ترقی یافتہ ممالک کی جنگوں میں جادو کیمیا گری اور علم نجوم کا استعمال

 

محبت اور جنگ میں سب کچھ جائزہے…. یہ مشہور مقولہ تو آپ نے سنا ہوگا  اور ایسا دیکھا بھی گیا ہے…. جب کوئی قوم یا فوج حالت جنگ میں ہوتی ہے  تو وہ  جنگ جیتنے کےلیے کچھ بھی کرکے  اس جنگ کو جیتنے کی کوشش کرتی ہے۔ دنیا میں لڑی گئی تقریباً تمام بڑی جنگوں میں  جھوٹ، فریب، چالبازی، جاسوسی نظام اور سائنس  و ٹیکنالوجی  کا استعمال بہت زیادہ رہاہے۔ 

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں چند ایسی قومیں ، فوجیں اور خفیہ تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیمیاگری، نجوم اور جادو  وغیرہ جیسی چیز استعمال کرنے کی کوششیں بھی کرڈالیں    ہیں اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ  ہم جن قوموں  کی بات کررہیں وہ   قدیم تاریخ  کا کوئی قصہ پارینہ نہیں بلکہ یہ تو دور جدید کی انتہائی ترقی یافتہ اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس قومیں  ہیں۔  کیمیا گری، علم نجوم، زائچہ، ستاروں کی چال ، تیسری آنکھ، ماورائی صلاحیتیں، مافوق الفطرت  قوتوں، پراسرار چیزوں،  جادو  اور آسیب  کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ…. قدیم زمانے کا انسان مافوق الفطرت چیزوں اور ہلاکت خیز فطری قوتوں سے خوف زدہ رہتا تھا۔ علم نجوم، ستاروں کی چال سے قسمت اور کیمیا گری سے سونا دولت بنانے کے چکر میں مبتلا رہتا تھا۔ لیکن  اکیسویں صدی میں، سائنس انفارمیشن و ٹیکنالوجی اور ترقی  کی اونچائیوں چھوتے اس دور میں سائنسدانوں  نے پرانے زمانے کی بہت سی پُراسرار سمجھی جانے والی چیزوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ قدیم زمانے کا انسان جن قوتوں کو ماورائی مخلوق سمجھ کر خوف کھاتا تھا، آج سائنس کی مہربانی سے ان قوتوں کو اپنے آرام و سکون کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان میں فطرت کی قوتیں آگ،  بجلی،  ہوا وغیرہ  سرِفہرست ہیں۔ 

یوں تو آج کی ترقی یافتہ  قومیں  ان تمام چیزوں کو غیر حقیقی ، غیر سائنسی اور دقیانوسی  خیال کرتی ہے، لیکن   اکیسویں صدی کی ان ہی ترقی یافتہ اقوام سے کبھی کبھی ایسی خبریں آتی ہیں کہ انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔  ذیل میں ہم دور جدید کے ایسے ہی چند واقعات پیش کررہے ہیں۔ 

کیمیا گروں کا  سُرخ پارہ 

Red Mercury

دوستو….!آپ میں سے اکثر نے انگلش سائنس فکشن فلموں اور ناولوں میں سرخ پارے  یا ریڈ مرکری  کا نام سن رکھا ہوگا۔   ان  میں بتایا جاتا ہے کہ ایک ایسا خاص  کیمیائی عنصر ہے جس کے استعمالات لامحدود   اور خطرناک ہیں۔   اس کا نام سرخ پارہ  (Red  Mercury) ہے ۔

سرخ پارہ آخر کیا ہے یا یوں کہہ لیں کیا نہیں ہے….؟

زمانہ قدیم میں مصروبابل، چین، ہندوستان، یونان و روما کی تہذیبیں  ٹیکنالوجی اور  علم و فن کے بڑےمراکز تھیں لیکن ان تہذیبوں کے سائنسی علوم   فلسفہ، جادو   اور دیومالائی و افسانوی  نظریات   کا ملغوبہ ہوتے تھے۔

انہی علوم کی ایک مشہور  شاخ تھی علم الکیمیا ۔  لیکن یہ آج کے علم کیمیا یعنی کیمسٹری جیسی نہ تھی۔    ماہرین کا کہنا تھا کہ الکیمیا نے اس نظریے کے بطن سے جنم لیا کہ کائنات بھر میں تمام چیزیں چار عناصر… ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنی ہیں۔ 

قدیم فلسفیوں کا دعویٰ تھا کہ مٹی کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ  سب دھاتیں مٹی سے بنی ہیں لہٰذا تانبے کو سونے میں بدلا جاسکتا ہے۔     وقت گزرنے کے ساتھ ان  فلسفیانہ خیالات پر  جادوئی اور ماورائی داستانیں   مشہور ہوئیں جو بعد میں پختہ نظریات کی صورت اختیار کرتیچلیگئیں۔

   قدیم دور  میں علم کیمیا کے  ماہرین  کی یہی کوشش  رہتی تھی کہ وہ ایسا جنتر منتر تلاش کرلیں جو انسان کو عمر جادواں عطا کردے یا پھر ایسی دھات ہاتھ لگ  جائے کو  مٹی سے سونا بناسکے ۔  صدیوں تک لالچی اور پرتجسس  لوگ عمر خضر  عطاکرنے والے ‘‘آب حیات’’ اور مٹی کو سونا بنانے والے ‘‘پارس پتھر ’’کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ 

لالچ کی یہ دوڑ انیسویں صدی عیسوی تک جاری رہی، اس دور کے بڑے سائنس دان مثلاً  رابرٹ بوائل، آئزک نیوٹن اور انطون لیوائزر  وغیرہ  بھی اپنی لیبارٹری میں مختلف کیمیائی مادوں کے ذریعے ایسے تجربات کرتے رہتے تھے ، جن  کا مقصد پارس پتھر اور آب حیات تیار کرنا تھا۔ 

اٹھارہویں  صدی میں  لیبارٹریوں میں ہونے والے تجربات سے  ایک نئی سائنس ‘‘کیمسٹری’’ سامنے آنے لگی تو  دیومالا، فلسفہ اور فرسودہ نظریات کے مغلوبہ  علم الکیمیا مسترد اور متروک ہونے لگا۔   انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں پارس پتھر اور آبِ حیات سمیت الیکمیا کے کئی نظریات کو فرسودہ قراردے دیا گیا۔

علم الکیمیا کے نظریات میں ہی ایک ‘‘سرخ پارے’’ کا تصور پایا جاتا تھا۔  کہا جاتا ہے کہ سرخ پارے کی مدد سے سونا بنایا جاسکتا ہے۔  جنوں کو اپنے قابو میں کیا جاسکتا ہے، یہ اینٹی ریڈار بھی کہلاتا ہے جس کی مدد سے جہاز آسمان سے غائب ہوسکتا ہے، جبکہ بحیثیت  ہتھیار سرخ پارہ  نیوکلیئر بم سے کئی گنا بڑا دھماکا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ سب  باتیں صرف اور صرف خیالی، مفروضہ اور  افسانوی باتیں ہیں۔   جدید سائنس کی رو سے ریڈ مرکری یعنی سرخ پارہ جیسی کوئی جادوئی شے وجودنہیں رکھتی۔

لیکن اکیسویں  صدی میں بھی کئی لوگ اس افسانوی سرخ پارے  پر پختہ یقین رکھتے  ہیں۔  ان لوگوں کا مانناہے کہ نیوٹن پارس پتھر کی تلاش میں کامیاب ہوچکا تھا اور حکیم ابن مقنی  ٰ نے  سرخ پارہ حاصل کرلیا تھا جس کی مدد سے ہی وہ ایک مصنوعی چاند بنانے میں کامیاب رہا تھا۔

  1970 کی دہائی میں  بھی  ایسی ہی افواہیں گردش میں تھی کہ سوویت یونین نے کئی تجربات کی مدد سے سرخ پارہ حاصل کرلیا تھا۔ 

ایک معتبر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق  سن 2014 میں دنیا کی ایک امیر ترین دہشت گرد تنظیم  نے   عالمی  اسلحہ  اسمگلروں  کو4 ملین ڈالرز کاکانٹریکٹ صرف اور صرف ریڈ مرکری حاصل کرنے کے لیے دیاتھا۔ جبکہ اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بہت سے اسلحہ ڈیلرز اور مسلح  گروپس  نے اس تنظیم  کو سرخ پارہ فراہم کرنے کا  دعویٰ بھی کردیا، یہ تمام کے تمام دعوے  بعد میں فراڈ ثابت ہوئے۔   

یہ بات منظر عام پر اس وقت آئی جب اسلحہ اسمگل کرنے والا ایک گروہ گرفتار ہوا اور اس کے موبائل فون سے  سرخ پارہ کے کانٹریکٹ اور اس سے متعلقہ پیغامات اورتصاویریں ملیں۔

آج بھی سری لنکا  کے تامل ٹائیگرز  ، روس، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت  تقریبا ہر  مسلح  تنظیم اور ہر اسلحہ ساز گروپ کے لیے  سرخ پارہ  ایک سہانا خواب ہے۔   ان تنظیموں کا اب بھی ماننا ہے کہ سرخ پارہ ایک سپر ہتھیار ہے جس کے ہاتھ میں آتے ہی وہ دنیا کی سپر پاور بن سکتے ہیں۔      یہ سہانا خواب ان کے لیے ایک خواب ہی ثابت ہوگا، کیونکہ سرخ پارہ کا وجود صرف جادوئی داستانوں اور سائنس فکشن فلموں میں ہی ہے۔ سرخ پارہ جیسی کوئی جادوئی شے وجود نہیں رکھتی۔

ماورائی سپاہی

Psychic Warriors

جنگ عظیم اول و  دوم  کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک نے  1960 اور 1970 کی دہائیاں ذہنی سوچ کی ذریعے  چیزیں تباہ کرنے جیسے تجربات پر صرف کیں۔   امریکہ کی خفیہ ایجنسی  سی آئی اے جسے دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیز میں شامل کیا جاتا ہے۔  روس کے ساتھ ہونے والی سرد جنگ کے دوران سی آئی اے ایسے افراد کی تلاش میں سرگرداں رہی جو روحانی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ایسے لوگ جن میں ایسی باطنی قوت موجود ہوں  کہ وہ عام حواس خمسہ سے ماورا کسی اور طریقہ سے ان باتوں کا ادراک کرلیتے ہیں جو ابھی واقع نہ ہوئی ہوں یا عام ذرائع سے ان تک اس کا ذکر نہ پہنچا ہو۔  ان کا مقصد  ایسے افراد کی مدد سے اپنے دشمنوں کے دماغ میں  جھانک کر ان کے ارادے  اور مستقبل کے منصوبے جان لیناتھا۔ 

ایسے افراد کو سائیکک واریرز  یعنی ماورائی صلاحیتوں والے سپاہی  کا نام دیا گیا۔

ان ماورائی سپاہیوں  میں  سب سے زیادہ شہرت اُوری گیلر Uri Geller نامی ایک برطانوی نوجوان کو ملی، یہ شخص اپنے دماغ کے ذریعے کسی بھی قسم کی دھات کو کنٹرول کرنے اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے دوسرے افراد کے دماغ میں چل رہے منصوبوں کو بھانپ لینے میں ماہر مانا جاتا تھا۔

اُوری گیلر ذہن کی قوت سے ناصرف لوگوں کے خیالات پڑھ لیتا بلکہ اسٹیل کی سخت چیزوں کو موڑ بھی دیتا تھا۔  یعنی اس کی ٹیلی پیتھی محض خیال کی ترسیل و وصولی تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ذریعے وہ تصرف بھی کرتا تھا۔  وہ ایک ساؤنڈ پروف کمرے میں بیٹھ کر باہر ہونے والی گفتگو کا احوال بھی سنا دیتا۔  ایک آدمی ایک تصویر لیے ایک کمرے میں بیٹھا ہوتا تو گیلر  دوسرے کمرے میں بیٹھ کر اس تصویر کی ہوبہو نقل بنادیتا تھا۔ 

سی آئی اے نے ایسے افراد کی مدد سے کیا کیا مقاصد حاصل کیے کسی کو نہیں معلوم۔ لیکن دفتری دستاویز میں اسے امریکی تاریخ کا ایک ناکام ترین تجربہ کہا جاتا ہے۔ 

اس سے قبل بھی دو  ایسے ہی غیر معمولی بصیرت وذہانت کے حامل افراد کا ذکر ملتا ہے۔ یہ جیرارڈ کروئسٹ Gerard Croistاور پیٹر ہرکوس Peter Hurkos جو ہالینڈ سے تعلق رکھتے تھے۔

جرارڈ کروائسٹ   کسی شے کو پکڑ کر  اس کے مالک  کے چیدہ چیدہ حالات  بتادیتا تھا۔ پیٹر ہرکوس Peter Hurkosبھی لوگوں کے ذہن پڑھنے کا دعویٰ کرتاتھا۔  

ان دونوں نے اسکاٹ لینڈ یارڈ  سمیت کئی خفیہ اداروں کے لیے کام کیا اور  قتل، اِغوا اور چوری سمیت درجنوں کیسز  کی گتھیاں سلجھائیں۔ 

خفیہ ایجنسی میں  نجومی

Astrologer in MI5

کوئی بھی فوج اپنی آدھی جنگ اس وقت جیت لیتی ہے کہ جب اسے اپنے دشمن کی اگلی چال کا پہلے ہی پتہ ہو۔ اسی لیے جنگ سے قبل جاسوسی نظام  اور خبر رسانی  کے ذرائع  مضبوط بنائے جاتے ہیں۔ لیکن ایک ایسے دشمن کا کیا کیا جائے جو اپنی جنگی چالیں زیوڈک سائنز، نجومی، ستارہ شناسوں  اور ماورائی علوم کے ماہرین کی مدد سے طے کرتا ہو۔

یہاں بات ہورہی ہے ہٹلر کی، جو میدان جنگ کی حکمت عملی  ماہر جرنیلوں کے بجائے ستارہ شناسوں اور نجومیوں  کی مدد سے ترتیب دیتا تھا۔

جنگ عظیم دوم کے دوران برطانوی وزیر اعظم ونسٹنٹ چرچل کے Ministry of Ungentlemanly Warfare کے زیر نگرانی کام کرنے والے  ایک  خفیہ ادارہ Special Operations Executive (SOE) کے ارکان یہ سراغ لگانے میں کامیاب ہوگئے  کہ ہٹلر اپنے دور کے ایک مشہور زمانہ نجومی کارل ایرنسٹ کرافٹ Karl Ernst Krafft سے روزانہ ملاقات اور تبادلۂ خیال کرتا ہے۔

یہ معاہدہ ہونے پر  برٹش انٹیلی جنس ایجنسی   MI5 نے نجومی کا توڑ نجومی سے نکالنے کی خاطر لوئس ڈی وولLouis de Wohl نامی ایک جرمن نژاد ہنگرین نجومی  سے رابطہ کیا۔ یہ نجومی ہٹلر کے زائچوں کے مطابق اس کی ماہانہ وار ہورواسکوپ   رپورٹ   برٹش ملٹری کو ارسال کیا کرتا۔جی ہاں وہی ہورواسکوپ  رپورٹ جو مختلف اخباروں اور رسالوں میں  یہ ہفتہ کیسے گزرے گا کہ عنوان سے شائع ہوتی  ہیں۔

جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کی شکست پر لوئس ڈی وول نامی یہ نجومی انتہائی غلط فہمی کا شکار ہوکر یہ سمجھنے لگا کہ ہٹلر کی تباہی میں سراسر اس کا ہاتھ تھا۔  چنانچہ اس نے کئی دن ایک فوجی کی وردی پہن کر لندن کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے گزارے۔

وہ ہر  آنے جانے والے کو یہ بتاتا کہ کس طرح  اس  نے جرمنی کو تباہ کرنے میں اہم کردار کیا۔

بعد ازاں ہٹلر اور جرمن نجومی کرافٹ کی ملاقاتیں بھی محض افواہیں ثابت ہوئیں۔

ڈاؤزنگ : طلسمی چھڑی

Dowsing

ڈاؤزنگ ایک ماورائی  اورپراسرار مانا جانے والا قدیم فن ہے، جس میں ڈاؤزنگ  علم کا ماہر کسی دو شاخ والی چھڑی کی نوک کو ماورائی  طاقتوں کے زیر اثر استعمال کرکے  زیر زمین پانی یا معدنیات کے صحیح مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔

دورِ قدیم میں مختلف قومیں  اس فن کی مدد سے زیر زمین پانی کی تلاش جیسے کام سر انجا م دیتی تھیں۔   لیکن سائنسی ماہرین  کی رو سے ڈاؤزنگ سے ہونے والے پانی کی تلاش محض اتفاقیہ امر ہے۔   اس کے پیچھے کوئی سائنسی توجیہہ کارفرما نہیں ہے۔

یہ فن موجودہ سائنسی دور میں بھی  اسی طرح جاری و ساری ہے۔

عراق میں کروڑوں  ڈالرز خرچ کرنے کے بعد ڈاؤزنگ کے لیے ADE 651نامی ایک ڈیوائس بنائی گئی  جو بالکل  قدیم ڈاؤزنگ کے اصولو ں پر کام کرتی تھی۔ جبکہ ایسٹونیا نامی ملک میں آج بھی ڈاؤزنگ جیسے عمل کو زیر زمین مائنز اور بمب تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ویت نام وار میں کئی ویت نامی فوجی بھی اپنی کامیابی کا سہرا ڈاؤزنگ جیسے دقیانوسی  اور پراسرار عمل کو قرار دیتے تھے۔

ان تمام باتوں سے قطعۂ نظر ڈاؤزنگ نامی اس عمل کی کوئی سائنٹفک حقیقت نہیں۔ یہ صرف ایک واہمہ ہے۔

کئی ممالک اس ڈیوائس کو غیر موثر قرار دے کر پابندی عائد کردی گئی اور دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے اے ڈی ای 651 اور اسی طرح کے دیگر آلات پہلی بار بنانے والے کئی افراد دھوکہ دہی کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

موت کی لہریں

Death Ray

الفاریز، بیٹا ریز اور گیما ریز اور ایکس ریز جیسی شعاعوں کے بارے میں تو آپ نے سن رکھا ہو گا مگر کیا آپ نے ’’ڈیتھ ریز‘‘(موت کی شعاعیں) کے متعلق پڑھا ہے۔ ویسے تو اسٹار وار جیسی سائنس فکشن فلموں اور مظہر کلیم ایم اے کے عمران سیریز جیسے جاسوسی ناولوں میں ڈیتھ ریز کا کافی ذکر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیتھ ریز سے موت کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں مائیکروویو اور الیکٹرو میگنیٹک لہریں خارج کرنے والا ایک سسٹم جو دشمن ڈرون کو ہوا میں ہی جلا کر بھسم کرسکتا ہے۔ جو کسی بھی ڈرون طیارے، میزائل یا ایٹمی ہتھیار کو ایک کلومیٹر کے فاصلے سے ناکارہ بنا سکتی ہیں۔ ان شعاعوں کے ذریعے کسی بھی فضائی طیارے یا میزائل کا ریڈیوسسٹم ناکارہ کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیتھ ریز کی وجہ سے اس کو آپریٹ کرنے والے اس کا کنٹرول کھو دیں گے جس سے وہ گر کر تباہ ہو جائے گا۔
1930 کی دہائی کےدوران کہ جب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید طیارے تیار ہوچکے تھے۔ برٹش حکومت نے ان طیاروں کی حفاظت اور انہیں تباہی سے بچاؤ کی خاطر ایک کمیٹی Committee For The Scientific Survey Of Air Defence (CSSAD) قائم کی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ہی دنیا بھر میں ایک افواہ پھیلی کہ جرمنی کے نازی ایک ایسا جادوئی ہتھیار تیار کررہے ہیں جسے ڈیتھ رے Death-Ray کا نام دیا گیا ہے۔ اس ہتھیار کے ذریعے زمین و آسمان میں موجود وہ اپنے ہر طرح کے دشمن کو ختم کرسکیں گے۔ اس افواہ کے پھیلتے ہی برٹش ایئر ڈیفنس کمیٹی نے دنیا بھر سے ایسی ٹیمز کو جمع کرنا شروع کردیا کہ جو انہیں بھی ڈیتھ رے جیسا ہتھیار بنا کر دےسکیںتھیں۔
پیسے کو خوب پانی کی طرح بہانے کے بعد برٹش گورنمنٹ کی جانب سے یہ پروجیکٹ بند کردیا گیا ۔ بعد ازاں نازیوں کا ڈیتھ رے بھی محض جھوٹ کا ایک پلندہ ہی ثابت ہوا۔

قسمت کا نیزہ

Spear Destiny

آپ کو کیپٹن امریکہ نامی ہالی ووڈ مووی کا ولن تو یاد ہوگا، جو ہائیڈرا HYDRA نام کی ایک خفیہ تنظیم کا سرغنہ تھا۔ درحقیقت یہ ایک حقیقی کردار تھا جبکہ ہائیڈرا جیسا پراسرار ادارہ بھی حقیقت میں موجود تھا۔ اس ادارے کا اصل نام احننرب Ahnenerbeتھا، جس کا مطلب ہے آباؤ اجداد کی میراث۔
اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں پھیلی پراسرار اور جادوئی چیزیں جمع کرنا تھا جن کی مدد سے نازی آرمی کو مضبوط بنایا جاسکے اور پوری دنیا پر جرمن جھنڈا لہرایا جاسکے۔
احننرب نامی اس ادارے نے جزیرۂ آئس لینڈ میں وہ جادوئی سرزمین دریافت کرنے کے لیے ایک مشن روانہ کیا تھا جہاں آرین نسل کی پیدائش ہوئی، ایک مشن ایتھوپیا نامی ملک بھیجا جس کا مقصد حضرت موسیٰ کے تبرکات والا تابوت سکینہ Ark Of The Covenant حاصل کرنا تھا، ایک جانب تبت کے علاقے میں ییٹی Yeti نامی مخلوق کی تلاش بھی شروع کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مشن فرانس کے صوبے لانگویڈوک Languedoc میں بھیجا تاکہ وہاں سے حضرت عیسٰی سے منسوب مقدس پیالہ Holy Grail تلاش کرسکیں۔
اسی ادارے نے سب سے پہلے سوچ کے ذریعے ذہن پڑھنے مائنڈریڈ (Mind Read)کرنے والے افراد کو جمع کرنا شروع کیا ۔
احننرب کی ہی مدد سے ہٹلر نے دی اسپیئر آف ڈیسٹنی Spear Of Destiny نامی نیزہ بھی حاصل کرلیا تھا،جس کے بارے میں یہ روایات مشہور ہیں کہ جادوئی صلاحیتوں کاحامل یہ نیزہ جس بادشاہ کے ہاتھ لگا اس نے کبھی شکست نہیں کھائی۔ ایک واضح مثال کنگ شارلیمن کی تھی جو لگاتار 47 جنگوں میں فتح یاب ہوا لیکن جیسے ہی یہ نیزہ اس کے ہاتھ سے گیا، شارلیمن بھی دنیا سے چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ نپولین نے بھی اس نیزے کے حصول کی کوشش کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ہٹلر اس نیزے کی پراسرار طاقتوں پر اس حد تک یقین رکھتا تھا کہ جیسے ہی جرنل پیٹن General Patton کے زیر قیادت امریکی فوج نے اس نیزے پر قبضہ کیا اس کے کچھ دیر بعد ہی ہٹلر نے خودکشی کرلی۔
یہ نیزہ جسے ہولی لینس Holy Lance بھی کہا جاتا ہے آج کل کہاں ہے کسی کو پتہ نہیں کیونکہ کئی ایسے مقامات ہیں جہاں ہولی لینس رکھے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ایک ویینا میوزیم آسٹریا، سینٹ پیٹر بیسلیکا ویٹیکن سٹی ، واغارشاپات آرمینیا اور پولینڈ وغیرہ جبکہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نیزہ آج بھی امریکہ کے قبضے میں ہے۔

 

قسمت والا نیزہ…..

کہتے ہیں کہ جس حکمران یا جس ریاست کے پاس یہ قسمت والا نیزہ ہوگا اسے جنگ میں شکست نہ ہوگی۔ صدیوں پرانا نیزہ مختلف حکمرانوں کے پاس سے ہوتا ہوا جرمنی کے حاکم ایڈولف ہٹلر کے ہاتھ آیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل پیٹن (Pattan) کی زیر کمان امریکہ افواج اس نیزے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ نیزہ جرمنوں کے ہاتھ سے چھن جانے کی خبر سن کر ہٹلر حوصلہ ہار گیا تھا اور اس نے خود کشی کرلی تھی۔

 

 

 

Liked Liked
No Comments