Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

وہ خواب جنہوں نے دنیا بدل ڈالی

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

وہ خواب جنہوں نے دنیا بدل ڈالی

 کیا خواب کے ذریعے آنے والے حادثات کا انکشاف ہوسکتا ہے ، یا آنے والے وقت کی پیش گوئی کی جاسکے ، یا پھر وہ کچھ جان لیا جائے جو جانتے ہی نہیں…. تاریخ کے صفحات پر ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہوتے ہیں، ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔دئیے ہوئے تمام واقعات کا تاریخی اور تحریری ریکارڈ موجود ہے ۔

 

 

آج کا دور سائنسی علوم وفنون سے معمور ہے اور وہی بات مرتبۂ تصدیق کو پہنچتی ہے جو دلیل اور ثبوت کے ساتھ پیش کی جائے۔ موجودہ سائنس کے تحت بھی خواب پر کافی ریسرچ کی جارہی ہے۔ خواب کے دوران جسم پر ہونے والے تغیرات سائنس کا بنیادی موضوع ہیں۔ مختلف تجربات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ خواب کا ہماری زندگی کے جذبات واحساسات سے تعلق ہوتا ہے اور اگر ان پر توجہ دی جائے تو ان کے ذریعے ہم پر اُن مسائل قبل ازوقت انکشاف بھی ہوسکتا ہے جو مستقبل میں ہم پر حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ لیکن کیا خواب کے ذریعے آنے والے حادثات کا انکشاف ہوسکتا ہے ، یا آنے والے وقت کی پیش گوئی کی جاسکے ، یا پھر وہ کچھ جان لیا جائے جو جانتے ہی نہیں…. تاریخ کے صفحات پر ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہوتے ہیں، ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔دئیے ہوئے تمام واقعات کا تاریخی اور تحریری ریکارڈ موجود ہے ۔

 

کراکاٹوا جزیرہ اور بوسٹن گلوب

آتش فشاں پہاڑ کے ایک زبردست دھماکے نے جزیرہ پیر لیب کو ہوا میں اچھال دیا تھا۔پگھلا ہوا لاوا اور چٹانیں پہاڑ کے پہلو میں واقع کھیتوں اور گاؤں کے لوگوں کے سروں پر سے اڑ رہا تھا۔ جہاں آگ،خون اور کیچڑ کے مرغولے خوفناک سما پیش کر رہے تھے۔ ارد گرد سمندر کا پانی خوفناک آواز کے ساتھ جزیرے میں داخل ہو رہا تھا ۔ آگ و خون، لوگوں کی چیخ و پکار اور سمندر کے جوار بھاٹا کی خوفناک آوازوں سے بائرن سام Byron Somesاچانک نیند سے ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔
یہ 27 اگست 1883ء کی رات تھی، اخبار بوسٹن گلوب Boston Globe کے خبروں کی وصولی کے کمرے میں نصب شدہ کلاک میں رات کے 3 بج رہے تھے ، اس دہشتناک خواب نے رپورٹر بائرن سام کو کسی حد تک مخبوط الحواس بنا دیا تھا، اسے لوگوں کی چیخ و پکار اب بھی صاف سنائی دے رہی تھی جو سمندر کے کھولتے ہوئے پانی میں دھکیلے جا رہے تھے جس میں وہ بری طرح تڑپ رہے تھے۔اسے وہ تمام منظر اس طرح دکھائی د ے رہا تھا جیسے وہ ہوا میں معلق ہو گیا ہو۔
اس نے اپنے آپ کو ایک جھٹکا دیا تاکہ وہ اس خواب کے اثر کو زائل کر سکے جو اس نے ابھی ابھی دیکھا تھا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اس نے جو کچھ دیکھا تھا وہ محض ایک خواب تھا تو اس نے سکون کا سانس لیا پھر کچھ ہی دیر بعد وہ خیالات سے حقائق کی دنیا میں آ گیا اس نے سوچا کیوں نہ یہ خواب بطور ریکارڈ محفوظ کر لیا جائے چنانچہ اس نے پنسل اٹھا کر خواب کی تفصیل لکھنا شروع کر دی کہ کس طرح جزیرہ پیرلیب Pralape کی تباہی نے لوگوں کو خوف و ہراس سے مخبوط الحواس بنا دیا تھا۔ اور وہ کس طرح پگھلے ہوئے لاوے کے سمندر میں پھنس گئے تھے۔آتش فشاں پھٹنے سے جزیرہ لرز رہا تھا کشتیاں پانی کی سطر پر ہچکولے کھا رہی تھیں اور پورا جزیرہ آتش فشاں ہاڑ کے دہانے سے نکلی ہوئی آگ کے سمندر میں معلق ہو گیا تھا۔بائرن سام نے کاغذ کے اوپر بہت ضروری (important)کے الفاظ بھی لکھ دئیے اور اسے اپنی ٹیبل پر چھوڑ کر دوبارہ سوگیا۔
اگلی صبح یہ کاغذ اخبار کے ایڈیٹر ایڈورڈ سیمسن Edward Samson کو ملا۔ اس نے سوچا یہ ضرور کوئی ایسی خبر ہے جو ٹیلیگرام کے ذریعے موصول ہوئی ہے۔اور بائرن سام نے اس کی توجہ کے لئے اس پر بہت ضروری (important) کے الفاظ لکھ دئیے تھے چنانچہ ایڈیٹر نے جلد از جلد یہ خبر اخبار کے سامنے والے صفحے پر دو کالمی سرخی میں شائع کر دی۔ اس خبر نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور بوسٹن دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگا کیونکہ یہ خبر صرف اسی اخبار نے شائع کی تھی۔ ایڈیٹر نے یہ خبر ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے کی جس نے اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ 29 اگست 1883 کو دنیا کے تمام اخبارات کی خبر یہی تھی۔
لیکن بوسٹن گلوب کے لئے یہ خبر دردِ سر بن گئی کیونکہ کئی ایک اخبارات نے اس خبر کی مزید تفصیلات طلب کیں جو کہ ایڈیٹر کے پاس موجود نہ تھیں۔جاوا کے جزیرے سے کوئی براہِ راست تعلق بھی قائم نہ تھا۔ اسی شام بوسٹن کا ایڈیٹر سام سے ملا۔ سام نے نہایت شرمساری سے بتایا کہ وہ سنسنی خیز خبر دراصل ایک خواب تھی۔ واس لائبریری نے بتایا کہ جاوا کے قریب پیر لیب نامی کوئی جزیرہ موجود نہیں ہے چنانچہ ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھی اپنی جان بچانی مشکل ہو گئی اس نے ایک اعلی سطح کی کانفرنس منعقد کی۔ جس میں اس تکلیف دہ صورتِ حال سے نمٹنے اور کوئی معقول قدم اٹھانے کے متعلق غور و خوض کیا گیا۔اخبار بوسٹن نے اس خبر کی تردید کرنے اور معافی مانگنے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر ایک عجیب ہی واقعہ ظہور پذیر ہوا امریکہ کے مغربی ساحل سے یہ خبر موصول ہوئی کہ سمندری طوفان نے ساحل پر تباہی مچا دی ہے جس سے کئی کشتیاں غرق ہو گئیں اور ہزاروں افراد لقمہ اجل ہو گئے۔ابھی بوسٹن گلوب نے تردید شائع نہیں کی تھی کہ ملک کے دوسرے اخبارات نے تشویشناک خبروں کو شائع کر دیا۔بعض لوگ تو آئے دن طوفان کی خبریں سننے کے لئے بے چین تھے۔ پھر آسٹریلیا سے ایک خبر موصول ہوئی کہ یہاں کی فضاء توپ کے گولوں جیسی آواز سے لرز اٹھی تھی اور ساتھ ہی سمندر میں طوفان اٹھا جس کے اثرات وہاں کے ساحل تک آئے ۔
چند دنوں بعد امریکہ کے ساحل پر ایک جہاز لنگر انداز ہوا جس نے حیرت انگیز واقعات بیان کئے کہ جاوا کے قریب آبنائے سنڈا میں کراکاٹووا نامی جزیرہ آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے سمندر میں غرق ہو گیا ہے اور اس جزیرے کے تمام باشندے ہلاک ہو گئے ہیں۔


جونہی یہ خبر موصول ہوئی اخبار بوسٹن گلوب نے اپنی پچھلی خبر کی تردید اور معافی نامہ چھاپنے کا ارادہ ترک کر دیا۔دوسرے اخبارات نے بھی اس خبر کو جلی حروف میں شائع کیا کہ کراکاٹووا Krakatoa کے حالات 27 اگست کو ٹھیک اسی وقت ڈوب گیا جب بائرن سام اپنے دفتر میں لیٹا خواب دیکھ رہا تھا۔ آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے جو دھماکہ ہوا وہ ساری دنیا کے زلزلہ پیما آلات پر ریکارڈ کیا گیا۔ لیکن سام کو تو خواب میں پیر لیب جزیرہ نظر آیا تھا جبکہ ڈوبنے والے جزیرے کا نام کراکاٹووا تھا۔ کراکاٹووا اور پیرلیب کے ناموں میں کئی سال اختلاف رہاحتی کہ ڈچ آسٹری سوسائٹی نے انکشاف کیا کہ 150 سال پرانے ایک قدیم نقشے میں کراکاٹووا کا پرانا نام پیرلیب درج ہے۔
٭….٭….٭

 

سلائی میشن کی ایجاد

سلائی مشین کی ایجاد نے لباس کی تیاری میں ایک انقلاب برپا کردیا اس سے دنوں کا کام گھنٹوں میں ہوجاتا ہے۔ سلائی مشین الیئس ہووے Elias Howe نے 1845ء میں ایجاد کی۔ایک روز وہ بیٹھا کسی آدمی کو کپڑے سیتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیا کوئی ایسی مشین نہیں بن سکتی جس سے یہ کام آسان ہوجائے۔ آخر کافی محنت کے بعد اس نے ایک مشین تیار کی لیکن اب ایک بہت بڑا مسئلہ اس کے سامنے یہ تھا کہ مشین کی سوئی میں سوراخ ہاتھ کی سوئی کی مانند نوک کے بجائے سر میں ہوتا تھا اس کی وجہ سے مشین صحیح کام نہیں کر پا رہی تھی وہ ایک عرصے سے اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔ آخر ایک روز اس نے خواب میں دیکھا کہ وحشی قبیلے کے آدمیوں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر سلائی مشین بنا کردے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کرسکا۔ جب وقت پورا ہوگیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لئے دوڑ پڑے ان کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ ہووے نے دیکھا کہ نیزے کی نوک پر ایک سوراخ تھا اُسی دم اُس کی آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے پر جب یہ خواب اس کو یاد آیا تو وہ خوشی سے اُچھل پڑا۔ اس کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوچکا تھا۔ اسی وقت اس نے سوئی کی نوک سے ذرا اوپر ایک سوراخ کیا اور اس میں دھاگہ ڈال کر مشین چلائی۔ اس طرح یہ ایجاد تکمیل کو پہنچی جس میں بلاشبہ الیئس کی محنت کے ساتھ ساتھ خواب کا بھی بڑا دخل تھا۔
٭….٭….٭

بینزین کا کاربونک اسٹرکچر


مشہور کیمیا دان پروفیسر فریڈرک آگسٹ کیکیولے Friedrich August Kekulé جنہوں نے 1858ء میں کاربونک ایٹمک اسٹرکچر کا اصول شائع کرکے کاربونک کیمسٹری کی بنیاد رکھی، ان کا کہنا ہے کہ ایک روز جب وہ اسی اسٹرکچر کی ساخت کے حوالے سے سوچ رہے تھے کہ ان کی آنکھ لگ گئی اور اُنہوں نے خواب میں ایٹموں کو رقص کرتے دیکھا۔ اس ناچ میں کبھی دو چھوٹے ایٹم مل کر جوڑے بن جاتے یا کبھی کوئی بڑا ایٹم کئی چھوٹے ایٹموں کو پکڑ لیتا اور سب مل کرناچتے۔ بڑے ایٹموں کی زنجیر بن جاتی اور چھوٹے چھوٹے ایٹم اِدھر اُدھر کھنچ جاتے۔ یہی خواب ان کے کاربونک اصول کی بنیاد بنا، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ کاربن ایٹم کے ملاپ کے چار طریقے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے کاربن کے چار ہاتھ ہیں جن کے ذریعے وہ دوسرے کاربن یا دوسرے عناصر سے جُڑتا ہے۔
پروفیسر کیکیو لے کی ایک اور اہم دریافت بیزین کی ساخت ہے، ایک روز جب وہ اس بات پر غور کر رہا تھا کہ بینزین کی ساخت کیا ہونی چاہئے کیونکہ سابقہ تھیوری کی روشنی میں اس کی تشریح ممکن نہ تھی۔ کافی غور وفکر کے بعد بھی وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ چھ عدد سانپ ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کی دُم منہ میں اس طرح پکڑی ہوئی ہے کہ ایک مخصوص شکل بن گئی ہے۔ اس شکل کو دیکھ کر وولف کے ذہن میں بینزین کا خیال آیا۔ بیدار ہونے کے بعد وولف نے اس ساخت پر کام شروع کیا اور ثابت کردیا کہ بینزین کی ساخت وہی ہے جو اس نے خواب میں دیکھی تھی۔ خواب کے ذریعے اس اہم دریافت نے نوعِ انسانی کو بہت فائدہ پہنچایا۔ اسی کی بدولت اس وقت بہت سی ادویات میں بینزین کے کیمیائی مرکبات مستعمل ہیں۔
٭….٭….٭

نیوروسائنس کی اہم پیش رفت


جرمن فزیالوجسٹ آٹو لووی (1873-1961) Otto Loewi جنہیں نیوروسائنس کا باواآدم کہا جاتا ہے اور انہیں اعصاب میں ہونی والی کیمیائی ٹرانسمیشن پر کیے گئے کام اور ایسیٹائلکولین کی دریافت کے لئے 1936 میں طب کا نوبل انعام بھی عطا کیا گیا۔ اوٹو کا کہنا ہے کہ ایسیٹائلکولین کا تجربہ دراصل ایک خواب کی وجہ سے عمل میں آیا۔ ایسیٹائلکولین انسانی دماغ کے خلیات یعنی neurons میں بننے والا ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو عصبی یا دماغی پیغامات کو ایک خلیے سے دوسرے خلیے میں منتقل کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسکو نیوروٹرانسمیٹر کی حیثیت دی جاتی ہے۔ یہ سب سے پہلے دریافت کیا جانے والا نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔ ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہونے کے کی حیثیت سے اسکا کام تمام عصبی نظام میں عصبی اشاروں (neuronal signals) کو ایک نیورون سے دوسرے تک منتقل کرنا اور انکے درمیان روابط پیدا کرکے دماغ اور اعصاب کے کام کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔
ایسیٹائل کولین یہ کام نہ صرف دماغ کے اندر کرتا ہے بلکہ دماغ سے نکلنے والے اعصاب میں بھی انجام دیتا ہے جو کہ جسم کے مختلف اعضاء مثلا عضلات ۔ آنکھوں وغیرہ کو مرکز عصبی نظام یعنی دماغ سے جوڑتے ہیں۔
1903 سے سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث جاری تھی کہ اعصابی سگنلز ایک بائیوالیکٹرک کرنٹ کی مانند سفر کرتے ہیں یا کیمیائی مادہ کی صورت میں….لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل تھا ، آٹو لووی برسوں سے اس کا حل کھوجنے کی کوشش میں تھا ۔ تقریباً 1920ء کی ایک رات آٹو لووی نے خواب سے جاگا اور اور ایک نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ کر دوبارہ سو گیا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے خواب یاد نہ رہا اور غنودگی میں بنایاہوا آٹا ٹیڑھا ڈیزائن اسے سمجھ میں نہ آیا ۔ وہ پورا دن مسلسل اس بارے میں سوچتا رہا پھر رات تین بجے دوبارہ یہ ذیزائن اس کے ذہن میں آیا اور وہ فوراً لیبارٹری میں چلاگیا اور رات کے ڈیزائن کے مطابق مینڈک کے دو دلو ں کو آپس میں جوٹر کر ان کے درمیان کیمیائی سگنلز کا تجربہ کیا اور کامیابی حاصل کی ۔
٭….٭….٭

ذیابیطس اور انسولین


ذیابیطس کی بیماری کا سبب جسم میں انسولین نامی ایک مادّے کی کمی ہے۔ انسولین لبلبے میں پیدا ہوتی ہے جس سے جسم میں شکر کی مقدار کنٹرول رہتی ہے۔ انسولین لبلبے کے مرکزی حصے میں بنتی ہے جسے لینگرہانز کہتے ہیں۔ ذیابیطس (شوگر) سے بچاؤ کے لئے اس مرکزی حصے کا صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔
سائنس داں بہت عرصے تک کوئی ایسی دوا ایجاد نہ کرسکے تھے جس سے لینگرہانز صحت مند رہ سکے یا اس بیماری کا علاج ہوسکے۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنے والوں میں فریڈرک بینٹنگ Frederick Banting بھی شامل تھا۔ وہ کافی عرصے تک اپنے ساتھی تحقیق میں مصروف رہا۔ پھر وہ انٹاریو یونیورسٹی سے منسلک ہوگیا اور اپنی تحقیق پر زیادہ توجہ دینے لگا۔ یہ 20 اگست 1920ء کا دن تھا۔ اگلے دن فریڈرک کو لبلبے کی کارکردگی کے موضوع پر ایک تقریر کرنی تھی۔ وہ کافی دیر تک اس کی تیاری کرتا رہا اور اس کے متعلق سوچتا رہا۔ آخر وہ اُٹھا اور پھر سونے چلا گیا۔ سوتے ہوئے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی اس نے نیند میں ہی اپنے پاس پڑا لیمپ روشن کیا اورجلدی جلدی کاغذ پر یہ الفاظ لکھے۔ ’’کتوں کے لبلبے سے آنے والی نالی باندھ دو، سات آٹھ ہفتے انتظار کرو۔ اس کے بعد لبلبے باہر نکال کر اُس کا مادّہ حاصل کرو‘‘…. یہ الفاظ لکھ کر وہ پھر سوگیا۔ صبح اُٹھا اس نے حیرت سے اس تحریر کو دیکھا اور پھر اس پر غور کرنے لگا۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ لبلبے سے نکلنے والی دوسری رطوبت جو کہ خوراک ہضم کرتی ہے وہ اس مواد کو ختم کردیتی ہے جو ذیابیطس کو روکتا ہے۔ اگر اس رطوبت سے نجات حاصل کرلی جائے اور پھر لبلبے کو نچوڑا جائے تو اس بیماری کو ختم کرنے والا مادّہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔وہ اس نکتے پر غور کرتا رہا بالآخر اس نے یہ تجربہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس نے دس کتوں کو بے ہوش کرکے ان کے لبلبے نکالے پھر ان کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ریت کے ساتھ پیس لیا اور اس مرکب کو نمک والے پانی میں ملاکر چھان لیا۔ پھر اس کو ٹیکے کی صورت میں کتوں کے جسم میں داخل کیا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ اس نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اس نے اس تجربے کو بار بار دہرایا اور ہر بار کامیابی حاصل کی۔ اس طرح فریڈرک کے اس خواب نے ذیابیطس کی بیماری کا علاج دریافت کرلیا جو میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب تھا۔ 1923ء میں اس دریافت پرفریڈرک پینٹنگ کو طب کا نوبل انعام دیا گیا ۔
٭….٭….٭

خواب اور مستقبل

تاریخ کے صفحات پر ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہوتے ہیں، ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔حضرت یوسفؑ اور حضرت دانیالؑ کی روشن مثالیں تاریخ میں موجود ہیں ۔اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کے خواب اورحضرت اسمائیل کی قربانی کا تذکرہ سچے خواب کی اہمیت واضح کر رہا ہے ۔ لیکن سائنسدانوں کی نظر میں یہ سب روایتیں ہیں۔لیکن خواب سے متعلق اوپر دئے ہوئے تمام واقعات کا تاریخی اور تحریری ریکارڈ موجود ہے اور ان سائنسدانوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ انہیں اپنی ایجادات کا خیال ان خواب سے ہی آیا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ حقیقت میں ہم خواب میں کسی کو نہیں دیکھتے ہیں ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔نہ ہم بھاگتے ہیں اور نہ چلتے ہیں نہ کسی سے بات کرتے ہیں۔ ہم کوئی بھوت ہمیں ڈراتا نہیں ہے اور نہ ہمارا پیچھا کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ہرا بھرا باغ ہوتا ہے۔نہ ہی بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں کہ جہاں سے ہمیں نیچے دیکھنے سے ڈر لگے اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ان ساری تصاویر کے ہوتے ہوئے ہم اصل میں اکیلے اپنے بستر میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم کا شوروغل جو کہ ہم اپنے اطرف میں محسوس کرتے ہیں حقیقت میں کبھی بھی ہمارے خاموش کمرے تک نہیں پہنچتا۔ جب ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔جب ہم خواب میں کسی سے بات میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ تاہم خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کی حصّہ ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔
آج کا دور سائنسی علوم وفنون سے معمور ہے اور وہی بات مرتبۂ تصدیق کو پہنچتی ہے جو دلیل اور ثبوت کے ساتھ پیش کی جائے۔ موجودہ سائنس کے تحت بھی خواب پر کافی ریسرچ کی جارہی ہے۔ خواب کے دوران جسم پر ہونے والے تغیرات سائنس کا بنیادی موضوع ہیں۔ مختلف تجربات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ خواب کا ہماری زندگی کے جذبات واحساسات سے تعلق ہوتا ہے اور اگر ان پر توجہ دی جائے تو ان کے ذریعے ہم پر اُن مسائل قبل ازوقت انکشاف بھی ہوسکتا ہے جو مستقبل میں ہم پر حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ لیکن کیا خواب کے ذریعے آنے والے حادثات کا انکشاف ہوسکتا ہے ، یا آنے والے وقت کی پیش گوئی کی جاسکے ، یا پھر وہ کچھ جان لیا جائے جو جانتے ہی نہیں….

 

 

 

نومبر 2013ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *