لڑکے میں نسوانیت
سوال: میں ایک لڑکا ہوتے ہوئے بھی لڑکے کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ میرے چہرے پر جھلکتی ہوئی نسوانیت میرے لیے کئی مسائل کا سبب بن گئی ہے۔ کسی کام سے بازار جاتا ہوں تو لڑکے مجھے اس طرح گھورتے ہیں کہ جیسے میں لڑکی ہوں۔ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں بیٹھا ہوں تو اکثر لوگ چونک کر میری طرف دیکھتے ہیں اور کئی تو آوازیں بھی کس دیتےہیں۔
شرمندگی سے بچنے کے لیے میں نے گھر سے باہر نکلنا بہت کم کر دیا ہے۔ عزیزوں اور رشتہ داروں میں کہیں دعوت ہوتی ہے تو میں جاتے ہوئے گھبراتا ہوں۔ میں کسی (Activity) میں حصہ نہیں لیتا۔
پہلے میں سوچتا تھا کہ مونچھیں نکل آئیں گی تو شاید نسوانیت کچھ کم ہوجائے گی۔ لیکن مونچھیں بھی پوری طرح نہیں نکلیں۔
براہ مہربانی میرے مسئلے کا حل تحریر فرما دیں کہ میرے چہرے سے نسوانیت ختم ہوجائے اور مردانہ وجاہت میرے چہرے پر آجائے۔
جواب: تخلیقی نظام کے تحت ہر نوع کا ہر فرد مردانہ اور زنانہ دونوں اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی، مر ہو یا عورت، دونوں میں تقریباً یکساں ہارمونز موجود ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں سے جو رخ غالب ہوتا ہے وہ ظاہر ہوجاتا ہے جو رخ مغلوب ہوجاتا ہےوہ پس پردہ چلا جاتا ہے۔ ہر عورت میں غالب رخ نسوانیت اور مغلوب رخ مردانگی ہے۔ ہر مرد میں غالب رخ مردانگی اور مغلوب رخ نسوانیتہے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیاءؒ اور ان کے شاگرد رشید حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے اس اہم موضوع پر آسانالفہم رہنمائی کی ہے۔
سائیکاٹرسٹ اور نفسیاتی محقق کارل ژنگ Carl Jung نے انسانوں میں غالب اور مغلوب کے اس نظام کو Anima اور Animus کے اصطلاحی نام دئیے ہیں۔
کسی لڑکی کے چہرے پر صنفی لحاظ سے نازکی نہ ہو، اس کی چال میں زنانہ پن نہ ہو یا کسی لڑکے کی بول چال میں زنانہ پن جھلکتا ہو تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے زنانہ اور مردانہ اوصاف کے نسبت تناسب میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ جن لڑکوں کی بات چیت اور انداز میں نسوانیت جھلکتی ہے، اپنی اصلاح کے لیے انہیں ظاہری اور باطنی رخ کے فطری تناسب کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
لڑکیوں کا معاملہ کچھ الگ ہے۔ نزاکت لڑکیوں سے منسوب ہے، شوخ رنگ کے کپڑے، سونے چاندی کے یا دیگر مصنوعی زیورات، ہاتھوں میں چوڑیاں، کانوں میں بندے یہ سب زیادہ تر طبقہ نسواں سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔ گھریلو امور، کھانا پکانا، گھر کی آرائیش، گھر میں پھول پھلواری، اپنے لیے بطور زیوار پھولوں کا استعمال، یہ سب بھی عورت کی پسندیدہ عادتیں سمجھی جاتی ہیں۔ گھریلو امور عورت کی ذمہ داری اور گھر کے باہر کے معاملات مرد کی ذمہداری سمجھے جاتے ہیں۔
اگر کوئی لڑکی یا کوئی عورت شوخ رنگ کے کپڑوں یا زیورات میں دلچسپی کا اظہار نہ کرے، اسے کچن اور گھر داری سے زیادہ دلچسپی نہ ہو اور وہ کاروبار یا ملازمت کے ذریعے مالی طور پر خود مختار بننا چاہتی ہو تو کیا اس کا مطلب یہ لہا جایے کہ اس میں مردانہ اوصاف حاوی ہورہے ہیں….؟
جی نہیں…. گھریلو امور سے عدم دلچسپی اور مالی خودمختاری کی خواہش مند عورتوں کے بارے میں ایسا سوچنا درست نہیں ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں مذکر یا لڑکے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کئی گھروں میں بیٹیوں کی حوصلہافزائی اور ان کے کاموں کے اعتراف میں بعض والدین یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری بیٹی نہیں بلکہ بیٹا ہے۔ بعض لڑکے باہر کے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں ، لیکن انہیں والدین یہ نہیں کہتے کہ یہ ہمارا بیٹا نہیں بیٹیہے۔
مردانہ بالادستی والے معاشرے (Male Dominating Society) میں صنفی لحاظ سے غالب اور مغلوب اوصاف کا مطالعہ کرنے اور کسی بے ترتیبی کی تشخیص کے لیے کئی عوامل پیش نظر رکھنےچاہییں۔
جن لڑکوں میں کچھ زنانہ اوصاف جھلک رہے ہوں ، ان میں سے اکثر کی تصیح ممکن ہے۔ یکسوئی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرلی جائے تو ان شاء اللہ چند ماہ میں نمایاں بہتری آئے گی۔
غالب اور مغلوب رخوں کی ترتیب درست رکھنے کے لیے مردوں میں سرخ رنگ کا استعمال مفید ہے کیونکہ سرخ ایک مردانہ رنگ ہے۔ سرخ رنگ کو بالعموم عورتوں سے منسوب کیا جاتاہے۔ سرخ رنگ تو دراصل مردانہ رنگ ہے۔
بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد لڑکوں کے چہرے پر داڑھی اور مونچھیں نکلتی ہیں اور ان کی آواز بھی بھاری ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ ہارمونل تبدیلیاں ہیں۔ جن لڑکوں کے چہرے پر داڑھی مونچھ کے بال بہت کم ہوں انہیں معالج سے مشورہ کرکے اپنے مردانہ صنفی ہارمونز Endrogeneاور Testosteroneکی جانچ کروانیچاہیے۔
لڑکوں یا مردوں میں مردانہ اوصاف کی بحالی یا درستی کے لیے کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی صبح اور شام ایک ایک پیالی پینا مفید ہے۔
بطور روحانی علاج روزانہ صبح بیدار ہونے کے بعد اور رات سے پہلے 101 مرتبہ سورۂ سورہ النساء (4)کی آیت (34) میں سے
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاقوی کا ورد کرتے ہیں۔
کھانوں میں بکری کا گوشت، دودھ ، شہد اور کھجوریں زیادہ استعمال کریں۔
غیر عورت سے تعلقات اور گلاب
سوال: ہمارے گھر کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ ایک عورت ہے۔ میرے ابو تقریباً سات آٹھ سال سے ایک غیرعورت سے مل رہے ہیں۔ وہ ہفتے میں تین دن باقاعدگی کے ساتھ اس کے گھر جاتے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کی پرواہ کئے بغیر آندھی ہو یا طوفان سردی ہو یا گرمی ہر صورت اس کے گھر جاتے ہیں۔ اس وجہ سے میری امی بیمار پڑ گئی ہیں۔ امی جان اور دوسرے رشتے داروں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ہمارے ابو کسی کی بات نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو بہن بنایا ہوا ہے۔ آپ لوگ جو مرضی کرلیں۔ میں آپ سب کو چھوڑسکتا ہوں لیکن اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہمارے ابو کی خود اپنی تین سگی بہنیں ہیں لیکن ان میں سے وہ کسی سے بھی نہیں ملتے۔ ہمارا خیال ہے کہ شاید اس عورت نے ابو پر تعویذ وغیرہ کئے ہوئےہیں
جواب: آپ کی والدہ صاحبہ رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ
وَاَلْقَتْ مَا فِيْہَا وَتَخَلَّتْ
پڑھ کر والد کا تصور کرکے پھونک ماردیں۔
والدہ سے کہیں کہ وہ والد صاحب کے زیر استعمال تکیہ کے غلاف پر ریشمی سرخ دھاگے سے گلاب کا ایک پھول کاڑھ دیں۔ یہ غلاف جب میلا ہوجائے تو دھو کر دوبارہ چڑھا دیں۔
نند نے زندگی تنگ کردی ہے
سوال: میری شادی کو تین سال ہوگئے ہیں۔ایک سال تک تومیرے شوہر کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا رہا۔اب سے دوسال پہلے میری ایک نند کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی اور وہ ہمارے ساتھ آکررہنے لگی۔ جب سے یہ واپس میکے میں آئی ہے اس نے میری زندگی حرام کردی ہے۔ پہلے میری ساس کو الٹی سیدھی باتیں کرکے اپنے ساتھ کیا۔ اس کے بعد میرے شوہر کوورغلا یا۔ اب میرے شوہر کو صرف اپنی ماں اور یہ بہن نظر آتی ہے۔
گھرکا سارا نظام نند کے ہاتھ میں ہے، جو وہ کہتی ہے وہی گھر میں ہوتاہے۔دونوں ماں بیٹی میرے ساتھ ہروقت طنزیہ بات کرتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے میری خود اعتمادی مجروح ہوتی جارہی ہے۔ میں اپنی ساس کی بہت زیادہ خدمت کرتی ہوں لیکن وہ مجھ سے خوش نہیں۔
ایک دن اپنے شوہر کا اچھا موڈ دیکھ کر میں نے مختصراً تمام باتیں انہیں بتائیں ۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے گھر میں سکون چاہیے۔ میرا سکون چاہتی ہو تو تم یہ سب باتیں برداشت کرتیرہو۔
میں اپنی نند کی طنزیہ باتیں برداشت کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اب میرا الگ گھر ہو جہاں میں اپنے شوہر اوربچے کے ساتھ سکون سے زندگی بسر کرسکوں۔
جواب: رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ سورہ مریم (19)کی آیت
كٓـهٰـيٰـعٓـصٓ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر ،ساس اورنند کا تصور کرکے دم کردیں اوردعاکریں کہ ان سب کو آپ کے ساتھ بہت محبت اورعزت واحترام کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا ہو۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمارکرکے بعد میں پورے کرلیں۔
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں مگر…..
سوال: میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے۔ میں ہمیشہ سے ایک اچھی اسٹوڈنٹ رہی ہوں لیکن گذشتہ دوسال سے مجھے تعلیمی میدان میں ناکامیوں کا سامنا ہے۔ میں نے میڑک میں89%مارکس اورپری میڈیکل میں85%مارکس حاصل کئے۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے میں نے جو انٹری ٹیسٹ دیا اس میں نمبر کم آئے۔ مجھے میڈیکل میں داخلہ نہیں ملا ۔ اگلے سال پہلے سے زیادہ محنت کرکے دوبارہ انٹری ٹیسٹ دیا مگر اب پہلے سال سے بھی کم نمبر آئے۔
میرے والدین کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں۔ میں نے بھی انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ انٹری ٹیسٹ میں دوبارہ ناکامی کے باعث میں ان سے بہت شرمندہ ہوں۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن میرے والد صاحب نے رشتہ ِداروں کی شدید مخالفت کے باوجود مجھے اعلیٰ تعلیم دلانے کا عزم کیا ہوا ہے۔
ہمارے بعض رشتہ دار میرے والد سے بہت زیادہ حسد کرتے ہیں اوران کی کھلے عام مخالفتیں کرتے ہیں۔ مجھے لگتاہے کہ میری تعلیم میں خلل ڈالنے کے لیے انہوں نے مجھ پر بندش کروادی ہے کیونکہ دونوں مرتبہ انٹری ٹیسٹ سے پہلے میری طبیعت میں بے چینی اوراضطراب بہت بڑھ گیا تھا اور مجھے انٹری ٹیسٹ سے خوف آنے لگا تھا۔
میں چاہتی ہوں کہ میڈیکل کالج میں میرا داخلہ ہوجائے۔
جواب: اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے آپ کے والد کی سوچ قابل ستائش اورقابل تقلیدہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کا شوق اور جذبہ بھی قابل قدر ہے لیکن……اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف کسی ایک شعبے پر انحصار ضروری نہیں ہے۔
دوسال متواتر انٹری ٹیسٹ دینے کے باجود آپ کا داخلہ سرکاری میڈیکل کالج میں نہ ہوسکا۔ پرائیویٹ میڈکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے بہتر ہوگا کہ آپ میڈیکل سے منسلک دوسرے کسی شعبے میں جانے کی کوشش کریں ۔ فارمیسی ،بایو کیمسٹری ، مائیکرو بیالوجی، سائیکالوجی اوردیگر کئی شعبوں میں سے کسی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آپ طب وصحت کے میدان میں بالواسطہ خدمات انجام دے سکتیہیں۔
آپ کو اپنی صحت اورتعلیم پر بندش کا شک ہورہاہے۔ اس کے ازالے کے لیے حسب استطاعت صدقہ کردیں اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یا سلام کا ورد کرتی رہیں۔
حقوق العباد کی ادائی
سوال: میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے زندگی میں کئی دور حوادث آئے ، کئی دفعہ جان جانے کا بھی خطرہ رہا ۔ ہمیشہ محرومیاں ، مایوسیاں درپیش رہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو رخ اور بھی تھے ۔ پہلے صوم وصلوٰۃ کا پابند رہا اس کے بعد شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے میں آکر آوارہ، عیاش اور کئی برائیوں کا پیکر بن گیا۔
والد کے انتقال کے بعد ان کا کاروبار سنبھال سکا نہ حالات بدل سکے۔ اب تک بہت بڑا سرمایہ گنوا چکا ہوں۔ اب کاروبار ہے نہ سرمایہ ہے۔ قرض کی ادائی بھی ناممکن ہوگئی ہے۔
شادی ہوسکی نہ زندگی گزارنے کے لئے جھونپڑا بن سکا۔ نہ رات نیند آتی ہے نہ دن کو چین نصیب ہے۔ مایوسیاں بڑھ رہی ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شئے دسترس سے باہر ہوچکی ہے۔ ماضی بھی دردناک، حال بھی کربناک، مستقبل خطرناک اور تاریک۔ عبادت میں دلچسپی ، نہ خودپر بھروسہ ، اپنوں اور عزیزوں میں سبکی۔
کئی مرتبہ اس زندگی کو ختم کرنے کا سوچا لیکن والدہ کی وجہ سے باز رہا۔ میں نے آخر کون سا جرم کیا ہے کہ قدرت نے مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دیاہے ….؟
جواب: قدرت نے آپ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا ،آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ نے نظام قدرت کی کارفرمائی کہاں میں دخل دیا ہے….؟ جب کوئی بندہ نظام قدرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تووہ ایسے چکرمیں مبتلا ہوجاتا ہے کہ امید روشنی بن کر ابھرتی ہے اور اس کا اختتام تاریکی اور مایوسی پر ہوتا ہے ۔
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کے اندر خودنمائی ، بڑائی ، کبر اور خود ستائی پیدا ہوجاتی ہے اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر والدین سے لوگوں کی دل آزاری اور حق تلفیاں ہوتی رہیں اور وہ معافی و تلافی سے پہلے مرجائیں تو اس کا نتیجہ اولاد کو بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اولاد ماں باپ کے ورثہ کی حقدار ہوتی ہے۔
جس طرح مال و دولت اور نیکی اور اس کا ثمرہ اولاد کے لئے ورثہ ہے اسی طرح ماں باپ کی برائیوں کے نتائج سے اولاد بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
آپ کو خود بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی والدہ سے بھی اس بارے میں بات کرنی چاہیے کہ آپ لوگوں سے کب اور کس کس کی حق تلفیاں ہوتی رہی ہیں۔ ان حق تلفیوں کا پتہ چلنے پر ان کا ازالہ کرنے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔
کسی کا کوئی حق ادا کرنا ہو لیکن ابھی اس کی استطاعت نہ ہو تو متعلقہ فرد سے معافی مانگ کر اس سے وہ حق بھی معاف کروالیں یا حسب سہولت اس کی ادائی کا وعدہ کرلیں۔
کسی ایک یا چند افراد کی دلازاری ہوئی ہو تو ان سے معاف کرنے کی درخواست کریں۔
آپ ہر نماز کے بعد101مرتبہ استغفار اور 101 مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔ نماز کی پابندی ضروری ہے ۔
ماں باپ کی باہمی لڑائیاں
سوال: میری صحت کو گھن لگ گیا ہے دل و دماغ پر ہر وقت بوجھ رہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دل سینے سے اوپر کہیں اٹک گیا ہے۔ دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔
دوستوں کے ساتھ کاروباری مصروفیات سے شام ڈھلے نجات ملتی ہے۔ اس کے بعد تاش اور فلم بینی کے مشاغل میں مصروف ہوجاتا ہوں۔ یہ چیزیں نہ ہوں تو میرے اوپر قیامت گزر جاتی ہے اور رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔
ہمارےگھر میں ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ والد صاحب اور والدہ کی نوک جھونک مستقل عذاب ہے۔ والد کے جارحانہ رویے اور تلخ طبیعت کی وجہ سے گھر کا ہر فرد ان سے دور دور رہتا ہے۔ وہ جھوٹی شہرت کے دل دارہ ہیں۔ کاروباری اور گھریلو پریشانیاں میرے گلے ڈال کر خود چوہدری بنے ہوئے ہیں۔ جوان بیٹیوں کی فکر میں والدہ چارپائی سے لگ گئی ہیں مگر والد صاحب ہیں کہ انہیں اپنے بیٹوں کی شادی کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں۔
جواب: جن گھروں میں میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے، بچوں کے سامنے یا بچوں کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں۔ ماں بچوں کے سامنے اپنے شوہر کی اور باپ بچوں کے سامنے اپنی بیوی کی برائیاں کرتا رہتا ہے۔ ایسے گھرانوں میں اکثر بچے شدید ذہنی دباؤ، اعتماد کی کمی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوسکتے ہیں…. جن میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو انہیں اپنی اولاد کی خاطر ہی خود پر قابو پانے کی کوشش کرنیچاہیے۔
بعض عورتیں اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے اپنے میکے میں یا اپنے ملنے جلنے والوں میں اپنے شوہر کی برائیاں کرتی ہیں۔ بعض عورتیں گھر میں ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بھی اپنے بچوں کے سامنے ان کے باپ کی برائیاں کرتی ہیں۔ اپنی بیوی سے نالاں بعض مرد بھی ایسا کرتے ہیں۔ یعنی عورت بچوں کے سامنے ان کے باپ کی برائیں کرتی ہے اور باپ بچوں کے سامنے ان کی ماں کی برائیاں کرتا ہے۔ بچے دونوں میں سے کسی کو صحیح یا غلط قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے نہ ہی انہیں ایسا کرنا چاہیے البتہ ایسی صورت میں بھی بچے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے طرف دار اور دوسرے سے دور ہوسکتے ہیں۔
ایسے ماحول میں پلنے بڑھنے والے بعض بچے والدین کی جانب سے اپنے لیے توجہ اور محبت میں کمی محسوس کرتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا چاہتے ہیں۔ باہر سے ملنے والی تھوڑی سی توجہ اور محبت بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ انہیں ملنے والے لوگ اچھے ہوں تو خوش قسمتی ورنہ بعض لڑکے بری صحبت میں پڑ سکتے ہیں اور بعض لڑکیاں تصوراتی اور خیالی دنیا میں پھنس سکتیہیں۔
میاں بیوی کے رشتے میں بندھنے والے ہر مرد و عورت کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت اور ان کی شخصیت کی بہتر تعمیر کے لیے خود پر آنے والی ذمہداریوں کو سمجھیں۔
میاں بیوی کے درمیان طبیعتوں کا فرق اور اختلاف کسی بھی گھر میں ہوسکتا ہے۔ اس فرق اور اختلاف کے منفی اثرات اولاد پر نہیں پڑنے چاہئیں۔ اولاد کی خاطر والدین کو تحمل، برداشت، بردباری اور ایثار سے کام لینا سیکھنا چاہیے۔
جو لوگ والدین کے لڑائی جھگڑے دیکھ دیکھ کر اور افسوس کر کرکے بڑے ہوچکے ہیں ان کے لیے تو اب والدین کے رویوں میں اصلاح ممکن نہیں ہے۔ البتہ والدین کے باہمی تنازعات کی وجہ سے ان کی شخصیت میں آنے والی کمی یا خرابیوں کی کسی حد تک اصلاح ہوسکتی ہے۔
بچے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں
سوال: میں چار بچوں کی ماں ہوں اور ماشاءاﷲ چاروں بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا تقریباً بارہ سال کا ہے۔ سب سے چھوٹا ڈھائی سال کا ہے ۔ چاروں ہر وقت لڑتے جھگڑتے ہیں۔ رات کو سوتے ہیں تو لڑتے ہوئے اور صبح اُٹھتے ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں۔
کوئی بات نہیں مانتے جس کام سے روکا جائے وہ ضر ورکرتے ہیں بہت بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں توڑ پھوڑ اور تخریب کی طرف رجحان ہے۔ پڑھائی سے بھاگتے ہیں۔ میں چند منٹ کے لئے بھی ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ بہت بے دردی سے ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے ہیں۔
اگر کوئی اڑوس پڑوس کا بچہ یا بڑا آجائے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ ہوتا ہے۔
میں بہت پریشان ہوں اڑوس پڑوس اور عزیزوں رشتے داروں کے بچوں کو دیکھتی ہوں تو ان بچوں اور اپنے بچوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ میرے بچے بہت ڈھیٹ ہوگئے ہیں۔ خاص طور سے بڑا بیٹا اکثر ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ مجھے اس کے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کی فکر ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہوں کہ آج تو چھوٹے ہیں جوان ہو کر بھی ایسے ہی رہے تو کیاہوگا۔
جواب: صبح سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوجائیں اور گھر کے مٹکے ،صراحی، کولر یا فریج کی بوتلوں پر جہاں سے سب بچے پانی پیتے ہیں ایک مرتبہ اسم الٰہی یاودود پڑھ کر دم کردیں۔ اگر بوتلیں استعمال ہوتی ہیں تو بوتلوں کی تعداد اتنی ہو کہ ان کا پانی پورے دن استعمال میںآئے۔
ہر بوتل پر ایک مرتبہ یاودود پڑھ کر دم کرنا ہے۔ اسی طرح اگلے روز دوبارہ پانی پر دم کردیں اور وہ پانی سارے دن استعمال میں آئے۔
بچوں سے حسن تدبیر اور محبت سے پیش آئیں۔ مار پیٹ اور ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور مارنے سے یا تو بچوں میں احساسِ محرومی یا احساسِ کمتری پیدا ہوجاتا ہے یا پھر وہ ڈھیٹ ہوکر کسی بات کو خاطر میں نہیں لاتے۔
عورت کی حق تلفیاں
سوال: میری شادی کو تیئس سال ہوگئے ہیں۔ میرے شوہر کی عمر باون سال ہے۔ اﷲ نے دو بچے دیئے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ میری زندگی بڑی آرام سے گزر رہی تھی۔ کسی چیز کی تکلیف نہیں تھی میرے شوہر میرا اور بچوں کا بہت خیال کرتے تھے۔
تین سال پہلے سے ان کی زندگی میں ایک عورت داخل ہوگئی ۔ اس عورت کے عشق کا بھوت میرے شوہر کے سر پر اتنی شدت سے سوار ہے کہ وہ اس کی خاطر مجھے اور بچوں کو چھوڑنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ میری بیٹی شادی کے قابل ہوگئی ہے لیکن انہیں اس کی بھی فکر نہیں ہے۔ گھر میں خرچ دینا بھی کم کردیا ہے۔ مجھے اپنے شوہر کی باتوں سے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ دل چاہتا ہے گھر چھوڑ کی چلی جاؤں مگر دونوں بچوں کی مجبوری آڑے آجاتی ہے۔
میں ان کی کسی غلط بات کا جواب نہیں دیتی۔ ہر بات سن کر خاموشی سے ٹال دیتی ہوں۔
آپ مجھے یہ بتایئے کہ میں اپنے شو ہر کو قصور وار ٹھہراؤں یا کہ اس عورت کو جسے یہ معلوم ہے کہ یہ دو بچوں کا باپہے۔
میری بیٹی نے اس معاملے پر اپنے والد سے بات کی تو انہوں نے مجھے ہی قصور وار کہتے ہوئے میرے خلاف شکایات کا پٹارا کھول دیا۔
میں تیئس سال سے صرف اپنے شوہر کی نہیں بلکہ اپنے نک چڑھے سسرال والوں کی باتیں مانتی آرہی ہوں۔ اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کا خیال رکھ رہی ہوں۔ میں یہ سب دیکھوں یا صرف شوہر کی خدمت ہی کرتی رہوں….؟
ہاں….! ایک اور بات یہ کہ اگر کسی مرد کو اپنی بہت خدمت گزار بیوی سے شکایات ہونے لگیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسری عورتوں سے دوستیاں شروع کردے….؟
اپنے گھر سے لاپرواہ ہوجائے اور اپنی بیوی اور بچوں کی ذمہ داریوں سے غافل ہوجائے….؟
جواب: ایک مرد پر اپنی اہلیہ اور بچوں کی ناصرف مالی ذمہ داریاں ہیں بلکہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا بھی مرد کے فرائض میں شامل ہے۔ بچوں اور گھر کی مصروفیات کی وجہ سے کوئی عورت اپنے شوہر کا زیادہ خیال نہ رکھ سکے تو اس بات کو عورت کا تصور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی دوسری عورت میں دلچسپی لینے کے حوالے سے آپ کے شوہر کے بیان کردہ جواز قطعی غلط ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے شوہر کو اصلاح کی توفیق ملے۔ انہیں آپ اور بچوں کے سب حقوق کی ٹھیک طرح ادائی کی توفیق عطا ہو۔ آمین۔
رات سونے سے پہلے اکیس مرتبہ سورہِ حٰمِ السجدہ(41)آیت نمبر34-35
وَلَا تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ اِدْفَـعْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّـذِىْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٝ عَدَاوَةٌ كَاَنَّـهٝ وَلِـىٌّ حَـمِـيْـمٌ (34) وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا الَّـذِيْنَ صَبَـرُوْاۚ وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِـيْمٍ (35)
گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر شوہر کا تصورکرکے دم کردیں اوراﷲتعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ آپ کے شوہر کواپنی ذمہ داریوں کے احساس اوراپنے اہل خانہ ،بیوی بیٹے کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا ہو۔
یہ عمل کم ازکم چالیس یا نوے روز تک جاری رکھیں۔
معمولی شکل و صورت رشتے میں رکاوٹ….
سوال: میری چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب والدین کو اپنے بچے خوبصورت لگتے ہیں، یہی حال ہمارا بھی ہے۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی بیٹیاں تو معمولی شکل و صورت کی ہیں۔ شکل صورت، رنگ روپ تو اللہ کا دیا ہوا ہے۔ الحمدللہ چار بیٹیوں کے فرائض بہت آسانی کے ساتھ ادا ہوئے۔ پانچویں اور چھٹی بیٹی کے رشتوں میں تاخیر ہورہی ہے۔ اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عام سی شکل وصورت رشتوں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔….؟
جواب: صبح و شام سات سات مرتبہ سورۂفاتحہ تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے بیٹی کو پلائیں اور اس پر بھی دم کردیں یا بیٹی خود پڑھ کر دم کرلے۔
بیٹی سے کہیں کہ وہ رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
حَسبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ
تَوَکَّلتُ وَھُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
یہی عبارت سفید کاغذ پر لکھ کر سیاہ روشنائی سے لکھ کر تعویز بنا کر بیٹی کے گلے میں پہنادیں، یا اس کے دائیں بازو پر باندھ دیں۔
شوہر کہتے ہیں کہ…..مجھے کیا فائدہ ہوگا….؟
سوال: میں روحانی ڈائجسٹ کی بہت پرانی قاری ہوں۔ اس رسالے میں قارئین کی آگہی اورتربیت کے لیے بہت مفید اورقابل قدر تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ خاص طورپر خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت اچھی رہنمائی ملتی ہے۔
ہمارے دین نے خواتین کوبہت حقوق دئیے ہیں مگر بہت سے بظاہر مذہبی لوگ بھی خواتین کوان کے حقوق دینے سے انکاری ہیں۔
میں بھی ایسی ہی ایک متاثرہ عورت ہوں۔ میرے شوہر زیادہ تعلیم یافتہ تونہیں ہیں،انہوں نے مڈل تک تعلیم پائی ہے مگر عورت کے حقوق کے بارے میں انہیں بہت معلومات ہیں۔ میرے شوہرکاکہنا ہے کہ اپنی عورت کے نان نفقہ یعنی ضروری اخراجات کی ذمہ داری شوہرکے اوپر ہے۔غیر ضروری اخراجات کی شکل میں بیوی کے نخرے اٹھاناشوہر کے اوپرلازم نہیں ہے ۔اپنے بچوں کے بارے میں بھی ان کے خیالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔وہ کہتے ہیں اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے سے مجھے کیافائدہ ہوگا…..؟
ایسا نہیں ہے کہ میرے شوہر کی آمدنی کم ہو۔ ان کا ماشاء اﷲ اچھا کاروبار ہے۔پیسہ بہت ہے،مگر وہ کہتے ہیں کہ اپنا پیسہ دوسروں پر خرچ کرنے کا ثواب زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے سے فرض تو ادا ہوگا مگر ثواب نہیں ہوگا۔
دوسروں کے لیے سخاوت و فیاضی کی علامت بنے ہوئے میرے شوہر خود اپنے بچوں کے لیے بہت کنجوس ہیں۔ باپ کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میرے بچے اچھے کپڑوں،اچھے کھلونوں اوراچھی تفریح کے لیے ترستے رہتے ہیں۔کئی مرتبہ توایساہوا ہے کہ میں نے اپنے میکے سے پیسے لے کر بچوں کو شاپنگ کروائی ہے۔
جواب: دین اسلام نے طبقہ نسواں کو بہت احترام دیاہے۔بہت حقوق عطاکئے ہیں۔ جو لوگ عورتوں کو ان کے حقوق دینے سے انکاری ہیں ان کا یہ عمل سراسر غلط ہے ۔اسلام دین فطرت ہے۔اپنے اہل خانہ کی ضروریات کاخیال رکھنا اوران کے لیے سہولتوں کا اہتمام کرنا حقوق العباد میں شامل ہے۔ اہل خانہ کا خیال رکھنا ایک فطری امر بھی ہے۔ اولاد کی پرورش،دیکھ بھال ، تربیت اورتعلیم کی ذمہ داری، انہیں ادب آداب سکھانا، عملی زندگی میں کامیابی کے لیے ان کی مدد ورہنمائی کرنا، بیٹوں اوربیٹیوں کی شادی کااہتمام یہ سب کام والدین کے فرائض میں آتے ہیں۔
عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔اگر کوئی شخص اپنی اولاد کی پرورش اچھے انداز میں اس لیے کرتاہے کہ اس سے خاندان اورمعاشرہ میں اس کی ناک اونچی ہوگی تو اس عمل کے ثمرات بہت محدود ہوں گے۔اگر کوئی شخص اپنی اولاد کی تربیت وپرورش بہت اچھے انداز میں اس جذبے کے ساتھ کرتا ہے کہ اس کے ذریعہ اﷲ اوراﷲ کے رسول ﷺ کی خوشنودی ملے گی تو پھر اولاد کی بہبود اوراچھائی کی خاطر کیاجانے والے کام نیکی اورتقویٰ کا حصہ ہیں۔
وسائل ہونے کے باوجود انہیں اپنے زیر کفالت افراد پر خرچ نہ کرنا نعمتوں کی ناشکری اور حقوق العباد سے انکارہے۔بیوی بچوں پر خرچ کے حوالے سے آپ کے شوہر کے نظریات ان کے خود ساختہہیں۔
اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کے شوہر کو ہدایت نصیب ہو اورانہیں اپنے زیر کفالت افراد یعنی اپنی اہلیہ اوربچوں کے حقوق کی درست طورپر ادائی کی توفیق ملے۔رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں۔ یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
بھائی کام چور ہیں
سوال: ہمارے سب سے بڑے بھائی نے میٹرک کے بعد آگے پڑھنے سے صاف انکار کردیا اورکہا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے والد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھے۔ انہوں نے بڑے بیٹے کے اصرار پر ایک خطیر رقم سے اُنہیں ایک جنرل اسٹور کھلوادیا۔ بھائی نے وہاں ٹھیک طرح کام کرنے کے بجائے دکان سے ملنے والے پیسے اپنے دوستوں میں خرچ کرنے شروع کردئیے۔
ہمارے والد ہر سال پاکستان آتے۔ بھائی کو پیار سے سمجھاتے اوردکان میں اپنے پیسوں سے مزید سامان ڈال کر چلے جاتے، لیکن بھائی کا رویہ وہی رہا ۔
والد صاحب اب مستقل پاکستان واپس آگئے ہیں اورانہوں نے دکان پر بیٹھنا شروع کردیا ہے لیکن اب بھائی دکان پرنہیں جارہا ہے۔ والد صاحب کو پاکستان کے کاروباری معاملات کا زیادہ پتہ نہیں ہے ۔بھائی نے صاف منع کردیا کہ نہ تو انہیں یہ کام کرناہے اورنہ ہی وہ کوئی اورکام کریں گے۔ہمارے بڑے بھائی کے اس رویہ سے والد صاحب ،والدہ صاحبہ اورہم سب بہن بھائی بہت پریشان ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ بھائی کے لیے دعاکریں اورہمیں بھی کوئی دعا بتائیں کہ ہمارا بھائی ماں باپ کا سہارا بنے ۔ان کادل کام میں لگے اورانہیں خودغرض اوربُرے دوستوں کی صحبت سے نجات ملے۔
جواب:جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں والدین کی خواہشات اورتوقعات میں اضافہ ہو تا جا تا ہے ۔ والدین کو اپنی ذات کے لیے اولاد کاتعاون نہ درکارہوتب بھی ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کابچہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو اورایک کامیاب شخص کہلائے۔اولاد میں ذمہ داری کا احساس نہ ہونا، اس کی جانب سے عملی زندگی میں لاپرواہی اورغیرسنجیدگی کا مظاہرہ ہونا والدین کے لیے دکھ اورذہنی اذیت کا سبب بنتاہے۔
آپ کے والدین کی اپنے بیٹے کی طرف سے پریشانی قابل فہم ہے مگر اس پریشانی کے اسباب میں والدین کا طرزِعمل بھی شامل ہے۔میٹرک کے بعد اپنے بیٹے کو جنرل اسٹور کھلواتے وقت انہیں اپنے لڑکے کے مزاج اوررجحان کوبھی سامنے رکھنا چاہیےتھا۔ سترہ، اٹھارہ سال کے لڑکے کو جواپنے بہن بھائیوں میں بڑ ا بھی ہواور اس کے والد بھی بیرون ملک رہتے ہوں،بلاروک ٹوک مالی خود مختاری دے دینا کتنا مناسب ہے…. ؟
اگر وہ لڑکا مزید پڑھنے کے لیے تیار نہ تھا تواسے اس وقت کاروبار کرادینے کے بجائے پہلے کہیں اور کام پر لگوانا چاہیے تھا۔چند سال وہ کسی کی زیر نگرانی کام سیکھتا ،اسے سردی گرمی کا اندازہ ہوتا، پیسہ کمانے کی ،محنت کی قدر آتی ، پھر بے شک اسے اپنا ذاتی کام کروادیتے۔ نوجوان لڑکے کے ہاتھ میں پیسہ ہو اور اسے اپنے گھر کی طرف سے کسی نگرانی اور جواب دہی کا احساس نہ ہو تو ایسے نوجوان کے تفریحات یا فضولیات میں پڑ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔
اب آپ کے والد صاحب نے جنرل اسٹور کا کام خود سنبھال لیاہے۔اﷲ تعالیٰ انہیں کامیابیاں اوررزق میں برکت عطافرمائیں۔آمین
بیٹے کے موجودہ طرزعمل کے پیش نظر یہ مناسب ہوگا کہ اسے فی الحال دکان پر آنے کے لیے نہ کہا جائے ۔نہ ہی دکان کے معاملات پر گھر میں اس کے سامنے کوئی بات کی جائے۔ چند ماہ بعد اگر وہ خودہی دکان پرآنا چاہے تو آ پ کے والد صاحب اسے وہاں اپنے نائب کے طورپر رکھیں۔ مال کی خرید اورلوگوں کو ادائی وغیرہ اس کے ہاتھ میں کچھ عرصہ تک نہ دیے جائیں۔
آپ کا بھائی اس دوران اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہے تو اسے روکانہ جائے بعض بچے معمول کی پڑھائی کے دنوں میں توپڑھائی سے بھاگتے ہیں لیکن جب چند سال ضائع ہوجائیں اوروہ کچھ نہ کررہے ہوں تو پھر وہ خود کو مصروف دکھانے کی خاطر بھی پڑھائی دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔
بیٹی شادی سے بد دل ہوگئی ہے
سوال: میری بیٹی کی عمر تیس سال ہوگئی ہے۔ خوش شکل، سلیقہ مند، سمجھدار اورسادہ لوح ہے۔ اس کی منگنی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔ جس لڑکے سے اس کی منگنی ہوئی اس سے بڑی ایک بہن اور ایک چھوٹی بہن کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ ہماری بیٹی سے منگنی کے وقت ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی بڑی بیٹی کی شادی چند ماہ بعد اور چھوٹی کی شادی اگلے سال ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسری بیٹی کی شادی اور اس بیٹے کا ولیمہ ایک ساتھ کریں گے۔ لیکن ابھی تک ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی نہیں ہوپائی ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنے لڑکے کی شادی بھی نہیں کر رہے۔ پچھلے پانچ سال میں تین بار شادی کی تاریخ طے ہوئی لیکن جب شادی کے دن قریب آتے ہیں تو لڑکے والے شادی کی تاریخ آگے کردیتے ہیں۔
اب میری بیٹی بھی شادی کے نام سے بددل ہوگئی ہے اورخاموش سی ہوگئی ہے۔
میں نے کئی جگہ سے بیٹی کے بارے میں معلوم کروایا ہے، کچھ کہتے ہیں کہ شادی میں بندش کرائی گئی ہے اورکچھ کاخیال ہے کہ اس کے ساتھ سایہ ہے جواس کی شادی کسی کے ساتھ ہونا پسندنہیں کرتا۔
ہماری کسی سے لڑائی یا دشمنی نہیں ہے۔ ہم سب گھر والے پانچ وقت کی نمازپابندی سے اداکرتی ہیں۔ پھر بھی نہ جانے میرے بیٹی کے نصیب کیوں بندہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں ایسا عمل یا وظیفہ بتائیں کہ جس کی برکت سے ہم اپنی بیٹی کے فریضے سے جلد ازجلد اچھی طرح سبکدوش ہوجائیں۔
جواب : ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام روایت ہے کہ اوپرتلے بھائی بہن ہوں تو والدین بیٹی کی شادی کرنے کے بعد اپنے گھر میں بہو لے کر آتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت یقینا ہے مگر اسے کوئی لازمی امر یا قانون نہیں سمجھنا چاہیئے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ سب کی بیٹیاں مناسب وقت پر اپنے گھروں کی ہوجائیں۔آمین
اگر کسی وجہ سے بیٹی کی شادی میں زیادہ تاخیر ہوجائے توبیٹی کے رشتے کے انتظار میں اس کے بڑے بھائی یا اس سے چھوٹے بھائی کی شادی نہ کرنا کئی دوسرے مسائل کا سبب بن سکتاہے۔ اگر کسی گھرانے میں اس روایت کی پابندی نہایت سختی سے کی جاتی ہو تو پھر ان لوگوں کو بیٹی کے رشتے طے ہونے سے پہلے اپنے بیٹوں کے رشتے طے نہیں کرنے چاہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بعض گھرانے اس خیال سے کہ فلاں اچھی لڑکی کا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے، اپنے لڑکے کا رشتہ وہاں طے کردیتے ہیں۔ان کے اپنے گھر میں بھی بیٹی موجود ہوتی ہے لیکن اس کارشتہ کہیں طے نہیں ہواہوتا۔والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دوسال میں اس کا رشتہ بھی طے ہوجائے گا توپھر بیٹی کی رخصتی اوربیٹے کا ولیمہ ایک ساتھ کردیں گے۔ اب اگر خدانخواستہ اس بیٹی کے رشتوں میں کسی وجہ سے تاخیر ہورہی ہو تو اپنے بیٹے سے منسوب کسی دوسرے گھر کی بیٹی بھی شادی کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ بعض جگہ ایسی صورت حال کا سامنا کرتے کرتے پانچ پانچ یا چھ چھ سال گزرجاتے ہیں۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں بھی اس لڑکی کی منگنی پانچ سال پہلے ہوئی تھی۔
میں اﷲ تعالیٰ سے دعاکرتاہوں کہ آپ کی بیٹی کے منگیتر کے ہاں درپیش مسائل حل ہوں اور آپ کی بیٹی بہت جلدخوشیوں اورمسرتوں کے ساتھ اپنے گھر کو سدھارے۔ آمین
عشاء کی نماز کے بعد سورہ الانعام (6) کی آیت 63
قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُـمَاتِ الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٝ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ لَّئِنْ اَنْجَانَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الشَّاكِـرِيْنَ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس یا نوے روز تک جاری رکھیں۔
سارا دن کرسی پر….
سوال:میری عمر چالیس سال ہے میں ایک سوفٹ ویئر کمپنی میں جاب کرتاہوں۔ کام کی نوعیت ایسی ہے کہ میں مسلسل کئی کئی گھنٹے سیٹ پربیٹھارہتاہوں۔لنچ میں زیادہ تر فاسٹ فوڈ استعمال کرتاہوں۔ دوسال سے میرا یہی معمول ہے۔
پیٹ نکل آنے کی وجہ سے اب زیادہ دیر بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ خاص طور پرکھانے کے بعدکام یکسوئی سے نہیں کرسکتا کیونکہ میرا پیٹ پھول جاتاہے۔
جواب: زیادہ وقت دفتر میں کرسی پربیٹھ کر کام کرتے رہنا، کم پیدل چلنا،رات کھانا کھانے کے فوراً بعد سوجانا،ایسے عوامل ہیں جن سے صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ اس میں وزن کی زیادتی خصوصاً پیٹ کا بڑھنا بھی شامل ہے۔
آپ کو اپنی صحت کی بہتری کے لیے اپنے غذائی معمولات میں تبدیلی لانا ہوگی۔ خاص طورپر لنچ میں روزانہ فاسٹ فوڈ کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔ فاسٹ فوڈ کا استعمال کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے توٹھیک ہے لیکن سارا دن دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے والے مردوں اورخواتین کے لیے اسے روزکا معمول بنا لینا درست نہیں ہے۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ صبح کا ناشتہ اچھی طرح کریں۔ناشتہ میں بہترہوگا کہ روٹی سالن لیاجائے۔ دوپہر کا کھانا گھر کا بنا ہوا ہو لیکن کم مقدار میں کھایئے۔ رات کاکھانا سونے سے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے پہلے لیجئے۔
کھانوں میں گھی،گائے کا گوشت،شکرآمیز سوفٹ ڈرنکس، آئسکریم اورفاسٹ فوڈز نہ لیں۔ کچی پکی سبزیاں اورپھل روزانہ لیں۔
وزن کم کرنے کے لیے قدرتی اجزاء پر مشتمل مندرجہ ذیل نسخہ بھی مفید ہے۔
ایک عدد کھیرا، ادرک کا ایک چھوٹا ٹکڑا، تازہ پودینہ ، ایک عدد لیموں اور ڈیڑھ لیٹر پانی۔
کھیرا چھیل کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑکے کرلیں ۔ ادرک کوباریک کتر لیں۔ کھیرا، ادرک اور پودینے کی اٹھارہ بیس پتیوں کو تقریباً ڈیڑھ لیٹر پانی میں ڈال دیں۔ اس پانی میں لیموں اچھی طرح نچوڑ لیں۔
یہ پانی رات بھر کے لیے فریج میں یا باہر کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھ لیں۔ صبح اس پانی کو چمچ سے اچھی طرح ہلاکر چھان لیں۔ اس میں سے ایک گلاس پانی نہار منہ پی لیں۔ ڈیڑھ لیٹر میں سے باقی پانی دن میں وقفے وقفے سے پیتے رہیں۔