سورج گرہن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔
بڑی بوڑھیاں ہمیشہ سے تاکید کرتی رہی ہیں کہ حاملہ خواتین گرہن کے دوران ہرگز باہر نہ نکلیں، گھر کے کام کاج سے بھی احتراض کریں اور قینچی و چھری جیسے تیز دھار آلات کو ہرگز استعمال نا کریں….؟؟
کیا چاند اور سورج گرہن کے انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں….؟؟
علما، روحانی ماہرین اور سائنسدان اس بارے میں کیا کہتے ہیں….؟؟
انسان کے اندر تجسس کی صلاحیت اسے اپنے اور دیگر مخلوقات و کائنات کے سربستہ رازوں کو بے نقاب کرنے میں مگن رکھتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک نئی تحقیق سے صدیوں پرانی روایات اور نظریات پر اچانک ضرب پڑجاتی ہے ۔ اس وجہ سے کچھ عرصے تک کے لئے لوگ اس نئی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔
سورج ، چاند ، زمین اور دیگر سیارے اور وسیع و عریض کہکشانی نظام کے سامنے انسان کی اپنی ذاتی حیثیت کچھ دیر کے لئے معدوم سی ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود انسان میں تجسس اور عزم اسے نئے نئے رازوں کو جاننے کی طرف مائل رکھتا ہے ۔ ذہن میں ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ پورا سسٹم کس کے کنٹرول میں ہے؟
زمانہ قدیم سے سورج ، چاند ، زمین ، آسمان اور دیگر سیاروں سے متعلق مختلف نظریات قائم ہوتے اور ختم ہوتے رہے ہیں۔
21ویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں جب بھی سورج گرہن رونما ہوتا ہے۔ ایک جانب خلائی تحقیق سے متعلق اداروں ، رصد گاہوں اور محکمہ موسمیات کے تحت اس قدرتی منظر کو دیکھنے اور اس کے نتیجہ میں حقائق کو سامنے لانے کے لئے انتظامات کرنے لگتے ہیں۔ دوسری جانب ماہرینِ نجوم سورج گرہن کی پٹی پر واقع ممالک کے بارے میں پیش گوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے واقعات کو قرب قیامت کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ ایسے موقع پر عام افراد کو زیادہ تر خوف زدہ دیکھا جاتا ہے ، اکثر لوگ گھروں میں بند ہوکر بیٹھ گئے کہ کہیں سورج گرہن کے نحس اثرات انہیں نقصان نہ پہنچائیں ۔
آج 10 جون 2021ء کو سال کا پہلا سورج گرہن ہے۔
سورج گرہن ہو یا چاند گرہن ان دونوں میں سورج ، چاند اور زمین شامل ہوتے ہیں۔ سورج گرہن ہو یا چاند گرہن دونوں سے متعلق توہمات اور نظریات موجود ہیں۔
دو ڈھائی ہزار سال قبل اہل بابل کا خیال تھا کہ زمین ایک قرص کی مانند ہے جو سمندر کے پانی سے چاروں اطراف سے گھری ہوئی ہے اور آسمان پیالے کی مانند چپٹی زمین کے اوپر الٹا رکھا ہوا ہے۔ چاند سورج اور دیگر ستارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ آسمان نے ایک کھوکھلے گلوب کی مانند زمین کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ستارے نگینوں کی طرح آسمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ آسمان روزانہ مغرب کی طرف حرکت کرتا ہے۔
340 سال قبل مسیح میں یونانی فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب میں زمین کے چپٹے ہونے کی بجائے گول ہونے پر دلائل پیش کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ارسطو یہ سمجھتا تھا کہ زمین ساکت ہے اور سورج ،چاند، ستارے اور سیارے زمین کے گرد گول مدار میں گھوم رہے ہیں۔
دوسری صدی عیسوی میں بطلیموس Ptolemyنے ارسطو کے نظریہ کو مکمل کوسمولوجیکل ماڈل Cosmological Model کی شکل دی جس میں زمین مرکز میں تھی جس کے گرد آٹھ کّرے ، چاند، سورج ، ستارے اور اس وقت تک معلوم پانچ سیارے یعنی عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل تھے۔ بطلیموس کے ماڈل کو عیسائی کلیسا نے صحیفوں کے مطابق تصویر کائنات کے طور پر قبول کرلیا۔
1514ء میں نکولس کوپر نیکس Nicolas Copernicus نے یہ نظریہ ماڈل کی شکل میں پیش کیا کہ سورج مرکز میں ساکت ہے اور زمین اور سیارے اس کے گرد گول مدار میں حرکت کررہے ہیں۔
1609ء میں گیلیلیو نے نئی نئی ایجاد شدہ دور بین سے رات کے وقت مشاہدہ کے دوران معلوم کیا کہ تمام سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کچھ ذیلی سیارے ہیں جو اپنے سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جیسے چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے اسی طرح مشتری کے گرد بھی اس کے اپنے چاند گردش کررہے ہیں۔ یورپ میں چرچ نے ان مشاہدات کو یکسر مسترد کردیا۔
برسوں تک لوگ گیلیلیو کے نظریات کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے لیکن گیلیلیو کے بعد یوہانس کیپلر ، نیوٹن ، ہاٹن رِچ اولبرز، سینٹ آگسٹن، ایڈون ہبل ، اور آئن اسٹائن کے پیش کردہ نظریات کے بعد جدید سائنسی آلات کی بنیاد پر تحقیق ہوئی ۔
انسان ایک مدت سے یہ سمجھتا اور مانتا آیا ہے کہ اجرامِ فلکی اس کی تقدیر، مستقبل اور جسمانی اور ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سورج گرہن سے متعلق دنیا بھر میں طرح طرح کی توہمات مشہور ہیں، بھارت میں یہ بات مشہور ہے کہ گرہن کے وقت سورج اور چاند کو راہو ، کیتو پکڑ لیتے ہیں تو یہ دونوں سیارے گرہن کے وقت مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے زمین اور اہل زمین پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ ہندوؤں میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ سورج گرہن کے وقت جتنی زیادہ تکالیف برداشت کرکے سینے کے بل رینگ رینگ کر گنگا تک پہنچ کر اس میں اشنان کیا جائے اسی مناسبت سے گناہ دُھل جاتے ہیں ۔ ہندوؤں میں سورج گرہن کے دن برت رکھنے کا رواج بھی ہے۔
ایک قدیم چینی عقیدہ کے مطابق سورج گرہن کے وقت ایک ڈریگون (بلا) سورج کے اوپر حملہ آور ہوتی ہے اور اسے نگلنے کی کوشش کرتی ہے۔
غرضیکہ سورج گرہن کو زمانہ قدیم سے خوف، دہشت ، بد شگونی اور نحوست کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے کچھ نہ کچھ تباہی آتی ہے۔ مختلف مذاہب میں سورج گرہن کو ایک آسمانی آفت تصور کیا جاتا ہے۔
آج بھی سورج اور چاند گرہن کے اوقات میں حاملہ خواتین کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ گرہن کے وقت سورج یا چاند کی طرف دیکھنے پر پابندی ، کوئی ایسا کام کرنا جس میں کوئی چیز کاٹنے مثلاً چھری یا چاقو سے سبزی یا پھل اور کپڑاکاٹنے پر پابندی لگاد ی جاتی ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے ماں کے رحم میں موجود بچے پر اثر پڑسکتا ہے۔ اگرچہ آج کے دور میں اس طرح کے بہت سے نظریات متروک ہو چکے ہیں لیکن انسان اور اجرام فلکی کے تعلق پر سائنس کی تردید کے باوجود بعض اعتقادات آج تک قائم ہیں۔
سورج گرہن اور سائنس
علم فلکیات Astronomy کی اصطلاح میں گرہن کا مطلب ہے کہ سورج ، چاند یا کوئی اور چمکدار اجرام فلکی کی روشنی کے درمیان کوئی رکاوٹ آجائے۔
سائنسی نقطہ نظر کے مطابق سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کرتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے اور چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے جس کے باعث دن کے وقت سورج کی روشنی جزوی یا مکمل طور پر کچھ وقت کے لئے زمین پر نہیں پڑتی۔ سال میں کم از کم دو سورج گرہن ہوتے ہیں۔ جبکہ سالانہ سورج گرہن کی تعداد 5تک ہوسکتی ہے۔
مکمل سورج گرہن یعنی جب چاند سورج کے سامنے مکمل طور پر آتا ہے ایک شاندار منظر پیش کرتا ہے ۔ چاند ، زمین اور سورج کے ایک لائن میں آنے کے باعث سورج کی چمکدار سطح Photosphere چھپ جاتی ہے۔ جبکہ سورج کے اطراف رنگین ہالہ Chromospheres اور چمکدار ہالہ یعنی Corona کچھ وقت کے لئے نظر آتا ہے۔
مکمل سورج گرہن کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت 9 منٹ ہوسکتا ہے ۔ ماہرین فلکیات کی تحقیقات کے مطابق مکمل سورج گرہن کے لئے راستہ کی چوڑائی زیادہ سے زیادہ 167میل ہوسکتی ہے۔اس لحاظ سے کوئی بھی مکمل سورج گرہن 9 منٹ کے وقفہ سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔
جزوی سورج گرہن میں سورج کے گرد رنگین ہالہ یعنی Chromospheres اور چمکدار ہالہ یعنی Corona کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ۔
سائنسدان سورج گرہن کے دوران چاند کے سائے کے گرد چمکدار ہالہCorona اور Chromospheres کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
سورج گرہن کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے اور اس کا انحصار گرہن کے وقت پر اور زمین کے فاصلہ پر ہوتا ہے۔ چاند کا جو سایہ زمین پر پڑتا ہے اس میں ایک گہرا سایہ ہوتا ہے یہ گہرا سایہ Umbra کہلا تا ہے اور ہلکا سایہ Penumbra کہلاتا ہے۔گہرا سایہ Umbra مکمل سورج گرہن میں اور ہلکا سایہPenumbra جزوی سورج گرہن کے دوران ہوتا ہے۔
خلائی لیبارٹریز کے لئے سورج گرہن سائنٹفک موقع فراہم کرتا ہے۔ جن میں قابل ذکر یورپین ، امریکن، سوہوSOHO جاپان کی YOHKOH سیٹیلائٹ اور ناسا کی ٹیلی اسکوپ TRACE شامل ہیں۔
سورج گرہن کے اثرات
سورج اور چاند گرہن کے اوقات میں حاملہ خواتین کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ گرہن کے وقت سورج یا چاند کی طرف دیکھنے پر پابندی ، کوئی ایسا کام کرنا جس میں کوئی چیز کاٹنے مثلاً چھری یا چاقو سے سبزی یا پھل اور کپڑاکاٹنے پر پابندی لگاد ی جاتی ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے ماں کے رحم میں موجود بچے پر اثر پڑسکتا ہے۔
سورج گرہن کے انسانی زندگی خصوصا حاملہ خواتین پر اثرات کی کوئی سائنسی دلیل موجود نہیں ہے۔ بعض لوگ گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں- گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غلط اثر پڑ سکتا ہے- یہ سب وہم ہے۔ سورج گرہن کے دوران کھانے پینے سے گریز کی بات میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی طرح تیزدھار آلات کو استعمال کرنے کے خطرات اور سورج گرہن کے درمیان بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ توہمات اس دور سے چلی آرہی ہیں جب الیکٹرسٹی کا وجود نہیں تھا، ایسے میں سورج گرہن ہونے پر دن میں اندھیرا چھا جاتا تھا۔ یہ تو عام سمجھ بوجھ کی بات ہے کہ اندھیرے میں تیزدھار آلات کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے ۔
یہ بات تو درست ہے کہ سورج گرہن کے دوران باہر نکلنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس حالت میں سورج کو دیکھنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ یہ صرف حاملہ خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی افراد کے لئے بھی ضروری ہے۔ سورج گرہن کے دوران سورج کو دیکھنا آنکھ کے ریٹینا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پیغمبرانہ تعلیمات….
تاریخِ انسانی میں دو طرح کے افراد کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جو حقیقت آشنا ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ حقیقت آشنا طرزِ فکر کے افراد پیغمبران علیہم السلام ہیں یا وہ افراد ہیں جو پیغمبرانہ طرز فکر کے حامل ہیں۔
اسلام سے پہلے اہلِ عرب میں ایسے اعتقاد پائے جاتے تھے کہ جب بھی سورج یا چاند کو گہن لگتا تو وہ لوگ کہتے کہ کسی بڑے آدمی کی موت ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ گہن لگا ہے- رسول اللہ ﷺ نے ان توہمات کا رد فرمایا ۔ دورِ نبوی میں جب ایک بار سورج گرہن ہوا ، اسی دن آپ ﷺ کے پیارے بیٹے ابراہیم ؓ کی وفات ہوئی تھی۔ اس پر لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے اس ضعیفُ الاعتقادی کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا
سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔
[صحيح بخاری]
ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔چنانچہ جب تم انہیں اس حالت میں دیکھو تو اللہ تعالی سے دعا کرو اور (گہن کی) نماز پڑھو حتیٰ کہ سورج گہن کھل جائے۔
[صحيح بخاری]
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
‘‘چاند اور سورج کا گرہن آثارِ قدرت ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اور وجہ) سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔’’
[صحیح بخاری]
جب بھی سورج گرہن کا واقعہ پیش آئے تو ہم سب کو توہمات میں مبتلا ہونے کے بجائے بارگاہِ الٰہی میں نماز کسوف ادا کرنی چاہیے اورجتنا ہوسکے اللہ تعالی کے استغفار اور اسم الٰیہ کا ورد کرنا چاہیے ۔
روحانی ماہرین
اب ہم علمائے باطن کی طرزِفکر سے مشاہدہ کئے گئے۔ نظامِ شمسی سورج ، چاند اور زمین کے متعلق اور سورج گرہن کی حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔
جس طرح روحانی نظر سے چاند ، زمین اور سورج کی اصل ماہیت ظاہری ماہیت سے مختلف نظر آتی ہے اسی طرح روحانی نظر سے سورج گرہن کا Mechanism بھی مختلف نظر آتا ہے۔
سورج اور چاند کی گردش ہر باشعور آدمی کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ مخلوق کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں ایک طرز کے حواس کا تعلق رات اور چاند سے ہے اور دوسرے حواس کا تعلق دن یا سورج سے ہے۔
آئندہ آنے والے سورج گرہن
10 جون 2021ء شمالی امریکا،ایشیا، یورپ،
04 دسمبر 2021ء انٹارکٹیکا، جنوبی افریقا
30 اپریل 2022ء شمالی امریکا، بحرالکاہل
25 اکتوبر 2022ء جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ
20 اپریل 2023ء ایشیاء ، انڈونیشیا،آسٹریلیا،
14 اکتوبر 2023ء امریکا، کولمبیا، برازیل
8 اپریل 2024ء میکسکیو، کینیڈا، امریکا <<<
2 اکتوبر 2024ء جنوبی امریکا، بحرالکاہل
29 مارچ 2025ء افریقا، یورپ ،روس
21 ستمبر 2025ء بحرالکاہل، انٹارکٹیکا،
17 فروری 2026ء جنوبی امریکاو افریقا، انٹارکٹیکا،
12 اگست 2026ء شمالی امریکا،افریقا، یورپ،
6 فروری 2027ء جنوبی امریکاو افریقا، انٹارکٹیکا،
2 اگست 2027ء جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ
26 جنوری 2028ء امریکا، مغربی یورپ و افریقا
22 جولائی 2028ء مشرقی ایشیا تا آسٹریلیا
14 جنوری 2029ء شمالی و وسطی امریکا
12 جون 2029ء کینیڈا، الاسکا، آرکیٹک
11 جولائی 2029ء چلی ، ارجنٹینا، جنوبی امریکا
5 دسمبر 2029ء چلی ، ارجنٹینا، انٹارکٹیکا
1 جون 2030ء جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ
25 نومبر 2030ء جنوبی افریقا تا آسٹریلیا
روحانی ڈائجسٹ جولائی 2020ء کے شمارے سے انتخاب