بچوں کی اچھی تربیت و تعلیم کے لیے اولیاء اللہ سے رہنمائی
صوفیا، اولیاء کرام اور بعض دیگر مشاہیر کی زندگیوں پر غور کیا جائے تو ان کی ابتدائی تربیت میں والدین کا کردار نہایت اہم نظر آتا ہے۔ ان کی روحانی طرزفکر بننے میں بھی گھر کے ماحول خصوصاً والدین کا بہت حصہ ہے۔
طرزِفکر کی تشکیل کا عمل پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ پھر والدین بچے کے اخلاقی و روحانی جوہر ابھارنے میں خاص کردار ادا کرتے ہیں ۔ شعور سنبھالنے کے بعد ایسے لوگ جب کسی روحانی اُستاد کی شاگردی اختیار کرتے تو روحانی منازل طے کرنا ان کے لیے زیادہ آسان ہوجاتا۔
ایک صاحب کی شادی ہوئی۔ یہ صاحب نرم مزاج تھے جبکہ بیگم بہت غصے والی۔ ان کے بچوں میں ایک بچہ بالکل والد کی طرح نرم مزاج تھا جبکہ ایک لڑکا اور لڑکی میں ماں کی غصیلی طبیعت منتقل ہوئی۔ والدین کی سوچ اور طرز فکر منتقل ہونے کی بہت سی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
علم نفسیات میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک انگریز ماں کے بطن سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے نقش و نگار اور رنگ حبشی نژاد بچوں کی طرح تھا۔ موٹا ناک نقشہ، گھونگریالے بال، سیاہ رنگ۔ اس بچے کے رنگ و روپ پر ماں باپ دونوں ہی بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے اور ان کے خاندان والوں نے سوچا کہ ایسا کیونکر ہوا۔ کئی ٹیسٹ اور دیگر تحقیق کے بعد یہ راز کھلا کہ حمل کے زمانے میں ماں جس کمرے میں رہتی تھی وہاں دیوار پر ایک سیاہ فام حبشی بچے کا فوٹو آویزاں تھا۔
بڑے بڑے نفسیات داں، دانشوروں اور ڈاکٹرز کا بورڈ بیٹھا ۔ ان کے باہمی صلاح مشورے سے یہ بات طے پائی کہ عورت حمل کے زمانے میں بار بار حبشی بچے کی اس تصویر کو دیکھتی رہی تھی، دیکھنے میں اتنی گہرائی پیدا ہوگئی کہ اس کے تصورات پیٹ میں موجود بچے کو منتقل ہوگئے۔
دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ آئندہ جب وہ امید سے ہوئی تو وہاں ایک بہت خوبصورت بچے کا فوٹو آویزاں کیا گیا اور تجرباتی بنیادوں پر ماں کو ہدایت کی گئی کہ اس فوٹو کو زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش تقریباً وہی تھے جو دیوار پر آویزاں بچے کی تصویر کے تھے۔
اس واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حمل کے دوران ماں کے جذبات و احساسات بچے پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ ماں کی سوچ یا طرزِ فکر کا اثر بچے پر پڑتا ہے۔ ماں اور باپ کی اکثر عادتیں بچے میں جینیاتی طور پر منتقل ہوجاتی ہیں۔
روحانی سائنس بتاتی ہے کہ ذہن میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے اندر لطیف انوار کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے نقوش کثیف جذبات کے ہوتے ہیں۔ کثیف جذبات میں خود غرضی، تنگ نظری، کم ظرفی، احساس کمتری یا احساس برتری جیسے جذبات شامل ہیں۔
انسان کی طرز فکر مثبت ہے تو اس کے جسم میں صحت بخش اور پرسکون لہریں دور کریں گی اور یہی لہریں بچے کی طرزِ فکر کا حصہ بن جائیں گی۔
میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ ذہنی طور منتشر اور پریشان ماؤں کے ہاں ہونے والے بچے خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ماؤں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ دورانِ حمل ذہنی طور پر ریلیکس رہیں۔ باپ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی حاملہ بیوی کو پرسکون ماحول فراہم کرے۔ والدین خصوصاً ماں کی سوچ بچے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
ماں اور باپ کے خیالات اور طرز فکر بچے کی جین کا حصہ ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے خلیات مل کر جب نئی تخلیق عمل میں آتی ہے تو باپ اور ماں کی طرز فکر کا اثر اس میں پایا جانا لازمی ہے۔ اگر میاں بیوی کی سوچ میں پیغمبرانہ اور روحانی طرزفکر موجود ہے تو تخلیق کی ابتداء میں ہی طرزفکر کا یہ عکس اگلی زندگی میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر میاں اور بیوی کی طرز فکر میں تخریب ہے تو اس کا اثر بھی نئی نسل کو منتقل ہوسکتا ہے۔
اولاد کی ذہنی و جسمانی تخلیق میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس میں ماں کا شیئر زیادہ ہوتا ہے۔
بعض علمائے باطن تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اولاد کو نوے فیصد ذہن ماں کا منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کی ذہنی تربیت اور اسے روحانی اقدار سے آشنا کرانے میں ماں کا کردار بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ جینیاتی کوڈ میں طرز فکر محفوظ ہوجاتی ہے اور یہ اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
سائنس دان یہ بات جان چکے ہیں کہ پیدائش سے بہت پہلے ہی بچہ کے دماغ میں خلیوں کی چارجنگ شروع ہوجاتی ہے۔1997ء کے اوائل میں ایک سائنسی پیش رفت کا چرچا رہا جس سے معلوم ہوا کہ نوزائیدہ بچہ کا دماغ کورا کاغذ یا صاف سلیٹ کی مانند نہیں ہوتا بلکہ اس کے دماغی خلیات جن کا براہِ راست تعلق کارکردگی سے ہے، پیدائش سے پہلے ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔
بچے کے سیکھنے اور یادداشت کا نظام رحمِ مادر میں ہی فعال ہوجاتا ہے۔ دماغ پیدائش سے قبل انسانی ضروریات سے متعلق سرکٹ کی تکمیل میں لگا ہوتا ہے۔ یوں سماعت، بصارت، گویائی وغیرہ کے لئے وہ پہلے ہی پروگرامنگ شروع کردیتا ہے۔
اب یہ والدین، رشتہ داروں اور معاشرہ پر منحصر ہے کہ وہ بچے کے دماغ میں موجود مختلف پروگراموں میں سے کتنے پروگرامز آن کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے کی پیدائش کے بعد تین سال تک اس کے ہاتھ کو اس طرح باندھ کر چھوڑدیا جائے کہ وہ حرکت ہی نہ کرسکے تو بعد میں ہاتھ کھولنے کے بعد بھی بچے کا ہاتھ ساری زندگی مفلوج رہے گا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ نے اس ہاتھ سے متعلق جو پروگرامنگ کی تھی اسے آن نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں سائنس دان مختلف تجربات میں مصروف ہیں۔
اٹلی کے ایک شہر میں ایک خاتون نے اپنی ایک منت پوری کرنے کے لئے اپنے بچے کی ایک آنکھ پر چند ماہ کے لیے پٹی باندھ دی۔
بچہ کچھ بڑا ہوا تو خاتون کو احساس ہوا کہ اس بچے کی وہ آنکھ ٹھیک کام نہیں کررہی جس پرپٹی باندھی گئی تھی۔ پریشان ماں نے اسے کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ڈاکٹرز کسی تسلی بخش نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ پھر دنیا کے کئی ماہر ڈاکٹروں کے سامنے یہ کیس آیا۔ اس بچے کی آنکھ کا کئی طرح معائنہ کیا گیا ۔ بظاہر اس کی آنکھ میں کوئی خرابی نہ تھی۔ اس بچے کی ایک آنکھ کا نابینا پن ڈاکٹروں کے لئے معمہ بن گیا تھا۔ آخرکار ایک ماہر نیورولوجسٹ طویل تحقیق کے بعد معاملہ کی تہہ تک پہنچ گیا۔
جدید آلات کے ذریعے پتہ چلا کہ آنکھ کے اعضاء اور اعصاب تو نارمل ہیں لیکن دماغ میں وہ خلیات مردہ ہوچکے ہیں جو بینائی کی اطلاع وصول کرتے ہیں۔ پیدائش کے بعد ان خلیات کو کام کرنے کا موقع نہ مل سکا لہٰذا کچھ ہی عرصہ میں ان خلیات نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا۔ مزید چند ماہ میں یہ خلیات مردہ ہوگئے اور اس طرح بچہ آنکھ کے اعضاء و اعصاب صحیح ہونے کے باوجود ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگیا۔
بچے کو روحانی طرزِ فکر پر گامزن کرنے کی ابتداء بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ ایک روحانی انسان بننے میں بچے کی ماں کا کردار بہت اہم ہے۔ کتنے ہی اولیائے کرام کے ایسے واقعات موجود ہیں کہ جن میں ماں کی طرزِ فکر اور تربیت کا حصہ نمایاں ہے۔ماں کے ساتھ ساتھ بچے میں باپ کی طرزِ فکر کا بھی حصہ ہے۔ کئی بڑے اولیاء کرام کے حوالے سے شواہد ملتے ہیں کہ ان کے والدین، دادا دادی یا نانا نانی میں سے اکثر پیغمبرانہ طرز فکر پر گامزن تھے یا خود اﷲ کے دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
اس عالمِ رنگ و بو میں آنے کے بعد بچہ کی تربیت یا سیکھنے Learningکا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ اس ابتدائی دور میں بھی ماں کا کردار اہم ہے۔
حضرت با با فرید گنج شکرؒ کے والد کا انتقال آپؒ کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ آپ کی ابتدائی تربیت آپ کی والدہ نے کی۔ والدہ نے چاہا کہ بچہ کا نماز میں اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے۔ بچہ میں نماز کا شوق بڑھانے کے لیے وہ محترم خاتون یہ کرتیں کہ جائے نماز کے نیچے ایک پڑیا میں شکر رکھ دیتیں اور فرمایا کرتیں کہ جو بچے نماز قائم کرتے ہیں انہیں روزانہ شکر مل جاتی ہے۔
فرید الدین مسعود نماز ادا کر کے جائے نماز کا کونا الٹتے تو وہاں شکر موجود ہوتی۔ فرید الدین وہ شکر پا کر بہت خوش ہوتے۔
ایک روز فرید الدین کی والدہ جائے نماز کے نیچے شکر رکھنا بھول گئیں۔ اس روز نماز کے بعد جب فرید الدین مسعود نے جائے نماز اٹائی تو وہاں شکر کی پڑیا موجود تھی۔
فرید الدین کی والدہ محترمہ نے اس روز بعد میں بیٹے سے پوچھا بیٹا تم نے نماز پڑھ لی۔
فرید الدین نے جواب دیا ، جی اماں میں نے نماز پڑھ لی اور نماز کے بعد جائے نماز کے نیچے موجود شکر بھی کھائی۔
اس پر فرید الدین کی والدہ ماجدہ نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔
بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ جب تعلیم حاصل کرنے بغداد روانہ ہوئے تو ان کی والدہ نے چند اشرفیاں ان کے لباس میں سی کر انہیں بتادیا کہ کپڑوں میں اشرفیاں موجود ہیں۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ نے انہیں نصیحت کی کہ بیٹا حالات کچھ بھی ہوں جھوٹ کبھی مت بولنا۔
سفر کے دوران ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کردیا۔ ایک ڈاکو شیخ عبد القادر کے پاس آیا اور پوچھا ‘‘لڑکے تیرے پاس بھی کچھ ہے’’۔شیخ عبدالقادر نے جواب دیا‘‘ہاں میرے پاس اشرفیاں ہیں۔’’ رہزنوں نے تلاشی لی مگر انہیں اشرفیاں نہ ملیں۔ رہزنوں نے جھنجلا کر کہا جھوٹ بولتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا ‘‘نہیں۔ میرے پاس اشرفیاں موجود ہیں’’۔ دوبارہ تلاشی لی مگر رہزنوں کو دوبارہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جھنجلاہٹ میں وہ شیخ کو اپنے سردار کے پاس لے گئے اور بتایا کہ یہ لڑکا ایسا ایسا کہتا ہے۔ سردار کو بھی شیخ عبدالقادر نے یہی بتایا کہ میرے پاس اشرفیاں ہیں۔ اس موقع پر سردار نے ان سے کہا ‘‘اے نوجوان تو جھوٹ بول کر اپنی ان اشرفیوں کو ہم سے چھپا سکتا تھا پھر تو نے ایسا کیوں نہ کیا؟’’
شیخ عبدالقادرنے کہا ‘‘میری والدہ کی نصیحت ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں کبھی جھوٹ نہ بولنا’’۔ شیخ عبدالقادر کی اس بات سے ڈاکو اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے قافلے والوں کا لوٹا ہوا سامان واپس کردیا اور رہزنی سے توبہ بھی کرلی۔
یہ واقعہ ہم عام طور پر سن اور پڑھ تو لیتے ہیں لیکن شاید اس کی گہرائی پر کم ہی غور کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بچے صرف وہی باتیں قبول کرتے ہیں جو والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔ بڑے پیر صاحبؒ کے یقین کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپؒ کی والدہ نے کبھی جھوٹ نہ بولا تھا۔
یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ ہم ایک کام خود کرتے ہوں اور بچے کو وہ کرنے سے منع کریں تو نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی۔ ایک صاحب خود سگریٹ نوشی کرتے ہوں ان کے ہاتھ میں سگریٹ ہو اور وہ اولاد کو منع کریں کہ سگریٹ مت پیئو تو بتائیے کیا ان کی نصیحت میں کوئی اثر باقی رہ جائے گا۔
اپنے بچوں کو کسی برے کام سے روکنے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ بڑے خود وہ کام نہ کریں۔ والدین کی بعض عادتیں بچے غیر محسوس طریقے سے قبول کرلیتے ہیں۔ والدین جھوٹ بولتے ہوں ، غیبت و چغلی کرتے ہوں تو اولاد بھی یہی رویہ اختیار کرلیتی ہے۔ حالانکہ والدین کبھی یہ نہیں چاہتے کہ برائیاں بچوں میں منتقل ہوں نہ ہی وہ اپنے بچوں کو برائیوں کی تعلیم دیتے ہیں مگر ان کا کردار بچوں میں غیر محسوس انداز میں منتقل ہوجاتا ہے۔
اہلِ روحانیت کی تعلیمات سے یہ روشنی ملتی ہے کہ ماں باپ کی سوچ بچے کو منتقل ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد بھی ماں بچے کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ بچہ ہر مشکل ہر تکلیف میں ماں کی طرف ہی لپکتا ہے۔ باپ تو دن بھر ذریعہ معاش میں مصروف رہتا ہے اور بچہ کو چوبیس گھنٹے میں محض چند گھنٹے ہی دے پاتا ہے۔
بچے کی توقعات اور تصورات کا محور زیادہ تر ماں ہوتی ہے۔
اس مضمون کا بنیادی مقصد بھی ماؤں کو اس بات کی اہمیت بتانا ہے کہ بچے کو زیادہ تر ماں کا ذہن منتقل ہوتا ہے۔ باپ یعنی شوہر کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں بیوی یعنی ماں پرسکون اور آسودہ حالت میں بچے کی اچھی تربیت کرسکے۔ شوہر او ربیوی یعنی ماں باپ کے باہمی تعاون اور دونوں کی جانب سے ملنے والی اچھی تربیت بچہ کے مثبت کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔
تربیت کے لحاظ سے لڑکپن کا دور بہت اہم ہے۔ اس دور میں بچپن کی تربیت بہت کام آتی ہے۔ یہ سمجھیں کہ جس طرح مضبوط بنیاد پر بڑی سے بڑی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح اگر بچپن کے حساس دور میں بچے کی تربیت اچھی طرح کی گئی تو لڑکپن میں قدرے آسانی ہوجاتی ہے۔
لڑکپن کا دور سات آٹھ سال سے بلوغت تک ہوتا ہے۔ لڑکپن کی ابتداء اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب بچہ تخیلاتی تصویر کشی کے علاوہ چیزوں کو حقیقی معنوں میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس عمر میں بچہ کی ضد کم ہونے لگتی ہے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ لڑکپن کی عمر اخلاقی اور روحانی تربیت کی عمر ہے۔ اس عمر میں بچہ ذہنی طور پر خود بھی اور والدین و اساتذہ کی باتوں سے اچھے بُرے کی تمیز کرسکتا ہے۔
دس سال سے سولہ سال تک کا بچہ زیادہ گہرائی سے اخلاقی باتیں سن اور سمجھ سکتا ہے۔ یہ دور اس لحاظ سے نازک ہے کہ بچہ سختی کرنے سے متنفر ہوسکتا ہے کیو نکہ وہ خود سوچنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ بڑوں کو اسے سمجھانا ضرور چاہئے مگر اپنی مرضی زبردستی مسلط کرنا فاصلے پیدا کرسکتا ہے۔
اولیاء اﷲ میں لڑکپن کا ایک واقعہ حضرت شیخ سعدی ؒ کی سوانح سے ملتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ سعدی ؒ اپنے والد کے ساتھ سفر میں تھے۔ اسی دوران ان کا قیام ایک مسجد میں ہوا۔ رات کے وقت والد صاحب وضو کر کے نوافل اور ذکر و فکر میں مصروف ہوگئے۔ حضرت شیخ سعدی ؒ بھی اٹھے اور وضو کیا ۔ اس دوران چند آدمی آئے اور مسجد میں آکر سوگئے۔ حضرت شیخ سعدی ؒ نے وضو کیا اور والد کے ساتھ ساری رات ذکر و فکر میں گزار دی۔ صبح اپنے والد سے کہا’’ابا جان یہ لوگ مسجد میں آکر سوتے نہیں بلکہ عبادت کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ انہوں نے پوری رات ضائع کردی‘‘۔ والد صاحب نے فرمایا ‘‘دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے تمہارا بھی سوجانا بہتر ہوتا’’۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنی دادی اماں کے حوالے سے چند واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو بچوں پر بزرگوں کی تربیت کے اثرات کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ حضرت عظیمی صاحب کتاب ‘‘آوازِ دوست’’ میں تحریر فرماتے ہیں
‘‘میں نے شعور کے زینے پر پہلا قدم رکھا تو یہ دیکھا کہ دادی امّاں کی گود میں ہوں اور دادی امّاں اﷲ کے کلام کے ورد میں مگن ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ رات کو سونے سے پہلے کلمۂ شہادت پڑھوایا جارہا ہے اور پھر صبح بیدار ہونے کے وقت لازم تھا کہ آنکھ کھلتے ہی کلمۂ طیبہ پڑھا جائے۔ دادی اماں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔
ہر کہانی کا ایک مفہوم ہوتا تھا کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسول بادشاہ۔ اﷲ نے اپنے رسول کے پاس فرشتہ بھیجا۔
ایک نجی محفل میں سلسلہ عظیمیہ کی ایک بہن کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب بچے کی تربیت میں والدین اور بزرگوں کی اہمیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا
’’میری دادی کی بتائی ہوئی یہ بات کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ، خدا کا بنایا رسول ﷺ بادشاہ۔ یہ بات میرے ذہن میں اس طرح نقش ہوگئی کہ اﷲ اور رسولاﷲ ﷺ کے علاوہ کسی کی بڑائی یا بادشاہت اہمیت نہیں رہی۔
یہاں ہم حضرت عظیمی صاحب کی فرمائی ہوئی ایک اور بات کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں
دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت کا پہلا گہوارہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ بچہ جو سنتا ہے وہی بولتا ہے اور جو دیکھتا ہے وہی اس کا علم بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں ہم نہیں دیکھتے کہ دادی اماں نے یہ کہا ہو کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولﷺ بادشاہ۔
دن رات گانوں کی آوازیں ہمارے اعصاب پر محیط رہتی ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے کتنی مائیں اپنے بچوں کو یہ تلقین کرتی ہیں کہ کلمہ شہادت پڑھ کر سونا چاہیے، کتنے والد اپنی اولاد کو بیدار ہونے کے بعد کلمہ طیبہ پڑھنے کے لئے کہتے ہیں۔
ایک مرتبہ خواجہ شمس الدین عظیمی کے پاس چند افراد موجود تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے عظیمی صاحب سے پوچھا ‘‘ہمیں بتائیے کہ اولاد کی تربیت ہم کس طرح کریں….؟’’
عظیمی صاحب نے مختصر جواب دیا
‘‘اپنی تربیت کرلیجیے…. اولاد کی تربیت خود بخود ہوجائے گی….’’
ایسے لڑکے یا لڑکیاں جنہیں آئندہ باپ یا ماں بننا ہے ان سب پر لازم ہے کہ پہلے اپنی تربیت کریں۔ اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں اور اپنی طرز فکر درست کرلیں۔
آج ہم یہ دیکھتے یں بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے لیکن ان کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی۔ شوہر بیوی کو دباؤ میں رکھنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا ضروری خیال کرتا ہے اور بیوی شوہر پر تسلط جمانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ ساس بہو، نند بھاوج کی لڑائیاں بھی اکثر تخریبی ذہنوں کی پیداوار ہوتی ہیں۔ لڑائی، جھگڑے، سرد جنگیں اور چپقلش…. اس ماحول میں بچے کی کیا تربیت ہوسکے گی، سب سمجھ سکتے ہیں….
اس لیے بچے کی تربیت سے پہلے ضروری ہے کہ والدین اپنی تربیت کی کوشش کریں۔