے سب سے ...

تصوّف کی شہرہ آفاق اور لازوال کتابیں

– پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *