Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

خواب کو قابو کرنے والی قوم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

خواب کو قابو کرنے والی قوم

سینوئی قبیلہ

کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں 


ملائیشیا کے ایک پہاڑی سلسلہ میں جنگلات میں واقع قبیلہ سینوئی کے لوگ ترقی یافتہ دنیا سے دور لباس کے نام پر صرف دھوتی کی طرح زیرجامہ پہنتے ہیں
لیکن اس قبیلہ میں نہ کوئی جرم ہوتا ہے اور نہ کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ
اس قبیلے کے کسی فرد کو کبھی کوئی ڈراؤنا خواب نہیں آیا۔ ان کے خواب عام لوگوں سے زیادہ روشن اور واضح ہوتے ہیں دیکھتے ہیں ۔

ملائیشیا کے ایک پہاڑی سلسلہ میں کیمرون ہائی لینڈ Cameron Highlands کے نزدیک واقع جنگلات میں ایک قبیلہ‘‘سینوئی ’’ Senoi نام کا رہتا ہے۔ یہ لوگ اونگ اسلی قبائل کی شاخ سے ہیں۔ اس علاقے میں بسنے والے دیگر قبائل بہتر روزگار اور اچھی زندگی کے لئے جنگل کی رہائش ترک کر کے شہروں میں مقیم ہو چکے ہیں۔ سینوئی قبیلہ اس علاقہ میں ایک طرح سے تنہا رہ گیا ہے لیکن اس قبیلہ کے لوگ ترک وطن کا کوئی گمان بھی دل میں نہیں آنے دیتے۔ ساٹھ ہزار کی آبادی پر مشتمل سینوئی لوگ محض گھاس پھوس اور ٹاٹ کے جھونپڑوں میں خوشی خوشی رہتے ہیں۔ لباس کے نام پر صرف دھوتی کی طرح زیرجامہ پہنتے ہیں اور اپنی محدود سی زمینوں پر چاول، چائے، کیلے اور کدّو اُگاکر کھاتے ہیں، کبھی جانور اور مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے ان کو ساکی (قدیم وحشی ) پکارا جاتا تھا۔ آزاد کے بعد انہیں سینوئی کہاجانے لگا جس معنی انسان کے ہیں۔

 


اس قبیلہ کی ایک خاص بات تو یہ ہے کہ یہاں کوئی جرم نہیں ہوتا، یہی نہیں قبیلے کا کوئی بھی شخص اسٹریس، ڈپریشن یا کسی بھی طرح کی ذہنی بیماری یا اعصابی خلل میں مبتلا نہیں ہوتے اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قبیلے کے کسی فرد کو کبھی کوئی ڈراؤنا خواب نہیں آیا۔ ایسا نہیں کہ وہ خواب نہیں دیکھتے۔ وہ روز خواب دیکھتے ہیں اور عام لوگوں سے زیادہ روشن اور واضح خواب دیکھتے ہیں ، مگر ان کا ہر خواب خوشگوار ہوتا ہے۔

ایک انتھرپولوجسٹ (ماہر بشریات ) کِلٹون اسٹیورٹ Kilton Stewart، جو قدیم قبائل کے رہن سہن، عقائد اور تمدن پر لکھ رہے تھے ،

جنگ عظیم دوم سے پہلے وہ اپنی تحقیق کے لیے سینوئی قبیلے میں بھی آئے ۔ یہاں آکر انہوں نے دیکھا کہ سینوئی لوگ خوابوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ان کے گھر کا ہر فرد روز صبح اٹھ کر اپنا خواب گھر والوں کو سناتاہے، واضح طور پر ایک ایک جزیات کے ساتھ جیسے وہ کوئی فلم دیکھ رہا ہو، وہ لوگ خوابوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور خوابوں سے ملے اشاروں کی مدد سے اپنی معاشرتی و نفسیاتی زندگی بسر کرتے ہیں۔  کِلٹون اسٹیورٹ نے نوٹ کیا کہ سینوئی قبیلے کے افراد کو ڈراؤنے، پریشان کن اور پیچیدہ خواب نظر نہیں آتے بلکہ ان کے خواب خواشگوار اور تعمیری ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں سینوئی لوگوں کی اس حیرت انگیز خوبی کا تذکرہ کیا۔
PYGMIES AND DREAM GIANTS: By: Kilton Stewart


اس کتاب کی اشاعت کے بعد نفسیات اور سائنس کی کئی ماہرین اس قبیلے میں گئے اور ان لوگوں سے گھل مل کر دریافت کیا کہ آخر کیا وجہ ہے سینوئی قبیلہ کے افراد اپنے خوابوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کررہے ہیں اور انہیں کوئی ڈراؤنا خواب کیوں نطر نہیں آتا ۔ سینوئی لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے خوابوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔

سینوئی قبیلے کے لوگوں کو بچپن ہی سے خواب کو سمجھنے اور خواب کو اپنی مرضی کے مطابق کنڑول کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ لڑکپن کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان میں یہ صلاحیت بیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خوابوں کو قابوں میں کر سکیں، یا اپنی مرضی کے خواب دیکھ سکیں۔اس طرح اس قبیلے کے لوگ اپنی کن نفسیاتی اور معاشرتی ضرورتیں اپنے خوابوں کی مدد سے پوری کرتے ہیں۔
خوابوں پر تحقیق کرنے والی پٹریشیا گا رفیلڈ Patricia Garfield نے سینوئی قبیلے کی مہارت اور فن سے متاثر ہو کر ایک کتاب کریِایٹوڈریمنگ Creative Dreamingکے نام سے لکھی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سینوئی قبیلے کے افراد اپنے خوابوں سے فائدہ اٹھانے کے تین اہم اصول اپنائے ہوئے ہیں۔

 

1۔خطرہ کا مقابلہ کرو اور اس پر فتح پاؤ۔
Confront and Conquer Danger
2۔خوشیوں کی جانب پیش قدمی کرو۔
Advance To wards Pleasure
3۔مثبت نتائج اخذ کرو۔
Achieve a Positive Outcome

 

پہلے اصول کے ذریعہ خواب دیکھنے والا ہر قسم کی مشکلات پر قابو پانا سیکھتا جاتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ جب اپنے بڑوں کو اپنا ایک خواب جس میں وہ ایک چیتے سے ڈر کر بھاگ نکلا تھا، سناتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کو دوبارہ اپنے خواب میں لاؤ۔ جہاں کھڑے ہو وہ جگہ ہرگز نہ چھوڑو اور چیتے پر شدت سے حملہ آور ہوجاؤ۔ اس کو حملہ کرنے کا موقع نہ دو۔ اگر ضروری سمجھو تو اپنے کسی مدد گار یا ہتھیار کو اپنی مدد کے لئے استعمال کرو لیکن منظر سے ہر گز نہ بھاگو کیونکہ چیتا موقع پاتے ہی تم پر چھلانگ لگائے گا اور تمہیں دبوچ لے گا۔ اس طرح بچہ ایک ڈراؤ نے خواب کو ایک تعمیری سبق میں تبدیل کر کے خود پر اعتماد کرنا سیکھ لیتا ہے۔
دوسرے اصول کے مطابق آپ کو خوشیوں کا پیچھا کرنا ہے اور انہیں تلاش کرکے حاصل کرنا ہے۔ اس اصول کے تحت یہ سکھایا جاتا ہے کہ ڈراؤنے اور خطرناک خوابوں سے اعلیٰ اور خوشگوار نتائج حاصل کرو۔ مثلاً دوران ِ خواب کسی بلندی سے نیچے گرتے ہوئے سینوئی قبیلہ کے فرد کو اس تجربہ کے ذریعہ آسانی سے فضا میں اُڑ نے کی خوشی کے حصول کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ اس طرح سینوئی قبیلے کے لوگ اپنی امنگوں اور خوابوں سے اپنی خانہ بدوشی کی زندگی کو بھی بہترین اور مسرت آمیز زندگی میں تبدیل کر دیتے تھے۔
تیسرے اصول کے تحت قبیلے کا ہر فرد اتنا چاق وچوبند ہو جاتا ہے کہ وہ اچھے ، محکم اور بیّن (شبہہ سے بالا) فیصلے کر سکتا ہے اور انہیں سمجھ سکتاہے ۔
اس اصول کے ذریعہ خواب دیکھنے والے کو اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی غلط ، مخالفانہ اور ناموافق حالات سے درست اور کارآمد نتیجہ اخذ کرکے سازگار اور خوشگوار ماحول تشکیل دینا سکھایا جاتا ہے۔ اگر کسی فرد کو خواب کے دوران اس کا دشمن زخمی کردے تو وہ اپنے آپ کو یوں تسلی دے سکتاہے کہ میں نے یہ چھوٹی سی تکلیف اٹھا کر دو فائدے حاصل کئے اوّل دشمن کی طاقت کم کردی دوئم دشمن سے دفاع کا طریقہ سیکھ لیا۔ اس طرح سینوئی فرد مقابلے کے بہتر طریقوں سے مزین ہو کر اپنے خواب میں پھر اپنے مدمقابل کو سامنے لاتا ہے اور خواب میں اس سے بچ کر اسے مناسب جواب دے سکتا ہے۔


اس کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو سینوئی قبائل اپنے خوابوں سے حاصل کرتے ہیں اور اسے وہ خوابوں کا تحفہ کہتےہیں۔سینوئی قبیلے کے مطابق خواب دیکھنے والے ہر شخص کو ہر خواب سے ایک تحفہ ضرور لینا چاہیے۔ خواب کا یہ تحفہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً موسیقی کی کوئی دھُن، نقاشی کی گئی لکڑی کا ٹکڑا، کوئی پینٹنگ، یعنی کوئی بھی نیا ہنر، نیا خیال، جو جاگنے کے بعد ان کی زندگی میں ان کے کام آئے۔ دوسرے لفظوں میں ہر خواب کے ذریعے آپ اپنی مشکل کا حل یا اپنی کامیابیوں کا راستہ پا سکتے ہیں۔
مغربی معاشرے میں اس طرح کے خواب کے تحفے کا ذکر آپ سن چکے ہوں گے، سلائی مشین کے موجد الیاس ہووے نے سلائی مشین کو ایک خواب کی مدد سے تیار کیا تھا، رابرٹ لوئس اسٹیونسن نے اپنے مشہور زمانہ افسانے لکنے سے پہلے خواب میں دیکھے تھے، ویگنر، موزارٹ اور بیتھوون اپنی موسیقی کی دھنیں خوابوں سے ہی سیکھتے تھے اور البرٹ آئن اسٹائن کو اپنے مشہور نظریہ اضافیت کا خیال ایک خواب کی مدد سے ہی آیا تھا ۔
کیلیفورنیاکے ایک ماہر نفسیات ایرگرین لیف نے ایک ورک شاپ کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں وہ ملائیشیا کے قدیم سینوئی قبیلہ کی تیکنیک استعمال کرتے ہیں۔ ان کی ورکشاپ میں شرکاء ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور تجربات سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ڈراؤنے خواب کے کسی کردار کو خواب میں طلب کریں اوراس کی خوب گت بنائیں۔ یہاں تک کہ وہ پناہ مانگے یا پھر اسے اپنا دوست بنالیں اور اس سے ایسے مشکل کام لیں جنہیں آپ سرانجام نہیں دے سکتے۔ مستقبل کے خطروں سے خبردار کرنے والے خواب کو سمجھیں اور پیش آنے والی مشکل سے نبرد آزما ہونے کے طریقہ سوچیں۔
ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ خود پر تخیل طاری کریں اور خوابوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ان طریقوں سے لوگوں کا خوف کم ہوجائے اور وہ اپنی پلاننگ کے نقائص سمجھ کر بہتر سوچ اختیار کریں اور اپنی مشکلات کے حل کی راہیں تلاش کر سکیں تو ایسا کرنے میں بظاہر تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ مثال کے طورپر سانپ کا خواب میں دیکھا جانا ایک بہت ہی عام خواب ہے لیکن خواب میں سانپ سے زیادہ اس کی حرکت اہم ہوتی ہے۔ اس حرکت پر نظر رکھنی چاہئے اور اس سے پیش آنے والے حالات کا اندازہ لگانا چاہئے۔ اپنی خوش تدبیری کے ساتھ مشکل حالت کوسنبھالنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
آج بہت سے سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ انسانی دماغ ، نفسیات اور نیورولوجی کی تحقیقات کے بعد یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ہمارا دماغ ہماری مشکلات کا بہتر حل ہمیں خواب کی صورت میں دکھلاتا ہے۔ خوابوں سے استفادہ کرنے کے بعد لیوسڈ خواب یعنی واضح اور روشن خواب دیکھے جاسکتے ہیں ایسے خواب ڈائیلاگ اور تھری ڈی فلم کی طرح بامعنی ہوتے ہیں۔
لیکن سائنسدانوں کے پاس اس بات کا جواب نہیں کہ سینوئی نامی یہ غیر متمدن وحشی قبیلہ جو سائنس اور نفسیات کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ نا صرف خوابوں کی نفسیات اور لیوسڈ خوابوں کے اصولوں سے پہلے سے واقف ہے بلکہ باقاعدہ طور پر عمل کرکے اس سے خاطرخوا ہ نتائج بھی حاصل کررہا ہے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جن سے اس قوم نے یہ علم حاصل کیا۔

 

 

اkاکتوبر 2014ء

 

یہ بھی دیکھیں

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

ایک شخصیت دو جسم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

ایک شخصیت دو جسم  جڑواں لوگوں کے درمیان ٹیلی پیتھی کے حیرت انگیز ذہنی تعلقات…. ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *