Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

دیوقامت انسان ۔ کیا کبھی وجود رکھتے تھے؟

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

دیوقامت انسان ۔ کیا کبھی وجود رکھتے تھے؟

آج بھی دنیا میں آٹھ سے دس فیٹ قد رکھنےوالے لوگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن قدیم صحائف، روائتوں اور تاریخ میں ایسے انسانوں کا ذکر ملتا ہے جو انتہائی بلند قد و قامت رکھتے تھے، آثار قدیمہ نے کئی ایسی چیزیں دریافت کی ہیں جسے دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کبھی اس زمین پر غیر معمولی جسامت اور بلند قدوقامت کے لوگ رہتے تھے….؟
کیا اہرامِ مصر، اسٹون ہینج جیسی قدیم عجوبہ روزگار تعمیرات میں ان دیوقامت لوگوں کا کوئی کردار ہے۔

 

دیوقامت قدم

سری لنکا کے دارلحکومت کولمبو کے مشرق میں 220کلو میڑ کے فاصلے پر ضلع رتنا پور میں سطح مرتفح طرز کی پہاڑیوں کا ایک سرسبز و شاداب سلسلہ ہے۔ اس پہاڑیوں میں واقع بلند ترین پہاڑی جسے مقامی لوگ سری پدا (مقدس قدم) کا نام دیتے ہیں اور دنیا بھر میں Adam Peak(یعنی کوہ آدم) کے نام سے مشہور دنیا بھر کے سیاحوں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کیلئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ اس پہاڑی کی چوٹی پر ایک بہت بڑے انسانی پاؤں کا نشان ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک یہ نقش پا حضرت آدم علیہ السلام کا ہے اور حضرت آدم جب جنت سے نکالے گئے تھے تو کرہ ارض کے اسی مقام پر اُترے تھے۔ بدھ مت کے مقامی باشندوں کے مطابق یہ نشان بدھا کے پاؤں کا ہے اور ہندؤوں کے زائرین اس نقش پا کو شیوا جی سے منسوب کرتے ہیں۔ سات ہزار تین سو فٹ بلند اس چوٹی پر بنی ایک خانقاہ میں ایک گڑھا بنا ہوا ہے جو پانچ فٹ سات انچ لمبا اور دو فٹ سات انچ چوڑا ہے۔اس گڑھے میں دائیں پاؤں کا نقش ہے۔ اس پاؤں کے نقش کی لمبائی اور چوڑائی سے کسی بھی انسان کے جسم کے قد کااندازہ 35فٹ لگایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں انتہائی قدیم زمانوں کے حوالے سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کبھی انسان دیوقامت بھی ہوا کرتے تھے….؟


اور اس سوال کا ابھرنا عین فطری امر ہے کیونکہ بہت سے قدیم صحائف، روائتوں اور تاریخ میں ایسے انسانوں کا ذکر ملتا ہے جو د س دس بارہ بارہ فٹ یا اس سے بھی بلند قامت رکھتے تھے اور آج بھی بہت زیادہ قامت والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس سے یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ کبھی غیر معمولی قامت کے لوگ بھی زمین پر راج کرتے ہوں گے۔ اس ضمن میں ڈائنوسارز اور دیگر دیوقامت حیوانات کے بارے میں سوچنا ذہن کی بہت سی گرہیں کھول دیتا ہے۔ ڈائنوسارز انتہائی غیر معمولی قد کاٹھ کے حیوانات تھے اور اب ہم ہاتھی اور وہیل کو دیکھ کر ان کے بارے میں خیالات کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ جب ڈائنوسارز اور غیر معمولی جسامت کے ہاتھی میمتھ میں کی نسل ارتقا سے گزر کر کموڈو ڈریگن اور ہاتھی بن سکتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دور کا انسان بہت بڑے قد کاٹھ کا رہا ہو اور وقت کے ارتقا نے اسے گھس گھس کر ہم جیسا چھوٹا کردیا ہو!


دنیا کے ہر خطے اور ہر نسل میں ہمیں دیوقامت انسانوں کا تذکرہ ملتا ہی ہے۔ سینہ بہ سینہ چلی آرہی روایات میں اس دیوقامت انسان کے بارے میں بہت سی باتیں قدرے مبالغے کے ساتھ بیان کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی، کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ان روایات کو اچھی خاصی تقویت ملتی ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے کئی مقامات پر بِگ فُٹ یعنی دیوہیکل قدموں کے نشانات موجود ہیں۔


دریائے ٹینیسی Tennesseeکے دہانے کے نزدیک برائٹن Braytonکے مقام پر ایک چٹان کو دیکھ کر محققین دنگ رہ گئے۔ اس پر ایک دیوقامت انسان کے پیروں کے نشان ثبت تھے۔ اس کی ایڑی کی چوڑائی 13انچ تھی! اس کی انگلیاں 6 تھیں۔ انہی چٹانوں میں زمانہ ماقبل تاریخ کے گھوڑے کے پیروں کے نشانات بھی ملے جو 8 تا 10 انچ کے تھے۔ یہاں یہ بات بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ معلوم تاریخ سے بہت پہلے کے دور میں انسان اور گھوڑا ساتھ ساتھ رہتے ہوں گے، اس کے شواہد بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ اور بظاہر اس کی بھی کوئی توجیہ ماہرین کے بس کی بات نہیں ہے۔ سوازی لینڈ (جنوبی افریقہ)کی سرحد پر آباد مپلزی Mpaluzi نامی شہر کے قریب ماہر ارضیات کو ایک کرینائٹ کی چٹان پر دیوقامت انسان کے پیروں کے نشان ثبت ملے ہیں جس کی لمبائی 4 فٹ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ماہر ارضیات اس کی طوالت کا اندازہ 20کروڑ سال سے زیادہ لگاتے ہیں ۔ ہندوستان کی ریاست آندھراپردیش اور کرناٹک کے درمیان بنگلور سے 122 کلومیٹر کے فاصلے ہر لپکشی نامی ایک گاؤں میں دیوقامت انسان کے پیروں کے نشان ثبت ملے ہیں جسے وہاں کے مقامی باشندے کسی مقدس ہستی کا قدم مان کر پوجتے ہیں۔


2002ء میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے کلیولینڈنیشنل پارک میں دیوقامت انسان کے پیروں کے نشان ملے ہیں۔ 1908ء میں امریکی ریاست ٹیکساس میں گلین روز کے مقام پر انسان اور ڈائنوسارز دونوں کے دیوقامت پیروں کے نشان ملے، انسانی قدموں کے نشان کے سائزسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انسان 4 میٹر (13 فیٹ) قد رکھتا ہوگا۔
1958ء میں اٹلی میں کوئلے کی ایک کان میں کھدائی کے دوران ایک چٹان کو توڑا گیا تو اس کی اندرونی پرتوں میں ایک انسانی ڈھانچا ملا۔ یہ پرتیں ایک کروڑ دس لاکھ سال پرانی تھیں۔ اس ڈھانچے کی دریافت نے ماہرین کو چونکا دیا۔ چٹان کی پرتیں واضح طور پر ایک کروڑ دس لاکھ سال پرانی تھیں اور وہاں ایک ڈھانچے کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ اس دور میں انسان تھا اور دیوقامت بھی تھا۔ بیئرکریک، مونٹانا میں ایگل کول مائن میں کھدائی کے دوران دو بہت بڑے انسانی دانت برآمد ہوئے تھے۔ ان دانتوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس دور کا انسان بڑے حیوانات کا گوشت بھی کھاتا ہوگا۔ یہ 1926ء کی بات ہے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں وایومنگ کے علاقے میں ڈائنوسارز کا راج تھا اور اسی دور میں انسان بھی اپنے ظہور کو مکمل کرنے کی تیاری کررہا تھا۔
کیلی فورنیا کے ساحلی علاقے لومپوک رینچو میں 1833ء میں کھدائی کے دوران ایک انسانی ڈھانچا ملا جو 12فٹ لمبا تھا۔ یہ ڈھانچا مکمل طور پر پتھروں میں مدفون تھا اور وہ پتھر چٹانوں کی شکل میں کم از کم ایک کروڑ سال پرانے تھے۔ اس سے بھی ہم اس سیارے پر انسان کی قدامت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ ڈھانچا ایک قبائلی علاقے میں ملا تھا اور اس کے ساتھ چند اوزار اور ہتھیاروں کے علاوہ ایسے پتھر بھی تھے جن پر سمجھ میں نہ آنے والی علامات بنائی گئی تھیں۔ کچھ ہی دنوں کے بعد اس ڈھانچے کو لوگوں نے اپنے کمزور مذہبی عقائد کی بنا پر پوجنا شروع کردیا۔ یہ حالت دیکھ کر حکام نے فوری طور پر اس ڈھانچے کو اس کے ساتھ ملنے والی تمام اشیاءکے ساتھ کسی خفیہ مقام پر دفن کرنے کا حکم دیا اوریوں ماہرین ماضی سے ملانے والی ایک اہم کڑی پر تحقیق کرنے سے محروم رہ گئے۔


کیلی فورنیا کے ہی ساحلی علاقے میں سانتا روزا آئی لینڈ پر ایک ایسے دیوقامت انسان کا ڈھانچا ملاتھا جس کے اوپری اور نچلی دونوں دانتوں کی دو قطاریں تھیں۔ دانتوں کی ساخت سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ دیوقامت انسان اس دور کے چھوٹے ہاتھیوں کو کھا کر گزارا کرتا ہوگا۔ اور غالباً اسی لئے اس علاقے میں چھوٹے ہاتھیوں کی نسل ختم ہوئی ہوگی!
1891ء کی بات ہے۔ کریٹینڈن، ایریزونا میں ایک تجارتی عمارت کے لئے کھدائی کے دوران پتھر کا بنا ہوا ایک ایسا تابوت ملا جو حنوط شدہ لاشوں کو رکھنے کے لئے استعمال ہونے والے تابوتوں سے مشابہ تھا۔ اس میں ایک دیوقامت انسان کے پورے جسم کے بہت واضح نشانات تھے۔ مگر اس میں انسان نہیں تھا کہ لاکھوں سال کے قدری عمل میں وہ اب راکھ کا ڈھیر ہوچکا تھا۔


برطانوی اخبار اسٹرانڈ کے مطابق 1895ء میں اینٹرم کاؤنٹی، آئرلینڈ میں کھدائی کے دوران پتھر کا بنا ہوا ایک دیوقامت انسان ملا، جس کا پورا جسم رکاز (فوسل) میں تبدیل ہوچکا تھا، اس کا قد 12 فیٹ (3.7میٹر) تھا۔ اس رکاز کو تحقیق کے لیے لندن لایا جانا تھا لیکن اس کے بعد وہ فوسل کہاں غائب ہوگیا اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
1950 کی دہائی میں جنوب مشرقی ترکی میں وادیٔ فرات کے قریب قدیم مقبروں میں کھدائی سے ایک فوسل شدہ انسانی ران کی ہڈی برامد ہوئی جس کی لمبائی 47 انچ تھی، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس انسان کا قد 14 سے 16 فیٹ بلند ہوگا۔ یہ فوسل شدہ ران کی ہڈی، ماؤنٹ بلانکو فوسل میوزیم، ٹیکساس میں موجود ہے۔
نارتھ ویلس میںللانڈڈنو Llandudno کے ساحلی قصبے کے قریب ایک قدیم تانبے کی کان دریافت ہوئی ہے۔ یہ علاقہ آئرش سطح سمندر سے 220 میٹر بلند ہے ، اس عظیم Orme تانبے کی کان کے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج سے3500 سال پہلے کانسی کے عہد میں اس کان میں مزدور کام کیا کرتے تھے ، ماہرین نے اس کان سے 2500 ہتھوڑے برآمد کیے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر ہتھوڑوں کا وزن 60 پونڈ(30کلو) اور ان کا دستہ 9 فیٹ لمبا ہے، موجودہ دور میں استعمال ہونے والے ہتھوڑوں کا وزن 10یا زیادہ سے زیادہ 20 پونڈ ہوتا ہے، 60 پونڈ(30کلو)وزنی اور 9 فیٹ لمبےہتھوڑوں سے کام کرنا ایک عام قد کاٹھ کے آدمی کے لیے بےحد مشکل کام ہے۔ کیا اس کان میں غیر معمولی قد کاٹھ اور طاقت رکھنے والے لوگ کام کیا کرتے تھے۔


یہی صورتحال یونان کی قدیم تہذیب کے ملنے والے آثاروں کے معلق بھی ہے، بحر ایجین کے جزیرہ کریٹ کے ہیراکلین میوزیم میں کریٹ پر بسنے والی یونان کی مینون Minoan تہذیب کے آثار آج بھی موجود ہیں، ان کے آثار سے ملنے والی کلہاڑیوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو استعمال کرنے والے جنگجو غیرمعمولی طاقت اور بلند قدوقامت کے حامل ہوں گے۔
مصر میں دیندرہ کے مقام پر ایک قدیم معبد کی دیواروں پر بنے نقوش میں عام آدمیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیوقامت لوگوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کبھی اس زمین پر غیر معمولی قدو قامت کے لوگ رہتے تھے….؟ کیا اہرامِ مصر، اسٹون ہینج جیسی قدیم عجوبہ روزگار تعمیرات میں ان دیوقامت لوگوں کا کوئی کردار ہے۔

اہرام مصر کی تعمیر  اور دیوقامت انسان

کیا اہرامِ مصر، اسٹون ہینج جیسی قدیم عجوبہ روزگار تعمیرات میں ان دیوقامت لوگوں کا کوئی کردار ہے۔ اہرام مصر کی دیواروں پر نقش کئی تصاویروں میں عام قد کے انسانوں  کے ساتھ طویل قامت انسان بھی  کام کرتے نظر آتے ہیں۔  اہرام کی تعمیر کے چند نقوش دیکھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ اہرام کے وزنی تعمیراتی پتھروں کا  ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں جن حجم آج کے انسانوں  سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 

 

تاریخ کے دیوقامت انسان

یونانی، ہندی، اسرائیلی اور مسلم روایات میں ہمیں کئی دیوہیکل انسانوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کتاب قصص الانبیاء، تاریخ طبری اور مدارج النبوۃ میں طوفانِ نوح سے قبل طویل القامت اور دیوہیکل آدمی عوج بن عنق کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت داؤد ؑ نے جالوت نامی ایک فرد کو قتل کیا اسے بھی بعض روایتیں دیوہیکل شخص بتاتی ہیں۔ توریت اور دیگر مقدس کتب میں ملنے والی روایات سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں کوئی دیوہیکل قوم موجود تھی۔ طوفانِ نوح سے قبل دیو قامت قوم نیفلیئم کا تذکرہ حضرت ادریسؑ سے منسوب کتاب Book of Enoch اور بک آف جوبلی میں بھی ملتا ہے۔ ان کتابوں کے متعلق یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ منسوخ ہوچکی ہیں۔ توریت میں میں نیفلیئم کو جبّار Giant اور طاغوت Tyrant سے تشبیہ دی ہے۔ نیفلیئم کے علاوہ بائبل میں رفیئم Rephaim، عنقم Anakim، ایمیمEmim اور جبّار Gibbar نامی دیوہیکل اقوام کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ جن میں بعض کے ہاتھوں میں چوبیس اُنگلیاں ہوتی تھیں اور بعض کا قد کئی کئی فٹ بلند ہوتا….
توریت کے موجودہ نسخوں میں کتاب پیدائش بھی شامل ہے جس میں کائنات کی تخلیق یعنی آفرنیش کی بات کی گئی ہے۔ اس ذیل میں دیو قامت انسانوں کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں جبار کے نام سے پکارا گیا ہے۔ توریت میں ہے :
اُن دِنوں میں زمِین پر جبّار بستے تھے …. یہی قدِیم زمانہ کے سُورما ہیں جو بڑے نامور ہُوئے ہیں۔(توریت ، کتاب پیدائش باب 6 : آیت 4) ایک اور جگہ تحریر ہے:
اور مُوسیٰ نے اُن (بنی اِسرائیل کے سرداروں)کو روانہ کِیا تاکہ مُلکِ کنعا ن کا حال دریافت کریں ….وہ جنُوب کی طرف سے ہوتے ہُوئے حبُرون تک گئے جہاں عناق کے بیٹے اخیمان اورسِیسی اور تلمَی رہتے تھے….اور چالِیس دِن کے بعد وہ اُس مُلک کا حال دریافت کر کے لَوٹے….اور مُوسیٰ سے کہنے لگے کہ جِس مُلک میں تُو نے ہم کو بھیجا تھا ہم وہاں گئے اور واقِعی دُودھ اور شہد اُس میں بہتا ہے….لیکن جو لوگ وہاں بسے ہُوئے ہیں وہ زورآور ہیں اور اُن کے شہر بڑے بڑے اور فصِیل دار ہیں اور ہم نے بنی عناق کو بھی وہاں دیکھا۔اُس مُلک کے جنُوبی حِصّہ میں تو عَمالیقی آباد ہیں …. ہم اِس لائِق نہیں ہیں کہ اُن لوگوں پر حملہ کریں کیونکہ وہ ہم سے زِیادہ زورآور ہیں …. وہاں جِتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قدآور ہیں۔ اور ہم نے وہاں بنی عَناق کو بھی دیکھا جو جبّار ہیں اور جبّاروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نِگاہ میں اَیسے تھے جَیسے ٹِڈّے ہوتے ہیں اور اَیسے ہی اُن کی نِگاہ میں تھے۔(توریت ، کتاب گنتی باب 13)
ان عمالقی قوم کا تذکرہ قرآن مجید (سورۂ مائدہ آیت 22) میں بھی بیان ہوا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ توریت کی طرح انہیں بھی جبّارین (قَوْمًا جَبَّارِينَ )کے نام سے پکارا گیا ہے۔ کیا واقعی جبارین نامی کوئی دیو قامت قوم اس زمین پر آباد تھی۔


تفاسیر میں ہے کہ فرعون سے رہائی پانے کے بعد جب بنی اسرائیل مصر سے واپس بیت المقدس میں اپنے باپ دادا حضرت یعقوب کی سرزمین پہنچے تو دیکھا یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی ، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرمایا کہ ان سے مقابلہ کرو اور اپنی سرزمین واپس لو، لیکن بنی اسرائیل عمالقیوں کے دیو کی مانند بلند قد کاٹھ دیکھ کر گھبراگئے ۔ عمالقہ کے بادشاہ عوج بن عنق کے قد کاٹھ کے متعلق اسرائیلی روایات میں تین ہزار گز سے زیادہ بتایا جاتا ہے مگر معروف مفسر ابن کثیر کے مطابق عوج بن عنق کے جو قصے ان اسرائیلی روایات میں مذکور ہیں عقل ان کو قبول نہیں کرسکتی ہے یہ سب کذب و افتراء ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ قوم عمالقہ کے لوگ چونکہ قوم عاد کے بقایا ہیں۔ جن کے ہیبت ناک قدوقامت کا خود قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اس قوم کا ڈیل ڈول اور قوت و طاقت ضرب المثل تھی۔ قومِ عاد کو قرآن مجید(سورۂ فجر)میں ذات العماد کہا گیا ہے بعض مفسرین ذات العماد کے معنی ستونوں کی طرح بلند بتاتے ہیں….

نقالوں سے ہوشیار 

تقریبا ہر مذہب کی مقدس کتب اور تاریخ میں ملنے والی روایات سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں کوئی دیوہیکل قوم موجود تھی۔   لیکن بعض  روایات کو اس حد تک  بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ عقل ان کو قبول نہیں کرسکتی۔ موجودہ دور میں تاریخ کی انہی روایات کی تصدیق کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہپر آئے دن ایسی دریافتوں کی خبریں وائرل ہوتی رہتی ہیں جن میں دیوقامت  انسانوں کی باقیات کے آثار دریافت ہونے کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے مگران میں سے زیادہ تر خبریں بے بنیاد اور جھوٹ پر  مبنی یا پھر فوٹو شاپ کا کمال ہوتی ہیں۔ 

 

 

جون 2013ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات — عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

روحوں کی میڈیم — عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *