ہر انسان اپنے وجود کے اندر ایک قوسِ قزح کا حامل ہے۔ اس قوسِ قزح میں دھنک رنگوں کی تابانی اور توازن کا دوسرا نام صحت ہے۔
اس قوسِ قزح کے رنگوں کا منبع اور ماخذ کیا ہے ؟
رنگ اصل میں کیا ہیں اور ان کا منبع اور ماخذکیاہے….؟
رنگ مرئی روشنی میں موجود مخصوص تموج، معین تعدد اور اپنا ایک منفرد طولِ موج رکھنے والی لہروں کو کہا جاتا ہے۔ مرئی روشنی کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ دھوپ ہے۔سورج سے زمین کی طرف آنے والی روشنی کو ہم دھوپ کے نام سے جانتے ہیں۔یہ روشنی زمین پر نباتات، حیوانات اور ہر قسم کے جانداروں کی حیات کی ضامن ہے۔
زندگی روشنی سے آغاز پاتی ہے اورروشنی پر ہی زندگی کے قیام کا دارو مدار ہے۔تخلیق کی ابتداء روشنی سے ہوتی ہے اور یہ روشنی ہی ہے جو تخلیق کو سنبھالے رہتی ہے۔ سورج کائناتی قوت کا ایک ایسا مظہر ہے جو زمین پر بسنے والی مخلوقات کو قوت اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات سبھی اس روشنی سے براہِ راست اور بالواسطہ مستفید ہوتے ہیں۔یہ مخلوقات سطحِ ارض پر خشکی میں ہوں یا تری میں، سب اپنی حیات کے لئے سورج کی روشنیکے محتاج ہیں۔
سمندر کے اندر نیچے اتر کر دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سطحِ سمندر کے نیچے اتنے خوبصورت مناظر اور حیات کی ایسی ایسی صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خشکی پہ اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ زیر آب رنگوں کی ایسی بو قلمونی کہ انسان اُسے دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ جائے۔انتہائی شوخ رنگوں سے مزیّن نظارے ، رنگا رنگ مخلوقات کے اژدھام کسی انتہائی شاندار باغ میں رنگین تتلیوں کے رقصاں غول کے غول جیسے نظاروں کو بھی مات دیتے ہیں۔آبی حیات میں ر نگوں کا یہ تنوع بھی سورج کی روشنی کا ہی مرہونِمنتہے۔
یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ کسی بھی دھات کو دھوپ میں رکھا جائے تو اُس کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔کچھ دھاتیں ایسی ہیںجن پر دھوپ اپنا اثر جلد مرتب کرتی ہے اور کچھ دھاتیں اس اثر کو جلد قبول نہیں کرتیں لیکن جلد یا بدیر یہ اثر ضرورمرتب ہوتا ہے۔حتیٰ کہ کچھ عرصہ بعدسونے جیسی دھات کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔اس دھوپ کے زیر اثر ہوائیں گرم ہو کر اوپر اُٹھتی ہیں اور فضا کے دباؤ میں تغیّر و تبدل سے موسموں میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔برفیں پگھلتی ہیں تو ندی نالوں، دریاؤں اور چشموں میں پانی کی فراہمی ممکنہوتیہے۔
اسی دھوپ کی وجہ سے ضیائی تالیف(Photo Synthesis)کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس عمل میں پودے اپنے پتوں میں آکسیجن اور نشاستہ تیار کرتے ہیں، جو نہ صرف ان کے اپنے لئے بلکہ حیوانات کے لئے بھی غذاکی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ سورج کی روشنی جب سبز پتوں پر پڑتی ہے تو پتوں میں موجود سبز مادّہ ، کلوروفل پانی اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو باہم ملا کر ایک کیمیائی عمل سے گزارتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں آکسیجن اور کاربوہائیڈریٹ بنتے ہیں۔آکسیجن اور نشاستہ ہی نباتات اورحیوانات کی غذا کابنیادی جزو ہے۔یعنی سورج کی روشنی سے حیوانات براہ راست اور بالواسطہ مستفید ہوتے ہیں۔
سورج کی روشنی جسم میں سرایت کر کے جراثیم کو مارنے کا سب سے آسان اور فطری ذریعہ ہے۔دردوں کو آرام پہنچاتی ہے۔وٹامن ڈی بنانے میں مدد دیتی جو خون میں کیلشیم کی مقدار کو متوازن رکھتا اور ہڈیوں میں کیلشیم کو ضزب ہونے میں مدددیتاہے۔
اندھیرے میں رہنے اور دھوپ سے محروم ماحول میں کام کرنے والوں میں خون کے سرخ اور سفید ذرات کی کمی واقع ہو جاتی ہے جبکہ سورج کی روشنی ان سب چیزوں سے محفوظ رکھنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ مغربی اقوام میں دھوپ کے ان فوائد کا اتنا ادراک کہ وہ اپنی صحت کی خاطر باقاعدگی سے سن باتھ یعنی دھوپ سے نہانا ضروری سمجھتے ہیں۔
ہمارے یہاں دھوپ کی تمازت مغربی ممالک کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ احتیاط کرنا ضروری ہے کہ دھوپ میں اپنی برداشت اور سکت سے زیادہ نہ رہا جائے۔ خاص طور پر سر کو دھوپ سے بچا کر پندرہ بیس منٹ کے لئے جسم پہ دھوپ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ بھی صرف صبح کے وقت کی دھوپ جب کہ دھوپ میں تمازت کم ہو۔گھنٹوں جسم پر دھوپ لینے سے جلدکا رنگ خراب ہونے کے علاوہ جلدی امراض بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ زیادتی کسی بھی چیز کو ہو مضر ہی ہوتی ہے۔
سورج سے مہیا ہونے والی توانائی کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک مربع میٹر جگہ میں 16 سے 26 میگا جولز توانائی ملتی ہے۔ دنیا میں اس توانائی کا تخمینہ اوسطاً 13 میگا جولز فی مربع میٹر فی دن ہے۔جب کہ پاکستان میں یہ اوسط 19 میگا جولز فی مربع میٹر فی دن ہے۔
تپِ دق یا ٹی بی ایک ایسا مرض ہے جو دھوپ کی کمی اور زیادہ وقت تاریک یا کم روشن اور مرطوب جگہوں پہ رہنے والوں کو ہوتا ہے۔ اکثر خواتین جو کم روشن اور مرطوب جگہ پر رہتی ہیں اس مرض میں مبتلا ہو تی ہیں۔ اس مرض میں پھیپھڑوں میں زخم پیدا ہو جاتے ہیں اور کھانسی کے ساتھ بلغم میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ جسم پہ اور بھی کئی مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ نظامِ ہضم سے لے کر ہڈیوں تک اس کا اثر ہونا ایک عام بات ہے۔
اگر کسی مریض میں ٹی بی تشخیص ہو جائے تو اس کا آسان اور فطری علاج دھوپ یعنی سورج کی روشنی بھی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے روز مریض کو دھوپ میں اس طرح رکھا جائے کہ اُس کے صرف دونوں پیر گھٹنوں تک پانچ دس منٹ دھوپ میں رہیں۔اس طرح آدھ آدھ گھنٹے کے وقفے سے چار پانچ مرتبہ پیروں پہ دھوپ لی جائے۔ دوسرے دن پندرہ بیس منٹ، آدھ آدھ گھنٹے کے وقفے سے چار پانچ مرتبہ پیروں پہ گھٹنوں تک، دھوپ لی جائے۔تیسرے روز پوری ٹانگوں اور رانوں پہ آدھ آدھ گھنٹے کے وقفے سے ، پندرہ پندرہ منٹ، پانچ مرتبہ دھوپ لی جائے۔ چوتھے دن بھی اسی طرح بیس بیس منٹ کے لئے، چار پانچ مرتبہ نچلے دھڑ پہ دھوپ لی جائے۔ پانچویں دن سے پورے جسم پہ، سر کو بچا کر یعنی سوائے سر کے باقی پورے جسم پہ آدھ آدھ گھنٹے گھنٹے کے لئے چار پانچ مرتبہ ،دھوپ لی جائے۔ اس آدھ گھنٹے میں سے آدھا وقت یعنی پندرہ منٹ سیدھا لیٹ کر اور باقی آدھا وقت اُلٹا لیٹ کر سر اور گردن کو بچا کر دھوپ لی جائے۔ اس عمل سے جسم میں ٹی بی کے خلاف قوتِ مدافعت میں بہت اضافہ ہوسکتاہے۔
اس دوارن یعنی دھوپ لینے کے دوران مریض کے پاس نمک ملاسادہ یا لیموں پانی بھی رکھیں۔ کیونکہ دھوپ لینے کے دوران پسینہ آنے سے جسم سے پانی اور نمکیات کی کمی کو ساتھ ساتھ پورا کیا جانا ضروری ہے۔دوسری اہم بات یہ کہ دھوپ یا سورج کی روشنی صبح کے وقت لی جائے۔یعنی صبح کی تازہ دھوپ لی جائے۔ دھوپ میں تمازت اور تیزی آنے سے پہلے پہلے دھوپ لی جائے ۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی
(جاری ہے)