اٹھارہویں صدی عیسوی کے ایک سال میں ایک کسان اٹلی کے ایک بنجر و ویران علاقے میں رہا کرتا۔ یہاں پانی ایک بڑی نعمت کا درجہ رکھتا تھا۔ ایک دن اس کسان نے بنجر زمین میں کنواں کھودنے کی ٹھانی۔ کسان کی طویل مشقت کے بعد کھودے گئے اس کنوئیں سے پانی تو نہ نکلا لیکن کچھ ایسا برآمد ہوا جس کی تلاش صدیوں سے جاری تھی…. ایک گمشدہ شہر، اپنے دور کی شاندار بستیوں میں سے ایک۔ اس شہر کی تلاش ماہرین کو 2000 سالوں سے تھی ۔ یہ شہر جس قدر حیرت انگیز ہے اسی طرح اس کی کہانی بھی نہایت حیرت ناک ہے۔ یہ شہر تھا پومپئی ۔
پومپئی (Pompeii) ایک قدیم رومی شہر تھا جو موجودہ ملک اٹلی کے علاقے کمپانیہ میں ناپولی (نیپلز )کے نزدیک واقع تھا ۔ یہ شہر 7 ویں صدی قبل مسیح کے دوران آباد ہوا۔ مختلف ادوار میں مختلف قوموں کے زیرنگیں رہنے کے بعد رومن ایمپائر کے تسلط میں آیا۔ پھر اس شہر نے ترقی کی ایسی منازل طے کیں کہ یہ اس وقت کی دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔
پانی کے تالاب، کلب، بیکریاں، کشادہ سڑکیں، واٹر سپلائی کی سکیم، لائبریری، کمیونٹی سنٹر، اسپتال، گھوڑے باندھنے کے جدید اصطبل، دو منزلہ مکانات اور مکانوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لان اور ان میں نصب فواروں نے اس شہر کو جنت بنا دیا تھا۔
یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں زبیرا کراسنگ شروع ہوئی تھی۔ یہیں سے کریم کیک ایجاد ہوا تھا اور یہیں سے اجتماعی غسل خانوں یا حمام کے تصور نے جنم لیا تھا۔
یہ رومن ایمپائر کے بڑے تجارتی شہروں میں سے ایک تھا لیکن دولت کی فراوانی کے بعد رفتہ رفتہ اس شہر کی پہچان تبدیل ہونے لگے۔ اجتماعی غسل خانے یا اجتماعی حمام بے حیائی کے مراکز بننے لگے۔ چند دہائیوں بعد یہ بے حیائی اس شہر کا عام مزاج بن گئی۔ اب اس شہر کی پہچان زرعی، تجارتی یا صنعتی شہر کی نہ رہی بلکہ اب یہ ایک بڑے آزاد معاشرے (Free Society) کا شہر بن گیا۔ کسی پابندی، کسی روک ٹوک، ہر قسم کے قانونی و سماجی بندھنوں سے آزاد کھلے عام جنسی تعلقات اس شہر کی خاص پہچان بن گئے۔ یہاں کاروبار تھا جسموں کااور لذتوں کا۔
آپ نے حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ تو ضرور سن رکھا ہوگا جب وہ قوم ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوگئی تو اس قوم پر پتھروں کی برسات کرکے انہیں نیست و نابود کردیا گیا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ پومپئی کے ساتھ بھی ہوا تھا، پومپئی جنسی سرگرمیوں اور غیر اخلاقیوں حرکتوں میں کہیں آگے نکل چکا تھا۔ یہاں عورتیں عورتوں سے، مرد، مردوں سے، یہاں تک کہ جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات بنانا بھی عام ہوگیا تھا۔ جسم فروشی اس شہر کا بنیادی پیشہ اور معیشت کا اہم ستون بن چکا تھا۔ صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ کئی تندرست مرد بھی اس کام میں پیش پیش تھے۔ غلاموں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس پیشے سے وابستہ تھی ۔
عوام کے ساتھ ساتھ شہر کی اشرافیہ یعنی اس کے امراء، افسران اور اکثر وزراء یا تو اپنے اپنے قبہ خانے کے مالک تھے یا پھر جسم فروش غلاموں کی تجارت میں ملوث۔ جو جسم فروشی اور گناہوں کی اس لعنت میں زیادہ مبتلا ہوتا پومپئی شہر میں وہ اتنی ہی زیادہ اہمیت کا حق دار تھا۔ بڑے بڑے رومن افسروں کی بیگمات آزادانہ تعلقات کی اس لعنت میں پڑی ہوئی تھیں۔ اس پر شرم تو درکنار اُلٹا فخر کیا جاتا۔ اس شہر کے کھنڈرات سے ملنے والی تصاویر اس قدر بے ہودہ اور فحش ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں۔
پومپئی کی دیواروں پر لکھی غیراخلاقی و غیر فطری شاعری کی مثال ماضی و مستقبل کہیں نہیں ملتی۔ ماہرین کی ترجمہ کی گئی عبارتوں کے مطابق دیواروں پر کندہ تحریریں دراصل اس قوم کے چند شاعروں کی شاعری ہے جو انہوں نے فطرت کے اصولوں کے خلاف عمل کے حق میں کی تھی۔ دیواروں پر تحریر دیگر فقرے بھی انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز تھے جن سے پومپئی کے باسیوں کی اخلاقی گراوٹ اور جنسی رجحان کی منفیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
غرض یہ آزاد جنسی تعلقات کے ساتھ ساتھ مردوں اور عورتوں کی ہم جنس پرستی کی بد فعالیوں میں حیوانیت کی حدوں سے بھی گر چکے تھے۔
ایک آتش فشاں پہاڑ یعنی ماؤنٹ وسویس Mount Vesuviusکے دہانے پر واقع ہونے کے باوجود یہ شہر ہر قسم کے خطروں سے بے نیاز اپنی رنگ رلیوں میں مصروف تھا۔
79 عیسوی میں اس قصبے کے قریب واقع ویسویس کا آتش فشاں پہاڑ سے لاوا پھوٹ پڑا۔ یہ آتش فشاں اس قدر شدت سے پھٹا کہ آسمان میں دور دور تک اس کی راکھ اور پتھر اُڑنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں لاکھوں ٹنوں وزنی دہکتی راکھ پومپئی شہر پر آگری۔ پومپئی شہر کے 20 ہزار افراد موقع پر ہلاک ہوگئے۔ تین دن تک یہ آتش فشاں آگ اور لاوا اُگلتا رہااور اس شہر کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس دور کا انتہائی ترقی یافتہ یہ شہر 4 سے 6 میٹر (13 سے 20 فٹ) راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔
لاوے کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اس مقام کی تلاش تک ناممکن ہوگئی کہ جہاں یہ شہر آباد تھا۔ کئی صدیوں تک یہ علاقہ صرف اور صرف راکھ کا ایک ڈھیر تھا۔
1748 عیسوی میں ایک دن یہ شہر حادثاتی طور پر دریافت ہوگیا۔ کھنڈرات کی کھدائی کے ماہرین نے دیکھا کہ اس کے تھیٹر، کھیل کے میدان، مارکیٹیں اور سوئمنگ پولز جوں کی توں حالت میں موجود تھے۔ یہ عذاب اس شہر کے مکینوں پر اس وقت نازل ہوا کہ جب ان کی اکثریت گناہ آلود سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ اس شہر کی دریافت کے بعد کھدائی کی گئی توماہرین آثار قدیمہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ لوگ مردہ حالت میں محفوظ ہیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے قدرت نے اخلاق باختہ حرکتیں کرنے والی قوم کو آنے والی دنیاکے لئے نشانِ عبرت بنادیا ہو۔ جو شخص جس حالت میں تھا اسی حالت میں رہ گیا۔
آج بھی جب پومپئی کی باقیات دریافت ہوتی ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کی لاشیں بے گور و کفن اسی حال میں ملتی ہیں جس میں وہ اپنے آخری وقت میں موجود تھے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ، مرد، عورتیں بدفعلیوں میں مصروف تھے۔
کئی گھروں میں روزمرہ معمولات زندگی کے آثار بھی ملتے ہیں جو جوں کے توں ایسے ہی رکے ہیں جیسے کسی نے اچانک انہیں ساکت کردیا ہو۔
اس شہر کا زیادہ تر حصہ دریافت کرلیا گیا ہے کھدائی ابھی جاری ہے۔ پومپئی کی پختہ سڑک پر چلتے ہوئے ہر گھر میں موجود کچن، باغات اور چشموں کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس شہر میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے لے کر زندگی کی ہر آسائش موجود تھی۔ یہاں کے لوگوں کا شمار اس خطے کے امیر ترین لوگوں میں ہوا کرتا لیکن افسوس کہ ان ناقدروں نے اپنے پروردگار کی نعمتوں کا انتہائی غلط استعمال کیا اور آئندہ آنے والی قوموں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نشان عبرت میں تبدیل ہوگئے۔