Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ہماری زندگی اور شخصیت پر نام کے اثرات – 1

ہماری زندگی اور شخصیت پر نام کے اثرات

حصہ- 1

 

ہماری زندگی اور شخصیت پر نام کے اثرات

گھر میں ننھے رکن کی آمد کی نوید جیسے خوشیوں کی برسات لے کرآتی ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی، نانا نانی، چچا ماموں، پھوپھی خالہ سب پر سرشاری کی کیفیت ہو تی ہے، ہر چہرہ خوش نظر آتا اور ہر دل شاداں و فرحاں ہوتا ہے۔ ننھے رکن کے استقبال کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں، گھر کی سجاوٹ، پالنے، کپڑے، کھلونے اور تحفہ تحائف لیے جاتے ہیں، البتہ ایک تحفہ جو والدین کی جانب سے ننھے رکن کو ملتا ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ اس کی پہچان بن کر رہتا ہے وہ ‘‘نام ’’ہوتا ہے۔
دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے، جنہیں لغوی طور پر اسم کہتے ہیں ، اردو گرائمر میں توآپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ نام کئی قسم کے ہوتےہیں۔
ایک اسم عام ہے…. جو ہم عموما استعمال کرتے ہیں، مثلاً پھل، سبزی، جانور، پرندہ، آدمی، عورت وغیرہ….
ایک نام ہم کسی مخصوص کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً سیب ، گوبھی، شیر، کبوتر ، ماں باپ، بہن بھائی…. لیکن یہ مخصوص ہوکر بھی عام ہوتا ہے اور ایک سے زائد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ناموں کی دوسری قسم اسمِ خاص ہے جو کسی شخص کا ذاتی نام ہوتا ہے جیسے اشرف، امجد، افضل وغیرہ۔ وہ نام جو صرف ایک ہی کے لیے مخصوص ہو اسمِ خاص (Proper Noun)کہلاتا ہے۔
دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کے ایک جیسے نام ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے کنیت القاب اور خاندانی نام کے اضافے کے ساتھ کسی اسم خاص کو خاص الخاص بنا دیا جاتا ہے۔
مثلاْ بہاءُ الدین زکریا، شہاب الدین غوری، محمد علی جناح، البرٹ آئن اسٹائن، آئزک نیوٹن، ابوریحان البیرونی وغیرہ….
دنیا کے تقریباً سب والدین اپنے بچے کے لیے خوبصورت، نیا، انوکھا، اچھا ، بامعنی اور Perfect نام رکھنا چاہتے ہیں، نام صرف بچہ کی شناخت ہی نہیں بلکہ نام کے تلفظ اور مفہوم کا بچہ کی زندگی، شخصیت اور کردار پر کافی اثر پڑتا ہے، اس کے باوجود کئی والدین نام کی اہمیت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اکثر گھرانوں میں یوں ہوتا ہے کہ خاندان میں جس طرح کے نام رکھے گئے ہوتے ہیں اس کی ردیف میں ہی نام رکھ دیے جاتے ہیں جیسے نجمالدین، قمرالدین، فخر الدین وغیرہ یا پھر نام شعر کی طرح قافیہ دار رکھے جاتے ہیں مثلاً ذیشان، عمران، کامران، نعمان وغیرہ ایسی صورت میں عموماً معنی و مفہوم سے زیادہ قافیہ پر غورکیا جاتا ہے۔
بعض والدین عموماً نیا اور انوکھا نام رکھنے کے شوق میں پرانے ناموں میں تبدیلی یا تراش خراش کرکے ایک نیا نام بنا لیتے ہیں یا اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ٹی وی ڈراموں، فلموں یا افسانوں میں جو ان سنے اور نئے نام مل جاتے ہیں بنا تلفظ یا مفہوم جانے وہی نام رکھ لیےجاتے ہیں۔ ایسے میں اکثر لوگ سننے میں غلطی کردیتے ہیں اور ا ،ع، ت ط، س ،ص، ث، ذ، ض ، ظ، ز، میں فرق نہیں کرپاتے اور عموماْ ناموں کو غلط لکھتے ہیں، مثلاْ عمیمہ کو اُمیمہ ، عنبر کو امبر، ثویبہ کو صوبیہ، ثناء کو سناء وغیرہ
بعض قدامت پسند گھرانوں کے بڑے بوڑھے فال کے ذریعے نام نکالتے ہیں۔ لیکن اکثروبیشتر معنی و مفہوم پر غور نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات ناواقفیت میں بچوں کےایسے نامناسب نام اور غلط نام رکھ دیے جاتے ہیں جو اُن کی پوری زندگی اور شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
کسی بھی شے یا شخصیت کے ہمہ جہتی پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے نام تعارف کا ایک حصہ ہے۔ سیب کا نام لیتے ہی ہمارے ذہن میں سیب کا ایک خاکہ سا بن جاتا ہے، سیب کی بناوٹ، رنگت، ذائقہ سب تصورات میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کسی شخصیت کا نام اس کی وہ پہچان ہوتی ہے جس کے ذریعے ہم اس کا تعارف حاصل کرتے ہیں۔ اس کا تاثر اپنے ادراک میں قائم کرتے ہیں۔
اپنے فہم و خیال میں اس کا خیالی خاکہ اور تصوراتی ہیولہ تشکیل دے دیتے ہیں اور یوں نام کے ذریعے کسی بھی شے یا شخصیت کا پہلا تاثر First Impression ہمارے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے۔
دین اسلام نے نام رکھنے کے حوالے سے واضح رہنمائی عطا فرمائی ہے۔ اچھے معنٰی دار نام تجویز کرنے کے حوالے سے خاتم النبیین، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث موجود ہیں :
حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبیکریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
‘‘قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو’’۔ [مسند احمد؛ ابوداوٴد؛ مشکوٰة]
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا
‘‘والد پر بچہ کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اوراس کو حسن ادب سے آراستہ کرے’’۔ [شعب الایمان، بیہقی ]
سیرت نبوی اور احادیث میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی افراد کے نام بدل کر ان کے اچھے نام رکھے۔ حضور ﷺنے لوگوں کے پاس کئی ایسے اصحاب کو قاصد بناکر بھیجا جو کہ اچھی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ناموں والے بھی تھے۔
توراۃ میں تحریر ہے کہ سب سے پہلے انسان کانام آدم رکھا گیا جس کے معنی سرخ مٹی یا زمین سے نکالا ہوا کے ہیں۔
آدم کا نام آدم ہی کیوں رکھا گیا ؟ اس کا جواب اس کے نام کے معنوں میں پوشیدہ ہے کیونکہ وہ زمین سے نکالا یا تخلیق کیا گیا، اُن کا نام عین ان کی شخصیت کے مطابق تھا۔ اس کے بعد جو اگلا نام ہے وہ ہے حوّا۔ یہ نام عبرانی لفظ خاوا سے بنا ہے جس کے معنی زندگی کے ہیں۔ عبرانی لفظ خائی عربی میں حیٔ بن گیا۔ ـ آدم نے جب اپنی بیوی کو یہ نام دیا توکہا کہ یہ زندوں کی ماں ہوگی اسلئے یہ حوّا کہلائے گی ـــ یعنی اُن کا نام بھی عین ان کی ذات کا عکس ہے۔
اناجیل میں بھی نام کے متعلق تذکرہ ملتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ایک حواری کا نام تبدیل کرکے پیٹر یا پطرس Peter (سنگ بنیاد) رکھا اور کہا کہ یہ کلیسیا کی سنگ بنیاد بنے گا۔ حضرت عیسیٰ کے بعد پطرس نے ہی اُن کی تعلیمات کو پورے یورپ میں پھیلا اور کلیسیا کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح ایک حواری کا نام بدل کر پال Paul)شائستہ) رکھا گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب مصر میں بھی ‘‘نام ’’کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی ۔
قدیم مصر کی تحریروں کتاب الاموات Book of Deathاور کتاب النفس Book of Breathing سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ نام کو انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ مانتے تھے، مصریوں کا ماننا تھا کہ انسان صرف مادی وجود (جسے وہ خت Khat کہتے تھے ) کا نام نہیں بلکہ کئی باطنی وجود کا مجموعہ ہے جو اس کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیوت (Sheut) یعنی سایہ، اِب (Ib) یعنی قلب و جذبات، با (Ba) شخصیت یا پرسنالٹی، کا (Ka) روح یا زندگی کا جوہر، اخ (Akh) سوچ و ذہن اور رین (Ren) یعنی نام ۔ مصریوں کا ماننا تھا کہ نام انسان کے مرنے کے بعد بھی ہمیشہ اس کی روح کے ساتھ جُڑا رہتا ہیں۔
دنیا کا ایک اور خطہ جہاں نام رکھنے کے معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ ہے ہندوستان…. جہاں بچے کا نام کسی جیوتش یا پنڈت کے مشورے کے بغیر رکھا نہیں جاتا۔ اہل ہند کا ماننا ہے کہ نام کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اس لیے اہل ہند تاریخ پیدائش، نجوم اور زائچوں کی مدد سے بچے کا نام تجویز کرتے ہیں۔
تاریخ میں ایسی اقوام و شخصیات بھی گزری ہیں جو مادی فلسفہ پر یقین رکھتی تھیں، اور انہوں نے نام کی اہمیت سے سرے سے انکار کیاہے ۔ جیسا کہ یونانی فلسفی افلاطون اپنے مکالمے کریٹیلس Cratylus میں لکھتا ہے کہ الفاظ (ہمارے ناطق اعضا سے نکلنے والی آوازوں) کا مفہوم یا اشیا کی روح سے واسطہ ہونا ضروری نہیں۔ اسی لیے لوگ جنہیں بہادر پکارا جاتا ہے وہ بزدل بھی ہو سکتے ہیں اور جنہیں خوب صورت کہا جاتا ہے وہ بدصورت بھی ہوسکتے ہیں۔ نام اور اس سے مفہوم کے مابین تعلق افلاطون کے بعد کسی نہ کسی شکل میں ہابز، لاک، لیبنیز، برکلے، فشٹے اور ہیگل کے یہاں سیاحت پائے جاتے ہیں۔
افلاطون کے نقش قدم پر چل کر سوئس فلسفی فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر Ferdinand de Saussure نے سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کی تھیوری پیش کی کہ ، لفظ یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں کوئی ‘‘فطری تعلق ’’ نہیں ۔ لفظ کسی نہ کسی تخیل کو جنم دیتا ہے اور توجہ اسی جانب مرکوز ہو جاتی ہے۔ جب ایک لفظ کا دوسرے لفظ سے ٹانکا لگتا ہے تو ذہن پر ایک نقش ابھرتا ہے اورتصور نما Signifier سے تصورمعنی Signified کا فاصلہ طے ہوتا ہے۔ جب ٹانکا لگتا ہے تو معنی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ پھول جو ویرانے میں کھلتا ہے مفہوم نہیں رکھتا کیونکہ اسے مفہوم میں ڈھالنے والا کوئی موجودہی نہیں لیکن جب اسی پھول کو کسی معاشرے میں رکھ دیں تو نشان بن جاتا ہے مثلاً جنازے کا حصہ بنا دیں تو وہ غم کا نشان بن جائے گا۔ ایسی صورت میں پھول تصور نما Signifier اور غم بطور تصور معنی Signified متصور ہو گا۔
سوسئیر کے مطابق زبان ایک ہئیت Form ہے موجود بالذات Substance نہیں، الفاظ جس چیز کو ظاہر کرتے ہیں ضروری نہیں کہ اس سے ان کا کوئی لازمی تعلق ہو۔گویا لفظ پھول کا اصل پھول سے کوئی تعلق نہیں یہ بس دیا گیا نام ہے ، شاید اسی فلسفہ کو پڑھ کر شیکسپٔر نے کہا تھا گلاب کو جس نام سے بھی پکارو وہ گلاب ہی رہے گا۔
اگر یہ حقیقت ہے کہ لفظ اپنے مفہوم تک اس وقت تک نہیں پہنچتے جب تک کہ اُن کے متعلق آپ کے ذہن میں پہلے سے کوئی تصور یا احساس موجود نہ ہوتو یہ بھی حقیقت ہے کہ شخصیت بھی دراصل آپ کے احساسات اور سوچ کا مرکبہوتی ہے۔ جس طرح لفظ کے متعلق قائم تصور ہی احساس اور معنی تشکیل اور تبدیل کرتا ہے، اسی طرح نام جو کہ خود لفظ ہے ہمارے احساس اورسوچ کے مجموعہ یعنی شخصیت کو تشکیل اور تبدیل کرتا ہے۔
بعض افراد کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ یہ صرف لفظ ہی تو ہیں؟ ایسے لوگ شکسپیئر کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں:

“what is a name? that which we call a rose by any other name would smell as sweet”. [Romeo and Juliet]

‘‘نام میں کیا ہے؟ اگر ہم گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں گے تو وہ خوشبو دے گا’’۔
لیکن یہ خیال درست نہیں ہے …. الفاظ اثر رکھتے ہیں، اور یہ اثر لوگوں کی زندگی اور شخصیت پر بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تعریف، بُرائی، دُعا، بددُعا ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ، نصیحت، تقریر کہنے کو الفاظ ہی ہیں لیکن ان سے ہماری زندگی میں ہماری شخصیت میں تاثرات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
ہر لفظ ایک یونٹ کی طرح ہوتا ہے جس سے ہمارے جذبات کی برقی ڈوریاں بندھی ہوتی ہیں۔ مثلاً خدا کا ذکر دلوں میں سکون بھر دیتا ہے….حمد و نعت، عارفانہ کلام کے الفاظ لوگوں میں وجد کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں…. غزل و نظم ، شاعری یا گیت سننے والوں کو مسحور و محظوظ کردیتا ہے….کسی بزرگ کی نصیحت یا کامیاب شخصیت کا قول لوگوں کو ترقی کے ایک نئے رخ پر گامزن کردیتا ہے، ان کی سوچ کو نیا زاویہ اور ان کا جینے کا نظریہ تک تبدیل کردیتا ہے….مدد کے لیے پکاری گئی کراہ یا چیخ ہے جو کسی دُکھیارے کی زبان سے نکل کر پورے ماحول کو بےچین کردیتی ہے…. کسی آتش بیاں جرنیل کے الفاظ فوج کے اندر نئی روح پھونک دیتی ہیں….کبھی ایک مقرر کی تقریر انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوجاتی ہے …. اسپورٹس کوچ کے ولولہ انگیز الفاظ کھلاڑیوں میں نیا جوش پیدا کردیتے ہیں….باس کے منہ سے نکلے تعریف اور حوصلہ افزائی کے دو الفاظ آفس اسٹاف کی کارکردگی میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں…. الفاظ کے اثر کی ایک عام عام مثال گالی گلوچ بھی ہے۔ گالی کوئی توپ یا تلوار نہیں بلکہ چند الفاظ ہی ہیں لیکن یہی الفاظ مخاطب کے تن بدن میں آگ لگادیتے ہیں….
نام بھی ایک یونٹ کی طرح ہے جس سے نکلنے والی لہریں لوگوں کے ذہن اور شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نام اچھا ، خوب صورت اور بامعنی ہو تو یہ لہریں مثبت اثر رکھیں گی اور اگر نام بُرے مفہوم والا یا منفی ہوں توااس کا اثر بھی منفی ہوگا۔ بُرے اور نامعلوم مفہوم کے نام بھی شخصیت پر بُرا اثر ڈالتے ہیں جبکہ اچھے اور بامعنی نام میں عجیب سحر انگیز اثر پایا جاتا ہے۔
حال ہی میں سائنسی ماہرین نے ایک تحقیق پیش کی ہے جس میں یہ بتایا کیا گیا ہے کہ انسانی شخصیت اور ناموں کے بیچ کا تعلق محض انہیں ایک انفرادی پہچان دینے کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات زندگی بھر انسانی شخصیت پر مختلف انداز میں جاری رہتے ہیں۔ پی بی ایس ڈجیٹل اسٹوڈیوز کی تیار کردہ برین کرافٹ سیریز کی ایک ڈوکیومنٹری* میں اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دراصل ناموں اور شخصیت کے بیچ تعلق ان حروف سے پیدا ہوتا ہے جو کہ مل کے نام بناتے ہیں۔ ان الفاظ اور ان کی آواز کا شخصیت پر ایک خاص انداز کا اثر ہوتا ہے جو کہ کسی بھی فرد کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس ڈوکیومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ ان الفاظ کی آواز سے ملتی چیزیں، جگہیں، لوگ وغیرہ کا شخصیت سے خاص طرز کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ ناموں میں موجود الفاظ سے جن افراد کا تعلق ہو، ہم انہی کی جانب زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں۔
ان محققین کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ایک گروہ میں شامل افراد خواہ وہ طلبا ہوں یا کسی گھر کے افراد، اگر ان کے ناموں کے ابتدائی حروف ایک جیسے ہوں تو ان کے بیچ آپس میں تعاون سے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ گویا اگر کلاس میں استاد ایک جیسے ابتدائی حروف کے حامل طلبا کو اکھٹا کرتے ہوئے کسی اسائنٹمنٹ کی تیاری کا کام سونپتا ہے تو ایسے میں ان کی کارکردگی بہتر ہوگی۔

https://www.pbs.org/video/braincraft-name/
https://www.yahoo.com/amphtml/parenting
/how-baby-names-can-affect-future-behavior-115320883777.html

 

کہا جاتا ہے کہ ناموں کا اثر کاروبار پر بھی پڑتا ہے۔ جب آپ کسی انجان انسان سے ملتے ہیں تو سب سے پہلے آپ ان کے بارے میں اس چیز کی آگاہی حاصل کرتے ہیں جو ان کی اصل پہچان ہوتی ہے، یعنی ان کا نام….لوگ جس نام سے جانے جاتے ہیں، وہ دوسروں پر ان کے بارے میں ایک خاص تاثر چھوڑ جاتا ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ والدین نے کیسے بچہ کی تربیت کی، ان کا غصہ، ان کا پیار، ان کی شفقت اور ان کا ڈانٹنا، سب ہی بچہ کے کردار میں بھی نظر آتا ہے لیکن آپ نے شاید یہ نہ سنا ہو کہ ان کے دیے ہوئے سب سے اہم تحفے یعنی نام نے اس کی شخصیت پر کس قدر گہرا اثر چھوڑا ۔
والدین اس بارے میں بہت سوچ بچار کرتے ہیں کہ اپنی اولاد کے لیے کیا نام رکھیں لیکن بیشتر والدین یہ نہیں جانتے یا انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنی اولادوں کے لیے جو نام چُنا ہوتا ہے وہ ان کی زندگیوں پر کتنا گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
ناموں کی نفسیات پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہر نفسیات ڈیوڈ ژو کہتے ہیں کہ آپ کا نام آپ کی شناخت کا سب سے اہم عنصر ہے اور اسی کی مدد سے لوگ آپ سے بات چیت کرتے ہیں تو دوسروں کے ذہنوں میں آپ کی شبیہ بھی اسی کی وجہ سے بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی کی شخصیت میں مختلف عوامل شامل ہوتے ہیں۔ کچھ تو ہم میں جینیاتی طور پر ہوتا ہے۔ ہمارا بچپن اور لڑکپن بھی کردار بنانے میں اہم ہوتا ہے۔ پھر ہم کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ہم زندگی میں کیا کام کرتے ہیں، کہاں ملازمت کرتے ہیں یا ہمارے گھر والوں کا برتاؤ کیسا ہوتا ہے۔ان تمام عوامل کے بیچ میں اکثر یہ بات نظر انداز ہو جاتی ہے کہ ہمارا نام اس میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔
شخصیاتی نفسیات کے شعبے کے بانیوں میں سے ایک گورڈن آلپورٹ نے سنہ 1961 میں کہا تھا کہ ‘‘ہماری زندگیوں کی ہماری شناخت کا سب سے بڑا تعلق ہمارے نام سے ہوتا ہے۔’’
اگر بنیادی طور پر دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نام کی وجہ سے ہماری نسل اور ہمارے پس منظر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں کچھ خیال قائم ہو جاتے ہیں۔
امریکی ماہر نفیسات جین وینج کی سنہ 2000 کی دہائی کی تحقیق میں پتا چلا تھا کہ زندگی سے مطمئن نہ ہونے یا خاندانی پس منظر کے علاوہ بھی ایسے لوگ جنہیں اپنے نام پسند نہیں انہیں نفسیاتی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس کا تعلق عدم اعتماد سے ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کی عدم اعتمادی کی وجہ نام پسند نہ ہونا ہو یا نام پسند نہ ہونے کی وجہ سے ان میں عدم اعتمادی پائی جاتی ہو۔ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ کسی کی شخصیت میں خود اعتمادی زیادہ نہیں ہو گی اگر اسے اپنے نام کی وجہ سے زندگی میں کئی بار منفی ریوں کا سامنا کرنے کو ملا ہو۔
بیجنگ میں انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی کی ہواجین کائی اور ان کی ٹیم نے ہزاروں ناموں پر ریسرچ کی۔ ہواجین کائی کہتے ہیں کہ نام کے بڑے اہم نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ہماری خود کی پہچان ہوتی ہے۔ اچھے یا بُرے نام کے ممکنہ اچھے یا بُرے نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے سماج کے مطابق بچوں کو اچھے نام دیں۔
کائی اور ان کی ٹیم کی ایک تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ خاندانی، سماجی اور معاشی پس منظر کے باوجود نایاب نام ہونے سے ایک شخص کے غیر معمولی پیشہ اپنانے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، جیسے فلم ڈائریکٹر یا جج۔
محققین کہتے ہیں کہ زندگی کے شروع میں نایاب نام سے فرد کو منفرد ذاتی شخصیت ملتی ہے۔اسی تناظر میں سب سے الگ ہونے کی وجہ سے وہ غیر معمولی پیشے کا انتخاب کر پاتے ہیں۔
اسے سائنس کی زبان میں نومینیٹو ڈٹرمنیزم Nominative Determinism کہتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا نام آپ کے زندگی کے فیصلوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں ژو اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مخصوص اور نایاب نام ہونے سے بچے کھلے دماغ کے ہو سکتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ہزار سے زیادہ کمپنیوں کے سربراہان کے ناموں پر تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ خود اعتمادی ہونے کی وجہ سے وہ الگ حکمت عملی اپنا پاتے ہیں۔کمپنی کا سربراہ الگ نام ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ وہ اپنے جیسوں سے مختلف ہے۔ اس سے انہیں غیر روایتی حکمت عملی اپنانے کا حوصلہ ملتا ہے۔
ژو کا کہنا ہے کہ نام کے تلفظ اورمفہوم کے کے اپنے فائدے اور نقصان ہو سکتے ہیں۔ والدین کو نام کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا ہونا چاہیے تاکہ وہ بچے کو صحیح نام دے سکیں۔
والدین یہ سوچتے ہیں کہ بچے کو مقبول نام دیا جائے تاکہ بچے کی مقبولیت بڑھے یا پھر انہیں کوئی خاص نام دے کر انہیں خاص محسوس کرایا جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے منفرد ہونے پر انہیں سراہیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ کوئی خاص عرفیت یا خوبیوں کا مسلسل ذکر کر کے ایسا کر سکتے ہیں۔
****
کیا انسانی زندگی اور شخصیت پر نام کا کیا اثر ہوتا ہے؟
کیا نام واقعی اپنے اندر قوت و اثر رکھتے ہیں….؟
نام رکھنے کا موزوں ترین طریقہ کیا ہے؟
لغات و لسانیات، علم الاعداد، بروج و نجوم، کلرسائیکلوجی اور نفیسات اور بزرگانِ دین کی تعلیمات کی روشنی میں بچوں کے نام کس طرح رکھے جائیں؟
یہ سب روحانی ڈائجسٹ کے اس نئے سلسلہ میں آئندہ ماہ ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری ہے)

 

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ دسمبر 2021ء  کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

 

یہ بھی دیکھیں

برسات میں بچوں کی نگہداشت ضروری ہے!

  موسم برسات ہماری صحت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے مگر بعض اوقات ...

ماں کی آواز میں ہے کچھ خاص

ماں کی آواز اولاد پر آنے والی کئی مصیبتیں ٹال سکتی ہے۔ ‘‘ماں’’ دنیا کاسب ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *