Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحانی ڈاک – فروری 2019ء


 ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑

Image Map

 


***

سب کچھ ہے مگر….

سوال: ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب کا کاروبار ماشاءاﷲ اچھا ہے۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ جو چیز مانگتے ہیں وہ ہمیں مل جاتی ہے۔ والدہ صاحبہ ایک NGO کی سینئر رکن ہیں۔ صبح جاتی ہیں اوررات کو واپس آتی ہیں۔
ہمارے گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کوئی فرد خوش نہیں ہے۔ ہمیں آپس میں پیار محبت سے بات کیے ہوئے ایک عرصہ ہوگیاہے۔ عجب نفسانفسی ہے۔ گھر میں بات بے بات لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔
والد صاحب کو گھر کی کوئی فکر نہیں ہے۔وہ گھر میں پیسے دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ والدہ صاحبہ کو گھر سے زیادہ باہر کے کام پسند ہیں۔بچوں کے لیے ان کے پاس کوئی ٹائم نہیں ہے۔ بھائی دن بھرگاڑیوں میں نجانے کن کن کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اوررات کونیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بڑی بہن کو فیشن سے ہی فرصت نہیں ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ ہے لیکن ایک مرتبہ پہننے کے بعد اس سوٹ میں کیڑے نکالنے لگ جاتی ہیں۔
میں اپنے گھر کے ماحول کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوگئی ہوں۔ میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمارے والدین ہم بہن بھائیوں کی شادیوں کی طرف سے بھی بےِفکر معلوم ہوتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ ان کے پاس بچوں کے لیے سوچنے کا ٹائم ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ انہیں اولاد کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔میں اپنے والدین اور بھائی بہن کے ہوتے ہوئے بھی خودکو تنہا محسوسکرتیہوں۔
اب ہر وقت میرے سرمیں درد رہنے لگاہے۔ نیند کی گولی کھانے سے بھی سکون نہیں مل رہا ہے۔ مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کیاکروں جس سے گھر میں خوشیاں اورمحبتیں بڑھیں اورہم سب ایک جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے کے بارے میں کچھ سوچیں ۔۔  

جواب: اس قسم کی یا اس سے ملتی جلتی صورت حال زیادہ تر ایسے گھرانوں میں دکھائی دیتی ہے جہاں شوہر اوربیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، ایک دوسرے کے لیے محبت وایثار کے جذبات کی کمی ہو اور اہل خانہ کے ساتھ کمٹ منٹ نہ ہو۔ یہ کمٹ منٹ نہ ہونے کی وجہ سے گھر یلو ذمہ داریاں بوجھ معلوم ہونے لگتی ہوں۔
شوہر کی بے رخی اورعدم توجہی کی شکایت کرنے والی بہت سی خواتین شدید اسٹریس اورٹینشن میں اوربعض اوقات ڈپریشن تک میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔اس کیفیت میں مبتلا بعض خواتین گھر کا کام کاج اورسماجی سرگرمیاں چھوڑ چھاڑ کر خود کو اپنے کمرے تک یا اپنے چند معاملات تک محدود کرلیتی ہیں۔بعض خواتین گھر کے ماحول میں اپنے لیے گھٹن محسوس کرتی ہیں اورراپنے گھر سے باہررشتہ داروں کے ہاں یا اپنی سہیلیوں کے ہاں وہ خود کوہلکا پھلکا اورخوش محسوس کرتی ہیں۔ اگر انہیں مواقع اورسہولتیں میسرہوں تو وہ اپنے لیے کوئی مستقل مصروفیت بھی بنالیتی ہیں جیسے آپ کی والدہ نے ایک این جی او میں اپنا وقت گزارنا شروع کردیاہے۔
معاش کے حصول کی وجہ سے مرد کا زیادہ تر وقت گھر کے باہر گزرتاہے مگر شام کو واپس آتے وقت اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر جارہاہے جہاں بیوی بچے اوردیگراہل خانہ اس کے منتظر ہیں۔ہرانسان کے لیے اس کاگھر سکون ومسرت کا مرکز ہوتاہے۔ ہرشخص چاہتاہے کہ اسے اپنے گھرمیں سکون ملے۔
مرد کے لیے اگرگھر کے ماحول میں جاذبیت نہ ہو اور اسے تناؤ کا ماحول ملے تو وہ گھر میں وقت گزارنے سے کترانے لگتاہے اورگھر کے باہر اپنی مصروفیات مزید بڑھانے لگتاہے۔
مرد کی جانب سے گھر کو مناسب وقت نہ دینا اوراپنے اہل خانہ پرتوجہ نہ دینا کئی طرح کے مسائل کاسبب بنتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان تلخیوں کی وجہ سے مرد و عورت دونوں ہی ذہنی کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ والدین کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے اولاد ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوتی ہے اوربہن بھائیوں کے درمیان کھنچاتانی پڑھتے رہنے سے بچوں میں خودغرضی، لاتعلقی اورنفسانفسی جیسی منفی صفات پروان چڑھتی ہیں۔
ماحول کہیں کا بھی ہو ازخود تشکیل نہیں پایا جاتا بلکہ ماحول نتیجہ ہوتاہے لوگوں کی سوچ اور رویوں کا۔
ایک گھر کا ماحول، وہاں رہنے والوں خصوصاً گھر کے بڑوں یعنی والدین اوردیگر بزرگوں کی سوچ ، رویوں اورکمٹ منٹ سے وجود میں آتاہے۔ گھر کے بڑوں کی جیسی سوچ ہوگی ،ان کے باہمی تعلقات جیسے ہوں گے اوران سے جس قسم کے رویوں کااظہار ہوتارہے گا گھر کاماحول اسی کے مطابق ڈھلتارہے گا۔ کسی گھر میں پرورش پانے والے بچوں کی شخصیت بھی اس ماحول کے اثرات قبول کرتی رہے گی۔
آپ اپنے گھر کے ماحول کی اصلاح کرنا چاہتی ہیں۔آپ کی خواہش بہت احسن ہے مگر آپ کو اس اچھے کام کی یعنی اصلاح احوال کی ابتداءاپنے بہن بھائیوں سے نہیں بلکہ اپنے والدین سے کرنا چاہیے۔ بظاہر یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر ایک بات یہ سمجھ لیجئے کہ اصلاح ِاحوال کا مطلب بڑا بننا نہیں ہے بلکہ نہایت ادب واحترام اورتدبّر کے ساتھ اصلاح کی کوششیں کرنا ہیں۔ بعض اوقات گھر کے کوئی بڑے ذیابیطس یا عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود پرہیز نہیں کرتے۔ اب گھر کے ان صاحب یا صاحبہ کی اپنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ان کا ادب احترام ملحوظ رکھتے ہوئے پرہیز کرنے پرآمادہ کیا جائے۔
آپ خیال رکھیے کہ اصلاح احوال کا یہ عمل بڑوں کو ان کی غلطیاں بتا کر شروع نہیں کرنا بلکہ ان میں اولاد کی چاہت کے دبے ہوئے جذبات کو بیدارکرکے شروع کرنا ہے۔
اس کام کے آغاز میں آپ اپنی والدہ کی مصروفیات میں دلچسپی لینا شروع کیجئے۔ وہ ایک این جی او کواپناکافی وقت دیتی ہیں۔ اس بات پر ان سے شاکی ہونے کے بجائے سماجی کاموں کے لیے ان کی خدمات کو خوب سراہئیے اوران سے کہیے کہ کسی دن وہ آپ کو بھی اپنے ساتھ لے کر وہاں جائیں۔اس طرح رفتہ رفتہ ہفتہ میں ایک یا دو دن آپ ان کے ساتھ گزارنے کا شیڈول بنالیجئے۔
دوسری طرف اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت گزارنا شروع کیجئے۔ جب وہ اپنے دفترسے گھر واپس آئیں توآپ خود ان کے لیے کھانا لگایئے اوران کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔
اپنے والد سے ان کے پچپن اوراسکول کالج کی باتیں پوچھیے۔ ان سے پوچھئے کہ ان کی عملی زندگی کیسے شروع ہوئی اورانہوں نے کاروبار جمانے کے لیے کتنی جدوجہد کی….؟
خیال رہے کہ یہ سب باتیں ایک ہی نشست میں نہیں ہوں گی بلکہ ان کا دورانیہ ایسی بیس پچیس نشستوں پر پھیلا ہوا ہوگا۔
آپ کی طرف سے اپنے والد کاخیال رکھنے سے، ان کی زندگی کے معاملات میں دلچسپی لینے سے انہیں اپنے گھر کے ماحول میں دوبارہ اپنائیت محسوس ہونےلگے گی۔
یاد رکھیے! کبھی اپنے بڑوں کو یہ مت کہئیے کہ آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا ،آپ نے یہ غلط کیا،وہ غلط کیا۔ بڑوں کو الزام دیتے رہنے سے ان کی غلط روی کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔اس کے بجائے بڑوں کو یہ اطمینان دلانے سے اچھے نتائج مل سکتے ہیں کہ ان کی اولاد ان سے بہت محبت کرتی ہے اوردل سے ان کی قدردان ہے۔
آپ کے والدین آپ کی کوششوں کے ذریعہ گھر کے ماحول میں اپنائیت محسوس کرنے لگیں گے تو باقی مسائل کے حل کی راہیں کھلنا شروع ہوجائیں گی۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ حٰم السجدہ(41) کی آیت 34 میں سے  

وَلَا تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ اِدْفَـعْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ

اور آیت 35 میں سے

وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا الَّـذِيْنَ صَبَـرُوْاۚ

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کےس اتھ پڑھ کر اپنے والدین کا تصور کرکے دم کردیں اور گھر کے ماحول میں صبر و محبت کے فروغ کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

 


***

جادو اور جنات نے زندگی اجیرن کردی!

سوال: اب میری عمر بیالیس سال ہوگئی ہے۔ میں اپنی بوڑھی بیمار والد ہ کے ساتھ رہتاہوں۔ اپنی تھوڑی بہت زمین ہے اس سے مشکل سے گزراہوتاہے۔
میرے کاموں میں بہت رکاوٹیں ہیں۔ خاندان کے لوگ ہمارے مخالف ہیں۔ ایک رشتے دار تو سارے خاندان میں جاجاکر کھلے عام ہماری برائیاں کرتے ہیں۔ میں نے دوبئی جانے کی بہت کوشش کی لیکن ہربار ناکامی ہوئی۔ بہترروزگار کے لئے اپنے شہر میں جو بھی کوششیں کیں ان میں بھی ناکامی ہوئی۔
پانچ سال پہلے شہر کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے انٹر نیٹ پرتعارف ہوا۔ اسے میں نے اپنے سارے حالات بتائے۔ اس نے مجھ سے ہمدردی کی۔ اس لڑکی کی خواہش پر میری والدہ اس کے گھر گئیں اورہماری منگنی ہوگئی۔ وہ لڑکی عمرمیں مجھ سے دوسال بڑی ہے۔ منگنی کے بعدمیرے رشتہ داروں نے خوب باتیں بنائیں اوراس لڑکی کے گھر والوں کومجھ سے اورمیری والدہ کو اس لڑکی سے بددل کردیا۔ آخرکار یہ منگنی ٹوٹ گئی۔
زندگی میں جو ایک خوشی مل رہی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ انہی دنوں میں میرے گھر سے کچھ عجیب و غریب نقش بھی ملے۔ قریبی مسجد میں ایک مولوی صاحب کو میں نے یہ نقش دکھائے اوراپنے حالات سنائے تو انہوں نے کہا کہ ان تمام مسائل اور پریشانیوں کا سبب جادو اور جنات ہیں۔
انہوں نے کئی وظائف اور مشکل عمل بھی بتائے لیکن میرے حالات بہتر نہ ہوئے بلکہ مزید خراب ہوگئے۔ خاندان کے اکثر لوگ ہمارے خلاف ہیں۔ ان لوگوں کی وجہ سے ہم نے کہیں آنا جانا بھی بہت کم کردیاہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب! آپ کے ولد بزگوار حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے درسے لاکھوں لوگوں کو فیض ملاہے، آپ کو بھی اﷲ نے نوازا ہے۔ ازراہ کرم مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں اورحاسدوں کے شر، جادو او ر جنات سے نجات پانے میں میری مد د فرمائیں۔

جواب: بدعملیات، جادو ٹونہ اپنی جگہ لیکن آپ کے حالات کی خرابی کی ذمہ داری بدعملیات سے زیادہ آپ کی اپنی بے عملی پر ہے۔
اپنا جائزہ لیجیے اور اپنی شخصیت کو مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش کیجیے۔
اپنی ٹوٹی ہوئی منگنی کوبحال کرنے کاجائزہ لیں۔ اپنی والدہ سے بات کرکے انہیں دوبارہ ان لوگوں کے گھر بھیجیں۔
حالات کی بہتر ی اور روزگار میں برکت کے لیے روزانہ صبح اور شام گیارہ گیارہ مرتبہ سورہ فلق اور سورہ الناس اور پانچ مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر دم کرلیں۔
یہ عمل کم از کم اکیس روز تک جاری رکھیے۔
عشاءکی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ آیت الکرسی گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر دعاکریں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کےا سماء یاحی یا قیوم یاحفیظ یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔
حسب استطاعت صدقہ کردیں اور ہر جمعرات کسی مستحق کو کھانا کھلا دیں۔

 


***

میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے….؟

سوال: میں ایک سادہ طبیعت عورت ہوں۔ پڑھی لکھی ہوں۔ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے میراتعلق ہے۔
مجھے باتیں بنانی نہیں آتیں اس لئے ہر محفل میں ہمیشہ اکیلی رہتی ہوں۔ لوگ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اپنا کام نکال کر مجھ سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یہ بات مجھے بہت تکلیف دیتی ہے۔
میں بہت حساس طبیعت کی مالک ہوں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتاہے…..؟
میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ مجھے سمجھاتے رہتے ہیں کہ جو تمہاری پروا نہیں کرتا تم اس کے بارے میں کیوں پریشان ہوتی ہو، مگر میں ایسا نہیں کرسکتی۔ میں دل سے ہر ایک کے ساتھ ملتی ہوں۔ اگر کوئی مجھے چھوڑ دے تو مجھے بہت تکلیفہوتی ہے۔
محترم وقار صاحب! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ میں ہر دلعزیز ہوجاؤں تاکہ لوگ مجھ سے ملنا پسند کریں اور میرا احساسِ کمتری ختم ہوجائے۔

جواب:جو مسئلہ آپ کے لئے بہت اضطراب اور اکیلے پن کا سبب بنا ہوا ہے مجھے اس کا حل صرف ایک لفظ میں بتانے کے لئے کہا جائے تو میں کہوں گا
اعتدال!…..
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک، دُکھ، مشکلات اور مصیبتوں میں کسی کے کام آنا بہت اچھی بات ہے مگر سوشل تعلقات میں، باہمی میل جول میں میانہروی اور اعتدال ضروری ہے۔
آپ ہر ایک سے بہت خلوص سے ملتی ہیں۔ اس بناء پر آپ دوسروں سے بھی ایسے ہی رویے کی توقع رکھتی ہیں۔ آپ کا بہت زیادہ اخلاص بہت سے لوگوں کے لئے غیرضروری یا غیرمطلوب ہوسکتا ہےچنانچہ وہ آپ سے فاصلہ بڑھالیتے ہیں۔
دوسروں کے کام آنا بہت اچھی بات ہے مگر رسمی تعلقات میں آپ اس وقت کسی کی مدد کیجیے جب وہ آپ سے کہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ جس کی مدد کرنا چاہ رہی ہوں اسے آپ کی مدد کی اس وقت ضرورت نہ ہو یا آپ جس انداز سے اس کی مدد کرنا چاہ رہی ہوں وہ انداز اس کے خیال میں مفید نہ ہو۔
سماجی تعلقات کے حوالہ سے آپ کے شوہر نے آپ کو درست مشورہ دیا ہے۔
ان کی بات پر غور کرکے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاعزیز کا ورد کرتی رہا کریں۔

 

 


***

شادی میں بندش

سوال: میری تین بیٹیاں اورچاربیٹے ہیں۔ تین بیٹے بہنوں سے بڑے ہیں۔ دوبیٹیوں کی شادی ہوگئی ہے۔ میرے بیٹے کہتے ہیں کہ جب چھوٹی بہن کی شادی ہوجائے گی تب وہ اپنے بارے میں سوچیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس بیٹی کی شادی میں شدید رکاوٹوں کاسامنا ہے۔ یہ بچی دوسرے بچیوں کی نسبت بہت خوبصورت اورسلیقہ شعار ہے اس کے باوجوداس کے لیے جوبھی رشتہ آتاہے وہ اپنی پسندیدگی کااظہارتوکرتاہے لیکن بعد میں کوئی مثبت جواب نہیں آتا۔ایک بار اس کی منگنی بھی ہوئی تھی لیکن پھر کچھ عرصہ بعد لڑکے والوں نے بلا کسی عذر کے خود ہی یہ منگنی توڑ دی۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کا گھرانہ حاسدوں کی نظر کا شکارہے اوراس لڑکی کی شادی پربھی بندش کروائی گئی ہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب! کوئی دعابتائیں جس کی برکت سے حاسدوں کی بُری نظر سے حفاظت ہو،اس بیٹی کی شادی پرکی گئی بندش ختم ہو اورخیروعافیت کے ساتھ اس کی شادی ہوجائے۔

جواب: اپنی سہولت کے مطابق ایک وقت مقرر کرکے پہلے گیارہ مرتبہ درود شریف اس کے بعد گیارہ مرتبہ سورة فاتحہ پڑھیں۔ پڑھنے کا طریقہ اس طرح ہوگا کہ جب

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ O

پر پہنچیں تو اس آیت کو گیارہ مرتبہ دُہرائیں، پھر سورت کو مکمل پڑھ کر ایک گلاس پانی پر دم کردیں۔ اس طرح گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھیں اور ہر مرتبہ پانی پر دم کرتے جائیں۔ آخر میں گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ لیں۔
اس عمل کے بعد یہ دم کیا ہوا پانی تین گھونٹ میں بیٹی کو پلادیں اور شادی میں درپیش رکاوٹوں، حسد کے اثرات سے نجات اور خیروعافیت کے ساتھ اچھی جگہ رشتہ طے ہونے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
صاحبزادی سے کہیں کہ چلتے پھرتے وضوبےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاحفیظ یاسلام کا ورد کرتی رہے۔
اپنی بیٹی سے کہیں کہ عصر و مغرب کے درمیان سات مرتبہ سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھ کر پانی پر دم کرکے پیئں اور اپنے اوپر دم بھی کرلیں۔
یہ عمل اکیس روزتک جاری رکھیں۔
حسب استطاعت صدقہ بھی کردیں۔
ان شاء اللہ بندش سے نجات مل جائے گی اور رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔
مقصد پورا ہو جانے پر بطور شکرانہ اپنے گھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں درود شریف کا نذرانہ پیش کیجیے اور میلاد شریف کی محفل کااہتمام کیجیے۔

 


***

 بھائی کام نہیں کرتا

سوال: ہمارے سب سے بڑے بھائی نے میٹرک کے بعد آگے پڑھنے سے صاف انکار کردیا اورکہا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھے۔ انہوں نے بھائی کے اصرار پر ایک خطیر رقم سے اُنہیں ایک جنرل اسٹور کھلوادیا۔ بھائی نے وہاں ٹھیک طرح کام کرنے کے بجائے دکان سے ملنے والے پیسے اپنے دوستوں میں خرچ کرنے شروع کردئیے۔
ہمارے والد ہر سال پاکستان آتے بھائی کو پیار سے سمجھاتے اور دکان میں اپنے پیسوں سے مزید سامان ڈال کر چلے جاتے، لیکن بھائی کا رویہ وہی رہا۔
والد صاحب اب مستقل پاکستان واپس آگئے ہیں اور انہوں نے دکان پر بیٹھنا شروع کردیا ہے لیکن اب بھائی دکان پرنہیں جارہا ہے۔ والد صاحب کو پاکستان کے کاروباری معاملات کا زیادہ پتہ نہیں ہے۔ بھائی نے صاف منع کردیا کہ نہ تو انہیں یہ کام کرنا ہے اور نہ ہی وہ کوئی اور کام کریں گے۔ ہمارے بڑے بھائی کے اس رویہ سے والد صاحب، والدہصاحبہ اورہم سب بہن بھائی بہت پریشان ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ بھائی کے لیے دعاکریں اورہمیں بھی کوئی دعا بتائیں کہ ہمارا بھائی ماں باپ کا سہارا بنے۔ اسے خود غرض اور بُرے دوستوں کی صحبت سے نجات ملے۔

جواب: آپ کے والدین کی اپنے بیٹے کی طرف سے پریشانی قابل فہم ہے مگر اس پریشانی کے اسباب میں والدین کا طرزِ عمل بھی شامل ہے۔
میٹرک کے بعد اپنے بیٹے کو جنرل اسٹور کھلواتے وقت انہیں اپنے لڑکے کے مزاج اور رجحان کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ سترہ، اٹھارہ سال کے لڑکے کو جو اپنے بہن بھائیوں میں بڑا بھی ہو اور اس کے والد بھی بیرون ملک رہتے ہوں، بلاروک ٹوک مالی خود مختاری دے دینا کتنا مناسب ہے…. ؟
اگر وہ لڑکا مزید پڑھنے کے لیے تیار نہ تھا تو اسے اس وقت کاروبار کرادینے کے بجائے پہلے کہیں کام پر لگوانا چاہیے تھا۔ چند سال وہ کسی کی زیر نگرانی کام سیکھتا، اسے سردی گرمی کا اندازہ ہوتا، پیسہ کمانے کی، محنت کی قدر آتی، پھر بےشک اسے اپنا ذاتی کام کروا دیتے۔
نوجوان لڑکے کے ہاتھ میں پیسہ ہو اور اسے اپنے گھر کی طرف سے کسی نگرانی اور جوابدہی کا احساس نہ ہو تو ایسے نوجوان کے تفریحات میں پڑ جانے یا بھٹک جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتےہیں۔
بیٹے کے موجودہ طرز عمل کے پیش نظر یہ مناسب ہوگا کہ اسے فی الحال دکان پر آنے کے لیے نہ کہا جائے۔ نہ ہی دکان کے معاملات پر گھر میں اس کے سامنے کوئی بات کی جائے، چند ماہ بعد اگر وہ خود ہی دکان پرآنا چاہے تو آپ کے والد صاحب اسے وہاں اپنے نائب کے طور پر رکھیں۔ مال کی خرید اور لوگوں کو ادائی وغیرہ اپنے ہاتھ میں ہی رکھیں۔ اگر آپ کا بھائی اس دوران اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہے تو اسے روکانہ جائے بعض بچے معمول کی پڑھائی کے دنوں میں تو پڑھائی سے بھاگتے ہیں لیکن جب چند سال ضائع ہوجائیں اور وہ کچھ نہ کر رہے ہوں تو پھر وہ اپنے آپ کو مصروف دکھانے کی خاطر بھی پڑھائی دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ البروج (85) کی آخری دو آیات


گیارہ گیارہ مرتبہ درو شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے کا تصور کرکے دم کردیں اور اس کی طرز فکر میں تبدیلی اور مزاج میں اصلاح کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

 


***

والدہ کہتی ہیں جائیداد صرف بیٹے کا حق! 

سوال: ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ والدین کو ساری زندگی لڑائی جھگڑا کرتے دیکھا ہے۔ والدہ ہر بات میں والد کی مخالفت کرنا اپنا فرضسمجھتیہیں۔
ہمارے والد صاحب کے تین اسکول ہیں۔ایک اسکول گیارہ کنال ذاتی پراپرٹی پر ہے ۔ دوچھوٹے اسکولز کرائے کے مکانات میں ہیں۔ پہلے ہمارے والد تینوں اسکولوں کے سارے معاملات تنہا ہی دیکھتے تھے۔ ہمارےبھائی نے تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ لی اور اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر بڑے اسکول جانا شروع کردیا۔ اس وقت ہمارے والد چاہتے تھے کہ پہلے یہ اپنی تعلیم مکمل کرلے، مینجمنٹ کے چند اچھے کورسز کرلے پھر اسکول کے معاملات بتدریج سنبھالے لیکن ہماری والدہ نے حسب عادت ان کی سخت مخالفت کی اور یہ بھی کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔ والدہ نے ہم بہنوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا اور ہم نے بھی اپنے والد سے اصرار کیا کہ اسکول کے معاملات بھائی کو سونپ دیں۔ اپنی والدہ کے کہنے پرہم تینوں بہنوں نے اپنے والد صاحب سے لڑجھگڑ کر اپنے بھائی کو اس اسکول میں بٹھا دیا۔
شروع میں تو بھائی نے والد صاحب کی سرپرستی میں کام کیا پھر انہیں بتائے بغیر اسکول کی آمدنی بھی اپنے پاس رکھنے لگا۔
پچھلے پندرہ سالوں میں بھائی نے اسکول سے خوب وصول کیا۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ملک ملک کی سیر کی ۔ چھوٹے دونوں اسکول والد صاحب دیکھتے ہیں اور انہی سے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں کیونکہ بھائی گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں دیتا۔
ہم سب بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ہمارے والد چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی بیٹے اوربیٹیوں کاحق انہیں دے دیاجائے۔ اب ہماری والدہ اس کام کی مخالفت کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سارا کا سارا بزنس اور پراپرٹی پر حق بیٹے کاہے اس میں شادی شدہ بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی والدہ اوربھائی کو وراثت کے بارے میں اسلامی احکامات بتائے تو والدہ نے کہا کہ باپ کی مرضی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جسے چاہے جتنا مرضی دے دے۔
ہمارا بھائی ہروقت اپنے باپ سے لڑتارہتاہے کہ جائیداد میرے نام کرو۔
ڈاکٹر صاحب !
کیا شادی کے بعد بیٹیوں کوان حقوق سے محروم کردینا درست ہےٕ….؟
کیا بیٹیوں کامقررکردہ حصہ غصب کیا جاسکتاہے….؟

جواب: آپ کی والدہ کے مزاج کودیکھتے ہوئے آپ کودرپیش مسئلے کا ایک آسان حل تویہ بھی نظر آتاہے کہ آپ کے والد بطورحکمت عملی بیٹیوں سےناراضگی اورمخالفت کا اظہار شروع کردیں۔ جب آپ کی والدہ دیکھیں گی کہ ان کے شوہر بیٹیوں سے ناراض ہورہےہیں تو وہ اپنے شوہر کی مخالفت کرتے ہوئے آپ کی حمایت شروع کردیں گی۔ خیر یہ تو لطیف پیراہے میں کی گئی ایک بات ہے۔
آپ کے سوالات کے جوابات میں عرض ہے کہ اسلام نے ورثے کے احکامات بہت وضاحت کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی کے بعد ماں باپ کے ورثے میں ان کاحق قطعی ختم نہیں ہوتا۔
البتہ آپ کے معاملے میں ایک نکتہ توجہ طلب ہے۔ آپ کی والدہ غالباً اسی بنیاد پر ایسی باتیں کررہی ہیں ۔وہ نکتہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں ہرشخص خواہ مرد ہو یا عورت اپنی تمام دولت و جائیداد پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔
کسی شخص کی دولت اس کے انتقال کے بعد اس کے ورثے میں تبدیل ہوتی ہے۔ تاہم اس اختیار کو بھی ایک بڑی آزمائش سمجھنا چاہیے اوراللہ کی عطاکردہ دولت کو اس کے تمام حق داروں تک پہچانے کااہتمام کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کی والدہ کو ہدایت نصیب ہو ۔وہ اپنے شوہر کی مخالفت اوربیٹے کی محبت سے مغلوب ہوکر غلط فیصلوں سے محفوظ رہیں۔آمین
کہتے ہیں کہ عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ ایساکہتے ہوئے عام طورپر ساس بہو،نند بھاوج، دیورانی جٹھانی وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
ورثے کی تقسیم کے وقت بیٹیوں اوربہنوں کا حق مارلینا بھی ہمارے معاشرے کی ایک قدیم روایت رہی ہے۔ ایسے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جائیداد میں عورت کو حصہ دینےکی مخالفت زیادہ تر عورتوں نے ہی کی۔ کہیں ماں پر بیٹوں کی محبت غالب آگئی تو کہیں بھابیوں، دیورانیوں نے دوسری عورت کا حق مارنے میں حسب موقع حصہ لیا۔
رات سونے سے قبل 101مرتبہ سورہ شوریٰ(42) کی آیت 23


گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی والدہ اوربھائی کا تصورکرکے دم کردیں اوران کے لیے ہدایت اور بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کی ادائی کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمارکرکے بعد میں پورے کرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاھادی یارشید کا ورد کرتی رہیں۔

 


***

منتشر خیالی 

سوال: اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں بچپن سے ہی نماز روزے کی پابند ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک روزانہ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتی تھی۔
پچھلے ڈیڑھ دوسال سے میں شدید الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوں۔ مجھے مقدس ہستیوں کے بارے میں گستاخانہ خیالات آتے ہیں۔
مجھے ایسا محسوص ہوتا ہے کہ میری شخصیت کئی حصوں میں تقْسیم ہوگئی ہے۔ ایک تو میں خود ہوں اور میرے ساتھ ساتھ میرے اندر دو تین اور لوگ بھی موجود ہیں۔
میرا ایک رخ مجھے نماز روزے اور اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے۔ دوسرا رخ کوئی اور بات کرتا ہے۔ اب میرے اندر ایک کشمکش ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔
میں اپنے اندر سے آنے والی ان اجنبی آوازوں کو سن سن کر اور انہیں جواب دے دے کر بری طرح تھک چکا ہوں۔ یہ آوازیں میرے عقائد کے بارے میں مجھے کنفیوز کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ طرح طرح کے سوالات اٹھاتی ہیں۔
اپنے باطن پر قبضہ جمائے ان خبیث لوگوں سے میرا ہر وقت جھگڑا رہتا ہے۔ میں ان آوازوں کو جتنا دبانے کی کوشش کرتا ہوں وہ اتناہی زورآور ہوتی جاتی ہے۔میں اپنے آپ کو ان کے سامنے بے بس محسوس کرتاہوں۔ ان سے لڑ لڑ کر میں تھک چکا ہوں اب مجھے ان سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

جواب: صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ

لا الہ الا للہ العظیم الحلیم
لا الہ الا للہ رب العرش العظیم
لا الہ الاللہ رب السموات و الارض
ورب العرش الکریم

تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔
وضو بےوضو کثرت سے

عالم الغیب والشھادہ
ھوالرحمٰن الرحیم  

کا ورد کرتی رہیں۔
کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق نیلی شعاعوں سے تیارکردہ پانی ایک ایک پیالی صبح شام ئیں۔ 

 


***

کاروبار میں بندش سے نجات کیسے ملے!

سوال: میرا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ میں اپنے کام پر بہت توجہ دیتا تھا۔ اچانک میرا دل اپنے کام سے اچاٹ ہونے لگا۔ دکان پر تو پابندی سے جاتا لیکن کام پر توجہ نہ دے پاتا۔ میرے رویوں میں تبدیلی کی وجہ سے پرانے پرانے گاہک بھی مجھے آرڈر دینے سے کترانے لگے۔ اب آمدنی بہت کم ہوگئی ہے۔ پہلے میرے پاس چھ سیلز مین کام کرتے تھے۔ اب صرف دو سیلزمین ہیں۔ کبھی ان کی تنخواہیں نکالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ میری روزی پر بندش کروادی گئی ہے۔ اس بندش سے نجات اور کاروبار میں برکت کے لیے کوئی دعا بتا دیجیے۔  

جواب: دشمنوں کے شر سے حفاظت، حسد کے منفی اثرات سے بچاؤ اور روزی پر بندش سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کے کلام سے مدد اور تحفظ لیجیے۔
صبح دکان پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے وقت وضو کرلیجیے۔ راستے بھر اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاحفیظ یامومن یارزاق یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔
دکان پر پہنچ کر سات مرتبہ سورہ تغابن (64) کی تلاوت کیجیے۔ گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ تلاوت کے بعد اپنے اوپر دم کرلیں اور دکان کے چاروں کونوں پر دم کردیں۔
عشاء کی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ آیت الکرسی، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر آمدنی میں اضافے اور روزگار میں برکت کے لیےدعا کیجیے۔
حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں اور ہر جمعرات کم از کم پانچ مستحق افراد کو کھانا کھلا دیا کریں۔

 


***

گھر میں سکون اور خوش حالی نہیں

سوال: جناب وقار صاحب….! آپ کے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات لے رہاہوں۔
میں ایک پرائیویٹ فرم میں بطور اسسٹینٹ سات سال سے کام کررہا ہوں۔ ہفتے میں چھ دن صبح سات بجے گھر سے نکلتاہوں اوررات آٹھ بجے گھر میں داخل ہوتاہوں۔
ملازمت کی پریشانیاں اپنی جگہ مجھے تو گھر میں بھی سکون نہیں ہے۔ شریک حیات کا معمولی یا بغیر کسی وجہ کے مجھ سے جھگڑا کرناروز کامعمول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دوبیٹے اورایک بیٹی عطاکی ہے۔ میری بیوی نے ان معصوموں کو بھی اپنے عتاب کا نشانہ بنا رکھاہے۔
بات بات پر بچوں پر غصہ کرنا،مارنا،گالیاں دینا،مجھے اورمیرے گھر والوں کو برابھلا کہنا، کوسنا اور اتنی زور سے چیخنا چلانا کہ پورا محلہ سن لے۔ یہ سب ان کا معمول ہے۔ میری عزت کا انہیں کوئی خیالنہیں ہے….
اس رویے سے تنگ آکر میں اپنے والدین سے علیحدہ بھی ہوگیا لیکن ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ نہ انہیں بڑوں کی عزت کا خیال ہے اورنہ ہی چھوٹوں سے محبت ہے۔
بیوی کی تلخ مزاجی کی وجہ سے گھر میں بچے بیماری پڑ رہے ہیں، اس طرح مالی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیوی کی بدمزاجی نے گھر کے سکون اور خوش حالی دونوں کو متاثر کیا ہے۔

جواب: رات سونے سےپہلے 101مرتبہ سورہ آل عمران(3) کی آیت 134 میں سے

وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ O

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اہلیہ کا تصورکرکے دم کردیں اور منفی طرزفکر، غصہ، بے زاری، عدم احساس ذمہ داری سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔
خوش حالی کے لیے صدقہ دینا بہت مجرب عمل ہے۔ حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔ 

 


***

تربیت کا اثر

سوال: بچپن ہی سے ماما نے مجھے محلے اور اسکول میں لڑکوں سے دوستیاں کرنے سے روکے رکھا۔ اس وجہ سے مجھے تنہائی میں وقت گزارنے کی عادت پڑ گئی۔
اس وقت میری عمر بائیس سال ہے اورمیں اکیلے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ الگ تھلگ رہنے کی عادت مجھے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتی ہے۔ مجھے ایسا لگتاہے کہ میں ان میں ایڈجسٹ نہیں ہوپاؤ ں گا۔میں ہروقت سوچوں میں گم رہتا ہوں اورخیالی پلاؤبناتا رہتا ہوں۔

جواب: موجودہ دور میں بچوں کی پرورش اور تربیت کے حوالے سے والدین کو کئی ایسے سنگین مسائل کا سامنا بھی ہے ایک دو نسلیں پہلے جن کا تصور تک نہ تھا۔ اپنے بچوں کو معاشرتی برائیوں سے بچانے کے لئے بہت سے والدین بچوں کی سرگرمیوں اور ان کے میل جول کو بہت کم کردینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے بچوں پر نظر رکھنے میں تو شاید کامیاب ہو جاتے ہوں لیکن یہ مسلسل سپرویژن دیگر کئی مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
دوستی، انسان کی نفسیاتی و جذباتی ضرورت ہی نہیں اس کی سماجی و اخلاقی ضرورت بھی ہے۔
بچپن اور لڑکپن میں بہت زیادہ پابندیوں اور نگرانی نے آپ کی شخصیت کو پروان چڑھنے سے روکے رکھا ۔ اس کا نتیجہ خود اعتمادی کی کمی ، بے جا خوف اور شرمیلے پن کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بہرحال ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا۔ ان خامیوں اور کوتاہیوں پر ابھی بھی تھوڑی سی کوشش سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف پختہ عزم اور عملی قدم اٹھادینے کی ہے۔قوت ارادی میں اضافے، کے لئے کئی تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ ان تدابیر میں مراقبہ بھیشامل ہے۔
آپ یقین کیجئے….! اللہ تعالی نے آپ کو کئی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔
ماضی میں کسی بھی وجہ سے جو کمی رہ گئی وہ ناقابل اصلاح ہرگز نہیں ہے۔ صحیح سمت میں کوشش کرکے اصلاح ہوسکتی ہے۔
صبح شام اکتالیس مرتبہ سورہ الشوری (42) کیآیت10


گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں۔
یہ عمل کم ازکم دو ماہ تک جاری رکھیں۔
چلتےپھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحی یاقیوم کا ورد کرتے رہا کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو عملی زندگی میں خوشیاں اور کامیابیاں عطا ہوں ۔ آمین !

 


***

نظر بد اور ٹوک

سوال: م ہماری شادی کو تین سال ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک بیٹا ہے۔ ہم گزشتہ سال نئے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ ہمارے پڑوس سے کئی خواتین کا ہمارے گھر آنا جانا رہتا ہے۔ ان میں ایک بات بہت خراب ہے کہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ ٹوک لگاتی رہتی ہیں۔
میرے شوہر ایک ادارے میں اچھے عہدہ پر جاب کرتےہیں۔ گھر میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔شوہر کو بھی گھر ڈیکوریٹ کرنے کا شو ق ہے وہ کوئی نہ کوئی چیز گھر کی تزین کے لیے لے آتے ہیں۔ میری پڑوسنیں ہمارے گھر اورآمدنی کے بارے میں کچھ کچھ کہتی رہتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی ٹوک بڑھتے بڑھتے حسد میں تبدیل ہوگئی ۔
کچھ عرصہ سے میرے شوہر کو ملازمت کی طرف سے پریشانیاں لاحق ہوگئیں ہیں۔شوہر کومجھ پر بلا وجہ ہی بہت زیادہ غصہ آنے لگا ہے۔ ہم دونوں کی طبیعت میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔

جواب: حسد ایک نہایت برا اور شدیدمنفی جذبہ ہے۔ حاسد کی تو بری نظر ہی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے۔ حسد کے زیرِ اثر کوئی عورت یا مرد کسی کے خلاف منفی عملیات بھی کرواسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی اور آپ کے شوہر کی ہر قسم کے شر اور منفی ہتھکنڈوں سے حفاظت ہو۔ آمین!
بطور روحانی علاج صبح و شام اور رات سونے سے پہلے اکتالیس اکتالیس مرتبہ

. لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ O

سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں اور اپنے شوہر کو بھی پلائیں یا انہیں کہیں کہ وہ خود پڑھ کر پانی پر دم کرکے پی لیں۔
یہ عمل ایک ماہ تک جاری رکھیں۔
اپنے اور شوہر کی طرف سے حسبِ استطاعت صدقہ کروادیں۔
میاں بیوی دونوں وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔ 

 

 


***

کوئی مجھے اہمیت نہیں دیتا

سوال: میری عمر انتیس سال ہے۔ شادی کو چار سال ہوئے ہیں۔ میں ایم ۔اے ،بی ایڈ ہوں۔ میرا ذہن تیزی سے کام نہیں کرتا۔ لوگوں سے بات کرتے ہوئے ان کی بات فوراً سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی جواب ذہن میں آتاہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتاہے کہ ذہن خالی ہوگیا ہے۔ کوئی بات بتاتے ہوئے اگلا پچھلا سب ذہن سے نکل جاتا ہے۔ کبھی کسی محفل میں لوگوں سے بات کرتے ہوئے میرے منہ سے الٹی سیدھی بات نکل جاتی ہے تو لوگ مذاقاڑاتےہیں۔
میرے جیٹھ جیٹھانی اکثر مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں جیسے میں کوئی لطیفہ ہوں حالانکہ میں سسرال میں سب سے زیادہ خوبصورت اور سب کی خدمت گزار ہوں مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے سسرال میں مقامنہیں بنا پائی۔

جواب: ماشاءاللہ آپ ایم اے اوربی ایڈ ہیں اس کے باوجود لوگوں سے بات کرنے میں اور اپنا مقام بنانے میں آپ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ علم سے آپ کی دوری ہے۔
آپ غورکیجئے ! آپ نے ڈگریاں حاصل کیں لیکن تعلیم کواپنی سوچ اورشخصیت کا حصہ نہیں بنایا۔ آپ نے ڈگری کے حصول پر تو توجہ دی لیکن کتاب سے ذہنی تعلق قائم نہیں کیا۔
آپ کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اخبار اورکتاب کے مطالعے میں دلچسپی لیں۔ اخبارمیں خبروں کے علاوہ ادارتی صفحہ کا مطالعہ بھی کریں۔ اپنے شوہر کے ساتھ بازار جا کر سیرت النبی کے موضوع پر اوردیگر کسی موضوع پر چند کتابیں خرید لائیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے خاص خاص نکات کسی ڈائری میں تحریر کرتی رہیں۔ کوئی کتاب اپنے جیٹھ جیٹھانی کو گفٹ بھی کردیں۔ ان کاموں کی انجام دہی کے چند ہفتوں بعد دوبارہ خط لکھیں۔
قوت ارادی میں اضافے کے لیے بطورروحانی علاج صبح نہار منہ اور شام کے وقت اکیس اکیس مرتبہ سورہ آل عمران (3) کی دوسری آیت


اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر شہد پر دم کرکے پئیں۔
چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحی یا قیوم کاورد کرتی رہیں۔

 


***

 


***

چلتا کاروبار متاثر 

سوال:میری شادی کونوسال ہوگئے ہیں۔ میں اپنے قصبے کے بازار میں سگریٹ پان کا اپنا ایک چھوٹا سا کیبن چلاتا تھا۔ میرا کاروبار اچھا چل رہاتھا اورمیری گزر بسر اچھی طرح ہورہی تھی۔
دو سال پہلے میرا چلتا ہوا کاروبار متاثر ہو نے لگا اور رفتہ رفتہ نوبت تنگ دستی تک پہنچ گئی۔ میرے چار بچے ہیں۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔

جواب:عشاءکی نماز کے بعد 101 مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 37


گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالی کے حضور روزگار میں برکت و ترقی اور معاشی خوش حالی کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔
شام کے وقت سات مرتبہ سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھیدم کرلیں۔
اگر سہولت ہو تو شام کے وقت یہ دم کیا ہوا پانی اپنے کیبن میں بھی چھڑک دیں۔
یہ عمل اکیس روز تک جاری رکھیں۔
وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یاسلام یافتاح یارزاق کا ورد کرتےرہیں۔
ہر جمعرات کے دن کسی مستحق کو کھانا کھلا دیں۔

 

 


***

 

 


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 


***

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے سوال:   میں ...

روحانی ڈاک – ستمبر 2020ء

   ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑   ***   اولاد نرینہ کے لیے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *