Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ

سرزمینِ سندھ   اس اعزاز  کی حامل ہے کہ یہ دھرتی ایسے مرد قلندر وں کا مسکن بنی، جنہوں نے اپنی گفتار، کردار اور عمل کے ذریعے تطہیری عمل پروان چڑھایا، اِن ہستیوں کے اعلیٰ کردار سے معاشرہ امن، سکون اورسلامتی کا گہوارہ بن گیا۔  اِن بُزرگوں میں ایک نام صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی  کا ہے۔   جنہوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام  عام کیا۔

قدرت کی صناعی کے مختلف شاہکاروں کو دیکھ کر ہر ایک اپنی اپنی سکت اور فکر کے حساب سے ہی ردّ ِ عمل ظاہر کرتاہے ۔ خوش رنگ پھولوں کو دیکھنے کے بعد کچھ لوگ آنکھوں کو تراوٹ بخشنے والے رنگوں اور قلب و ذہن کو معطر کردینے والی خوشبوؤں کی تعریف میں نظمیں لکھتے ہیں، غزلیں کہتے ہیں۔ کچھ لوگ پھولوں کے رنگوں اور اُس کی خوشبوؤں کو محسوس کرنے کے بعد اُن کے پسِ پردہ سائنسی فارمولوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ افراد جن کی تعداد گویا ہر زمانے میں کم ہی رہی ہے ، ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی نگاہ، قدرت کی صناعی کے کسی شاہکار پر اگر ٹھہر جائے تو انہیں کچھ ایسی یکسوئی نصیب ہوجاتی ہے کہ وہ تجلیات الہٰی کےمشاہدے میں مستغرق ہوجاتےہیں۔ شاید ایسا ہی معاملہ اُس نوجوان کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
جب حویلی کے زنان خانے میں جاگیردار کی بیمار بیٹی نے پردے کی آڑ میں سے اپنا ہاتھ باہر نکالا۔ نوجوان نے اپنے والد محترم کی تقلید میں نبض دیکھنے کے لئے نازک اور گوری گوری کلائی تھامی تو نوجوان کی آنکھوں نے اُس کلائی میں نہ جانے کیا دیکھ لیا کہ نگاہ وہیں جم کر رہ گئی۔ محویت کے اس عالم میں زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے:
‘‘جس کا ہاتھ سیّد کے ہاتھ میں ہو …..!
اُس کے لئے کیسا دُکھ اور کیسی بیماری….’’
جب کافی دیر نوجوان، ہاتھ تھامے یونہی مستغرق رہا تو پردے کے پیچھے بیٹھی نوجوان لڑکی نے گھبرا کر ہاتھ کھینچا اس وجہ سے پردہ ہٹ گیا اور دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور دل میں عشق مجازی کی چنگاری سلگ اُٹھی، کنیزوں نے جلدی سے جاگیردار کی بیٹی کو اٹھایا اور زنان خانے کے اندر لے گئیں، لیکن نوجوان اُسی طرح بیٹھا رہا، اُسے اپنے ارد گرد کی بالکل خبر نہ تھی کنیزوں نے بھاگم بھاگ جاگیردار کو خبر کردی۔ جاگیردار جو سیّدوں کے اس خاندان سے بہت عقیدت رکھتا تھا لیکن اُسے نوجوان سیّد زادے کا اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ یہ التفات پسند نہ آیا۔
بہرحال اُس وقت تو حویلی کے چاکر سیّد زادے کو باعزت اُس کے گھر چھوڑ آئے۔
اس نوجوان کے اندر کی دنیا ہی بدل گئی تھی، اس جلوے كی یادوں كے ساتھ سید زادے كا دل دھڑكتا، اس كی سانسسیں چلتیں، رات كے اندھیرے میں جاگیردار کی حویلی كی طرف چل پڑتا اور حویلی كے قریب جگہ كھڑا رہتا کہ نجانے کب دیدار یار ہوجائے۔ جاگیردار کو خبر ہوئی تو اُس نے سیّد خاندن کی مخالفت پر کمر کس لی اور بالآخر انہیں اپنے شہر سے نکلنے پر مجبور کردیا۔
***
اپنے بیٹے کی اس استغراقی طبیعت سے اُس کے ماں باپ بخوبی واقف تھے۔
برسوں پہلے جب اُس بچے نے شعور کی دہلیز پر پہلا قدم رکھا تھا تو اس کے والدین نے اس کی تعلیم کے لیے اپنے وقت کے بہت بڑے علامہ آخوند نور محمد بھٹی کی مشہور درگاہ میں اُسے داخل کرادیا ۔
مولوی صاحب نے روایتی ابتدائی قاعدہ کھول کر اُس کے آگے رکھا، اور الف پر انگلی رکھ کر کہا ‘‘الف’’ اُس نے مولوی صاحب کی تقلید میں ‘‘الف’’ دُہرایا اور خاموش ہوگیا۔ مولوی صاحب نے پھر ‘‘ب ’’ پر اُنگلی رکھ کر کہا ‘‘بے’’ لیکن اُس کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوچکی تھیں اور نظر بدستور ‘‘الف’’ پر ہی مرکوز تھی، مولوی صاحب نے بار بارجھنجھوڑا اور کوشش کی کہ بچہ ‘‘ب’’ پڑھ لے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ یہ بچہ ’’الف‘‘ کی یکتائی میں وحدانیت کی تجلیاں دیکھ رہا ہے، بقول بابا بلھے شاہ ؒ

اَلف اللہ رَتّا دِل میرا مَینُوں ب دی خبر نہ کائی
ب پڑھیاں کُجھ سمجھ نہ آوے لذّت اَلف دی آئی

مولوی صاحب کے مسلسل اصرار پر اس بچے نے کہا
‘‘میرے لیے ‘‘الف ’’كافی ہے ….
مجھے ‘‘ب’’ كی ضرورت نہیں …. ’’
یہ بات سن کر مولوی صاحب ان کے والد کے پاس پہنچے اور شکایت کی ۔ بچے کے والد خود صوفی تھے وہ سمجھ گئے کہ اُن کے بچے کی اس کیفیت کا کیا راز ہے، چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب سے معذرت کر لی اور بچے کو گھر لے آئے۔
ماہ و سال گذرتے رہے۔ بچپنا رخصت ہوا لڑکپن آیا، پھر لڑکپن بھی رخصت ہوگیا اور جوانی کا آغاز ہوا ۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس بچے نے کسی مدرسے میں رواجی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن پھر بھی عربی،فارسی اور سندھی پر عبور رکھتا ہے ۔ کبھی قرآن پاک ، کبھی مثنوی مولانا روم اور کبھی حضرت شاہ عبدالکریم بلڑی والے کا مجموعہ کلام ‘‘بیان العارفین’’ اُس کے ہاتھ میں نظر آتا ۔اس کے والدین ان تینوں زبانوں پر بھر پور عبور رکھتے تھے۔ جب گھر کے ماحول میں علم و ادب رچا بسا ہو تو بچوں میں اسی طرح سرائیت کرجاتا ہے جس طرح بچہ مادری زبان خود بخود سیکھ لیتا ہے۔
سندھ کے صحرائی علاقوں میں دن تو بے انتہا گرم ہوتے ہیں لیکن راتیں خنک اور ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔ رات میں لوگ باگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر ٹولیوں کی صورت میں اکھٹا ہوتے اور مختلف کرتب اور کھیل تماشے کئے جاتے ، نوجوان رقص کرتے ، کافیاں گاتے۔قصہ گو مختلف قصے اس انداز سے بیان کرتے کہ سننے والا اپنے ذہن میں کہانی کے کرداروں کو چلتا پھرتا محسوس کرتا۔ لیکن اس نوجوان سیّد زادے کو ان باتوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اُس کا زیادہ وقت غور و فکر میں ہی گزرتا۔ کوئی اس کے کھوئے کھوئے سے رہنے کی کیفیت پر طنز کرتا اور کوئی افسوس ، کوئی اُسے دیوانہ سمجھ کر ہنستا اور کوئی سیّد ہونے کی وجہ سے عقیدت مندانہ طور پر اُ س کے ہاتھ چوم لیتا، لیکن وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن ، کسی سربستہ راز کی کھوج میں لگا رہتا۔ وہ راز جسے فاش کرنے کی دُھن میں فلسفیوں نے عجیب عجیب موشگافیاں کر ڈالیں، منطقیوں نے طومار باندھ ڈالے، دانشوروں نے فروعات گھڑ لیں لیکن وہ راز جو کائنات کی ہر شے میں سے عیاں نظر آتا ہے ، اُن پر پنہاں ہی رہا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فلسفیوں اور دانشوروں نے کبھی اپنے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور باہر کی دنیا ہی کو حقیقت سمجھا۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو انہیں ‘‘نحناقرب الیہ من حبل الورید’’ کا مشاہدہ ہوجاتا۔
***
اس سیّد زادے کے ولی صفت والد سیّد حبیب شاہ جانتے تھے کہ اُن کا خاندان علم و ادب اور تصوف میں خاصا زرخیز ہے ۔ اُن کے جدامجد سید میر علی ہرات (افغانستان) کے ایک معروف بزرگ تھے، اب سے تقریباً سات سو سال قبل امیر تیمور ہرات آیا تو سید میر علی کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اُس نے سیّد صاحب کے بیٹوں کو ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں کا حاکم بنا دیا ۔ ایک بیٹا اجمیرکا ، دوسرا ملتان کا ، تیسرا بکھر کا اور چوتھا سیہون کا گورنر بنا۔ سید میر علی کے باقی دو بیٹوں میں سے ایک نے والدین کے ساتھ رہنا پسند کیا اور دوسرے بیٹے سیّد حیدر نے حکومت کے بجائے سیر و سیاحت کو ترجیح دی۔ وہ مختلف مقامات پر سفر کرتے ہوئے ہالا (سندھ) آ پہنچے اور وہاں کے ایک معزز زمیندار شاہ محمد کے گھر مہمان ہوئے۔ زمیندار شاہ محمد ، سیّد حیدر کی شخصیت اور کردار سے اس قدر متاثر ہوا کہ انہیں اپنا داماد بنالیا۔ شادی کے بعد سیّد حیدر کچھ عرصہ ہالا ہی میں رہے۔ اس دوران انہیں اپنے والدکے وصال کی خبر موصول ہوئی۔ اس وقت اُن کی اہلیہ کے ہاں ولادت متوقع تھی اور سفر نہیں کرسکتی تھیں، لہٰذا سیّد حیدر یہ وصیت کرکے ہرات کی طرف رخصت ہوئے کہ اگر بیٹا ہو تو سیّد میر علی نام رکھنا اگر بیٹی پیدا ہو تو نام فاطمہ رکھا جائے۔ سیّد حیدر ہرات گئے تو واپس نہ آسکے اور وہاں پہنچنے کے کچھ عرصے بعد ہی خالقِ حقیقی سے جاملے۔ یہاں ہالا میں اُن کا بیٹا پیدا ہوا جس کانام اُن کی وصیت کے مطابق سید میر علی رکھا گیا ۔ سید میرعلی سندھ میں سید حیدر کے خاندان کے پہلے فرد تھے۔ اس خاندان میں پشت در پشت بطور ورثہ روحانی علوم بھی منتقل ہوتے رہے۔ صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالکریم بلڑی والے کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔ اسی خاندان کے ایک فرد سیّدحبیب شاہ تھے جو آج سے تقریباً تین سو سال قبل ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا کے ایک گاؤں بھٹے پور میں مقیم تھے ۔
سید حبیب شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ایک دن آپ مٹیاری میں ایک درویشِ کامل سید ہاشم شاہ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی،سید ہاشم شاہ نے دعاکے بعد فرمایا:
‘‘انشاء اﷲ آپ کی مراد بر آئے گی، اللہ تعالٰی آپ کو بیٹاعطا فرمائے گا، اس کانام عبداللطیف رکھیے گا۔ وہ اپنے وقت کا یکتائے روزگار بزرگ اور صاحب علم ہوگا۔’’
اُن بزرگ کی دعا قبول ہوئی اور 1690ء بمطابق 1101 ہجری میں سید حبیب شاہ کے گھر ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جس نے سندھ کی دھرتی کو اپنے کلام و کردار سے محبت، امن و سکون کا گہوارا بنادیا۔ یہ ہستی شاعر محبت صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی تھی۔
عبدالطیف کی پیدائش کے بعد سیّد حبیب شاہ ہالا سے نقل مکانی کرکے کوٹری مغل آگئے۔ اُن دنوں کوٹری مغل کا جاگیردار نواب مرزا مغل بیگ ارغون تھا۔ مغل بیگ سیّد حبیب شاہ کی ولی صفت شخصیت سے بے انتہا متاثر ہوا اور اپنے تمام اہل خانہ سمیت سیّد حبیب شاہ کی ارادت مندوں میں شامل ہوگیا۔ اُ س کا خیال تھا کہ کسی بزرگ کی سرپرستی سے مصائب و آلام پاس نہیں پھٹکتے ۔ اس نے بزرگوں کی صحبت محض دنیا داری کے معاملات کے حل کی غرض سے اختیار کی تھی۔
مغل بیگ کی حویلی میں جب بھی کوئی بیمار ہوتا تو وہ سیّد حبیب شاہ کو دم و دعا کرانے کے لئے لے جاتا۔ ایک مرتبہ اُ س کی جوان بیٹی سیّدہ بیمار پڑی تو اُس نے سیّد حبیب شاہ سے درخواست کی کہ وہ حویلی چل کر اُس کی بیٹی کو دم کردیں۔ اُس روز حبیب شاہ خود سخت بیمار تھے اس لئے انہوں نے اپنے نوجوان بیٹے شاہ لطیف سے کہا کہ تم جاکر مغل بیگ کی بیٹی کو دم کر آؤ اور پھر وہی واقعہ رونما ہوا جس نے شاہ لطیف کے اندر کی دنیا زیر و زبر کردی۔مغل بیگ کی نوجوان بیٹی سیّدہ کے خوبصورت ہاتھ کے آئینے میں شاہ لطیف نے نجانے قدرت کی کون سی صفت کا مشاہدہ کیا کہ اُن کی پوری زندگی میں ایک مّدو جزر پیدا ہوگیا۔
مغل بیگ نے تو ان فقیر منش درویشوں سے محض اپنی دنیا سنوارنے کی خاطر تعلق قائم کیا تھا۔ اُس کے ذہن میں تو دنیاوی مال و متاع ہی سب کچھ تھا۔ وہ وسیع وعریض جاگیر کا مالک تھا اور اپنی جاگیر میں اُس کی حیثیت بادشاہ کی مانند تھی۔ وہ کیسے یہ برداشت کرلیتا کہ بے مال و متاع فقیر کا نوجوان لڑکا اُس کا داماد بنے۔ چنانچہ اُس نے اس قسم کے حالات پیدا کردیئے کہ شاہ حبیب کو کوٹری مغل سے بھی رخصت ہونا پڑا ۔
***
شاہ لطیف کی نگاہیں اب اُسی جلوے کی متلاشی تھیں جو سیّدہ کے نازک ہاتھوں میں انہیں نظر آیا تھا۔ اُن کے دن رات کا چین اُڑ چکا تھا، جذب و استغراق کی کیفیات کا غلبہ اب زیادہ رہنے لگا۔شاہ لطیف اکثر گھر سے نکل جاتے تو کئی کئی روز صحرا کی خاک چھانتے رہتے ۔ انہیں نہ آگ اُگلتا سورج متاثر کرتا اور نہ انگارہ ہوتی ریت سے پڑنے والے پیروں کے چھالے تکلیف دیتے۔ انہیں اب اسی جلوے کی تمنا تھی، جسے پانے کی تڑپ اور بے تابی سے مجبور ہو کر وہ جنگلوں اور بیابانوں میں گھومتے رہتے ۔ شاہ حبیب بیٹے کی کیفیت دیکھ کر انہیں مٹیاری کے انہی بزرگ سائیں ہاشم شاہ کے پاس لے گئے جنہوں نے ان کی پیدائش کے لیے دعاکی تھی۔بزرگ نے شاہلطیف پر نظر ڈالی اور شاہ حبیب سے فرمایا:
‘‘آپ کا بیٹا ابھی اس منزل تک نہیں پہنچا’’۔
یہ بات شاہ عبداللطیف کے دل میں اترگئی،جس کا اشارہ کیاگیا تھا ان کے دل میں اس منزل تک پہنچنے کی تڑپ شدت اختیار كر گئی۔
ایک روز وہ صحرا میں بیٹھے چمکتی ریت پر نظر یں جمائے تھے کہ جذب کا عالم طاری ہوگیا۔ اُدھر ان کے والد شاہ حبیب انہیں تلاش کرتے ہوئے آپہنچے انہوں نے دیکھا کہ صحرائی ریت نے شاہ لطیف کا آدھا جسم ڈھک دیا ہے ۔ شاہ حبیب نے سندھی زبان میں كہا (ہوا چلی اور ریت نے جسم ڈھانپ لیا) شاہ لطیف نے سندھی زبان میں ایسے جواب دیا (محبوب كے دیدار کے لیے سانس كی ڈوری چل رہی ہے) شاہ حبیب نے آگے بڑھ كر بیٹے كو سینے سے لگایا اور گھر لے آئے مگر شاہ عبداللطیف بھٹائ پر بہت سے اسرار و رموز كا كھلنا ابھی باقی تھا۔
ایک روز شاہ لطیف گھر سے نکلے تو لوٹ کر نہیں آئے۔ تین سال تک دور دراز علاقوں کی خاک چھانتے رہے۔ جنگلوں ، صحراؤں ، کوہساروں ، ساحلی علاقوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ مشہور ہے کہ اس کیفیت میں آپ سندھ کا شہر شہر اور قصبہ قصبہ گھومے، اس دوران حضرت مخدوم نوح،مخدوم بلاول اور اپنے پر دادا شاہ عبد الکریم بلڑی والے اور دیگر بزرگوں کی درگاہوں پر حاضری بھی دی۔ جوگیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مل کر ہنگلاج(بلوچستان) تک گئے، پھر مشرق میں سندھ عبور کرکے کچھ، جیسلمیر (راجھستان)، مغلبین، لکھپت، دوارکا، پوربندر، جوناگڑھ، گرنار ، کھمبات اور ملتان تک سفر کیا، اور پھر سندھ واپس لوٹ آئے۔
جذب و استغراق کی کیفیت میں وہ ایک روز ٹھٹھہ آنکلے، وہاں کے ایک بلند پایہ صوفی مخدوم محمد معین (جو حضرت شاہ ابوالقاسم نقشبندیؒ کے خلیفہ تھے)نے جب شاہ لطیف کو اس کیفیت میں دیکھا تو انہیں اپنے پاس روک لیا۔ صوفی مخدوم محمد معین سے مل کر شاہ لطیف کی بے قراری کو گویا قرار مل گیا۔ صوفی مخدوم نے بتایا کہ جس چیز کی تلاش میں تم دربدر پھرتے رہے ہو وہ حقیقت تمہارے اندر ہی موجود ہے ۔ آدمی آدمی کے لئے آئینہ ہے تم نے مغل بیگ کی لڑکی کے ہاتھ میں اپنے اندر موجود تجلیات کا عکس دیکھ لیا تھا۔ صوفی صاحب نے کچھ دن اپنے ہمراہ رکھنے کے بعد شاہ لطیف کو اُن کے والدین کے پاس روانہ کردیا۔
اب شاہ لطیف کو راستہ مل گیا تھا ، یہ ایسا رستہ تھا جس کے کئی مراحل تھے ، ہر مرحلہ ایک منزل تھا اور منزل کے بعد نئے مراحل تھے۔ اس راہ پر چلنے والا مسافر عرفان حق کی لّذتوں سے ہمکنار ہوتا ہوا آگے ہی بڑھتا رہتا ہے ۔
***
صوفی مخدوم کی ہدایت کے مطابق شاہ لطیف 1713ء بمطابق 1125 ہجری کو واپس اپنے والدین کے پاس پہنچے تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ چند افراد نے ذاتی دشمنی کی بناء پر مرزا مغل بیگ ارغون کی حویلی پر حملہ کردیا تھا اور اس کے خاندان کے تمام مردوں کو قتل کرکے سارا مال و دولت لوٹ کر لے گئے ۔ مرزا کے خاندان میں سے چند خواتین اور ایک نو عمر لڑکا بے یار و مدد گار باقی رہ گئے۔ مرزا کے خاندان کی باقی ماندہ عورتوں نے سوچا کہ اُن کا خاندان سخت مصائب و آلام سے اس لئے دوچار ہوا ہے کہ مرزا مغل نے شاہ حبیب کو ناراض کیا تھا۔ چنانچہ وہ شاہ حبیب سے معافی مانگنے اُن کے در پر پہنچیں اور مرزا مغل کی بیٹی بی بی سیّدہ بیگم کو شاہ عبداللطیف کے نکاح میں دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شاہ حبیب نے اُن کی کفالت کا بندوبست کیا اور جن کی خاطر شاہ سائیںؒ نے دشت نوردی اختیار کی تھی قدرت نے انہیں خود شاہ لطیف کے عقد میں دے دیا۔
شاہ سائیں نے مجازی آئینہ میں دکھائی دینے والا جلوہ اب حقیقت میں دیکھ لیاتھا۔ اُن کے ارد گرد خوشی کے شادیانے بج رہے تھے لیکن وہ ان سب سے بے نیاز تھے ۔ اس موقع پر کہی گئی شاہ لطیف کی ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

میرے گھر میں غلغلہ ہے آمدِ محبوب کا
شادیانے بج رہے ہیں، گونجتے ہیں زمزمے
کُل جہاں کو رشک ہے میری سعادت پر تو ہو
اب زمانے میں ہوں لاکھوں مہر تاباں آشکار
اور ہزاروں چاند سیمائے فلک پر جلوہ کار
مجھ کو ذاتِ حق کی کبریائی کی قسم!
گر نہ میرے روبرو ہو وہ رُخِ عالم فروز
ہر طرف چھائی نظر آئیں گی تاحّدِ نظر
میری آنکھوں کو بھیانک رات کی تاریکیاں

***
ازدواجی زندگی میں منسلک ہونے کے بعد، شاہ سائیں نے کوٹری سے چار پانچ کوس دور (ایک کوس تین ہزار گز یعنی 2743.2میٹر کے برابر ہوتا ہے)ایک پُرفضا لیکن غیر آباد جگہ کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ جگہ اُس زمانے میں چند اونچے اونچے ٹیلوں پر مشتمل تھی۔ ٹیلے کو سندھی میں بھٹ کہتے ہیں۔ اسی بناء پر آپ ‘‘شاہ بھٹائی’’ یعنی ‘‘ ٹیلے والے شاہ’’ مشہور ہوگئے اور اس مقام کو بھی بھٹ شاہ یعنی شاہ کا ٹیلہ کہا جانے لگا۔
شاہ سائیں کے خاندان کے افراد کوٹری میں مقیم رہے ، 1144 ہجری بمطابق 1731ء کو جب شاہ لطیف کو والد بزرگوار کی علالت کی خبر پہنچی ، تو آپ کوٹری روانہ ہوئے، لیکن شاہ لطیف کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی شاہ حبیب کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال نے شاہ لطیف کو کوٹری اور اس کے گرد و نواح سے بالکل بے نیاز کردیا۔ شاہ حبیب کی تجہیز و تکفین بھی بھٹ شاہ میں ہوئی اور بعد میں شاہ کی مرضی کے مطابق خاندان کے باقی ماندہ افراد بھی مستقل طور پروہیںآگئے۔
اُس زمانے میں سندھ کا معاشرہ سماجی طور پر جاگیردارانہ تھا۔ سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی طاقتیں حملہ آور ہوتیں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا۔ حاکم مختلف محصولوں کے نام پر عوام سے دولت بٹورتاتھا اور اس دولت کو اپنے ذاتی عیش و عشرت اور جاہ وجلال پر خرچ کرتا تھا۔ عوام کو پوری پوری فصل ہی لگان میں دینی پڑتی تھی۔ اس ظلم کے خلاف شاہ عنایت صوفی نے آواز اُٹھائی، شاہ عنا یت سلسلہ قادریہ میں مخدوم عبدالملک برہان پوری سے بیعت تھے ۔ سندھ کے جاگیرداروں کو شاہ عنایت صوفی کی اس تحریک سے اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوا کیونکہ شاہ عنایت کے حمایتی کاشتکاروں کا حلقہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو بے باک لوگوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔ شاہ عنایت کے خلاف بغاوت کے فتویٰ جاری ہوئے اور دہلی دربار سے احکامات ملتے ہی صوبے کے گورنر اعظم خان اور مقامی کلہوڑہ حاکم نے جھوک شریف میں شاہ عنایت کی خانقاہ پر فوج کشی کردی اور شاہ عنایت شہید ہوگئے۔ اس وقت شاہ لطیف کی عمر 31 برس تھی۔ آپ صوفی شاہ عنایت سے متاثر تھے ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تھے، شاہ عنایت کی شہادت نے شاہ بھٹائی کوبھی متاثر کیا، شاہ لطیف نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کا اظہار اپنی شاعری میں کیا، آپ نے معاشرتی زندگی ترک کرکے کراڑ جھیل کے کنارے اونچے نیچے ریت کے ٹیلوں پر سکونت اختیار کرلی ۔ آپ اس جھیل کے کنارے بیٹھ کر شعر لکھا اور پڑھا کرتے۔
حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں توحید الٰہی ،حب رسولﷺ، حقیقت ومعرفت، شریعت وطریقت اور حیات وکائنات کے اسرازورموز کو شر ح وبسط سے بیان کیا ہے، تلاش حق اور راہِ حق کے نکات شاہ صاحب نے اپنے کلا م میں بڑی صراحت سے بیان کیے ہیں۔ آپ کاکلام امن دوستی، انسان دوستی کے حوالے سے بہت کشش رکھتا ہے ، سندھ دھرتی اور سندھ کے روایتی کرداروں کو آپ نے اپنے اشعار کے ذریعے بین الاقوامی بنایا اورانہیں اَمر کردیا ۔آپ نے محبت ،امن اورانسان دوستی کا پیغام دیا۔ آپ نے سندھ دھرتی سے محبت کو عام لوگوں تک پہنچایا۔
***
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی انتہائی وجیہہ تھے،دراز قد، گندمی رنگت،چوڑی پیشانی، سرخی مائل بڑی اور سیاہ آنکھیں،سیاہ اور گھنی بھنویں، گھنی ریش مبارک،دبلا ،پھرتیلا اور چست بدن۔آپ صوفیانہ لباس پہنتے جو کالے دھاگے سے سلاہوتا۔ سر پر صوفی طرز کی کلاہ پر سیاہ عمامہ باندھتے۔ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا عصااور تسبیح ہوتی۔
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی بقیہ عمر بھٹ شاہ کے اسی ٹیلے پر گزاری۔ کھانا سادہ اور کم کھاتے ، زیادہ وقت عبادات میں گذرتا کچھ وقت کے لیے لکڑی کے تخت پر سوجاتے۔
موسیقی سے خاص رغبت تھی ،اسے عبادت سمجھتے اور مذہبی تعصب کو برا سمجھتے تھے۔ آپ شفیق ، رحم دل ، اور انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں سے بھی محبت کرتے، پرندوں کے شکاریوں کو ہمیشہ منع کرتے تھے۔
وادی مہران کے عظیم المرتبت شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا قابل قدر کارنامہ ان کا عارفانہ کلام آج
‘‘شاہ جو رسالو’’ کی صورت میں موجود ہے۔
آپ کی شاعری پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ ان کا کلام انسانیت کے گرد گھومتا ہے۔ شاہ صاحب اپنے اشعار میں اس طرح انسانوں سے مخاطب ہیں کہ :
‘‘لوگوں سے زیادہ پرندوں میں پہچان ہے کہ وہ جھنڈ بناکر آپس میں بیٹھتے ہیں، مگر انسان، انسان سے دور بھاگتا ہے’’ وہ کہتے ہیں کہ :
‘‘آخر سب فنا ہے، انسان کو کس بات پر غرور ہے؟ جب کہ بڑے بڑے عظمت و مرتبے والے لوگ خاک میں مل گئے، ہم جس پر چل رہے ہیں اسی زمین کے نیچے بے شمار انسان دفن ہیں، انسان کا کام ہے کہ وہ بیدار رہے، کھلی آنکھوں سے دیکھے اور حقیقت کو پہچانے، اور تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا سردار ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔’’
شاہ بھٹائی کا پیغام جذبہ محبت، علم و دانش اور حسن و راستی کا آئینہ دار ہے آپ نے جہالت کے چراغوں کو گل کرنے اور اخلاقیات کا بہترین درس دیا ہے۔ اس زمانے میں عربی اور فارسی زبان و ادب کو مقبولیت حاصل تھی، لیکن شاہ لطیف نے مقامی زبان سندھی میں شاعری کی۔ صوفیانہ تخیل شاہ کے کلام کی خصوصیات ہیں، ان کی شاعری میں سادگی اور بے لوث خلوص شامل ہے۔ انہوں نے تمثیل کے انداز میں حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔
آپ نے اپنی 63سالہ زندگی میں سے تقریباً 22سال سیر و سیاحت میں گذارے ۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں شاہ لطیف زیادہ تر ایک چادر اپنے اوپر ڈال کر مراقبے میں بیٹھے رہتے۔
14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی کو اسے ٹیلے میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ میں ہی تدفین کی گئی۔بھٹ شاہ ہالہ شہر سے چھ میل کے فاصلے پر مشرق کی جانب نشیبی خطے میں واقع ہے شاہ صاحب کا مزار اونچے ٹیلے میں آج بھی مرجع خاص وعام ہے ۔

یہ بھی دیکھیں

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ

مغلیہ سلطنت کا حکمران بادشاہ جلال الدین اکبر وسیع و عریض سلطنت، مضبوط ترین فوج ...

حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تصوف

سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون ...

Bir cevap yazın

E-posta hesabınız yayımlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir