دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..
موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
نِرالی تصویریں
کیا آسمانی بجلی فوٹوگرافی بھی کرسکتی ہے….؟
آج کے دور میں فوٹو اتارنا تو بہت ہی آسان اور سادہ سا کام ہے، صرف ایک کیمرے کی ضرورت پڑتی ہے…. لیکن کسی کیمرے یا مشینی آلات کا استعمال کیے بغیر تصاویر کھینچنے کا تصور شاید آپ کے نزدیک نا ممکن ہو۔ لیکن قدرت کبھی کبھار کچھ ایسے نمونے بھی سامنے لے آئی کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ دنیا قدرت کے بہت سے حسین شاہکاروں سے بھری پڑی ہے اب آسمانی بجلی کو ہی لے لیں بظاہر دہشت ناک نظر آنے والی کڑک درحقیقت قدرت کی ایک نشانی ہے۔ بجلی کی کڑک کے ساتھ پھیلنے والی روشنی بھی آدمی کو خوفزدہ کردیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ روشنی سب کچھ تباہ کردے گی اور کوئی چیز اس کی مزاحمت نہیں کرسکے گی۔ یہ روشنی یہ کڑک دراصل بارش سے بھرے بادلوں کی خبر دیتی ہے جو زمین کو زندگی بخشتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ پانی بخارات بن کر بلندی پر پہنچتا ہے اور نمی پاکرذرات کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ یہ ذرات لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر ایک گروپ کی شکل اختیار کرکے بادل بن جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بادلوں کی بہت سی تہیں ایک جگہ اکٹھی ہو کر بڑے بادلوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ پانی کے بخارات اگرچہ ہوا میں تیرتے رہتے ہیں، لیکن جونہی ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے تو آبی بخارات پانی کے بڑے بڑے قطروں میں دوبارہ تبدیل ہوجاتے ہیں۔جب یہ بھاری ہو جاتے ہیں تو ہوا میں معلق ہو کر زمین کی طرف آنا شروع کردیتے ہیں۔ پانی کے لاکھوں کروڑوں قطروں کا ایک ساتھ زمین کی طرف گرنا بارش کہلاتا ہے۔ اس دوران بادلوں میں پانی کے قطرات گھومتے ہوئے جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو وہ برقی چارج پیدا ہونے لگتے ہیں، جس سے بجلی پیداہوتی ہے۔چارج شدہ ایک بادل اگر چارج شدہ دوسرے بادل سے اچانک ٹکرا جائے توگرج کے ساتھ بجلی پیدا ہوتی ہے جو اُچھل کر زمین کی طرف آجاتی ہے۔ جب یہ زمین پر گرتی ہے تو دھماکے کے ساتھ بڑا شعلہ پیداکرتی ہے۔
آسمانی بجلی کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ زمین پر بہت بڑی مقدار میں نائٹروجن گیس لے آتی ہے جس کی وجہ سے زمین زرخیز ہوتی ہے۔
لیکن…. کیا آسمانی بجلی فوٹوگرافی بھی کرسکتی ہے….؟
یہ بات یقیناً آپ کے لیے حیرانی کا باعث ہوگی…. کیونکہ ہم جب بھی فوٹوگرافی کا ذکر کرتے ہیں تو سب سے پہلے جس چیز کا خیال ذہن میں آتا ہےوہ کیمرا ہے۔
کیمرے کی ایجاد کسی ایک شخص کی مرہون منت نہیں ہے سب سے پہلے پن ہول کیمرا ایک مسلمان عرب سائنسدان نے ایجاد کیا پھر آہستہ آہستہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا موجودہ دور کے ڈیجیٹل کیمرے کی شکل اختیار کرگیا مزید یہ کتنی اور منازل طے کرے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
آج کے دور میں فوٹو اتارنا تو بہت ہی آسان اور سادہ سا کام ہے، صرف ایک کیمرے کی ضرورت پڑتی ہے…. لیکن کسی کیمرے یا مشینی آلات کا استعمال کیے بغیر تصاویر کھینچنے کا تصور شاید آپ کے نزدیک نا ممکن ہو۔ لیکن قدرت کبھی کبھار کچھ ایسے نمونے بھی سامنے لے آئی کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دنیا میں کئی مرتبہ ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جب صرف آسمانی بجلی چمکنے سے کسی کا عکس شیشے پر اتر آیا ہو، بجلی سے بنائی ہوئی ان تصویروں کوسائنسدان کراؤنوگرافی keraunography کہتے ہیں ۔
اس ماہ ہم کراؤنو گرافی کے حوالے سے چند واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
1887ء میں کلیو لینڈ اور چٹان اوگائلینسی کے درمیان ایک بوڑھی عورت گرینی آس بورن رہتی تھی۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنے بوسیدہ مکان میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ مرنے سے چند گھنٹے پہلے وہ باہر نکل کر کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوئی تھی تاکہ اس طوفان بادو باراں کا مشاہدہ کرسکے جس نے پوری وادی میں ہلچل مچا رکھی تھی، اچانک بجلی کا کوندا لپکا اور اس کے عین سامنے سڑک پر موجود چیڑ کے درخت کو پاش پاش کرکے چلتا بنا۔ گرینی اپنے تکیے پر پیچھے کو گری اس نے اپنے بازو سمیٹے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
اس کے پڑوسی اس کے پاس پہنچے تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی، انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کے شیشے میں مرحومہ کا عکس ان کی طرف دیکھ رہا ہے اس عکس کی ٹھوڑی بوڑھی عورت کی طرح تھی اور رجھالر لگا ہوا ہیٹ بھی اس کے ہیٹ کے مشابہ تھا، اس عکس کا مشاہدہ کرنے والوں نے یہ انکشاف کیا کہ گرینی اور اس عکس میں بہت مشابہتہے۔
کیمرے کی تصویر اور اس عکس میں صرف یہ فرق تھا کہ یہ عکس کسی نا معلوم طریقے سے اس وقت ایک عام قسم کے شیشے میں اتر گیا تھا جب گرینی کھڑکی کے سامنے طوفان کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ یہ عکس کئی سالوں تک اس شیشے پرموجودرہا ۔
گرینی آسبورن کا واقعہ کئی لحاظ سے اس واقعہ سے مشابہت رکھتا ہے، جو 1903ء میں واشنگٹن میں ظہور میں آیا تھا، ایک ڈنر پارٹی میں مہمانوں نے کھڑکی کے ایک شیشے پر جو باغ کی سمت میں کھلتی تھی دو حیرت انگیز فوٹو دیکھے، یہ تصویریں قوی الجثہ بوڑھے مرد اور ایک پژمردہ بوڑھی عورت کی تھیں۔
مالک مکان کو اس وقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے ان تصویروں کامعائنہ کیا اس نے انہیں فوراً پہچان لیا کہ یہ تصویریں اس کے دادا اور دادی کی تھیں جو کئی سال پہلے مر چکے تھے۔ اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک مرتبہ اس کے دادا اس کھڑکی کے سامنے طوفان کا مشاہدہ کر رہے تھے لیکن ان کی تصویریں کس طرح شیشے میں ثبت ہوگئی تھیں….؟ یہ اسمتھ سونین جیسے ادارے کے لیے بھی ایک اسرار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ شیشہ بڑی احتیاط سے کھڑکی سے جدا کرکے عجائب گھر میں لے جایا گیا جہاں سائنسدانوں نے طویل تجربات کے بعد اپنی شکست تسلیم کرلی، یہ تصاویر کس طرح شیشے میں پیوست ہوگئی تھیں یہ سائنسدانوں کو معلوم نہ ہوسکا۔
یہ شیشہ انسٹی ٹیوٹ کی تیس لاکھ مالیت کے دوسرے نوادرات کے ساتھ رکھ دیا گیا اور یہ اب بھی وہیں موجود ہے۔
دو دسمبر 1891ء کو نیو البانیNew Albany (انڈیانا) میں صوفیا سخارف Sophia Scharf نامی عورت ایسٹ ففتھ سپرنگ اسٹریٹ میں اپنے گھر میں انتقال کر گئی، اس کی تجہیز و تکفین کی رسم تیسرے دن ادا کی گئی، اس سے اگلے دن اس کی بھاوج اس کے مکان میں داخل ہوئی تاکہ وہ مکان میں موجود اشیاء نکال کر اپنے گھر لے جائے۔
وہاں اس نے دیکھا کہ مردہ صوفیا کا چہرہ سامنے کی کھڑکی کے شیشے سے اس کی طرف گھور رہا ہے وہ بہت خوفزدہ ہوئی، ایک ہفتہ تک یہ عکس شیشے میں رہا۔ تمام افراد اس بات پر متفق تھے کہ عکس اسی بوڑھی عورت کا ہے لیکن یہ عکس شیشے میں کس طرح اُبھر گیا کوئی بھی نہ بتا سکا۔
اس طرح کی حیران کن تصویر اسمتھ کے گھر میں بھی تھی، جیس اسمتھ Jesse Smith ایک بوڑھا کسان تھا جو ڈلمیوائل (کنٹوکی)Demossville, Kentucky سے چھ میل مغرب کی طرف رہتا تھا۔ یہ واقعہ 1865ء کے موسم بہار کا ہے۔
جنگ زوروں پر تھی اور اسمتھ اپنے پڑوسیوں کی طرح اس انتظار میں تھا کہ کب محاذ سے بلاوا آتا ہے….؟
ایک صبح سخت طوفان کے بعد اسمتھ اور اس کی بیوی ایک قوس و قزح کو دیکھ کر حیران رہ گئے جو ان کی تین شیشوں والی کھڑکی کے پاس محراب بنائے ہوئے تھی۔ اگرچہ یہ قوس قزح مکان سے کچھ فاصلے پر نظر آتی تھی۔
سینکڑوں لوگ اس قوس قزح کو دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ لوگ اس سے جنگ کے متعلق شگون لینے لگے چند دنوں کے بعد جنگ ختم ہوگئی لیکن اس قوسِ قزح کا عکس بعد میں کافی دنوں تک کھڑکی پر موجود رہا۔کسنی نینٹی انکوائرز Cincinnati Enquirer کے نمائندوں نے اس قوسِ قزح کو ایک دستاویزی معموں کی فہرست میں داخل کردیا۔
اس مضمون میں دئے گئے واقعات کتاب Lightning as a Photographer سے لیے گئے ہیں جس کے مصنف تامل ناڈو (انڈیا ) کے ایک محقق چیدمبرم رمیش ہیں ۔ اس کتاب میں انہوں نے کراؤنوگرافی اور اس جیسے کئی واقعات کو اکھٹا کیا ہے۔ اس کے علاوہ دی گارجین، فیٹ میگزین اور ریڈیٹ میں کراؤنوگرافی Keraunography پر لکھے مضامین سے بھی مدد لی گئی ہے جن کے لنک درج ذیل ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے
- کراؤنوگرافی ویکیپیڈیا پر
- کراؤنوگرافی پر دی گارجین کا مضمون
- کراؤنوگرافی پر ریڈیٹ پر مضمون
- کھڑکی پر قوس قزح مضمون
- مردہ خاتون کا عکس
- فیٹ میگزین جنوری 1955 “Nature’s Strange Photographs,” by Henry Winfred Splitter, article in FATE Magazine, Iss. 58 (Vol. 8, No. 1), January 1955 Clark Publishing Company, Evanston, Illinois, USA. Pg. 22-23
Stranger Than Science, by Frank Edwards, 1978 Bantam Books (reprint of 1959 Lyle Stuart, Inc.), New York, NY, USA. Pgs. 150
فروری 2013ء