Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

Single Women Over Thirty

Single Women Over Thirty
Single Women Over Thirty
لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا معاملہ پاکستانی معاشرے کے سنجیدہ ترین مسائل میں سرفہرست آچکا ہے۔ سینکروں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں مناسب رشتوں کے انتظار میں والدین کے گھر بیٹی ہوئی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں تیس سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس انتہائی اہم مسئلے کا حل تلاش کرنا، ہمارے دانش وروں، اساتذہ کرام اور دیگر شعبوں سے وابستہ سینئر پاکستانیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ (ادارہ)

بھائی کی بری صحبت کی وجہ سے  بہن کے رشتے رد ہوتے رہے

زندگی میں بہت سی اہم چیزوں کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی نہ ان کے فوائد و نقصانات پر کبھی توجہ دی جاتی ہے۔ رشتہ داریاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں اگرخونی رشتوں کی بات کی جائے، تو ان کی اہمیت و افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔

 کہتے ہیں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب ہوتا ہے، جسے اپنے میسر ہوتے ہیں، کیوں کہ خونی اور سگے رشتے قدرت کا انتہائی خوب صورت اور لازوال عطیہ ہوتے ہیں، جن کی قدر ہم پر لازم ہوتی ہے۔

 ایسے ہی رشتوں میں ایک رشتہ ‘‘ بہن اور بھائی’’ کا ہے۔

بہن بھائی کے تعلق میں ایک قدرتی محبت رکھی گئی  ہے۔  اس تعلق میں دکھاوا کم اور حقیقت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے جڑا یہ رشتہ وقت اور فاصلوں کا محتاج نہیں ہوتا ۔یہ غیر مشروط ہوتا ہے۔    دنیا میں ماں باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال خونی رشتہ ہے، وہ  بہن بھائی کا رشتہ ہی ہے۔

بڑے بھائی کا درجہ والد جیسا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل والد ہوتا ہے، جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک والدین کی طرح  ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے۔ ان کے بیمار ہونے کی صورت میں ماں کی طرح خود بھی راتوں کو جاگتا ہے۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتا ہے۔  بہنیں بھی اپنے بھائی  کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتی ہے۔

بھائی اور بہن کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ بھائی کو کچھ ہو جائے تو بہن رونے لگتی ہے جبکہ بہن پر کوئی آفت آجائے تو بھائی بے قرار ہوجاتا ہے۔ لیکن  جس طرح انسانی ہاتھوں میں ساری انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سب  بھائی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے  ۔

میرا نام عانیہ ہے،  میری والدہ ایک عام گھریلو خاتون ہیں  اور میرے والد  ایک پرائیویٹ  ادارے  میں ملازم ہیں۔ میرا ایک ہی بھائی  ہے۔

محلے اور آس پڑوس میں ہمارا گھرانہ ایک پڑھا لکھا اور معززگھرانہ سمجھا جاتا ہے۔  میرے ابو  محلے کے ہر گھر کے دُکھ ُسکھ میں پیش پیش رہتے ہیں اور تمام محلے والے انکی بے حد عزت کرتے ہیں ۔محلے کے تقریباً تمام لوگ ان سے اپنے تمام معاملات میں مشورہ کرتے رہتے ہیں اور ہر مشکل اور الجھن میں اُن سے رہنمائی چاہتے ہیں۔

میرا بھائی  حافظ قرآن ، نہایت شریف ، نمازی اور شروع ہی سے پڑھائی میں بہت اچھا اور ہمیشہ سکول کالج میں اچھی پوزیشن لیتا رہا ہے۔ میں  بھی اپنے بھائی ہی کی طرح اپنے کالج کی ایک لائق اسٹوڈینٹ رہی۔ ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔   مجھے نہیں یا دپڑتا کہ میرے بھائی  نے گھر والوں   یا محلے کے لوگوں کو کبھی کسی معاملے میں پریشان کیا ہو۔

ہمارا گھرانہ ایک مثالی اور قابل رشک گھرانہ تصور کیا جاتا تھا، پھر  ہم  نے اور محلے والوں نے بھی  فہد بھائی میں کچھ تبدیلیاں محسوس کرنا شروع کیں۔  وہ کچھ الجھےہوئے نظر آنے لگے۔ ہمارے ساتھ  بیٹھنے سے گریز کرنے لگے۔ جب بھی گھرمیں ہوتے تو زیادہ تر وقت تو اپنے کمرے میں بند رہ کر گزارتے۔ وہ اپنے آپ سے بے توجہی برتنے لگے ۔ نہانے، دھونے، صفائی ستھرائی اور اچھے کپڑوں،جن کا اُنہیں بہت شوق تھا، اس کی طرف سے بے توجہی برتنے لگے۔پڑھائی سے بھی جی چرانے لگے۔ کبھی کبھی گھر آتے تو ایسا  لگتا کہ جیسے  تھکے تھکے سے، نیند یا غنودگی کے عالم میں ہوں۔

 گھر والوں  نے اِن تبدیلیوں کو محسوس کیا، لیکن ان کو کوئی معنی نہ پہنا سکا۔  میری امی نے ایک روز اُس کے ساتھ آئے ایک قریبی دوست سے بھی پوچھا کہ یہ آج کل فہد کو کیا ہو گیا ہے؟

لیکن اُس نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا ۔

اب فہد بھائی نے جو مغرب کے بعد کبھی گھر سے باہر نہ رہتے تھے راتوں کودیر سے گھرآنا شروع کر دیا۔ اُن کے اکثر کپڑے میلے اور بال اُلجھے ہوئے رہنے لگے۔  پوچھو تو غصہ کرنے لگتے، بغیر کسی معقول وجہ کے اکثر   کبھی مجھے ڈانٹ دیتے اور کبھی کبھی امی  سے بھی تکرارکرنے لگتے  تاہم بعد میں معافی بھی مانگ لیتے تھے۔

بھائی کی اس حالت نے سب گھر والوں کو  تشویش میں مبتلا کردیا  اور سب کے  ذہن میں مختلف وسوسے اور اندیشے سر اُٹھانے لگے تھے۔

ایک دن میری امی  نے فہد بھائی کے ایک قریبی دوست جو ہمارے محلے ہی میں رہتا تھا ،  کے گھر جاکر اُس سے کسی قدر سختی سے پو چھا کہ

بتاؤ فہد کوکیا ہوا ہے؟ …. اُسکے طوراطوار کیوں بدلتے جارہے ہیں؟…. و ہ کس پریشانی یا الجھن میں ہے؟ ….  وہ پڑھتا کیوں نہیں ؟…. رات بھر باہر کہاں رہتا ہے؟….

اُس نے پہلے تو ٹال مٹول کر کے جان چھڑانا چاہی لیکن جب امی  نے ذرا سختی سے بات کی تو کہنے لگا ‘‘آنٹی !اب اس کی دوستی بگڑے ہوئے لڑکوں کے ساتھ ہوگئی ہے، جنہوں نے فہد کو نشہ کا عادی بنادیا ہے۔ ’’

اس کی اس بات سے  ہمیں تو یوں لگا جیسے ہمارے سر پر کوئی بم پھٹ گیاہو ۔ ہماری تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی۔  ابو کی تو اس صدمے سے جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی۔  وہ  اکلوتی اولاد جس کے کندھوں پر مستقبل میں اس گھر کی ذمہ داریاں اور ماں باپ نے اپنا بڑھاپا گزارنا تھا ،وہ  اپنا مستقل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ برباد کررہا ہے۔

ہر روز  وہ امی ابو سے معافی مانگتے نشہ چھوڑنے کی  حامی بھرتے،  لیکن  ہر بار بھائی کا عزم اور ارادہ ٹوٹ جاتا اوروہ پھر دوبارہ اُسی دلدل میں جاگر تے۔ وہ کہتے کہ وہ تو نشے کو چھوڑنا چاہتے تھے لیکن اب نشہ اُسے نہیں چھوڑ  رہاتھا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔پہلے غلطی،پھر ندامت ، پھر معافی، اور کچھ دنوں بعدپھر وہی غلطی۔

پہلے تو محلے   کے چند گھروں اور چندقریبی رشتہ داروں  کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔   اب تقریباًتمام محلے والوں اور عزیز وا قارب کو رفتہ رفتہ پتہ چل گیا کہ فہد نشے کا عادی ہوگیا ہے ۔

 میرے ابو  جو سارے محلے میں انتہائی شریف النفس  تھے،  اب محلے والوں کا سامنا نہیں کرپارہے تھے۔ وہ صبح بہت پہلے ہی آفس   چلے جاتے اور رات دیر سے گھر آتے، تاکہ لوگوں کا سامنا کرنے سے بچے رہے۔  کئی دفعہ بیٹے کا علاج کروانے کا سوچا لیکن اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادیوں کا اشتہار لگانے کا حوصلہ نہ ہوا۔

میرے لئے کئی جگہوں سے رشتے آرہے تھے، بھائی کی خراب شہرت کی وجہ سے وہ سب رک گئے۔  بہن جس کے بھائی کے ہاتھوں ڈولی میں بیٹھنے کے خواب کب کے چکنا چور ہوچکے تھے ۔  ہمارے عزیزو اقارب نے ہمیں ہمدردی اور طعن و تشنیع کی سان پر رکھ لیا ۔ محلے والے  کبھی ہمدردی اور کبھی طنز کرتے۔

 پھر ایک وقت ایسا آیا کہ محلے کا سب سے معزز ، محترم اور پڑھا لکھا گھرانہ اِس ذلت ، رسوائی اور بربادی کا بوجھ اٹھا کر اس محلے میں مزید نہ رہ سکا ۔اس لیے ہم سب کہیں اور جابسے، جہا ں ہمیں کوئی نہ جانتا ہو ۔

لیکن جہاں جاکر بھی بستے ، میرے بھائی  کے نشے کے چرچے  وہاں پہلے پہنچ جاتے ،   چھ سال سے ہم ایک  محلہ سے دوسرے محلہ گھر تبدیل کر  رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا رشتہ کہیں طے نہیں ہو پا رہا ۔  رشتے کئی جگہ پر طے ہوئے  لیکن شادی تک بات پہنچی نہیں کہ بھائی کی حرکتوں کا پتہ چلتے  ہی ٹوٹ گئے ۔

 سات سال جب ایسے ہی گزر گئے اور میرے خاندان میں مجھ سے کئی سال چھوٹی لڑکیوں  کے رشتے آنے لگے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی کزن  کی شادی ہو چکی ہے ۔ اب میری عمر بھی تیس سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔ میری فکر کرتے کرتے میری والدہ کی ٹینشن بہت ہی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ تقریباً ہر دعا میں رو رو کر گڑ گڑا کر دعا مانگتی ہوں کہ اللہ پاک میرے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ کوئی نیک، پاکیزہ اور شریف ساتھی دے جو کہ عزت و تحفظ دے سکے۔  میری خود اعتمادی بھی کافی حد تک ختم ہو چکی ہے اور اندر سے بہت زیادہ ٹوٹ چکی ہوں۔

بھائی کیسے بھی ہوں بہنوں کا مان ہوتے ہیں ۔ ان کا ہر رویہ بہنوں کے لیے  محبت کا حقدار ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی عمل آپ کی بہنوں کو دکھ پہنچانے کا اور ان کی زندگیوں کا متاثر کرنے کا سبب نا بنے ۔

یہ بھی دیکھیں

بیٹیوں کے رشتے کی تلاش آخر مشکل کیوں؟

معروف مصنف بانو قدسیہ بیٹیوں کے بارے میں لکھتی ہیں۔ ‘‘کبھی بھی شادی کے کھانے ...

ماں کی آواز میں ہے کچھ خاص

ماں کی آواز اولاد پر آنے والی کئی مصیبتیں ٹال سکتی ہے۔ ‘‘ماں’’ دنیا کاسب ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *