تصوّف کی شہرہ آفاق اور لازوال کتابیں

[box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] تاریخ کے صفحات کے مطالعے سے روزِروشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ انسانی معاشروں کو  مختلف ادوار میں مادی آلائشوں اور اخلاقی رذائل کے باعث ابتری کا سامنا رہا  ہے۔ معاشرے میں پھیلی ذہنی آلائشوں، علمی کثافتوں اور فکری غلاظتوں کے سدِ باب کے لیے امت میں ایسے  نابغہء روزگار ہستیاں  بھی ہمیشہ جنم لیتی رہی ہیں جن سے علم و معرفت، حکمت و دانش اور فہم و فراست کے چراغ روشن ہو تے ہیں۔   
[/box] –
پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

مسلمانوں میں ابتدا سے ہی ایک گروہ ایسا موجود ہے جس نے اپنا نصیب المعین یاد خدا و ذکر الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا، سکون و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا۔   رفتہ رفتہ اس مسلک کا نام مسلکِ تصوف پڑ گیا اور یہ گروہ گروہِ صوفیہ کہلانے لگا۔   

اولیاء اللہ  نے تزکیہ قلب، سکون، مشاہدہ اور باطنی اسرار کے لئے کتابیں تصنیف کیں۔    تصوف کی نمایاں  کتابوں مثلا  مثنوی مولوی  از مولانا رومی، کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری، احیاء العلوم و کیمیائے سعادت از امام غزالی، منطق الطیر و تذکر الاولیا از شیخ فرید الدین عطار، فتوح الغیب  از شیخ عبدلقادر جیلانی، العوارف المعارف از شیخ سہروردی، انیس الارواح از عثمان ہرونی،  دلیلل العارفین از خواجہ معین الدین چشتی، راحت القلوب  و اسرار الاولیاء از بابا فرید گنج شکر،  فوائد الفواد و راحت المحبین از شیخ نظام الدین اولیا، خیرالمجالس و مفتاح العاشقین  از شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی قوت القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حلیۃ الاولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالہ القشیری از امام قشیری  وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملا بھی کتاب و سنت کی پیروی کی تلقین ملے گی۔ 

صوفیائے کرام   نے اپنی تصانیف کی مدد سے یہ سکھانے کی کوشش کی کہ  اتباع کتاب و سنت میں انتہائی سعی کی جائے۔  اوامرو نواہی کی تعمیل کی جائے، اطاعت و عبادت کو مقصود حیات سمجھا جائے، قلب کو ما سوا کی محبت اور تعلق سے الگ کیا جائے، نفس کو خشیت الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور  تزکیۂ باطن کی سعی و جہد کا کوئی  دقیقہ فرد گزاشت نہ کیا جائے۔    

صوفیائے کرام   نے اپنی تصانیف کے ذریعے دنیا کو امن، عدم تشدد، محبت وبھائی چارہ کا درس دیا۔ صوفیہ نے پوری دنیا میں محبت کا پیغام پھیلایا   اور بتایا کہ  تصوف کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک سے ایساروحانی رشتہ جوڑے کہ اسے اپنے دل کے آئینے میں ساری دنیا کا عکس نظرآنے لگے۔ 

مسلم صوفیا کی بعض کتب کو مسلم دنیا میں اہمیت حاصل رہی اور ان  کا مسلم تاریخ اور ثقافت کے فروغ میں بڑا کردار ہے،   ان کتب نے عالمی طور پر بھی سماجی علمی ادبی و ثقافتی سطح پر دنیا پر اپنے مثبت اثرات چھوڑے  ہیں۔ 

   صوفیا کرام کے  محبت اور انسان دوستی کے  فلسفیانہ نظریات، مغربی خیالات و تصوّرات پر مختلف انداز سے  اثر انداز ہوئے  ہیں۔ مسلم صوفیا نے اپنی تعلیمات سے مغرب کو بتایا  کہ اُسے  قدیم  اور  ہم عصر ذہنوں  سے  رشتہ قائم کرنا چاہیے  جو اعلیٰ انسانی اقدار کی تشکیل کرتے  رہے  ہیں اور آج بھی ہیومنزم  کی قدر و قیمت کا احساس دلا رہے  ہیں۔  مغرب میں  ہیومنزم  یا انسان دوستی کی تحریک کو زندگی بخشنے  میں  یہی صوفیانہ نظریات ہمیشہ پیش پیش رہے۔ صوفیا  کا اخوت ومحبت کا یہ پیغام آج بھی بامعنیٰ ہے جو دنیا بھر میں انسانوں کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرسکتا ہے۔  

زمانی حدود سے ماورا ہو رک صدیوں سے دنیا بھر کے انسانوں کو ذہنوں اور قلوب کی روشنی عطا کرنے میں مسلم صوفیاء کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی لافانی شہرت کے حامل بن گئے ہیں۔ ان میں خاص طور پر دنیا بھر میں اپنے وسیع تر حلقہ قارئین کے لھاظ سے دیھا جائے تو ان ہستیوں میں مولانا جلال الدین رومی  (مثنوی معنوی)، محمد ابو الحامد امام غزالی (کیمیائے سعادت)، شیخ فرید الدین عطار (منطق الطیر)، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (فتوح الغیب) اور حضرت علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش (کشف المحجوب) کے اسمائے گرامی نمایاں ترین نظر آتےہیں۔  آئیے ان ہستیوں کے مختصر ذکر اور ان کی کتابوں کے چند حوالوں سے اپنی علمی پیاس کی کچھ سیرابی اور اپنی ذہنی ، قلبی  اور روحانی تسکین کا کچھ سامان کریں۔

مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

مثنوی معنوی

مولانا جلال الدین رومیؒ

مولانا رومیؒ کا نام کس نے نہیں  سنا اور ان کی مثنوی سے کون واقف نہیں  ہے۔ 

تیرہویں صدی عیسوی کےمشہور جلال الدین رومی کا شمار ایسے شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا کلام صدیوں کی گرد اُڑنے کے بعد بھی دھندلا نہیں ہوا بلکہ اُن کے اشعار کو پڑھ کے دلوں کے آئینے شفاف تر ہوتے جاتے ہیں اور روحوں کی کثافتیں دور ہو جاتی ہیں۔ آپ کے اشعار پڑھنے والے کے دل میں اترتےجاتے ہیں۔     

رومی  کا روشن کلام اسرار و رموز کا ایک خزینہ اور معرفت و عرفان کا ایک گنجینہ ہے۔ آپ کی شاعری میں اللہ اور نبی کریمﷺ سے محبت کا اظہار ہے، پند و نصائح کے موضوعات  ہیں ،  ان میں فلسفیانہ عقائد جھلکتے ہیں، حکمت کا رنگ نمایاں ہے، سوز وگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔  

مولانا رومی کا کلام ایک طرف تو حکمت اور اعلیٰ خیالات کا گنجینہ ہے دوسری طرف شاعری کے محاسن سے پُرہے۔  اُن کے کلام میں  سادگی بھی ہے، سوزو گداز بھی ہے ، عشق کی وارفتگی بھی اور  وحدت کا اظہاربھی ہے۔ عشقِ نبویﷺ کا اظہار بھی،  حیات و کائنات کے مسائل کا بیان بھی ہے۔

 واقعت نگاری ہو یا قصہ گوئی ، وعظ و نصیحت ہو یا درسِ اخوت و مساوات ، ہر فن میں طاق ہیں ۔ اُن کے اشعار معنویت کا گہرا دریا ہیں اور تصوف کی نئی جہتوں کے عکاس ہیں۔

مولانا کی شہرۂ آفاق تصنیف مثنوی روم شاعری کی ایسی عظیم و جلیل کتاب ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عالمی ادب میں اس کا حریف نظر نہیں آتا۔مثنوی مولانا رومؒ  کو دنیا کے ادبِ عالیہ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ شاعری کی کسی کتاب کو اس قدر احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ، جتنا احترام  رومی کی شاعری کو  حاصل  ہے۔  

 سات سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ کلام عالمی ادب میں بے نظیر ہے۔   عالمی سطح پر ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی  ،  ایران اور پاک و ہند میں  مثنوی کو ایک نہایت محترم کتاب کا درجہ حاصل رہا ہے  وہیں آپ کو یہ جان کر بھی شاید حیرت  ہوگی کہ رومی کی شاعری امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کلام  ‘‘بیسٹ سیلرز ’’ میں سے ہے۔ یہی نہیں رومی کی شاعری کی تشریح کرنے والے امریکی شاعر کولمین بارکس(Colman Barks)کی کتابیں بھی اتنی ہی شہرت کی حامل ہیں۔  مولانا رومیؒ کا زیادہ تر کام فارسی میں ہے، مگر رومی کا مکمل کلام 26 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، فارسی سے ترکی، عربی، انگریزی، جرمن، سویڈش، اٹالین، اردو، فرنچ، جاپانی،   البانوی، اسپینش، ترکمان، کزخ، تاجک، چینی، یونانی، روسی، آذر بائجانی، ملائی، سواہلی، کُردی، بوسینائی، ڈچ اور کرغز  زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے ، جبکہ  پرتگالی اور  یغور  زبان میں ترجمہ زیر تکمیل ہے۔

ترکی میں  قونیہ میٹرو پولیٹن بلدیہ  نے  آنے والے دنوں میں  مثنوی معنوی کا ترجمہ  50 زبانوں میں کرنے کا ہدف  طے کیا ہے۔   زبانوں کی یہ تعداد    محض مکمل کلام یعنی ‘‘مثنوی معنوی ’’کے ترجمہ کی ہے۔ اس کے علاوہ  رومی کے منتخب کلام پر مشتمل تصانیف دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ روزانہ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر مولانا رومی کے اشعار پوسٹ اور شئیر کئے جاتے ہیں۔ مولانا رومی کے بارے میں کئی دستاویزی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔  رومی ایک عالمی مفکر ہیں  اور دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں ۔ 

ایک اندازے کے مطابق رومیؒ وہ بزرگ علمی ہستی ہیں جن کے کلام اور کتب کو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے نے عام کیا ہے۔ یورپ انہیں اپنا مانتا ہے، ایشیاء ان پر اپنا حق سمجھتا ہے جبکہ باقی دنیا ان کے پیغام کو محبت کا بنیادی جزو تسلیم کرتی ہے۔  ہم سے زیادہ تو مغربی دنیا میں  لوگ ان کے کلام سے واقف ہیں۔

یہ چودھویں  صدی کی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام اور اسلامی فلسفہ، تصوف کے بارے میں  دلچسپی لینا شروع کی اور خاص طور پر فارسی زبان کی اعلیٰ کتب کا اپنی زبانوں  (خاص کر انگریزی، فرانسیسی اور جرمن ) میں  ترجمہ کرنا شروع کردیا۔ اس طرح ایک جانب تو وہ ہمارے مذہب و فلسفہ سے واقفیت حاصل کرنے لگے اور دوسری جانب اسلام کے اعلیٰ اصولوں  و قوانین کی قدر بھی کرنے لگے۔   اس کے نتیجے میں  کئی دانشوروں  نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے ممالک میں  اپنے ہم زبانوں  کو اِسلام کے سنہرے اُصولوں  کے بارے میں  بتلایا۔

یہ سلسلہ عمر خیامؒ کی رباعیات سے شروع ہوا، پھر طوسیؒ، عطارؒ، سعدیؒ اور رومیؒ وغیرہ کے کلام کے ترجمے ہوئے۔ مغرب نے مولانا رومیؒ کا صوفیانہ تخیل بہت خوشی سے اپنایا۔ جرمن دانشور اَنے مری شِمل نے ان کے کلام کا انگریزی اور جرمن زبانوں  میں  ترجمہ کرکے لوگوں  کو مسحور کردیا۔

جو کوئی بھی رومی کو جانتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ ان کا راستہ خدا سے محبت کا راستہ ہے۔  مولانا رومی کا طریقہ صرف اور صرف خدا کی محبت ہے۔  بقول رومی ‘‘سچائی کے بے شمار راستے ہیں گر جو راستہ میں نے چنا وہ محبت ہے’’۔

رومی کا سبق تھا محبت ،رومی کا پیغام تھا محبت، رومی کا مقصد تھا محبت، رومی کا اوڑھنا تھا،محبت رومی کا بچھونا تھا محبت۔  محبت کا دوسرا نام اگر رومیؒ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ رومی کو اپنا راہ نما تسلیم کرتے تھے اور اپنی شاعری میں انہوں نے رومی  کی شمس تبریز ؒ سے عقیدت اور عشق کو مثال بنا کر پیش کیا ہے۔  امریکہ میں  ‘‘آ گفٹ آف لو’’ (A Gift of Love)کے نام سے پورا ایک مکتب فکر ہے جو رومی پر تحقیق کے موقع فراہم کرتا ہے۔اسی حوالے سے ایک دستا ویزی فلم ‘‘رومی، پوئٹ آف دا ہارٹ’’ (The Point of The Heart) کے نام سے بنائی گئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

 

[box type=”success” align=”” class=”” width=””]

عشق اور  رومی

عقل جزوی را وزیر خود مگیر
عقل کل را ساز ای سلطان وزیر
عقل جزوی عقل را بدنام کرد
کام دنیا مرد را ناکام کرد

مولانا کے نزدیک عقل کی دو قسمیں ہیں ایک عقل جزوی جو ناقص ہوتی ہے، جو بحث و استدلال ظن و تخمین نفاق اور مصلحت اندیشی کی خوگر ہوتی ہے اور یہ عقل دنیا والوں کی ہے۔ دوسری عقل کلی ، جس کا تعلق اہل اللہ سے ہوتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر و فکر یقین و ایمان اور عشق کی خوگر ہوتی ہے۔ یہی حکمت دینی عقل کلی سالک کو عش کا خوگر بناتی ہے جو ہرادنی اور ہر اعلیٰ چیز کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور قوت فعال بھی۔ [/box]


مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

کیمیائے سعادت

حضرت امام غزالیؒ

کیمیائے سعادت ابوحامد محمد الغزالی  المعروف امامغزالی کی شاہ کار تصنیف ہے۔ یہ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔  کیمیائے سعادت امام غزالی کی اہم تصنیف “احیاء العلوم الدین” کا خلاصہ ہے جو  پہلے اکسیر ہدایت کے نام سے عربی زبان میں لکھی گئی تھی بعد میں خود امام غزالی ہی نے اس کا ترجمہ فارسی میں “کیمیائے سعادت” The Alchemy of Happiness کے نام سے کیا۔   اس عظیم کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور یہ حسب ذیل چار عنوانات اور چار ارکان پر مشتمل ہے :

نفس کی پہچان اللہ تعالی کی پہچان

دنیا کی پہچان آخرت کی پہچان

ارکان: عبادات معاملات

مہلکات(ہلاک کرنے والی اشیاء)

منجات( نجات دینے والی اشیاء)

اس کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور اس کی بنیاد دین پر ہے۔ غزالی مشکل سے مشکل بات کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی سہولت سے سمجھادیتے ہیں۔ استدال کی غرض سے غزالی نے قرآنی آیات اور حدیث نبوی سے اپنے کلام کو زینت بخشی ہے۔ کبھی کبھی فلسفانہ نکتے کو واضح کرنے کے لیے اس کی تشریح بھی کردیتے ہیں لیکن تفصیل میں غیر ضروری چیزیں شامل نہیں آنے دیتے ہیں۔

    محمد الغزالی کی تخلیقات نے  مغربی  تصوّرات و خیالات کو بڑی شدّت سے  متاثر کیا ہے، مغربی مزاج کی تبدیلی میں  اُن کا بڑا  حصہ ہے۔ ابوحامد محمد الغزالی کو مغرب کے  علما  اور  اسکالر الغازل (Algazel) کہتے  تھے۔

منطق، فلسفہ، فقیہ، مذہب  اور  رُوحانیت کے  مسائل پر الغزالی کے  کارنامے  عظیم ہیں۔ دمشق، یروشلم، اسکندریہ،  ّمکہ  اور  مدینہ وغیرہ کے  سفر میں  اُنھوں  نے  اپنے  مطالعے  کو بڑی وسعت بخشی تھی۔ اپنے  عہد کے  رُوحانی مسائل پر اُن کے  خیالات بہت قیمتی ہیں۔ دینیات کی جدلیات، تصوّف  اور  مذہب، فیثاغورث  اور  عوامی فلسفہ، نوافلاطونی فلسفیانہ خیالات وغیرہ ایسے  موضوعات تھے  کہ جن پر اُنھوں  نے  اظہارِ خیال کیا۔ ان کا ہر تجزیاتی مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ 

الغزالی عالم اسلام کے  ایک روشن خیال مفکر ہیں۔  آپ مسلمان مفکروں  میں  انتہائی ممتاز درجہ رکھتے  ہیں۔ غزالی  کے  نزدیک تجربہ، عقائد  اور  مذہبی اصولوں  سے  زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اُن کی دیگر تصنیفات میں  احیاء العلوم ، معیار العلوم ، محک النظر ، موحۃ الالغار   اور  شکوۃ الانوار  وغیرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد الغزالی نے  اسلام میں  قدامت پسند نظریے  کی مخالفت کی  اور  تصوّف کی لچک  اور  اُس کے  جمال کا احساس گہرا کیا۔ ان کی تصانیف کے  مطالعے  سے  یہودی  اور  عیسائی مذہبی رہنماؤں اور اسکالرز نے  اسلام کی داخلی معنویت کو سمجھنے  میں  کامیابی حاصل کی۔ خود مسلمان قدامت پسندوں  نے  الغزالی کی تحریروں  کی روشنی میں  اسلام کی سچائی کو پانے  کی اپنے  طور پر کوشش کی۔ الغزالی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے  کہ ان کے  صوفیانہ افکار و خیالات نے  عیسائی مسٹی سیزم کو بڑی شدّت  سے  متاثر کیا۔ غزالی کا نظریہ  مغرب کے  فلسفیوں  کے  دل میں  اُتر گیا  اور  وہ اسلامی تصوّف کے  مطالعے  کی جانب آہستہ آہستہ بڑھے اور پھر اپنے  مطالعے  سے  قرآن حکیم کے  ارشادات کی خوشبوؤں  سے  آشنا ہوئے۔ مغرب میں  اسلامی دینیات سے  دلچسپی بڑھی  اور  ساتھ ہی الغزالی کے  خیالات کی روشنی میں  اسلامی تصوّف کے  جمال کو سمجھنے  کی کوششیں  شروع ہوئیں۔ 

مشہور شاعر چوسر (Chaucer) نے  مولانا رومی، فریدالدین عطاّر  اور  محمد الغزالی کی علامتوں  سے  بڑی روشنی حاصل کی۔عہد وسطیٰ کے مسیحی پوپ توما ایکویناس ، یہودی فلاسفر موسیٰ بن میمون سے لے کر  راجر بیکن، رینے ڈیکارٹ   کے فلسفے کی تحریروں پر  امام غزالی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ 

امام غزالی کی تصنیف کیمیائے سعادت کا ترجمہ ترکی، اردو، آذربائجانی، انگریزی  اور جرمن سمیت  کئی یورپی زبانوں میں ہوا ہے۔ امام غزالی کا کلام  نو سو سال گذر جانے کے باوجود آج بھی مقبول ہیں۔  

[box type=”success” align=”” class=”” width=””]

دل کا آئینہ 

آدمی کا دِل آئینے کی طرح ہے۔ جو کوئی اِس میں غور کرے گا، خدا کو دیکھے گا، اور بہت سے لوگ اپنے میں غور کرتے ہیں مگر خدا کو نہیں پہچانتے۔ تو جس اعتبار سے دِل کی معرفت کا آئینہ ہے، اُس لحاظ سے دِل کو جاننا ضروری ہے۔
[کیمیائے سعادت، امام غزالی؛ باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔مطبوعہ لاہور۔ 1999ء]
[/box]

مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

منطق الطیر

شیخ فرید الدین عطارؒ

نیشاپور (ایران )کے مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا شمار صوفی اکابرین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نظم اور نثر میں کمال پیدا کیا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ عطر اور ادویات ساز تھے۔ آپ فارسی شاعر، صوفی اور ماہر علوم باطنی بھی تھے۔  آپ کی کتاب ‘‘منطق الطیر’’ The Conference of the Bird تصوف کی ہر دلعزیز کتاب ہے اس کے علاوہ آپ نے ایک کتاب  ‘‘تذکرہ اولیا’’ بھی لکھی۔ 

حضرت فرید الدین عطار  کا علمی خاصہ اور اثر آج بھی فارسی شاعری اور صوفیانہ رنگ میں نمایاں ہے۔یہاں تک کے مولانا رومی بھی آپ سے متاثر تھے،   کہا جاتا ہے کہ   مثنوی لکھے جانے کا آغاز تب ہوا جب ایک روز مولانا روم  کے خادم حسام الدین چلبی نے آپ سے  کہا کہ اگر وہ شیخ حکیم ثنائی کے “الہی نامہ” کی طرز پر اور فرید الدین عطار کی “منطق الطیر” کی بحر میں ایک کتاب تحریر کریں تو یہ آنے والی نسلوں کی یاداشت میں ایک زندہ رہنے والی تحریر ہو گی اور اس سے اللہ سے محبت کرنے والوں اور غم زدہ دلوں کو سکون میسر آئے گا- اور یوں مثنوی رومی وجود میں آئی۔ مولانا رومی عطار کو  خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں

ہفت شہر عشق را عطار گشت

ماہنوز اندر خم یک کوچہ ایم

(عطار نے عشق کے ساتھ سات شہروں کی سیرکی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ابھی گلی کے موڑ پرہیہیں)۔

شیخ فرید الدین عطار کی فارسی زبان میں لکھی ہوئی مثنوی  ‘‘منطق الطیر’’جو چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔   مثنوی کی کہانی میں انسانی کردار کے بجائے پرندے  مثلاً ہدہد، طوطی،مرغ، فاختہ، قمری، بلبل، باز وغیرہ  ہیں ،  یہ پرندوں کے سات وادیوں میں ایک تصوفانہ سفر کی کہانی ہے جو اُن کے افسانوی شاہ سیمُرغ کی تلاش میں کیا گیا۔ سیمُرغ ایرانی لوک کہانیوں کا ایک آفاقی پرندہ ہے۔  

کتاب منطق الطیر میں یہ سب پرندے ایک جگہ یکجا ہوکر اپنا بادشاہ منتخب کرنے پر بحث کرتے ہیں، ہدہد بادشاہت کے لیے سیمرغ کا نام تجویز کرتا ہے،   اس بات پر چند پرندے  معترض ہوتے ہیں جن کی اعتراض و سوالات سن کر ہدہد باری باری سب کا جواب دیتا ہے، سوالات وہی ہوتے ہیں جو عموماً ہر طالب و سالک کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات سلوک و طریقت کے مختلف مقامات ہوتے ہیں۔ آخرکار اپنے اس رہبر و مرشد (ہدہد) کی تبلیغ و تفہیم سے تمام پرندے شاہ سیمرغ کی اطاعت میں آجاتے ہیں اور ہدہد کی رہنمائی میں  سات وادیوں کا سفر کرتے ہیں۔

عطار کی مثنوی میں پرندوں کے سفر کے اس استعارے کا استعمال دراصل انتہائی شاعرانہ اور تصوفانہ طرز میں روح کے اپنے خالق تک پہنچنے کے سفر کو بیان کیا  گیا ہے۔

مثنوی میں ہفت وادی،میں ایک مشکل سفر کا بیان جو سات وادیوں سے گزرنے کا بے حد مشکل عمل ہے۔ یہ سات وادیاں، وادیٔ تلاش(طلب و جستجو)، وادیٔ الفت (عشق)، وادیٔ تفہیم (معرفت)، وادیٔ آزادی اورترکِ دنیا  (استغنا)، وادیٔ یک جہتی(توحید)، وادیٔ حیرت و سراسیمگی (حیرت) اور وادیٔ محرومی  (فنا ) کے نام سے  مسموم ہیں۔ 

تیس پرندے جب ہدہد کی رہنمائی میں یہ ساتواں وادیاں عبور کر لیتے ہیں تو انہیں وادی فنا میں سیمرغ کی بارگاہ دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ سیمرغ کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس میں اور  اپنے میں کوئی فرق دکھائی نہیںدیتا۔ سیمُرغ کوئی خارجی عنصر نہیں بلکہ خود اُن کی اپنی ذات ہے!….گویا وہ تیس پرندے علاماتی طور پر اپنی تلاش ہی میں چلے تھے اور اپنی دریافت  و خود شناسی پر ان کا سفر ختم ہوا۔ 

 

[box type=”success” align=”” class=”” width=””]

عقل و عشق

عشق اینجا آتش است و عقل دود
عشق کامد در گریزد عقل زود
عقل در سودای عشق استاد نیست
عشق کار عقل مادر زاد نیست
‘‘عشق یہاں آگ ہے اور عقل دھواں، جب عشق آتا ہے تو عقل جلد ہی رخصت ہو جاتی ہے….
عقل عشق کی راہ کا استاد نہیں ہے ،
دیکھو!عشق عقل والوں کا کام نہیں..’’

(ماخوذ از منطق الطیر، باب وادی عشق)

[/box]

مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

فتوح الغیب

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ

فتوح الغیب  Revelations of the Unseenسلسلہ قادریہ کے امام حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔

چھٹی صدی ہجری کے آغاز میں ارشاد وتلقین اور اصلاح احوال کا جو معرکہ  حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے بر پا کیا بعد میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ امام غزالی نے تصوف کو ایک فن کا درجہ دیا تو حضرت شیخ عبد القادرجیلانی نے عملی طور پر اس میں جان ڈال دی۔آپ کے وعظ انتہائی پر تاثیر ہوتے تھے۔ آپ نے جس وقت وعظ کی یہ محفلیں شروع کیں تو لوگ چاروں طرف سے آنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اس زندگی بخش اوریقین وایمان بخشنے والی آواز کو سننے کیلئے منتظر اور بیتاب تھے۔  حضرت سید عبد القادر جیلانی ؒ نے کھلے عام وعظ نصیحت کا طریقہ اخیتار کر کے لوگوں کے اعتقاد عمل میں جو انقلاب برپا کیا ،صوفیاء کے سلاسل میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے وعظ کے بنیادی مضامین تو حید ،انسانی تخلیق کی غرض وغایت، خوفخدا، عبادت وعمل پر ابھارنے کا جذبہ ، شفقت ، محبت اپنے تمام احوال وافعال میں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع ،تعلق خد ا وندی اور حقائق ومعارف کے بیان پر مبنی ہوتے۔ 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے تبلیغی اثرات پوری دنیا ئے اسلام پر پڑے۔آپ کے تجدیدی کارنامے اور اسلام کی دعوت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت بخشی کہ دنیائے اسلام میں آپ شیخ الشیوخ اور پیر پیراں کے معزز القاب سے یادکئے گئے۔حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے کتاب و سنت کی حاکمیت، شریعت کی بالادستی اور تما م معاملات میں رضائے الہیٰ کے لیے فلسفیانہ مباحث، منطقی طرز استدلال اور عقلی موشگافیوں کے برعکس قرآن کا سادہ، فطری اور دلنشین طریقہ اختیار کیا۔ یونانی علوم کی کلامی بحثوں میں الجھے ہوئے معاشرے کیلئے یہ آواز پیغام ورحمت ثابت  حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے  ملت اسلامیہ کو پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ 

فتوح الغیب مضامین قرآنی اور اسرار طریقت ، علم تصوف و معرفت سے معمور یہ  معرکۃ الاراء کتاب  کئی مقالات پر مشتمل ہے، ہر مقالہ معرفت و حقیقت کا آئینہ دار ہے، اس کتاب میں علم تصوف و معرفت اور اسرارِ حقیقت و معارف قرآنی کے   غوث اعظم کے بیان کردہ اٹھتر 78 وعظ ہیں جو آپ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے ۔ جن میں  آپ نے اصلاح نفس ، تزکیہ  قلب پر زور دیا ہے اور شریعت کی پیروی اور سنت پر کار بند رہنے کا درس دیا ہے۔ اور ا حکام دین کی بجا آوری کی تلقین کی ہے۔ اس کے سا تھ ساتھ سلوک و طریقت کے رموز و حقائق بتاۓ ئے ہیں۔

ان مقالات کا مطالعہ ایمان میں حرارت پیدا کرتا ہے اور صحیح اعمال و عقائد کی عکاسی کرتا ہے ۔

  فتوح الغیب  کا ہر وعظ معرفت وحقیت کی کان ہے، اس کی ایک ایک سطر خداشناسی ،خشیت الٰہی،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور انسان کو انفرادی و اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ مفید اور کار آمد بنانے کا وہ درس دیتی ہیں جس سے انسان سینکڑوں کتابوں، وعظوں،مجلسوں اور صحبتوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔

فتوح الغیب  میں کئی مقالے ہیں اور ہرمقالہ پر قرآن اور حدیث حوالوں کے ساتھ نہایت ہی پر اثر انداز میں نصیحت فرمائی گئی ہے۔  فتوح الغیب کا ایک ایک لفظ کتاب وسنت پر عمل کی دعوت ہے۔ اس  کتاب میں تعلق باللہ،رضائے الٰہی اور دنیا کی بے ثباتی کے مضامین کو اس خوبصورتی سے لایا گیا ہے جس سے انسان کے دل میں خود بخو د عمل کا جذبہ ابھرتا ہے۔  

 اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم اور شرحیں ہوئے ہیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں کتنی زبردست نصحیت وہدایت فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں ۔‘‘ قرآن وحدیث کو اپنا امام بنالو اور غوروفکر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرلیا کرو،ادھر ادھر کی بحث و تکرار اور حرص وہوس کی باتوں میں نہ پھنس جاؤ۔صرف کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ پرعمل کرو ۔اور یہ حقیقت سمجھ لو کہ قرآن کے علاوہ ہمارے پاس عمل کے قابل کوئی کتاب نہیں اور محمد ﷺ کے سوا ہمارا کوئی رہبر نہیں۔ کبھی قرآن وحدیث کے دائرے سے باہر نہ ہوجانا ورنہ خواہش نفسانی اور اغوائے شیطانی تمہیں سیدھے راستے سے بھٹکادیںگے۔ 

 شیخ عبد القادر  جیلانی  نے اپنی  کتاب  فتوح الغیب   میں کہا ہے  بندے کے لیے ضروری  ہے کہ  جو حکم  اسے ملا ہو  اسے بجا لائے اور جس سے روکا گیا  ہو  اس سے رک جائے اور جو اس کے لیے مقدر  کر دیا  گیا ہو   اس پر صبر  کرے۔ 

[box type=”success” align=”” class=”” width=””]

وصیت 


میں وصیت کرتا ہوں کہ
اللہ سے ڈر و اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ ظاہر شریعت کی پابندی کرو ۔سینہ کو پاک، نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو۔جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو۔ایذادہی سے باز رہو۔تکالیف پر صبر کرو۔
بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو۔ برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آؤ۔ احباب سے جھگڑانہکرو۔
قربانی وایثار کا جذبہ اپناؤ۔ مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو۔ [فتوح الغیب]

[/box]

مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے!

کشف المحجوب

سید علی بن عثمان ہجویری ، دانا گنج بخشؒ

 کشف المحجوب کے معنی ہیں اسرار سے پردے اُٹھانا Unveiling the Hidden   حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی یہ شہرہ آفاق  تصنیف فارسی زبان میں لکھی گئی تصوف کی قدیم ترین  کتاب مانی جاتی ہے۔

تصوّف کے موضوع پر ہزاروں کتب تحریر کی جاچکی ہیں  لیکن جو اثر پذیری اور مقبولیت حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی شہرہ آفاق  تصنیف کشف المحجوب کے حصہ میں آئی  وہ  بے مثال ہے۔  

حضرت داتا گنج بخش ؒ  ؒ  کو اس دنیا سے رخصت ہوئے  تقریباً ہزار برس کی گزر گئے ہیں لیکن ان کی  بلند پایہ تصنیف آج بھی  کروڑوں سالکین کے لیے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔  قریباً ایک ہزار سال سے ہر عہد اور ہر مقام کے بزرگان کرام، صوفیائے عظام اور اولیائے بلند مرتبت سے اس نے خراج تحسین حاصل کیا ہے ۔ ہر زمانہ کے بزرگانِ.دین اولیاء اللہ نے اس کتاب کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور اسے ہمیشہ اپنے مطالعہ کا لازمی حصہ قراردیا ہے۔   آج بھی بندگان خدا اس تصنیف سے روحانی فیض حاصل کرنا اپنے لیے باعث تکریم سمجھتےہیں۔ 

 کشف المحجوب، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی آخر عمر میں تصنیف کی، یہ  کتاب چونتییس ابواب پر مشتمل  ہے۔  مضامین کے اعتبار سےاسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ چھ ابواب پر مشتمل ہے جس میں علم، فکر، تصوف وغیرہ  کی شرعی حیثیت کو بیان کیاہے۔ دوسرا حصہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اس میں صحابہ.کرام  سے  اپنے دور تک کے صوفیا کا احوال بیانکیاہے۔  آخری حصہ بیس  ابوب پر مشتمل ہے جس میں تصوف کی پینسٹھ اصطلاحات کی تشریح قلمبند کی۔  

کشف المحجوب میں تقریباً دوسو چوہتّر  آیاتِ قرآنی،ایک سو پینتیس احادیث،  اٹھہتّر معروف عربی اشعار، تقریباْ تین سو اقوالِ صوفیا اور بیس سے زائد کتابوں کی عبارتیں بطور اقتباس نقل فرمائی ہیں۔

کشف المحجوب حقیقت میں علمِ تصوف کا جامع انسائیکلوپیڈیا ہےاور دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں کی زینت ہے، اس عظیم کتاب کے اس وقت تک بیس سے زیادہ تراجم صرف اردو زبان میں شائع ہوچکےہیں۔ 

مستشرق پروفیسر نکلسن نے 1901ء میں کشف المحجوب کا وقیع اور جامع انگریزی ترجمہ شائع کیا ،  ایک روسی ادیب پروفیسر زوکو فنکی نے کشف المحجوب کے ایک قدیم نسخہ کا روسی ترجمہ 1926 ء میں  لینن گراڈ سے شائع کیا  جو بعد میں   1956 ءمیں تہران سے شائع ہوا…. حضرت داتا گنج بخشؒ  کی یہ کتاب راہِ سلوک کے مسافروں کے لیے  مینارۂ نور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اسلامی تصوّف کے اسرار ورموز  دلکش پیرائے میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیے ،  اس کے علاوہ غیر اسلامی تصوف و نظریات جو امتِ مسلمہ کے عقائد میں در آئے تھے، اُن کی بھی نشاندہی فرمادی تاکہ راہِ.سلوک کا مسافر  بھٹک نہ جائے۔ حضرت شیخ عثمان بن علی ہجویری کی عظمت و بزرگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بارگاہِ داتا گنج بخش پر چلہ کشی فرمائی اور وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا تھا۔  

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں راپیر کامل کاملا را رہنما

 آپ کی معرکتہ الآرا تصنیف’’ کشف المحجوب ‘‘ کے بارے میں  حضرت نظام الدین اولیاء  فرماتے ہیں: ‘‘کشف المحجوب حضرت شیخ علی ہجویری کی تصنیف ہے۔ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو یہ کتاب اس کے پیر کا کام دے گی۔’’

حضرت داتا گنج بخش خود  تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کتاب راہِ حقیقت کو نمایاں کرتی ہے۔ تحقیقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شریعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقیقت میں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔’’

[box type=”success” align=”” class=”” width=””]

ظاہر و باطن

‘‘علم کی دو اقسام ہیں ایک علم الہٰی (روحانی علوم ) دوسرا علم ظاہر ، اور بندہ کا علم الہٰی کے مقابلے میں لاشی ٔ محض ہوتا ہے کیونکہ علم الہٰی اللہ کی صفت قدیم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کی صفتوں کے لیے انتہا نہیں اور ہمارا علم ہماری صفت ہے جو ہمارے ساتھ قائم ہے اور ہمارے اوصاف متناہی ہیں۔’’
‘‘ظاہر سے مراد معاملات ہیں اور باطن سے تصحیح نیّت۔ ان میں سے ایک وجود بغیر دوسرے کے محال ہے۔ ظاہر بغیر امتزاج باطن کے منافقت ہے اور باطن بغیر شمولِ ظاہر کے زندقہ۔ شریعت کا ظاہر بلا باطن نقص ہے اور باطن بلا ظاہر ہوس۔’’ [کشف المحجوب]

[/box]

 

مسلم صوفیاء کے علمی کارناموں اور معاشرے پر ان کے اثرات کے متعلق  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر فرماتےہیں: 

‘‘خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد رُشدوہدایت، تلقین اور تبلیغ کاکام اہلِ بیت صحابہ ؓ اور صحابہ کرام ؓ کے بعد اولیاء اللہ  نے سنبھال لیا اور اِن قدسی نفس حضرات نے لوگوں تک اللہ  اور رسول کا پیغام پہنچایا۔  

عباسی خلفاء کے دور میں یونانی فلسفیوں کے تراجم کے بعد جب اسلامی معاشرے میں فکری انتشار پیدا ہوگیا، قرآنی علوم، معجزات، آخرت اور معراج جیسی حقیقت کو یونانی فلسفہ کی عینک سے دیکھا جانے لگاتو اس طوفانِ بدتمیزی کے آگے مشہور صوفیاء حضرات بایزید بسطامیؒ، خواجہ حبیب عجمیؒ، شیخ داؤد طائیؒ، ذوالنّون مصریؒ، رابعہ بصریؒ، بشرحافی۔ؒ، ابوبکر شبلیؒ، سری سقطیؒ، جنید بغدادیؒ اور سلسلہ چشتیہ کے امام حضرت ممشاد دینوریؒ نے بندباندھا…. 

 اولیاء اللہ  نے تزکیہ قلب، سکون، مشاہدہ اور باطنی اسرار کے لئے کتابیں تصنیف کیں۔  حضرت سیدعلی ہجویری داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب تحریر فرمائی…. امام غزالیؒ نے معاشرے کے اخلاقی زوال کی اصلاح کے لئے احیاءُ العلوم اور کیمیائے سعادت جیسی کتابیں لکھیں۔  سلسلہ قادریہ کے امام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے  لوگوں کی اصلاح اور تزکیہ قلب کے لئے روحانی مشن کو فروغ دیا۔  سلسلہ سہروردیہ کے امام شیخ نجیب الدین ابوالقاہر سہروردیؒ نے بھی اسی دور میں روحانی اصلاح کا کام کیا۔  خواجہ عثمان ہارونیؒ نے حضرت ممشاد دینوریؒ کے قائم کردہ سلسلہ چشتیہ کو تقویت دی، آپؒ کے شاگرد رشید سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ تھے، خواجہ غریب نواز ؒ نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج اور روحانی قدروں کے فروغ میں بے مثال کوششیں کیں۔آپؒ کے ملفوظات  انیس الارواح  اور دلیل العارفین کے نام سے مشہور ہیں۔   حضرت نجم الدین کبریٰؒ نے خالق ومخلوق کے درمیان ربط وتعلق کی نشاندہی کی۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے تصوف پر 150کتابیں تحریر کیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے عوارف المعارف تصنیف فرمائی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ اس کا درس دیا کرتے تھے۔  اسی دور میں یکے بعد دیگرے بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ، ابوالحسن رفاعیؒ، سلطان سخی سرورؒ، قطب الدین بختیار کاکیؒ، علاؤ الدین صابر کلیریؒ، ابوالحسن شازلیؒ، بو علی شاہ قلندر پانی پتی ؒ، صدر الدین عارفؒ، شیخ حمیدالدین ناگوریؒ، خواجہ نظام الدین اولیاء، ابو الفتح رکن الدینؒ، مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ، بندہ نواز گیسودرازؒ، شرف الدین پانی پتیؒ، اشرف جہانگیر سمنائیؒ، عبدالقدوس گنگوہیؒ، سعدی شیرازیؒ، شمس تبریزؒ، جلال الدین رومیؒ، امیرخسروؒ اور حافظ شیرازیؒ نے باطنی حقائق کی پردہ کشائی کی۔  سلسلہ نقشبندیہ کے امام بہاؤ الحق نقشبند خواجہ باقی باﷲؒ، ابوالمعالیؒ، میاں میرقادریؒ، شاہ ولی اللہ  محدث دہلویؒ نے عرفانِ نفس اور عرفانِ الٰہی کی تلقین کی۔ سلطان باہوؒ، رحمن باباؒ، بابا بلّھے شاہؒ، شہباز قلندرؒ، شاہ لطیف ؒاور سچل سرمتؒ نے بھی رسول اللہ  ﷺ کے روحانی مشن کے فروغ میں اپنا کردار اد ا کیا۔  [صدائے جرس] 

Liked Liked
5 Comments
  1. شیریں فاطمی: کشف المحجوب پہلے خود سے پڑھنے کی کوشش کی ہے لیکن سمجھ نہیں آئی میرے خیال سے استاد کی رہنمائی…

  2. syednajibuddinahmed: اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ برائے مہربانی حضرت فرید الدین عطار رحمت اللہ علیہ کی شاہ…

    • روحانی ڈائجسٹ: https://archive.org/download/mantiq-ut-tair-urdu/00483_Hikayat_e_Fariduddin_Attar.pdf

  3. syednajibuddinahmed: اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ برائے مہربانی حضرت فرید الدین عطار رحمت اللہ علیہ کی شاہ…

  4. syednajibuddinahmed: اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ آپکی نوازش کے لئے بندہ آپکا بہت شکر گزار ہے۔ واسلام۔