آج دنیا بھر میں کرونا وائرس نامی وباء نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، دنیا کے بیشتر ممالک مین لاک ڈاؤن ہے ، لوگ خوف میں مبتلا ہیں اور وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے کئی لوگوں نے خود کو آئسولیشن میں رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ساری دنیا کرونا وائرس کی ویکسین کی طلبگار ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس بیماری کو شکست دینے کا یہی ایک واحد ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں سائنسدان اور ماہرین اس وائرس کی ویکسین بنانےکی کوششوں میں مصروف ہیں۔
وائرس، ویکسین، قرنطینہ …. یہ الفاظ آج لوگوں کے لیے اجنبی نہیں رہے ، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کو ان چیزوں سے واقف کرانے کا سہرا مسلمان سائنس دانوں کے سر جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں یہ بھی سمجھا جاتا رہا کہ بیماریاں دیوتاؤں یا جن بھوت کی ناراضگی یا ستاروں کی گردش کا نتیجہ ہیں اور وبائی امراض کو تو عذاب سمجھا جاتا تھا…. انسانی تاریخ کے بیشتر حصے میں کئی بیماریوں کی وجوہات سے ناواقفیت نے کئی توہمپرستانہ نظریات کو فروغ دیا جس میں یہ نظریہ بھی شامل تھا کہ تمام امراض کا سبب بدروحیں ہیں۔
مسلم سائنس دان اور طبیبوں نے پہلی مرتبہ بیماریوں کے درست اور حقیقی اسباب کی وضاحت کی اور بتایا کہ بیماری درحقیقت لوگوں کی اپنی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ بیماریاں غیر فطری زندگی گزارنے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ اگر فطرت کے مطابق صحت مندانہ ماحول میں زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے تو بڑی حد تک بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
یوں تو مسلم سائنس دانوں کی طبی خدمات کا آٖغاز یونانی، رومی، ہندی اور فارسی طبی کتابوں اور بقراط و جالینوس کے تراجم سے ہوا، لیکن انہوں نے قدیم طب سے استفادہ کرتے ہوئے اندھی تقلید سے نہیں بلکہ مجتہدانہ انداز اختیار کیا۔
طبی سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ 400سال قبل مسیح یونانی فلاسفر اور طبی سائنس کا باوا آدم بقراط Hippocrates نے دریافت کر لیا تھا کہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی علاقے میں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس طرح ایک شخص سے دوسرے کو بہت جلدی متاثر کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اس نے چند بیماریوں کو وبائی امراض کے زمرے میں رکھا، ان میں طاعون، ہیضہ، چیچک، جذام، وبائی یرقان، خُناق، کنپٹی یا کانوں کی سوجن اور متعدی بخار شامل ہیں۔ بقراط نے ان امراض کے علاج بھی تجویز کیےلیکن مرض کی اصل وجہ یعنی جراثیم سے ناوافقیت کی وجہ سے وہ علاج زیادہ کارگر نہ ہوتے اور مریض کے استعمال کے سامان سے مرض مزید پھیل جاتا۔
قدیم طبیبوں کو ان چھوٹے چھوٹے جراثیم کے بارے میں خبر نہ تھی، جہاں تک مسلم طب کا تعلق ہے خوردبین کی ایجاد سے پہلے بلاشبہ انہوں نے جراثیم یا وائرس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر اپنی فہم و فراست سے انہی اس کے وجود کا احساس ہوچکا تھا، 1348ء میں مسلم اسپین کے علاقے المیریا میں طاعون کی زبردست وبا پھوٹ پڑی، جس نے اس خوبصورت شہر کو ویران کر دیا ۔اب تک اطبا اسے عذاب الہی سمجھتے تھے، اس موقع پر متعدد تجربات کے بعد مشہور عرب مورخ ،مدبر، اور طبیب لسان الدین ابن خطیب غرناطی (1313 تا 1374ء) نے اپنے رسالے ‘‘المقنعہ السائل عن المرض الھائل میں اس کو متعدی مرض قرار دیا ۔ گویا خورد بین کی ایجاد سے پہلے اس نے جراثیم کے بارے میں خبر دی۔ چنانچہ مشہور غرناطی طبیب ابن خطیب وبائے طاعون کے سلسلے میں اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘اس مرض کے تعدیہ کا وجود تجربے ، مطالعے اور شہادت حواس سے قطعی طور پر ثابت ہوچکا ہے، چنانچہ معتبر اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریضوں کے ملبوسات، ظروف اور کانوں کے آویزوں کے استعمال سے یہ مرض متعدی ہوگیا اور ایک گھر کے آدمیوں سے دوسرے مقامات پر پھیل گیا۔ ’’
ابن خطیب غرناطی کے ہمعصر طبیب ابن خاتمہ انصاری الاندلسی (المتوفی 1369ء) نے بھی طاعون پر ایک کتاب لکھی، طاعون پر مسلم اطباء کی یہ تحریریں ان رسائل طاعون سے بہتر ہیں جو یورپ میں چودھویں سے سولہویں صدی کے درمیانلکھے گئے ۔
ہسپانوی طبیب ابن خاتمہ لکھتے ہیں، ‘‘میرے طویل تجربے کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مریض سے ربط رلھتا ہے تو طاعون فی الفور اس کو عارض ہوجاتا اور اس میں بھی ویہی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں، مثلاـْ اگر مریض کے بلغم میں خارض ہوگا تو چھوت میں مبتلا ہونے والے مریض کی کیفیت بھی یہی ہوگی۔ اسی طرح اگر پہلے مریض کے جسم میں گلٹیاں نمودار ہوں گی تو دوسرے مریض میں بھی تعدیہ کے بعد یہی کیفیت ہوگی۔ اس طرح تعدیہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ایک مریض دوسرے مریض کو مرض میں مبتلا کرتا رہتا ہے۔ ’’
ابن النفيس الدمشقی (1201-1289ء) نے وباء کو ‘‘فضا میں پھیلا فساد ’’ کہا ہے، وہ کہتے ہیں ‘‘یہ وبا فضائی یا دنیاوی فساد پر مبنی ہے اور ہوا کے جوہر میں آسمانی اور زمینی خبائث کے شامل ہونے سے پیدا ہوئی ہے ، اس کا تعلق برتن، پانی و ہوا کے خراب ہونے سے ہے۔ لہذا، ان کا خیال رکھا جائے کہ وہ صاف ستھری ہو۔’’ (کتاب بذل الماعون از ابن حجر )
سترہویں صدی میں خوردبین بننے سے قبل ہی مسلم سائنسدانوں کو متعدی مریض کے لباس اور سامان میں مرض کے اثرات یعنی جراثیم کے ذریعے پھیلنے کا احساس ہوچکا تھا، چنانچہ اس سے احتیاط کے لیے مریض کو مکمل طور پر علیحدہ رکھنےIsolate کرنے اور قرنطینہ Quarantineکا تصور بھی مسلم سائنس دانوں نے پیش کیا۔
جی ہاں ….مشہور مسلم سائنسدان ابن سینا جن کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے، ابن سینا (980ء تا 1037ء) کا شمار مشرق کے مشہور ترین فلسفیوں سائنسدانوں اور اطباء میں کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 450 کتابیں لکھیں جن میں سے اب تقریبًا 240 ہی باقی بچی ہیں ۔ ان میں بہت چیزیں 1650 تک قرون وسطی کی یونیورسٹیوں میں ایک معیاری طبی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔
ابن سینا نے وبائی امراض کے خاتمے کیلئے ہزاروں سال قبل کچھ طریقے وضع کرلیے تھے جس سے موجودہ دور میں بھی فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
آج پوری دنیا میں کورونا پھیل چکا ہے اور اس کی کوئی ویکسین بھی نہیں ہے ، اس سے بچاؤ کا فی الحال بس ایک ہی طریقہ ہے وہ احتیاط اور قرنطینہ۔ قارئین کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ یہ طریقہ بھی ابن سینا کا بتایا گیا طریقہ ہے۔ ابن سینا نے ایک ہزار سال قبل قرنطینہ کا تصور پیش کیا تھا کہ کسی بھی وبائی بیماری جو کے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو اس کیلئے سب سے پہلے چالیس دنوں تک علیحدگی اختیار اختیار کرنا چاہیے۔
ابن سینا کی سب سے اہم کتاب “القانون فی الطب” ہے جو کہ 1025 میں لکھی گئی، ابن سینا کی اس کتاب سے میڈیسن بنانے والی کمپنیاں اب بھی مستفید ہو رہی ہیں۔ اس کتاب میں ابنِ سینا نے قرنطینہ سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا، کسی بھی انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والی وباء کے آنے پر 40 روز کا قرنطینہ اختیار کیا جائے تاکہ وباء کو پھیلنے سے پہلے کمزور کیا جاسکے۔ ابن سینا سے اس عمل کے لیے لفظ الأربعينية al-arb’iniyaیعنی چالیس دن رکھا ، جب یہ کتاب بارہویں صدی میں اطالوی زبان میں ترجمہ ہوئی تو چالیس دن کے اس عمل کا ترجمہ قرنطینہ Quarantena کیا گیا جس کے معنی بھی چالیس دن ہوتے ہیں۔
تیرہویں صدی میں جب اٹلی میں طاعون کی وبا پھیلی تو اطالوی تاجروں کے ذریعے قرنطینہ کا لفظ اور اس کا طریقہ پورے یورپ میں پھیل گیا۔
ابن سینا ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پتہ لگایا کہ یرقان کیسے ہوتا ہے انہوں نے ہی بہت ساری جان لیوا بیماریوں کے علاج کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کا طریقہ بھی بتایا ۔
آج سے 64 برس قبل 1956ء میں سویت یونین نے بو علی سینا کی زندگی اور نظریات پر ایک فلم Avicennaبنائی تھی۔ اس فلم کے ایک منظر میں اپنے ایک ساتھی سے ابن سینا کہتے ہیں، ‘‘میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ متعدی بیماریاں بہت چھوٹے مادوں (وائرس) کے ذریعہ پیدا ہوتی اور پھیلتی ہیں۔ ابن سینا مزید کہتے ہیں کہ یہ چھوٹے مادے انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ابن سینا بتاتے ہیں کہ یہ مادے (آج کی زبان میں وائرس یا بکٹیریا ) ہر چیز (ہاتھ ، چہرے ، بال و لباس) میں موجود ہیں۔ اس کے بعد ابن سینا بتاتے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے مادے بخار اور کالی موت (طاعون) جیسے امراض کا سبب بنتے ہیں۔’’
اسی فلم کے ایک منظر میں ابن سینا مشہور عالم ابوالریحان البیرونی سے ملنے گئے ۔ جب البیرونی اپنے مہمان کو مصافحہ کرنے اور انہیں گلے لگانے کے لیے آگے بڑھے تو ابن سینا نے ہاتھ ملانے سے گریز کیا اور سرکہ کا پانی کے ساتھ صاف کپڑے لانے کو کہا ، تاکہ اپنا ہاتھ اور چہرہ دھوسکیں۔
البیرونی ابن سینا کی درخواست پر حیران ہوئے ، وجہ پوچھنے پر ابن سینا نے جواب دیا کہ جہاں کالی موت (یعنی طاعون)چھپا ہوا ہے وہاں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کرنا چاہیے۔
البیرونی کے سوال پر ابن سینا نے وباء کو روکنے کے متعلق کچھ ہدایات دیں، انہوں نے کہا کہ وبا کے دنوں میں لوگ لوگ خوف و انتشار نہ پھیلائیں، ابن سینا نے بتایا کہ یہ بیماری ایک دوسرے کو ہاتھ، بال اور ہوا سے لگ سکتی ہے اس لیے میل جول کو محدود رکھا جائے ، وبا کے دنوں میں بازاروں اور مساجد کو بند رکھیں اور ہجوم اکٹھا نہ ہو اور سکوں کو بھی سرکہ سے صاف کیا جائے۔
ابن سینا نے کہا کہ گھر میں مریض کی دیکھ بھال کرنے والے سرکہ میں بھیگی ہوئی روئی سے اپنے ہاتھ، ناک اور اعضا صاف کریں اور مسواک کو بھی سرکہ سے دھونے کا مشورہ دیا گیا۔
ابن سينا کا ایک مشہور قول ہے ‘‘الوهم نصف الداء، والاطمئنان نصف الدواء، والصبر أول خطوات الشفاء’’ یعنی ‘‘تشویش و وہم آدھی بیماری ہے ، یقین آدھی دوا ہے اور صبر شفاء کا آغاز ہے’’ اور کرونا کی صورتحال میں طبی ماہرین بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں ویکسینیشن کی جانب…. کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی پہلی ویکسین کس نے تیار کی تھی ، شاید آپ ایڈورڈ جینر کا نام لیں جس نے 1796 میں چیچک کی ویکسین تیار کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہے دوستو! یہ کارنامہ ایک مسلمان سائنسدان حکیم ابو بکر محمد بن زکریا الرازی آج سے تقریباً بارہ سو سال پہلے ہی انجام دے چکے تھے، انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا بھی اس حقیقت کا معترف ہے۔
الرازی 864 عیسوی ایران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک نامور مسلمان عالم، طبیب، فلسفی، اور کیمیا دان تھے۔ رازی کو مغرب میں Rhazes کہا جاتا ہے ، الرازی اپنے دور کی ذہین ترین شخصیت تصور کیے جاتے ہیں، انہیں طب میں اپنے کارناموں کے سبب جالینوس عرب بھی کہا جاتا ہے۔ طب کی تاریخ میں ان کا نام یونانی طبیب بقراط کے بعد دوسرے بڑے حکیم کے طور پر لیا جاتا ہے۔
الرازی کی لکھی کتاب الحاوی کے مضامین آج بھی مغربی طالب علموں کے نصاب میں شامل ہیں۔
جس دور میں الرازی کو امام طب کا درجہ حاصل تھا اس وقت چیچک نامی بیماری کا خوف لوگوں پر اس قدر حاوی تھا کہ دورِ حاضر میں پھیلی وبا کرونا اور اس کی دہشت اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی، چیچک اس دور میں ایک لاعلاج مرض تصور کیا جاتا تھا، اور ایسے مریضوں کو ویران جنگلوں و صحراؤں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں ابو بکر الرازی نے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے چیچک اور خسرہ نامی بیماریوں پر کئی سال تحقیق کی، رازی نے متعدی بیماریوں کی اقسام بیان کیں اور ان کے بارے میں معلومات پر مبنی ایک کتاب الجدری والحصبہ تحریر کی۔
رازی کی کثیر التعداد تالیفات میں سے الجدری والحصبہ کا یورپ میں بڑا خیر مقدم کیا گیا ۔یہ کتاب چیچک اور خسرہ سے متعلق ہے۔ رازی نے خون کے خمیر میں چیچک کا سبب دریافت کیا اور البرٹ بک سے صدیوں پہلےکئی بیماریوں کے سلسلےمیں جراثیم کی پیدائش کا خدشہ ظاہر کیا ۔آغاز ہی میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہو گیا پھر انگریزی ترجمے کے بھی متعدد ایڈیشن شائع کئے گئے ۔
صرف یہی نہیں بلکہ ابو بکر الرازی ہی دنیا کا وہ پہلا طبیب تھا کہ جس نے چیچک جیسے موذی مرض کی ویکسین دریافت کی ، الرازی نے اس کے علاوہ بھی اس دور میں پھیلے ہوئے کئی لاعلاج امراض کی تشخیص کے طریقے اور ان کے کامیاب علاج دریافت کیے، یہ بغداداور کئی دوسرے شفا خانوں کے سرکاری ناظم بھی رہے، جہاں وہ غریبوں اور امیروں کا یکساں علاج کیا کرتے۔
1669ء میں ترکی میں چیچک کی تلقیح کا عوامی طریقہ رائج تھا جو اٹھارہویں صدی میں یورپ پہنچا اور بعد میں سائنٹیفک قرار پایا۔
الرازی کے کئی سو سال بعد یورپ میں ایڈورڈ جینر نامی شخص نے جب الرازی کی ہی تحقیق سے مدد لیتے ہوئے چیچک کا ٹیکہ تیار کیا تو نپولین سمیت اس دور کے حکمرانوں نے ناصرف اس کی پذیرائی کی بلکہ اسے ایک ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا، آج اس ٹیکے کی بدولت چیچک کا مرض دنیا سے ختم ہوچکا ہے ، وہی ٹیکا جو بارہ سو سال پہلے الرازی نے تیار کیا لیکن اس دور کے حکمرانوں کی غیر التفائی کے سبب اسے رائج نہ کرسکا۔
ان عظیم مسلمان سائنس دانوں کی تحقیقات سے آج دنیا بھر کے سائنسدان اور میڈیسن کمپنیاں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور ایک مسلمان قوم ہے جو اپنے اجداد کی اتنی خدمات کے باوجود آج دنیا کے ہر شعبے میں پیچھے ہے۔ آج ہم اور تمام دنیا کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے مغربی ممالک کے رحم و کرم پر ہیں۔
جو قومیں اپنی محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں ، ان کے کارناموں کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں، ان کا حال اچھا نہیں ہوتا۔