Notice: WP_Scripts::localize تمّ استدعائه بشكل غير صحيح. يجب أن يكون المعامل $l10n مصفوفة. لتمرير البيانات العشوائية إلى نصوص (scripts)، استخدم الدالة wp_add_inline_script() بدلًا من ذلك. من فضلك اطلع على تنقيح الأخطاء في ووردبريس لمزيد من المعلومات. (هذه الرسالة تمّت إضافتها في النسخة 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
تجربے پیش بینی کے – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے – روحانی ڈائجسٹـ
الخميس , 12 ديسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

تجربے پیش بینی کے – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

تجربے پیش بینی کے

True Experiences in Prophecy


انسانی زندگی میں آئے دن کتنے ہی عجیب، انہونے اور پراسرار واقعات رُونما ہوتے ہیں جن کے بارے میں بظاہر کوئی عقلی یا علمی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی، لیکن اس کے باوجود ان کو جھٹلاہا نہیں جاسکتا۔  ذیل میں ہم مغربی مفکر مارٹن ایبن martin ebon کی کتابtrue experiences in prophecy سے مستقبل کا انکشاف کرتے  عام انسانوں کے چند ایسے ہی غیر معمولی، پراسرار، سچے اور ڈرامائی واقعات و تجربات پیش کررہے ہیں۔

 


***

قتل کی پیش گوئی

’’والٹر….! مجھے تمہاری پیالی میں مستقبل کا عکس نظر آرہا ہے۔ آئندہ اتوار کی رات شہر میں دو قتل ہوں گے…. ایک عام شہری کا جسم گولیوں سے چھلنی ہوگا اور ایک کاروباری شخص ہلاک ہوگا۔ ان کے علاوہ پولیس کے ایک باوردی سپاہی کو بھی گولی لگے گی…. یہ واقعہ کس جگہ ہوگا….؟ میں یہ نہیں بتاسکتی…..!‘‘
مادام مرٹل نے سپرنٹنڈنٹ سے بڑے عجیب اور پُرسرار انداز میں کہا۔
یہ مادام، والٹر کی بیوی کی سہیلی تھی۔ اس وقت دونوں میاں بیوی، مادام کے ہاں چائے پی رہے تھے۔
والٹر، سولہ سال سے پولیس میں ملازم تھا۔ چہرے کے تاثرات سے دل کے جذبات کا اندازہ لگانے میں اسے خصوصی ملکہ حاصل تھا۔مادام کی پراسرار گفتگو کے دوران میں والٹر کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز رہیں۔ مادام کی آنکھوں سے خون جھلک رہا تھا۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی، مادام کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور دایاں ہاتھ میز کے کونے پر سختی سے جما ہوا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ والٹر اس قسم کی باتوں کا قائل نہ تھا۔ لیکن کوئی غیر مرئی طاقت کہہ رہی تھی ’’مرٹل کی بات بالکل سچ ہے۔‘‘
والٹر گھر پہنچا، تو خاصا پریشان تھا۔ مرٹل کی پیشن گوئی اس کے ذہن سے چپک گئی تھی۔ رات دیر تک وہ لاشیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں، کہیں پچھلے پہر جا کر اسے نیند آئی۔ صبح اٹھا، تو پیشن گوئی اس کے ذہن پر سوار تھی۔ دفتر میں بھی اس نے کچھ کرنے نہ دیا اور سارا دن پریشان رہا۔ اگلی صبح والٹر محکمہ پولیس کے سربراہ جوڈرون کے دفتر پہنچا، وہ کافی دیر تک دفتر کے سامنے گومگو کی حالت میں کھڑا رہا…. آخرکار کمشنر کے کمرے کی طرف بڑھا، دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمشنر نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے خوش آمدیدکہا۔
’’والٹر….! خیریت تو ہے….؟‘‘
والٹر نے بولنا چاہا، مگر الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے، بڑی مشکل سے وہ کچھ کہنے کے قابل ہوا۔ ’’جناب، مجھے علم ہے کہ آپ نجومیوں اور پیشن گوئی کرنے والوں کو نہیں مانتے، لیکن میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اتوار کی رات شہر میں مسلح ڈکیتی کی واردات ہونے والی ہے جس میں دو قتل ہوں گے اور ایک سپاہی کو گولی لگے گی، لیکن یہ بات کسی اورکونہبتائیں۔‘‘
کمشنر دیر تک اس کی طرف تکتا رہا، شاید اسے یقین نہیں آررہا تھا کہ یہ سب کچھ کہنے والا والٹر ہی ہے۔ کمشنر نے جی ہی جی میں سوچا شاید اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔
پیشن گوئی تین دن تک والٹر کے ذہن پر چھائی رہی۔ سوموار کی صبح وہ حسب معمول اٹھا اور تیاری کرکے ساڑھے سات بچے پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا۔ کمشنر جیسے پہلے ہی سے اس کا منتظر کھڑا تھا، دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا اور پھر اسے ساتھ لے کر اپنے کمرےمیں چلا گیا۔
’’پیشن گوئی کرنے والی عورت کا نام کیا ہے….؟‘‘ کمشنر نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’مادام مرٹل۔‘‘ والٹر نے مختصر جواب دیا۔
’’مادام کی پیشن گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔‘‘ کمشنر نے کہا۔ ’’رات ساڑھے گیارہ بجے کیلیفورنیا تھیئٹرپر ڈاکہ پڑا، تھیئٹر کا مینجر گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا اور قاتل فرار ہوگئے کچھ لوگوں نے قاتلوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا، انہوں نے کار کا نمبر اور قاتلوں کا حلیہ پولیس کو بتایا جس سے فوراً تمام تھانوں کو آگاہ کردیا گیا۔ پولیس کے دو سپاہی شہر کے مشرقی حصے میں گشت کر رہے تھے انہوں نے کار کو شناخت کرلیا اور موٹر سائیکلوں پر اس کا تعاقب کیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی اور ایک سپاہی شدید زخمی ہوگیا۔
دوسرے نے ہیڈ کوارٹر سے وائرلیس پر امداد طلب کی۔ اتنے میں ڈاکو ایک عمارت میں چھپ گئے۔ تھوڑی دیر میں پولیس کے سپاہیوں نے عمارت کا محاصرہ کرلیا۔ کافی تلاش کے بعد ایک بغلی کمرے میں ڈاکوؤں کا پتہ چلا۔ پولیس کے پہنچتے ہی ایک ڈاکو روشندان سے باہر کود گیا۔ دوسرا باہر نکلنے کی کوش کر رہا تھا کہ پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور وہ ماراگیا۔‘‘
اگلے دن کمشنر نے واردات کی جو تفصیلات پریس کو دیں۔ اسے پڑھتے ہی سینکڑوں لوگ مادام مرٹل کے گھر پر امڈ آئے، وہ سب اپنے مستقبل کے متعلق جاننا چاہتے تھے۔ لیکن مادام کا جواب مایوسکنتھا۔
’’میں پیشہ ورنجومی نہیں، یہ پیشن گوئی تو محض ایک اتفاق تھا۔ آپ کی طرح مجھے بھی کچھ معلوم نہیں کہ یہ کیسے ہوگیا۔‘‘
مادام کو یہ بات سینکڑوں مرتبہ دہرانا پڑی۔


***

خواب میں بگھی

اس سلسلے میں سائی بل ڈیون کے مشاہدات انتہائی دلچسپ ہیں۔ ڈیون کو خواب کے ذریعے مستقبل کے بعض واقعات کا قبل از وقت علم ہوجاتا تھا۔ چار گھوڑوں والی سیاہ بگھی اس کے خوابوں کی سنگینی کا نشان تھی۔ ڈیون نے سیاہ بگھی والا خواب پہلی مرتبہ بارہ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ اس وقت وہ کانونٹ اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس نے دیکھا وہ چار گھوڑوں والی سیاہ بگھی میں سوار کہیں جا رہی ہے۔ بگھی ایک عمارت کے سامنے رک جاتی ہے اور وہ اتر کر عمارت کے پچھواڑے سے ہوتی ہوئی ایک کمرے میں پہنچتی ہے۔ کمرے میں کافی اندھیرا ہے لیکن بستر پر دراز ایک عمر رسیدہ آدمی کا چہرہ صاف نظر آرہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر نکلتی ہے اور دیکھتی ہے کہ عمارت کے باہر ایک عورت ماتمی لباس پہنے بیٹھی ہے اور بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہیں، وہ سب آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔
اگلی صبح ڈیون کی ہم جماعت سہیلی یولیندا کو گھر سے تار موصول ہوا، اس کا باپ سخت بیمار ہے، وہ گھر پہنچی، تو تھوڑی دیر بعد اس کا باپ مر گیا۔
ڈیون اپنی سہیلی کو پُرسا دینے کے لیے اس کے ہاں گئی۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی کہ یولیندا کا گھر ہوبہو وہی عمارت تھی جسے وہ دو روز قبل خواب میں دیکھ چکی تھی۔ یولیندا کے باپ کی میت جس کمرے میں رکھی گئی تھی، وہ بالکل اس کمرے سے ملتا جلتا تھا جو ڈیون نے خواب میں دیکھا تھا۔ ڈیون نے یولیندا کی والدہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی عورت ہے جس نے خواب میں ماتمی لباس پہن رکھا تھا۔
ڈیون نے اس خواب کا ذکر اپنی ماں سے کیا، تو اس نے بتایا کہ چار گھوڑوں والی سیاہ بگئی ان کا خاندانی آسیب ہے۔ اس کی ابتداء 1652ء میں اس وقت ہوئی جب خاندان کا یک بزرگ بشپ رکٹ او کونل، کرامویل کے ظلم سے تنگ آکر چار گھوڑوں والی سیاہ بگھی میں فرار ہوتا ہوا پکڑا گیا۔ کامویل حکومت نے اسے پھانسی دے دی اور اس کے بھائی مارس اور کونل کی تمام جائیداد ضبط کرکے اسے جلا وطن کردیا۔ مارس بھی سفر کے دوران ہی میں مرگیا۔ مرتے وقت وہ بھی اسی بگھی میں سوار تھا۔
1740ء میں کونل خاندان کے ایک فرد نے پہلی مرتبہ خواب میں اس بگھی کو دیکھا۔ اس کے بعد وہ بگھی خوابوں میں خاندان کے سب ہی افراد کو نظر آنے لگی۔ خواب میں بگھی کی موجودگی ہمیشہ کسی نہ کسی نقصان یاکسی کی موت کا پیش خیمہ ہوتی۔
ایک مرتبہ ڈیون کے دادا ڈینیل اوکونل نے خواب میں دیکھا کہ وہ بگھی میں سوار ہے۔ بگھی بوسٹن میں اس کے خالہ زاد بھائی کے گھر میں داخل ہوجاتی ہے جہاں اس کی ماں ایک کمرے میں لیٹی ہوئی تھی۔ کمزوری کے باعث وہ ڈینیل کو نہ پہچان سکی۔ اتنے میں ڈینیل کی دادی نے اسے جگایا اور کہا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔ ڈینیل نے ریسیور اٹھایا…. بوسٹن سے اس کا خالہ زاد بھائی بول رہا تھا۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتا، ڈینیل نے کہا:
’’کیا تم مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کہ والدہ مرچکی ہے۔‘‘
اس کا خالہ زاد بھائی دم بخود ہوگیا، کیونکہ بڑھیا کو فوت ہوئے مشکل سے پندرہ منٹ گزرے تھے اور اس نے سب سے پہلے ڈینیل کو فون کیا تھا۔

***

ابراہم لنکن کا قتل 

الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوچکا تھا۔ ابراہم لنکن کو دوبارہ ملک کا صدر چن لیا گیا تھا۔ پارٹی کے مرکزی دفتر میں ہنگامہ خیز دن گزارنے کے بعد ابراہم لنکن فاتحانہ مسکراتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا، جونہی آرام کرنے کے لیے صوفے پر لیٹا، اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں سامنے دیوار پر لگے ہوئے قدم آدم آئینے پر مرکوز ہوگئیں۔ اسے آئینے میں اپنے دو چہرے دکھائی دیے۔ ایک انتہائی ہشاش بشاش اور تندرست اور دوسرا زرد اور بےجان۔ وہ بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا، عکس غائب ہوچکے تھے۔ وہ اپنے چہرے کے یہ خوابیدہ عکس پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ محسوس کیا، کوئی کہہ رہا ہے:
’’صدارت کا دوسرا دور تمہاری ہلاکت کادورہوگا۔‘‘
مارشل ہل مین نے بتایا کہ جب لنکن کو صدارت کے لیے دوبارہ نامزد کیا گیا اسے اپنی موت کا پورا یقین ہوگیا۔ اس نے اپنی نامزدگی کی خبر انتہائی خاموشی سے سنی۔ اس سے بھی زیادہ واضح اشارہ وہ خواب تھا جو لنکن نے اپنے قتل سے صرف ایک مہینہ پہلے دیکھا۔ اس نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ :
چند دن کی بات ہے، میں بہت دیر سے سویا، تھکاوٹ کے باعث مجھے جلد ہی نیند آگئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ اپنے دفتر میں تنہا بیٹھا ہوں، اچانک رونے اور سسکیاں بھرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں دفتر سے نکلا اور سیڑھیاں اتر کر وائٹ.ہاؤس کے ایک ایک کمرے میں گیا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ عجیب وغریب آوازیں اب بھی آرہی تھیں، کمروں کی بتیاں روشن تھیں، میرے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے۔ یہ کون لوگ ہیں….؟ اور کیوں آہ و بکا کر رہے ہیں….؟ آخر میں گھومتا پھرتا مشرقی ہال کی طرف گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی میری نگاہ کمرے کے وسط میں رکھی ہوئی میت پر پڑی۔ میت کے چاروں طرف مسلح محافظ کھڑے تھے، میت کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا…. چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ تھی، کچھ لوگ رو رہے تے اور کچھ میت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے ایک سپاہی سے پوچھا:
’’مرنے والا کون ہے….؟‘‘
سپاہی نے جواب دیا ’’یہ صدر محترم کی لاش ہے، انہیں کسی نے قتل کردیا ہے‘‘ اس کے بعد مجمع سے ایک شور اٹھا اور میری آنکھ کھل گئی۔
14 اپریل 1865ء کو شام کے سات بجے لنکن کے خصوصی محافظ کروک نے رخصت ہوتے وقت کہا ’’صدر محترم، گڈ نائٹ‘‘
لنکن نے جواب میں کہا ’’خدا حافظ۔‘‘
گھر جاتے ہوئے کروک کو دفعتاً خیال آیا۔ آج صدر نے خلاف معمولی، خدا حافظ، کیوں کہا، حالانکہ وہ ہمیشہ گڈنائٹ، کہتے تھے، ٹھیک تین گھنٹے بعد کروک کی گتھی سلجھ گئی۔ لنکن کو گولی مار دی گئی تھی۔

***

سمندری طوفان میں مدد

ہیرلڈ اور اس کے دوست جیک نے چھٹیاں اکٹھے گزارنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے پکنک اور مچھلی کے شکار کا پروگرام بنایا۔ تیاریاں مکمل ہوگئیں، مگر عین روانگی کے وقت موسم خراب ہوگیا۔ ہیرلڈ کی بیوی نے اپنے شوہر کو شکار پر جانے سے روکا اور پروگرام ملتوی کرنے کی التجا کی۔ ادھر جیک کی بیوی نے بھی اپنے شوہر کو روکا۔ محکمہ موسمیات نے طوفان آنے کی خبر دی تھی، اس کا ذکر کیا، اپنی محبت کا واسطہ دیا، مگر دونوں میں سے کوئی بھی نہ مانا اور گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ موسم اور زیادہ خراب ہوگیا، تاہم وہ آہستہ آہستہ پورٹ واشنگٹن کی طرف بڑھتے چلے گئے۔
’’گزشتہ رات مجھے ذرا بھی نیند نہیں آئی‘‘ ہیرلڈ نے اونگھتے ہوئے کہا۔
’’جانے کیوں، میرا بھی یہی حال رہا۔‘‘ جیک کار کا اسٹیرنگ گھماتے ہوئے بولا:
ساحل پر پہنچ کر وہ ملاحوں کے پاس گئے۔ ملاحوں نے بتایا کہ سمندر میں سخت طوفان آنے والا ہے، اس لیے مچھلی کا شکار خطرے سے خالی نہیں، لیکن ہیرلڈ اور جیک نے اس انتباہ پر بھی کان نہ دھرے۔ موٹربوٹ کرائے پر لی اور سمندر کی لہروں سے نبردآزما ہوگئے۔ جس جگہ وہ سفر کر رہے تھے وہاں ساحل بل کھاتا ہوا انگریزی لفظ یُو (U) کی شکل بناتا تھا۔ انہوں نے موٹر بوٹ کا رخ سامنے کے ساحل کی طرف موڑ دیا…. ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ طوفان نے آلیا۔ موٹر بوٹ ہچکولے کھانے لگی۔ لہروں کے خوفناک تھپیڑے موٹربوٹ کو گیند کی طرح ادھر ادھر اچھال رہے تھے۔ انہوں نے واپس جانے کی کوشش کی، لیکن موٹربوٹ گرداب سے نہ نکل سکی۔ دفعتاً ہیرلڈ اونگھنے لگا جیک نے جھنجھوڑ کر اسے جگایا اور چوکس ہو کر کشتی چلانے کی تلقین کی۔ درحقیقت ہیرلڈ اونگھ نہیں رہا تھا بلکہ جاگتے میں خواب دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر دو شخص سمندر میں ڈوب رہے ہیں، ان کی موٹربوٹ الٹ چکی ہے اور وہ غوطے کھا رہے ہیں۔ ہیرلڈ کے دل میں اس خواب کی سچائی اس قدر جاگزیں ہوگئی کہ اس نے موٹربوٹ کا رخ کھلے سمندر کی طرف موڑ دیا۔ اچانک ہیرلڈ نے دیکھا کچھ فاصلے پر کوئی سیاہ سی چیز تیر رہی ہے۔ واقعتاً ایک شخص غوطے کھا رہا تھا۔ جیک نے کود کر اسے پانی سے باہر نکالا اور موٹربوٹ میں لٹا دیا۔ دوتین منٹ کے بعد اس شخص کو ہوش آگیا۔ اس نے بتایا وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ ان کی کشتی الٹ گئی اور وہ دونوں سمندر میں گر گئے۔ ہیرلڈ نے یہ سنتے ہی دوسرے شخص کی تلاش شروع کردی۔ تقریباً ایک میل کے فاصلے پر کشتی مل گئی۔ کانٹے سے بندھی ہوئی ڈوری کشتی کے انجن میں پھنس گئی تھی۔ اسی ڈوری نے دوسرے شکاری کو بچالیا، اس کی مدد سے وہ کشتنی کا سہارا لینے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسرا شکاری کشتی پر سوار ہوا، تو ہیرلڈ نے کہا: ’’جیک، اب ہمیں واپس چلنا چاہیے، شاید قدرت ہمیں ان لوگوں کی جان بچانے کے لیے کھینچ لائی تھی۔‘‘

***

گھوڑوں پر دو انسانی ڈھانچے 

امریکہ کے سابق صدر جان ٹیلر کی بیوی جولیا کے خواب بھی اس سلسلے میں خاصے دلچسپ ہیں:
28 فروری 1844ء کو بحریہ کی طرف سے نئے جنگی جہاز ’’پرنسٹن‘‘ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر سمیت بہت سے اعلیٰ افسروں اور غیر ملکی نمائندوں نے شرکت کی۔ تقریب کا اہتمام جہاز کے عرشے پر کیا گیا تھا۔ جولیا اور بحری وزیر کی بیوی این بھی مدعو تھیں۔ تقریب سے چند گھنٹے قبل جولیا نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک جنگی جہاز کے عرشے پر کھڑی ہے۔ اچانک دو سفید گھوڑے اس کی طرف لپکتے ہیں۔ گھوڑوں پر دو انسانی ڈھانچے سوار ہیں، کھوپڑی کی بناوٹ سے ایک اس کے باپ کا ڈھانچا لگتا ہے۔ جولیا گھبرا کر اٹھی اور بھاگتی ہوئی اپنے باپ کے پاسی گئی، لیکن وہ خواب سن کر ہنس پڑا اور کہنے لگا:
’’خواب ہمیشہ اعصابی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں، ان پر یقین کیا جائے، تو دنیا کے سب کام رُک جائیں۔‘‘
تقریب مقررہ وقت پر منعقد ہوئی۔ سب لوگ جہاز کی پیچیدہ اور جدید ترین مشینری کو دیکھ کر سائنس دانوں کی تعریف کر رہے تے۔ دعوت کے بعد جہاز میں نصب شدہ توپون کا عملی مظاہرہ شروع ہوا۔ جونہی امن پسند، نامی توپ نے دوہزار پونڈ وزنی گولہ داغا، اس کی نال پھٹ گئی اور وزیر جنگ تھامس اور جولیا کے باپ کے پرخچے اڑ گئے۔ جولیا کی شادی کے تھوڑے عرصے بعد اس کا خاوند امریکہ کا صدر بن گیا۔ 1862ء میں وہ رچمانڈ کے پارٹی کنوینشن میں شریک تھا۔ جولیا نے خواب میں دیکھا، اس کا خاوند سخت تکلیف میں ہے۔ ان دنوں ڈاک اور تار کا انتظام انتہائی سست تھا۔ لاچار جولیا نے اپنے نوزائیدہ بچے اور نرس کو ساتھ لیا اور کشتی کے ذریعے رچمانڈ کی طرف روانہ ہوگئی۔ سفر کے دوران میں وہ کئی مرتبہ بےہوش ہوئی اور سخت پریشانی کے عالم میں رچمانڈ پہنچی۔ اس کا خاوند بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش و خرم تھا۔ جولیا نے اپنا خواب بیان کیا، تو ٹیلر نے خوب مذاق اڑایا، لیکن جولیا کے دل کی کھٹک دور نہ ہوئی۔ انجانا خوف اس کے اعصاب پر سوار تھا۔ اس نے اپنے شوہر کےساتھ ہوٹل ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح ٹیلر ناشتے سے فارغ ہو کر ہوٹل کے نچلے حصے میں گیا اور جولیا کنوینشن میں شرکت کے لیے تیار ہونے لگی۔ دفعتاً دروازہ کھلا اور ٹیلر لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا اس کاہاتھ اپنے دل پر تھا اور رنگ پیلا زرد۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور ٹیلر اسی شام مرگیا۔

***

میک اپ روم میں قتل 

رملا کو کثرت سے خواب نظر آتے تھے۔ اس کے خواب تفصیلات کی حد تک سچے ثابت ہوتے تھے۔ خوابوں کی کثرت نے اس کے والدین کو تشویش میں مبتلا کردیا، چنانچہ وہ اسے ایک ماہر نفسیات داکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے اعصابی کمزوری کا نفسیاتی اور طبی علاج تجویز کیا، لیکن خواب پھر بھی کم نہ ہوئے۔
ایک رات رملا نے خواب میں دیکھا،اس کی ماں جو ہنگری کی سب سے بڑی فلمی اداکارہ تھی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ اچانک ایک چھوٹے سے قد کی عورت اندر داخل ہوئی اور آتے ہی پستول سے گولی چلا دی۔ گولی رملا کی ماں کو لگی اور وہ گر پڑی۔
اس بھیانک خواب کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بھاگتی ہوئی اپنی ماں کے کمرے میں پہنچی۔ اس نے اپنی ماں اور سوتیلے باپ کو خواب سنایا، اس دوران وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔ اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ ماں نے مسکراتے ہوئے رملا کو اپنے ساتھ لٹالیا۔
صبح آٹھ بچے رملا کی ماں تھیٹر جانے کے لیے تیار ہوئی۔ ابھی وہ میک اپ میں مصروف تھی کہ گھر والوں کو گولی چلنے کی آواز اور ایک چیخ سنائی دی۔ تمام لوگ میک اپ کے کمرے کی طرف بھاگے۔ رملا کی ماں خون میں لت پت فرش پر تڑپ رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں کنگھی پکڑ رکھی تھی۔ قاتلہ گھر کی ایک پستہ قد خادمہ تھی جسے چند روز پہلے رملا کی ماں نے نوکری سے جواب دے دیا تھا۔

***

جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا

کنگھم اپنے دوست نیوٹن کے ہمراہ اپنے چچا سیوارڈ کے ہاں مقیم تھا۔ سیوارڈ کی دو بیٹیاں تھیں اینا اور ہانورا…. آندرے نامی ایک نوجوان فوجی افسر ہانورا سے شادی کا خواہش مند تھا۔ آندرے، کنگھم کی موجودگی میں ہانورا کو رضا مند کرنے کے لیے سیوارڈ کے ہاں ٹھہرا۔ جس روز ہانورا نے شادی سے انکار کیا۔ اسی رات کنگھم نے خواب دیکھا کہ آندرے ایک نامعلوم مقام پر تین فوجیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ جامہتلاشی کے بعد اس کی جرابوں میں سے خفیہ کاغذات برآمد ہوئے، چنانچہ اسے جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا….
صبح اٹھتے ہی کنگھم نے یہ خواب سب لوگوں کوسنایا۔
1774ء میں آندرے امریکہ کے کلاف لڑنے کے لیے نیویارک گیا۔ اسی دوران میں امریکی جرنیل آرنلڈ نے برطانوی کمانڈر کو امریکی فوج کے خفیہ راز اور مغربی محاذ کی تفصیلات مہیا کرنے کی پیش کش کی۔ آرنلڈ جارج واشنگٹن کا خاص معتمد اور امریکی فوج کا دوسرا بڑا جرنیل تھا۔ سارا ٹوگا کی فتح کا سہرا اسی کے سر تھا۔ آرنلڈ کا پیغام لانے والا شخص چونکہ انتہائی ذمہ دار تھا۔ اس لیے برطانوی کمانڈ ہنری کلفٹن نےھ آرنلڈ سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آرنلڈ سے ملنے کا فرض آندرے کو سونپا گیا۔
جنرل آرنلڈ جوئے اور شراب کا رسیا تھا۔ امریکہ کے چند بڑے بڑے لوگوں سے اس نے قرض لے رکھا تھا۔ لاکھوں ڈالر کا قرض ادا کرنا اس کے لیے ناممکن تھا، چنانچہ اس نے امریکہ کے جنگی راز برطانیہ کے ہاتھ فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
میجر آندرے بحری جہاز کے ذریعے چوری چھپے رات کے وقت مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ جنرل آرنلڈ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ اس نے مطلوبہ رقم کے عوض خفیہ اطلاعات اور دستاویزات آندرے کے حوالے کردیں۔ اسی اثنا میں امریکی سپاہیوں نے آندرے کا جہاز دیکھ لیا اور اس پر فائرنگ شروع کردی۔ جہاز کا کپتان آندرے کا انتظار کیے بغیر جہاز کو بھگا لے گیا۔ آندرے نے یہ صورتحال دیکھی، تو فوجی لباس اتار دیا اور عام لباس پہن کر خفیہ کاغذات جرابوں اور بوٹوں میں چھپالیے۔ وہ چھپتا چھپاتا نیویارک کی طرف چل دیا۔ اک جگہ ڈیوٹی پر موجود امریکی سپاہیوں نے اسے روکا۔ انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ درحقیقت برطانوی سپاہی ہیں اور امریکی سپاہیوں کے بھیس میں جاسوسی کر رہے ہیں۔ آندرے اپنے اعصاب کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ اس نے اپنی اصلیت ظاہر کردی۔ امریکی سپاہیوں نے اسے فوراً گرفتار کرلیا۔ تلاشی لینے پر اس کے بوٹوں سے خفیہ دستاویزات برآمد ہوئیں ۔ وہ اس کو امریکی کمانڈر کے پاس لے گئے۔ کمانڈر نے جنرل آرنلڈ کے ہاتھ لکھے ہوئے کاغذات دیکھے تو ششدر رہ گیا۔ اس نے فوراً جارج واشنگٹن سے رابطہ قائم کیا، لیکن آرنلڈ اس سے پہلے ہی فرار ہو کر نیویارک میں برطانوی فوج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا تھا۔ آندرے پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور اس کو موت کی سزا دی گئی۔

 

 

 

جنوری 2015ء

 

یہ بھی دیکھیں

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں …

ایک شخصیت دو جسم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

ایک شخصیت دو جسم  جڑواں لوگوں کے درمیان ٹیلی پیتھی کے حیرت انگیز ذہنی تعلقات…. …

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *