موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
انوکھے مسیحا – 2
سائیکک سرجری یعنی آلاتِ جراحی کے بغیر خالی ہاتھوں کے ذریعے سرجری کرنے والے مسیحا جو برازیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، فلپائن بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر ہنری کارل پوہرک Henry K. Puharich اور ہنری بلکHenry Belk کےامریکی ریاست کیلیفورنیا سے برازیل کے چھوٹے سے گاؤں کانگوہاس ڈوکیمپو Congonhas do Campo میں آنے کا مقصد اس شخص سے ملاقات کرناتھی جسے لوگ مسیحا کہہ کر پکارتے ہیں، یہ شخص لوگوں کا عجیب و غریب طریقہ سے علاج کرتا تھا۔ لوگ معجزاتی طور پر تندرست ہوجاتے، دنیا بھر کے اخبارات میں اس کی شہرت کے چرچے ہورہے تھے، حالانکہ وہ کوئی ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک کم تعلیم یافتہ شخص تھا ….اصل نام تو اس کا ‘‘جوز پیڈرو دی فریئٹس’’ José Pedro de Freitas تھا، لیکن اس نے خود اپنا نام ‘‘اریگو ’’ رکھ لیا تھا۔
23 اگست 1963ء کی صبح سات بجے ڈاکٹر ہنری دو پرتگالی ترجمان حضرات کے ساتھ اریگو کے کلینک پہنچا جو کہ ایک پرانے گرجا گھر میں تھا، اس وقت تقریباً دو سو مریض وہاں موجود تھے، ہنری کی ملاقات اریگو سے ہوئی جو گھنی مونچھوں والا ایک چالیس سالہ تندرست و تواناشخص تھا۔ ڈاکٹر ہنری نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ، تواریگو نے انہیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور کہا کہ آپ جتنی دیر یہاں رہنا چاہیں رہیں، اور مریضوں سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ایک ادھیڑ عمر شخص کمرے میں داخل ہوا ، اس نے بائیں آنکھ پر رومال رکھا ہوا تھا، شاید اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف تھی۔ اریگو نے اسے ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور بغیر کچھ کہے چار انچ کا اسٹین لیس کا چاقو اٹھایا اور اس کی آنکھ میں کافی گہرائی تک اتار دیا، وہ آدمی مکمل ہوش میں تھا بس پلکیں نہیں جھپکارہاتھا۔
یہ منظر ڈاکٹر ہنری پوہرک اور ہنری بلک دونوں کے لیے انتہائی چونکا دینے والا تھا، وہ حیرت اورسکتے کے عالم میں اریگو اور مریض کو دیکھ رہے تھے، تھوڑی دیر بعد اریگو نے چاقو سے کچھ کھرچ کراس کی آنکھ سے باہرنکال لیا، چاقو کی نوک پر پیپ لگی ہوئی تھی، اریگو نے چاقو کپڑے سے صاف کیا اور مریض کو کہا کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہے اور اپنے گھرجاسکتاہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سے گریجوئیٹ ڈاکٹر ہنری پوہرک اور ڈیوک یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے ہنری بلک نے اپنی پوری زندگی میں اس طرح کا واقعہ نہیں دیکھا تھا، انہوں نے اپنی تسلی کے لیے مریض کی آنکھوں کا معائنہ کیا تو انہیں کسی قسم کا نشان یا سرخی نظر نہیں آئی۔ اگلے چار گھنٹوں تک اریگو نے کئی مریضوں کا معائنہ کیا اور کچھ مریضوں کو دیوار سے کھڑا کرکے ان کے جسم کے مختلف حصوں میں موجود ٹیومر Tumorیا فاسد مادوں کی جھلی Cystکو چاقو کے ذریعے نکال باہر کیا، اس دوران نہ تو اس نے کسی مریض کو بے ہوش کیا ، نہ ہی جسم کے کسی حصے کو سُن کیااس پراسس کے دوران کسی کا چند قطروں سے زیادہ خون بھی نہیں نکلا۔
گیارہ بجے اریگو نے اپنا کلینک بند کرنے کا اعلان کیا، کیونکہ اسے اپنی نوکری پر روانہ ہونا تھا، اس کلینک میں وہ مریضوں سے کوئی پائی پیسہ نہیں لیتا تھا، بلکہ وہ گورنمنٹ کے سماجی تحفظ کے ادارے IAPETC میں ملازم تھا، یہ کارگو اور ٹرانسپورٹ کے ملازمین کی ریٹائرمنٹ اور پینشن سے متعلق ایک ادارہ ہے۔
اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ڈاکٹر ہنری پوہرک اور ہنری بلک دونوں اریگو کی صلاحیتوں کے قائل ہوگئے تھے، اب سوال یہ تھا کہ امریکہ واپس پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو کس طرح یقین دلایا جائے، چنانچہ ڈاکٹر ہنری پوہرک نے قریبی شہر ساؤ پالو Sao Paulo سے ایک صحافی فوٹوگرافر جورج رزنی Jorge Rizziniسے رابطہ کیا اور دوسرے دن اس فوٹوگرافر کے ہمراہ اریگو کے کلینک پہنچ گئے۔ کیمرا وغیرہ سیٹ کرنے کے بعد وہ اریگو کی علاج کرتے ہوئے تصاویریں اور ویڈیو بناتے رہے ، جب تک اریگو نے آخری مریض کو دیکھ نہیں لیا وہ وہاں سے نہیں ہٹے۔
مقامی لوگوں سے انہیں یہ بھی پتہ چلا کہ برازیل کی میڈیکل سوسائٹی اور کیتھولک چرچ کی جانب سے اریگو پر قانونی مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہے، کہ وہ کسی طبی اسناد کے بغیر لوگوں کا علاج کرتا پھرتا ہے۔ اریگو فراڈ ہے یا نہیں اس کا اندازہ انہیں اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک ماہر میڈیکل ٹیم جدید آلات کے ہمرا ہ موجود ہو اور آپریشن کئے گئے مریضوں کا معائنہ کرے، لیکن ان حالات میں ایسا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر ہنری پوہرک نے اپنےہاتھ پر موجود فاسد چربی کی پیپ دار رسولی Lipoma جو کہ معمولی سی تھی کا آپریشن اریگو سے کروانے کی ٹھانی، ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود وہ کیمرہ مین کے ہمراہ اریگو کے پاس آپریشن کروانے جاپہنچا، اریگو نے ڈاکٹر ہنری کو آستین اوپر اٹھانے کو کہا، ڈاکٹر ہنری نے جورج کو کیمرہ آن کرنے کا اشارہ کیا جو کیمرا لیے تیار کھڑا تھا، پھر وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اریگو کرتا کیا ہے۔ اریگو نے ایک چاقو اٹھایا اور ہنری کو سر دوسری طرف موڑنے کو کہا، دس سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں ہنری کو محسوس ہواکہ کوئی گیلی چیز اس کے ہاتھ پر لگی ہوئی ہے اس نے فوراً گردن گھماکردیکھا تو خون میں ڈوبا ہوا رسولی Lipomaکا ٹکڑا نظر آیا، یاتھ پر صرف آدھے انچ کا زخم تھا، جس میں سے معمولی مقدار میں خون رس رہا تھا اور رسولی کا ابھار ختم ہوچکاتھا، معلوم کرنے پر وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ اریگو نے ہاتھ پر چاقو ہلکے سے رگڑا اور رسولی کو کھینچ کر نکال دیا، ڈاکٹر ہنری کو یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ اسے ذرا سی بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی، اریگو نے اس کے زخم پر کوئی جراثیم کش دوا اور ٹانکے نہیں لگائے اور ہنری بھی یہی چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے زخم کا ٹھیک سے معائنہ کرسکے، چند دن ہنری اپنے زخم کا معائنہ کرتا رہا کہ شاید کہیں انفیکشن تو نہیں ہوا، اس نے جوج کی بنائی ہوئی ویڈیو ٹیپ بھی دیکھی لیکن وہ اریگو کے طریقہ علاج کو سمجھ نہ سکا۔
اسے اعتراف کرنا پڑا کہ اریگو کے علاج میں کوئی فراڈ نہیں ہے۔
امریکہ واپسی پر انہوں نے میڈیکل اداروں اور یونیورسٹیوں کو اریگو کی صلاحیت کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے ایک معمولی پڑھے لکھے غیر سند یافتہ ڈاکٹر کی حیثیت سے اس علاج کو میڈیکل لاقانونیت Medical Anarchy قراد دیا ۔ غیر قانونی طور پر کلینک چلانے کے جرم میں اریگو کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا، لیکن اپنے آخری دم تک وہ لوگوں کا اس انوکھے طریقے سے علاج کرتا رہا۔
ڈاکٹر ہنری پوہرک اور ہنری بلک نے اریگو کی صلاحیت کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے کتاب Arigo: Surgeon of the Rusty Knife (اریگو :زنگ آلود چاقو والا سرجن ) تحریر کی جس میں انہوں نے اریگو کے علاج کے متعلق اپنے مشاہدات تحریر کیے اور اس طریقہ علاج کو سائیکک سرجری Psychic Surgery کا نام دیا۔
یورپ کے مشہور و معروف معالج اسٹیفن ٹورف Stephen Turoff نے اپنے ایک انٹرویو میں اریگو کے متعلق کہا ہے کہ اس کو ایک ڈاکٹر Fritz فرٹز کی روح سے فیض حاصل ہوا تھا اور اپنی زنگ آلود چھری کی وجہ سے اس کا لقب بھی زنگ آلود نشتر والا جراح پڑگیا تھا۔ اسٹیفن ٹورف کہتے ہیں کہ سائیکک سرجری کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ یقین رکھیں کہ ہم موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور کاسمک ورلڈ (عالم اعراف) میں کچھ انسان جو یہاں سے انتقال کرکے وہاں پہنچ جاتے ہیں وہ مادّی دنیا میں ہم سے رابطہ قائم کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ یوں تو افریقہ کے وچ ڈاکٹر، اسکیمو کے شماناس Shamanes اور سائبریا کے ووڈو Voodo اپنی روحانی صلاحیتوں کی بنیاد پر صدیوں سے علاج کر رہے ہیں، اریگو کی سائیکک سرجری یعنی آلاتِ جراحی کے بغیر خالی ہاتھوں کے ذریعے سرجری سے متعلق مغربی دنیا 1950ء سے ہی واقف تھی، لیکن فوٹو گرافی اور ویڈیو فلموں کے ذریعے اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہوتی چلی گئی۔
رفتہ رفتہ اوریگو کی طرح کے مزید معالج سامنے آئے، جو برازیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، فلپائن بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔
اس طریق پر علاج کرنے والے افراد کو مسیحا کہا گیا ہے۔ مسیحا کا مطلب ‘‘شفا دینے والا’’ اور ‘‘مردوں کو زندہ کرنے والا’’ نکلتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں ڈاکٹروں کو بھی مسیحا کہا جاتا ہے۔ ممکن تھا کہ بہت سے لوگ کھلے ہاتھوں ہونے والے ان آپریشنوں کو بھی ضعیف الاعتقادی میں ڈال دیتے مگر ان مسیحاؤں کی تصاویر اور ویڈیوز نے ایسے لوگوں کے منہبندکردیے۔
1970ء میں جرمن پریس اور ٹیلی ویژن نے ان مافوق الفطرت آپریشنوں کو پیش کیا۔ 1975ء میں برطانوی گراناڈ ٹیلی ویژن نے بھی سائیکک سرجری کو ویڈیو میں قید کیا۔ 1979ء میں بی بی سی کے پروگرام Nation Wide Expo سے اس طریقۂ جراحت کو بہت شہرت ملی۔
شکاگو کے ایک صحافی ٹام ویلنٹائن نے اس موضوع پر بہت کام کیا اور سائیکک سرجری پر ایک کتاب لکھی۔ ان واقعات کے بعد نفسیات، بائیولوجی، فزکس، کیمیا، میڈیسن اور پیراسائیکلوجی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا رجحان ان پراسرار مسیحاؤں کیجانب ہوا۔
1990ء کی دہائی میں سائیکک سرجری کو دو مسیحاؤں کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ ان کا نام فلورکومیٹا Flor Cometa اور ایمیلو لیپورگا Emilio Laporgaہے۔ یہ دونوں فلپائن سے تعلق رکھتے تھے اور لندن میں پریکٹس کرتے تھے۔ عام ڈاکٹروں سے مایوس بےشمار مریضوں نے ان سے رجوع کیا اور دل کی مراد پائی۔ ان مسیحاؤں کے متعلق سب سے پہلے لائیل واٹسن Layall Watson نے مثبت حقائق جمع کیے۔ اس نے تین مختلف مسیحاؤں کے ایک ہزار سے زائد آپریشنز کا مشاہدہ کیا۔ اس نے اپنی کتاب Orts: The Romeo Error میں ان آپریشنز کی تفصیلات دی ہیں جن کے مطابق پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن پانچ منٹ میں سرانجام پاتا ہے۔
واٹسن ایک خاتون کے آپریشن کے متعلق بتاتا ہے کہ درمیانی عمر کی ایک خاتون کے معدہ میں بہت تکلیف دہ درد تھا اس سے کہا گیا کہ وہ لکڑی کی میز پر لیٹ جائے۔ اس موقع پر واٹسن نے تولیہ کا مشاہدہ بھی کیا کہ کہیں کوئی چیز اس کے اندر تو موجود نہیں ہے….؟ واٹسن نے پوری طرح اطمینان کرنے کے بعد تولیہ مسیحا کو دے دیا۔ کاٹن کی پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس مسیحا نے واٹسن کو اطمینان دلایا کہ اس کے کپڑوں کے اندر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔
مسیحا نے ذرا تیز آواز میں کہا کہ‘‘دعا کریں’’ جس پر واٹسن نے اپنے ہاتھ باندھ لیے۔ پھر مسیحا نے روئی کو پانی میں بھگویا۔ یہ پانی پیالے میں خود واٹسن نے لاکر دیا تھا۔ اب مسیحا نے بھیگی روئی کی مدد سے خاتون کے پیٹ کو صاف کیا پھر اس نے خاتون کی ناف کے دائیں جانب سے آپریشن کا آغاز کیا جس کے ساتھ ہی لال رنگ نمایاں ہوگیا جو کہ خون تھا۔ پہلے خون پانی کے ساتھ مل کر ہلکے لال رنگ میں بہنے لگا پھر رفتہ رفتہ یہ گہرا سرخ ہوگیا۔ اب یہ خون مسیحا کی انگلیوں کے درمیان سے تیزی سے نکل رہا تھا۔ اس کے بعد عامل نے خاتون کے پیٹ کے اندر انگلیاں گھمائیں اور کسی چیز کو کھینچ کر باہر نکالا۔ واٹسن نے دیکھا کہ یہ کوئی اتصالی بافت Connective Tissue ہے جو کہ شفاف، لچکدار اور خون سے سرخ تھی۔ اس کے بعد اس نے پیٹ کے اندر سے کوئی گٹھلی نما چیز کھینچ کر باہر نکالی۔ واٹسن نے اسے ہاتھ میں لے کر دیکھا یہ خون آلود گلٹی نما چیز تھی جو اسے گرم محسوس ہوئی۔ اس کے بعد مسیحا نے اپنا کام ختم کیا۔ اب پیٹ کے اوپر کسی قسم کے زخم کا شائبہ تک نہ تھا۔ واٹسن نے خود مریضہ کے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر دیکھا کہ کوئی زخم تو موجود نہیں ہے۔ مریضہ کو اس پورے آپریشن کے دوران کسی قسم کے درد کی کوئی ٹیس تک نہیں اٹھی تھی۔
جوائے ہنٹ عام زندگی گزار رہی تھی ، کچھ عرصہ سے اس کے سر میں درد رہنے لگا تھا پھر دائیں آنکھ کی بصارت کچھ دھندلی ہوگئی۔ وہ امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے آنکھوں کے معالج کے پاس گئی جس نے تشخیص کیا کہ کینسر کی رسولی کی وجہ سے اس کی دائیں آنکھ کا ریٹینا متاثر ہوا ہے۔ اس نے تجویز کیا کہ دائیں آنکھ نکال دی جائے۔ جوائے اس علاج کا سن کر خوف زدہ ہو گئی۔ وہ نیویارک چلی گئی جہاں اس نے شہر کے ماہر آئی سرجن سے رابطہ کیا انہوں نے بھی یہی علاج تجویز کیا کیونکہ دوسری صورت میں اس کی جان کو خطرہ تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں اسے اپنی ماں کی بات یاد آئی۔ انہوں نے ایسے کہا تھا کہ کچھ مسیحا حیرت انگیز طور پر علاج کرتےہیں۔
جوائے نے ہر اس شخص سے معلومات جمع کرنا شروع کیں جو ان مسیحاؤں کے بارے میں ذرہ برابر بھی کچھ جانتا ہو۔ ان تمام باتوں کے باوجود جوائے پوری طرح مطمئن نہیں تھی مگر ان سے علاج کروانے میں بظاہر کوئی نقصان بھی نہیں تھا اور ویسے بھی آنکھ نکلوانی تو تھی ہی اور یوں وہ ڈرتے ڈرتے ایک مشہور مسیحا جوان بلانچے Juan Blanche کے پاس پہنچی۔ کچھ گفت و شنید کے بعد بلانچے نے اس کا علاج کرنا شروع کیا۔ اسے کمرے میں لکڑی کی میز پر لیٹنے کے لیے کہا پھر اس نے قریب آکر اپنی انگلی اس کی آنکھ کے اندر گڑھے میں ڈال دی پھر انگوٹھے کی مدد سے آنکھ کے ڈلے کو دبانا شروع کیا۔ جوائے کہتی ہے کہ اس وقت اسے کسی قسم کے درد کا احساس تک نہیں ہوا اور آنکھ کے کنارے سے کوئی چیز نکل کر باہر آگئی۔ جوائے اپنا علاج کروانے کے بعد بلانچے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی کیونکہ اب بھی اس کی دائیں آنکھ کی بصارت دھندلی تھی اس دوران جوائے کی ملاقات تجربہ کار مسیحا الیو ٹیریوٹریٹ Eleuterio Terte سے ہوئی جو کہ دیکھنے میں کوئی سادھو معلوم ہوتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی باطنی آنکھ کی مدد سے بہت کچھ مشاہدہ کرسکتا ہے۔ ٹریٹ نے کہا کہ اسے آنکھ میں کچھ نظر آرہا ہے پھر اس نے جوائے سے کہا کہ اپنی آنکھ کو ہاتھ کی مدد سے کھول کر رکھو پھر ٹریٹ نے اپنی انگشتِ شہادت جوائے کی آنکھ پر رکھی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ آنکھ سے چھ سات انچ کے فاصلے پر کچھ ہوا ہے اور برقی جھٹکا سا لگا پھر فوراً ہی اس کی آنکھ سے پانی بہنا شروع ہوگیا۔ جوائے نے قریب کھڑے ہوئے اپنے شوہر سے استفسار کیا کہ کہیں ٹریٹ نے آنکھ میں تیزی سے انگلی تو نہیں ماری….؟ جس پر شوہر کا جواب نفیمیںتھا۔
جوائے اب مکمل طور پر صحت مند تھی۔ اس نے امریکہ واپس جاکر دوبارہ آنکھوں کا معائنہ کرایا اور اس ساری کارروائی سے ڈاکٹرز کو لاعلم رکھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ قدرتی طور پر صحت یاب ہوگئیہے۔
دنیا کے کئی علاقوں میں کئی افراد سائیکک سرجری کرتے ہیں ان میں سے دو ممالک برازیل اور فلپائن کے معالج دنیا بھر میں مشہور تھے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات کی ویڈیوز اور تصاویریں انٹرنیٹ پر دیکھی گئی ہیں ۔ کوئی اس کام کو معجزہ قرار دیتا ہے تو کوئی فراڈ۔ اس جراحی کے بعد آج تک کسی قسم کے انفیکشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا ہے اور ہزاروں لوگ شفایاب ہوئے ہیں۔
جب دنیا میں رونما ہونے والا کوئی بھی فعل ہمارے عقلی تقاضوں کو چیلنج کرتا ہے یعنی ہماری سمجھ سے ماوراء ہوتا ہے تو اسے جادوگری، کرامت یا دھوکہ کہا جانے لگتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں۔ ایسا معاملہ سائیکک سرجری کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ اس طریقۂ علاج سے ہزاروں مریضوں کو شفا ہوئی ہے لیکن پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی عداد اس کو حقیقت ماننے سے انکارکرتیہے۔
کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ جراحی کے عمل سے پہلے اس قسم کا ماحول پیدا کردیا جاتا ہے کہ انسان خود بخود مرعوب ہوجاتا ہے اور پھر مریض اور ناظرین کو ہپناٹائز کردیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس سائیکک سرجری کے حامی اپنے دلائل اور شواہد سے اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اس بات پر یقین کرنا پڑے گا کہ یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ ہماری سائنس ابھی تک بہت ساری حقیقتوں کو نہیں جان سکی ہے ہم جن چیزوں کی بنیاد پر سائیکک سرجری کا تجزیہ کرتے ہیں یہ اس سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ اس حقیقت کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جدید مالیکیولر بیالوجی کے ذریعے ہم یہ جان چکے ہیں کہ انسانی جسم میں ٹوٹنے اور دوبارہ جڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہی کچھ سائیکک سرجری کے ذریعے کیا جارہا ہے۔
اس حقیقت کو ثابت کرنے کتے لیے ٹوکیو کے انسٹی ٹیوٹ آف ریلجس سائیکالوجی Institute Of Religious Pychology کے ماہر نفسیات ماہر مابعد نفسیات Para Psychology اور Theologian ڈاکٹر ہیروشی موٹو یا مانے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے مسیحا جوان بلانچے کے مذکورہ بالا آپریشن کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے آپریشن شروع ہونے اور اختتام پر حاصل ہونے والے خون اور آپریشن میں نکالی جانے والی بافتون Tissues کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ انسانی بافت ہی ہے یعنی کسی جانور کا خون یا بافتنہیںہے۔
ڈاکٹر موٹویاما اپنے مختلف تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سائیکک سرجری کایوگا اور ایکو پنکچر سے تعلق ہے۔ اسی طرح روس اور امریکہ نے کرلین Kirlian تصاویر کے ذریعے یوگا، ایکو پنکچر اور روحانی علاج کے نظریے کے مطابق روحانی جسم کی تصدیق کی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں مسیحا کے ہاتھ کی کرلین تصاویر اتاری گئیں جس کے مطابق علاج سے پہلے مسیحا کے ہاتھ سے توانائی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے جبکہ مریض کا علاج کرنے کے بعد اس کے ہاتھ کی توانائی میں کمی و اقع ہوتی ہے۔
ایک مسیحا ٹونی کے دعوے کے مطابق وہ اگر جراثیم سے بھرے ہوئے برتن میں ہاتھ ڈالے تو جراثیم ہلاک ہوجائیں گے۔ اس پر سسٹر جسٹاس جو بائیو کیمسٹری مین پی ایچ ڈی تھیں اور ان کا خاص موضوع خامرے تھا، نے کچھ تجربات کیے کہ اگر واقعی کوئی ایسا اثر ہے تو وہ یقیناً خامروں پر بھی اثرانداز ہوگا۔ انہوں نے تجربہ کے لیے خامرہ ٹرائپسن Trypsin جو کہ لحمیات ہضم کرنے کا فریضہ انجام دینے میں استعمال ہوتا ہے، اس کی سیل بند صراحیاں گیارہ دن تک پچھتر پچھتر منٹ کے لیے حوالے کیں۔
گیارہ دن کے بعد کیا جانے والا مشاہدہ حیران کن تھا کیونکہ ٹرائپسن بہت عامل ہوگیا تھا۔
سائیکک سرجری کے متعلق خود مسیحا کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نہیں کر رہے بلکہ یہ خدا کی عطا کردہ صلاحیت ہے۔ ہم بطور آلے کے کام کرتے ہیں۔ اس کو سمجھنے سے پہلے لوگوں کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ انسانی جسم دو جسموں سے مل کر بنا ہے۔ ایک اس کا مادی جسم اور دوسرا روحانی جسم۔ ہمارے مادی جسم روحانی جسم کے تابع ہوتے ہیں لہٰذا پہلے روحانی جسم کو صحیح کرنا ضروری ہے مسیحا پہلے روحانی جسم کا علاج کرنا ہے جس کے بعد مادی جسم خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔ روحانی جسم کے آپریشن میں نہ ہی کوئی زخم کا نشان ہوتا ہے اور نہ ہی خون نکلتا ہے مگر مادی جسم کے ساتھ یہ سب کچھ مریض کو مطمئن کرنے کے لیےکیاجاتا ہے۔
اپریل 2014ء