Notice: फंक्शन WP_Scripts::localize को गलत तरीके से कॉल किया गया था। $l10n पैरामीटर एक सरणी होना चाहिए. स्क्रिप्ट में मनमाना डेटा पास करने के लिए, इसके बजाय wp_add_inline_script() फ़ंक्शन का उपयोग करें। कृपया अधिक जानकारी हेतु वर्डप्रेस में डिबगिंग देखें। (इस संदेश 5.7.0 संस्करण में जोड़ा गया.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
ذہنی استعداد اور یادداشت میں اضافہ کیجیے…..! – روحانی ڈائجسٹـ
मंगलवार , 15 अक्टूबर 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

ذہنی استعداد اور یادداشت میں اضافہ کیجیے…..!


ذہنی استعداد اور یادداشتـ میں اضافہ کیجیے…..! 

Increase Your Memory & Mind Capacity


قسط 1

 

انسانی دماغ قدرت کا ایک حیرت ناک عجو بہ اور دنیا کی پیچیدہ ترین چیز ہے۔ کتاب ذہن کے راز Mysteries of the Mind کے مصنف لکھتے ہیں کہ ایک انسانی دماغ کا وزن عام طور پر تین پونڈ (1.4 کلوگرام)‏ ہوتا ہے جو گریپ‌ فروٹ جتنا بڑا ہوتا ہے۔‏ دماغ میں دس کھرب خلیے اور ایک کھرب کے لگ‌بھگ نیورونز پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔‏ اکثر ایک نیورون ایک لاکھ نیورونز سے جڑا ہوتا ہے۔‏ اعصابی نظام کی اکائی نیورون کی ایک خاص قسم حافظے اور یاداشت کی ذمہ دار ہے۔ ہر نیورون ایک سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے اور دوسرے نیورونز کو ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بائٹ کی انفارمیشن پہنچاتے ہیں۔ یہ انفارمیشن جنیاتی کوڈذ کی طرح بلحاظ نوعیت حادثہ و واقعہ ترتیب وار دماغ کے حصے ہیپوکیمپس Hippocampus میں یادداشت بن کر محفوظ رہتی ہیں۔ اِس وجہ سے دماغ بہت سی معلومات کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ البتہ اِس معلومات کا اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب ضرورت پڑنے پر یاد ہی نہ آئے۔‏

 

یادداشت اور انسانی دماٖغ

یادداشت انسانی شخصیت کی بنیاد ہے تاہم کبھی کبھار یہ دھوکا دے جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بال، کمر اور یادداشت کمزور ہونے لگتے ہیں یعنی عمر جتنی زیادہ ہوتی ہے یادداشت اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر کوئی کم عمر کچھ بھول جاتا ہے مثلاً کوئی نوجوان یہ کہے کہ کار کی چابیاں آخر میں نے کہاں رکھ دی ہیں؟ تو ممکن ہے کہ اُسے یہ جواب ملے کہ کیا واقعی بھول گئے ہو، یا پھر چابیاں رکھتے وقت تمہارا دھیان کدھر تھا؟۔ لیکن اگر کوئی عمر رسیدہ بھول جائے تو ممکن ہے اُن کی ناراض اہلیہ یہ جملہ کہیں کہ ارے 60سال کی عمر ہوگئی ہے اب سٹھیا گئے ہو، کہاں سے یاد آئے گی؟ حالانکہ اُن کے ساتھ بھی بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوتا ہے جیسا کہ نوجوانوں سے ہوجاتا ہے، وہ بھی کہیں غلط جگہ رکھ کر بھول گئے ہوتے ہیں۔ یہ عام سی بات ہے اور ہر کسی کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔ بھولنے کے متعلق جب بھی کوئی قصہ یا لطیفہ سنایا جاتا ہے تو غائب دماغ پروفیسر کا نام لیا جاتا تھا۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ یادداشت کی کمزوری یا بھول جانے کی عادت اب کسی خاص شعبہ سے وابستہ افراد یا محض بوڑھے لوگوں سے منسوب نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ہر عمر کے لاتعداد لوگ دوچار ہیں۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد وخواتین اکثر یادداشت کی کمزوری یا بھول جانے کی شکایت کرتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ وہ اکثر اہم کام یا اپنی رکھی ہوئی چیزیں بھول جاتے ہیں۔ چیزیں خریدنے بازار جاتے ہیں تو یہی بھول جاتے ہیں کہ خریدنا کیا تھا، پڑھا ہوا سبق انہیں یاد نہیں رہتا، امتحان کے لیے اچھی طرح تیاری کرنے کے باوجود جب جواب لکھنے بیٹھے تو آدھا بھول گئے، ایک کمرے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئے لیکن وہاں پہنچنے کر یاد ہی نہیں رہا کہ کس کام کے لیے آئے تھے، بعض اوقات ہم کسی سے گفتگو کررہے ہوتے ہیں کہ یکایک گفتگو کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے تھے؟ پھر ہم مخاطب سے کہتے ہیں کہ ابھی ہم کیا بات کر رہے تھے؟ پھر جب وہ ہمیں بتاتا ہے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم کس موضوع پر بات کررہے تھے ، کچھ لوگ اس بات پر شاکی نظر آتے ہیں کہ کبھی کسی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوتی ہے تو لوگ انہیں پہچان ہی نہیں پاتے یا پھر تقریب میں ملنے والے عزیزوں کے نام بھول جانے کی عادت بعض اوقات شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔
اس کائنات میں ہر ذی روح حافظہ کی قوت رکھتی ہے، ماہرین بتاتے ہیں کہ چند گرام کا دماغ رکھنے والی گلہریاں اور بعض پرندے مہینوں بعد یاد کر سکتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی خوراک کس جگہ چھپائی ہے۔‏ لیکن سوا کلو کا سپر کمپوٹر جیسا دماغ رکھنے والا انسان ایک گھنٹے میں بھول جاتا ہے کہ اس نے کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔‏
عمومی مشاہدہ ہے کہ ہمارے اردگرد موجود لوگوں میں سے کچھ کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں چیزیں یاد کرنے میں اور ماضی کھنگالنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے کچھ کا حافظہ تیز اور کچھ کی یادداشت کمزور کیوں ہوتی ہے۔ بقول حسرتؔ موہانی
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

 

ذہنی صلاحیتیں اور سائنس

انسانی دماغ، اعصابی نظام اور ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں جاننے کے لیے سائنس دان صدیوں سے ریسرچ کررہے ہیں ۔ انیسویں صدی کے وسط میں دماغ کے خلیوں کا ادراک حاصل ہوسکا اور جدید ٹیکنالوجی نے سائنس دانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ دماغ کے اندر تک رسائی حاصل کرکے اس کے ارتعاشات اور حرکات کا صحیح معائنہ کرسکیں، لیکن اب بھی انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے متعلق کے کچھ ایسے پیچیدہ پہلو ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دماغ قدرت کا ایک حیرت ناک عجو بہ ہے اور اسے سمجھنے میں سائنس ابھی بھی طفل مکتب ہی نظر آئی ہے۔
مغربی سائنس دان یہ سمجھتے آئے تھے کہ انسان اپنے دماغ کا صرف 5 سے 7 فیصد حصہ استعمال کررہا ہے اور دنیا کے ذہین ترین جنیئس افراد بھی اپنے دماغ کو مکمل طور پر نہیں بلکہ اس کی صلاحیت کا صرف 10 فیصد حصہ استعمال کرپاتے ہیں اور اگر وہ دماغ کے غیر استعمال شدہ حصوں کو بھی کام میں لے آئیں تو غیر معمولی کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ موجودہ نیورو سائنس اس نظریے کے تردید کرتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں کلینیکل نیورو سائیکالوجی کے سائنسدانو ں کے مطابق یہ تصور قطعا بےبنیاد ہے۔ تحقیق و تجربے سے یہ بات بھی درست ثابت نہیں ہوتی۔دراصل ہمارے دماغ میں 10فیصد نیوورونز اور 90 فیصد امدادی خلیے گلیل Glaialپائے جاتے ہیں انھیں سفید مادہ White matter بھی کہا جاتا ہے۔ یہ امدادی خلیے ہیں، جو نیورون کو غذائیت و عملی مدد فراہم کرتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ماہرین نے یہ گمان کیا ہو کہ سارا کام تو 10 فیصد خلیے کرتے ہیں ، بقیہ 90 فیصد خلیوں کو بھی ان جیسا بنانا ممکن ہے۔ حالانکہ گلیل بالکل مختلف قسم کے خلیے ہیں اور ایسا کوئی طریق کار نہیں جو انہیں نیورون بنا ڈالے۔
ماہرین نے دماغ کے حصوں کا پتہ چلانے کی خاطر فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ fMRIتکنیک استعمال کی جو مطلع کرتی ہے کہ انسان چاہے کیسی بھی ہلکی یا سخت حرکت کرے یا مسلسل سوچتا رہے، انسان دماغ کا ہر حصہ ہی متحرک ہوتا ہے۔ دوران نیند بھی ہمارا دماغ، اس کے سارے عصبی خلیے (Nerve) اور عضلات ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ دماغ ایک بھی عصبی خلیہ کو فارغ نہیں بیٹھنے دیتا۔ اگر عصبی خلیے فالتو ہو جائیں تو وہ مر جاتے ہیں۔
﷽ دوسرا مفروضہ جو سائنسدانوں میں پایا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ عام انسان اور ذہین انسان کے دماغ میں فرق ہوتا ہے…. لیکن آج سائنس جانتی ہے کہ سائنسدان ہوں، اہل علم ہوں یا عام انسان سب کے پاس ایک ہی طرح کا دماغ ہے۔ آئن اسٹائن کے دماغ پر تو برسوں تک لیبارٹریز میں تحقیق کی جاری رہی کہ اس میں ایسی کیا خاص بات تھی، جو دوسرے دماغوں میں نہیں تھی مگر انہیں ایسا کوئی فرق نہیں مل سکا جس کی بدولت وہ آئن اسٹائن کی دماغی ساخت کو ممتاز قرار دے سکیں۔
بیشتر ماہرین بشریات اور ماہرین حیاتیات کا خیال تھا کہ بعض نسلوں کے دماغ کے حجم کی بنا پر دوسروں سے ذہین ہوتے ہیں۔
معروف برطانوی نیورولوجسٹ ووجٹک راکووکزWojtek Rakowicz کا کہنا ہے کہ دماغ کے سائز سے کسی کے قابل یا ناقابل ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ دماغ بڑا ہونے کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں۔

 

انسانی یادداشت کی حد

کہتے ہیں کہ انسان ماں کی گود سے قبر تک سیکھتا ہی رہتا ہے اور دماغ ان تمام باتوں کو یاد بھی رکھتا ہے۔ قدرت کی جانب سے عطیہ کردہ ہمارے اس میموری کارڈ کی گنجائش کتنی ہے….؟
اس بارے میں بھی سائنسدان ہمیشہ قیاس آرائیاں ہی کرتے رہتے ہیں۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق دماغ ایک ہزار کھرب (ایک کے بعد پندرہ صفر) بائٹس معلومات ذخیرہ کر سکتا ہے جس کے سامنے کمپیوٹر کی میموری کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ذہن کے سیکھنے کی گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے ….؟‏
سائنسدان اس سوال کے جواب کو جتنا دریافت کرتے ہیں اتنا ہی دنگ رہ جاتے ہیں۔‏ مصنف پیٹر رسل Peter Russell اپنی کتاب ‏دی برین بُکThe Brain Book ‏ میں لکھتے ہیں:‏ ‘‘‏ہم سوچا کرتے تھے کہ انسان کا ذہن صرف ایک حد تک معلومات جذب کر سکتا ہے لیکن تحقیق نے ظاہر کِیا ہے کہ یہ بالکل سچ نہیں۔ مثال کے طور پر یادداشت ہی کو لیجئے۔‏ ’’
مصنف رسل انسانی یادداشت کے بارے میں یوں کہتے ہیں: ‏‘‘‏یہ ایک برتن کی طرح نہیں ہے جسے آپ صرف ایک حد تک بھر سکتے ہیں بلکہ ایک درخت کی مانند ہے جو بڑھتا رہتا ہے۔‏ جو کچھ بھی آپ یاد کر لیتے ہیں وہ اس درخت کی ایک شاخ کی طرح ہے جس سے مزید ٹہنیاں اُگ سکتی ہیں۔‏ انسان کی یادداشت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔‏ آپ جتنی باتیں سیکھیں گے اتنا ہی آپ اپنی یادداشت کی گنجائش کو بڑھاتے رہیں گے۔’’
انسانی حافظے کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے چند واقعات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔


کئی لوگوں کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اُن میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو زیادہ پڑھےلکھے نہیں ہیں۔‏ اِس سلسلے میں مغربی افریقہ کے قبیلوں کے اَن‌پڑھ تاریخ‌دانوں پر غور کریں۔‏ ان کو گریو griots کہا جاتا ہے۔‏ اُنہیں اُن تمام لوگوں کے نام معلوم ہیں جو پچھلی کئی پُشتوں میں اُن کے گاؤں میں رہتے تھے۔‏ یہ بات مصنف ایلکس ہیلی Alex Haley کے بڑے کام آئی، جنہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کے بارے میں ایک ناول Roots لکھی کہ کس طرح ان کے پردادا افریقی غلام کے طور پر مُلک گیمبیا سے امریکہ لائے گئے اور سات نسلوں بعد اس خاندان کو شہری حقوق حاصل ہوئے ۔ یہ کہانی لکھنے کے لیے وہ افریقہ کے گریو تاریخ‌دانوں ملے جنہیں ایلکس کے پورے گاؤں اور خاندان کی پچھلی چھ پُشتوں کے نسب نامے زبانی یاد تھے۔ ‏اس ناول پر ایلکس کو پولیوزر پرائز Pulitzer prize ملا۔‏
میتھورین ویز یئر قدیم ایران کے بادشاہ کا لائبریرین تھا۔ وہ اس قدرقوی حافظے کا مالک تھا کہ اگر کسی بھی شخص سے کسی بھی زبان میں کوئی بات سنتاتھا تو بعد میں اس بات کو من وعن بیان کرسکتا تھا۔ ایک بار اس کی اس صلاحیت کی آزمائش بھی کی گئی۔ 12افراد کے سامنے اسے پیش کیا گیا اور ہر ایک نے بالکل مختلف زبان میں چند جملے ادا کیے اور بعد میں ویزئیر نے ہر ایک کا جملہ اسی زبان میں پوری صحت اور درست لہجے کے ساتھ ادا کیا۔
کہتے ہیں کہ مشہور رومی حکمران جولیس سیزر (Julius Caesar)کا حافظہ بہت تیز تھا۔ اسے اپنے ہزار ہا سپاہیوں کے نام زبانی یاد تھے۔ کسی بھی جنگ یا مہم کے دوران وہ ہر سپاہی کو اس کے نام سے پکارتا تھا۔
لتھوانیا کا ایک عالم ایلیا بن سلیمان Elijah Ben Solomon انتہائی غیر معمولی حافظہ رکھتا تھا۔ وہ جس کتاب کو ایک بار پڑھ لیتا تھا وہ پھر اس کے ذہن سے محو نہیں ہوتی تھی۔ ایلیا کے ذہن میں ایک دو نہیں، پوری دو ہزار کتابیں محفوظ تھیں!….ان کتابوں کا ایک ایک لفظ اسے ازبر تھا۔ جہاں سے بھی چاہتے ، لوگ اس سے کوئی بھی پیراگراف سن سکتے تھے۔
امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ (Theodore Roosevelt ) کا حافظہ بھی اتنا تیز تھا کہ اسے عام ملنے والے لوگوں کے چہروں اور نام برسوں یاد رہتے تھے۔
فرانس کا سیاستدان لیون گیمبیٹاLeon Gambetta بھی معلومات کو یاد رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا تھا، وکٹر ہیوگو کی تحریروں پر مبنی ہزاروں صفحات اسے مکمل طور پر ازبر تھے۔ وہ ایک ایک لفظ کو پوری صحت کے ساتھ بیان کرسکتا تھا….
امریکہ کے مشہور ماہر نباتات اساگرے Asa Gray کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ اسے پچیس ہزر سے زاید پودوں، جڑی بوٹیوں کا نام اور خواص زبانی یاد تھے ۔ امریکی محقق چارلیس ڈارون (Charles Darwin)جب ارتقا پر اپنی کتاب لکھ رہا تھا تو اس نے مختلف قسم کے پودوں کی معلومات کے لیے اساگرے سے ہی مدد لی ۔
یونان کا رچرڈ پورسن Richard Porson انفارمیشن کو پوری صحت کے ساتھ یاد رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتاتھا۔ اسے بھی درجنوں کتابیں یاد تھیں۔
امریکہ کے ہیری نیلسن پلز بری Harry Nelson Pillsbury کی ذہنی قوت اس قدر تھی کہ وہ بیک وقت شطرنج کی 22بازیاں یاد رکھ سکتاتھا اور اتنے ہی افراد سے بیک وقت مقابلہ کرتاتھا۔ ایک نظر ڈال کر وہ پوری بازی کو تمام چالوں کے ساتھ اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتاتھا۔
امریکہ کا زیرا کولبرنZerah Colburn ریاضی کے حوالے سے حیرت انگیز ذہانت کا حامل تھا۔ وہ آٹھ سال کی عمر سے ہی حساب کا کوئی بھی سوال بڑی آسانی سے حل کرلیتاتھا۔ اس کی اس صلاحیت نے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک بار اس نے لندن میں ماہرین کے سامنے 21,735 کو 543 سے ضرب دیا اور محض چار سیکنڈز میں جواب بتادیا۔
لیونارڈوڈاونچی (Leonardo Da Vinci)اطالوی نابغہ جسے ہم شہرہ ٴ آفاق تخلیق مونالیزا کے حوالے سے جانتے ہیں، تاریخ انسانی کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے۔ وہ محض ایک بڑا مصور ہی نہیں سائنس دان بھی تھا۔ کم از کم ڈیڑھ سو ایجادات لیونارڈو ڈاونچی سے منسوب ہیں، نباتات، علم الابدان، فن تعمیر، انجنیئرنگ، نقشہ گری، ارضیات، فلکیات، موسیقی، فلسفہ، ریاضی، اسلحہ سازی، ہوابازی ، لکھاری، موسیقی اور دیگر شعبوں میں اس کا کام یادگار ہے۔ قدرت نے اسے یہ ملکہ عطا کیا تھا کہ وہ بیک وقت ایک ہاتھ سے پینٹنگ اور دوسرے ہاتھ سے گاڑی کے پرزوں کی مرمت کر سکتا تھا۔
صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ مسلم معاشرے میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
حضرت اما م جعفرصادق ان نادرِ روزگار افراد میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو علم پھیلانے میں صرف کیا۔ انہوں نے پینسٹھ برس کی عمر پائی اس دوران انہوں نے علم الحدیث، علم الکلام، فلسفہ کیمیا، فلسفہ، طبیعیات، ہئیت، منطق، طب، فلکیات، ما بعد الطبیعیات ، تشریح الاجسام (بائیولوجی) اوردیگر علوم پر کئی کتابیں تحریرکیں ۔
امام بخاری نے 62برس عمر پائی۔ دورطالب عمری میں ہی انہوں نے مشہور عالموں کی کتابیں اور 15ہزار سے زائد احادیث حفظ کرلیں تھیں۔علم حدیث کے شوق میں انہوں نے اس دورمیں شام، مصر اور جزیرہ کا دومرتبہ اور بصرے کا چارمرتبہ سفر کیا۔ چھ سال مکہ میں گذارے۔ احادیث کے علاوہ انہوں نے تاریخ ، تفسیر اورفقہ پر بھی کئی کئی جلدوں میں کتابیں تصنیف کیں۔
بوعلی سینا کا شمار عظیم سائنس دانوں میں ہوتاہے۔ انہوں نے 47برس عمر پائی۔سترہ برس کی عمر تک حصول تعلیم میں مصروف رہے تھے۔ انہوں نے فلسفہ ، منطق ،ریاضی ،فزکس، کیمیا، ارضیات اور طب کے موضاعات پر کئی ضمیم کتب لکھیں جو آج بھی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتیہیں۔
امام غزالی ؒ نے 53برس عمرپائی اور تصانیف کا سلسلہ بیس برس کی عمر میں شروع کیا۔ انہوں نے 25سال کی مدت میں 69کتابیں لکھیں۔ جن میں سے اکثر کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی(جنوری 1908۔ جنوری 1998) کی زندگی پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو ان پر جینئیس کا گمان ہوتا ہے وہ ایک ہی وقت میں کئی علوم کے درجہ کمال پر فائز تھے۔ ڈاکٹر صدیقی ممتاز ریاضی دان، فلسفی، ادبی شخصیت، ماہرِ تعلیم، اسلامی تمدن کے اسکالر اور کئی زبانوں کے ماہر تھے ، انہوں نے فزکس اور کوانٹم مکینکس پر بھی مقالے تحریرکیے۔
قوتِ‌یادداشت کی ایسی مثالیں ہمیں واقعی حیران کر دیتی ہیں۔‏ ان تمام واقعات کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کچھ لوگوں میں ذہنی استعداد اتنی زیادہ اور کچھ لوگوں میں کم کیوں ہوتی ہے …. اس کیوں کا سادہ سا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اسے ‘‘ناممکن’’ سمجھتے ہیں جبکہ یہ ہر انسان کے لیے ممکن ہے۔

ناممکن سے ممکن تک

مثل مشہور ہے کہ ناممکن کالفظ صرف احمقوں کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے کوئی ایسا کام نہیں جو ممکن نہ ہوسکے۔ ہم خود اپنے ذہنی فیصلے کے مطابق کسی ممکن کو ناممکن سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اسے آخری فیصلہ سمجھ کر صبرو شکر کرلیتے ہیں ۔ کسی چیز کو بھول جانا اور چیز ہے اور ذہین ہونا دوسری چیز ہے۔ بھول جانے کی عادت پر قابو پانا ممکن ہے صرف اس ضمن میں کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح معدہ کو ہاضمے یا پھیپھڑوں کو سانس لینے کے لئے بنایا گیاہے ، اسی طرح قدرت نے ہمارے دماغ کو اطلاعات اور معلومات وصول کرنے، ذخیرہ کرنے اور انہیں مناسب موقع و محل پر استعمال کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ہی تخلیق کیا ہے ۔ہر انسان کا دماغ بہت کچھ سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا ہر فرد کے لیے ممکن ہے۔‏ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ کوشش کرے۔ جو لوگ ہمت ہار دیں گے اور ممکن کو ناممکن سمجھ بیٹھیں گے تو لازماً وہ دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے دماغ پر بھروسہ کیجیے اور اُسے وہی کچھ کرنے دیں جس کے لیے اُسے بنایا گیا ہے۔ ہم سب اپنی یادداشت کو بہتر بنانے کے قابل ہیں۔‏
ہمارے دماغ میں ایک دن کے اندر مجموعی طور پر ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں۔ اس ہجوم میں ایک آدھ بات کو بھول جانا معمول کی بات ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی ذہن کی استعداد میں خود بخود اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے اور اس کے اندر تبدیلیاں بھی واقع ہوتی رہتی ہیں۔ اس کی استعداد پر منحصر ہے کہ آپ اسے استعمال کس طور پر کرتے ہیں۔
کچھ آسان، قابل عمل فطری طریقے ایسے ہیں جن کے ذریعے دماغی یا ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آپ کی یادداشت تیز اور سوچ وبچار کی صلاحیت بڑھ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے – 1

ستمبر 2019ء –  قسط نمبر 1 سیکھیے….! جسم کی بو لی علم حاصل کرنے کے …

شکریہ ۔ قسط 9

    انیسویں صدی میں دو دوست برک اور ہئر گزرے ہیں ۔ انہیں ایک …

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *