Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ساکسے ہومن قلعے کی پراسرار دیواریں

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

ساکسے ہومن قلعے کی پراسرار دیواریں

کسی بھی عجوبے کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے۔ دنیا میں عجائبات کی کمی نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک عجوبہ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں موجود ہے۔ یہ ایسی پراسرار دیواریں ہیں جنہیں حیران کن طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ چوکور پتھروں سے تعمیر کی گئی ان دیواروں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ دیواریں کسی انسان نے نہیں بلکہ دیوہیکل مشینوں کی مدد سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ٹنوں وزنی پتھروں کو جس ترتیب سے جوڑا گیا ہے انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کی جنوبی سطح مرتفع میں بلند و بالا چوٹیوں، اونچے پہاڑوں کی وادیوں اور کوہ انڈس کی گھاٹیوں نے اس علاقے میں ایسا ماحول فراہم کردیا کہ یہاں دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں نے جنم لیا۔ اس علاقے میں وادی کوزکو وہ مقام ہے جہاں سے قدیم امریکہ کی عظیم ترین تہذیب اور منظم ترین سلطنت انکا (Inca) وجود میں آئی۔ اس سلطنت کے پہلے بادشاہ نے انکا کا لقب اختیار کیا۔ بعد ازاں سلطنت کے سارے باسی انکا کہلانے لگے۔
انکا کے لوگ جو اس وادی میں 1250ء میں آباد ہوئے ان کی حیثیت اپنے پڑوس میں بسنے والی مختلف ریاستوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی قبائلی ریاست کی سی تھی۔ 1438ء تک انکا کا یہی حال رہا۔ پھر جب پاچاکوتی Pachacuteqان کا بادشاہ بنا تو اس نے مختلف علاقوں کو فتح کرنے کی ایک مہم شروع کردی اس مہم جوئی کے نتیجے میں تیس سال کے اندر اندر اس سلطنت کی سرحدیں اتنی پھیل گئیں کہ اس میں پیرو ایکیوڈور کا زیادہ علاقہ بولیو یا کا ایک بہت بڑا علاقہ اور چلی اور ارجنٹائن کے بہت سے حصے شامل ہوگئے۔ انکا قوم نے 1533ء تک جنوبی امریکا کا بیشتر علاقہ فتح کرلیا۔ سلطنت انکا کے عروج کے ساتھ ساتھ کوزکو کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ آبادی تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس عظیم الشان سلطنت کا صدر مقام کوزکو (یا قوسقو) cuscoتھا، جو اب جنوبی پیرو کا ایک شہرہے۔
انکا تہذیب و تمدن اور علم و فن میں اس وقت کی تمام قدیم امریکی تہذیبوں میں بہت آگے تھی۔ انھوں نے اپنا ایک مخصوص نظام سیاست و معیشت وضع کیا تھا۔ جس کے مطابق بادشاہ ملک کا حکمران ہونے کے علاوہ رعایا کا دینی پیشوا بھی تھا۔ یہ لوگ آفتاب پرست تھے۔ تمام ذرائع پیداوار حکومت کی تحویل میں‌تھے اور ریاست عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی پابند تھی۔ یہاں انکا کی عدالت کے علاوہ انتظامی اور مذہبی مراکز بھی تھے۔ انکا نے زراعت کو ترقی دی۔ سڑکیں ، پل اور آبی ذخائر تعمیر کیے۔ کوزہ گری، دھات سازی اور پارچہ بافی میں انھیں کمال حاصل تھا۔
1532ء کے بعد جب فرانسسکو اور اسپین کے حملہ آوروں نے اتا ہو لیا کو دھوکے سے گرفتار کرکے اپنے قبضے میں کیا تو یہ سلطنت گتے کے کان کی طرح گر پڑی۔ 1569ء تک ساری انکا سلطنت ہسپانیوں کے زیرنگیں آگئی۔
ہسپانیوں کے حملے کی دو بڑی وجوہات تھیں ایک سونے کی تلاش اور دوسرے عیسائیت کی تبلیغ…. چنانچہ سونے کی تلاش میں ہسپانیوں نے انکا کی قابلِ حیرت عمارتوں کو تباہ وبرباد کرڈالا اور پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا، لیکن یہ انکا لوگ اپنی نشانی کے طور پر ایک ایسی عجوبۂروزگار تعمیرا ت چھوڑ گئے ہیں جو آج بھی انسانوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتی ہیں۔


شہرکوزکو سے دو کلومیٹر دور سطح سمند سے 3700 کی اونچائی پر بنا ہوا ساکسےہومن Sacsayhuaman قلعہ آج بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، اس قلعہ کا حیران کن اسٹرکچر حقیقی معنوں میں ایک معمہ ہے ، ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان اب تک حیران ہیں کہ کہ کس نے، کب اور کس طرح اس قلعہ کو تعمیر کیا۔
ساکسے ہیومن قلعہ ایسی کلاں سنگی megalithic دیواروں کا مجموعہ ہے جو پتھر کے بڑے بڑے تین جہتی یا jigsaw پہیلی کی طرح کے کثیر رخی بلاکوں سے بنی ہوئی ہیں۔ اور یہ بلاک اس قدر خوبی اور مہارت سے ایک دوسرے کےساتھ جوڑے گئے ہیں کہ ان کے درمیان میں سے ایک چاقو نہیں گزر سکتا۔ ان بلاکوں کو بغیر کسی گارے اور مٹی کے ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جوڑا گیا۔ یہ ایک راز ہے جو اس سلطنت کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔
دنیا کی تاریخ میں اس نوع کی دیواروں کی اور کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ حتیٰ کہ اہرام مصر اور مایا تہذیبن کی تعمیر کردہ عمارتوں میں بھی اس قسم کی تعمیر کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ انکا قوم کی تعمیر کردہ ان دیواروں میں پتھروں کو اس انداز میں ایک دوسرے سے جوڑ کر لگایا گیا ہے کہ ان کے درمیان معمولی سا بھی خلا موجود نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پانچ سو سال گزرنے کے باوجود ان پتھروں کے درمیان گھاس نہیں اگ سکی اور نہ ہی یہ پتھر اپنی جگہ سے معمولی سا بھی ہلے ہیں۔
ایسی مہارت کے لیے داد دینا بنتی ہے جو غیر انسانی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ دیواریں اس زمانے میں استوار کی گئی تھیں جب تعمیراتی مشینوں کا تصور تک موجود نہیں تھا اور سارا کام ہاتھوں سے کیا جاتا تھا یا پھر ایسی سادہ مشینیں استعمال کی جاتی تھیں جنہیں ہاتھوں اور انسانی طاقت کی مدد سے ہی چلایا جاتا تھا۔ یہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو آج بھی تعمیرات کے ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہوئے ہیں۔
ان دیواروں پر کسی قسم کے نشانات بھی نہیں ہیں۔ یعنی اگر انہیں کسی طرح کے نقشے کی مدد سے بنایا بھی گیا تھا تو ان نقشے کے نشانات کو بعد ازاں ویسی ہی مہارت کے ساتھ مٹا دیا گیا کہ آج ہمیں یہ معلوم کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ ان پتھروں کو آپس میں جوڑنے اور انہیں ایک ایک ترتیب دینے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی۔
آثار قدیمہ کے ماہر گراہم ہنکوک کے مطابق، ان دیواروں کے پتھروں میں سے ایک 29 فٹ لمبا ہے اور زیادہ سے زیادہ 360 ٹن وزنی ہے، یہ وزن تقریباً 500 مسافروں سے بھری بس کے برابر ہے، وہ پتھر کی دیوار کی بنیاد پر بھی نہیں ہے، اور یہی نہیں ان گرینائٹ بلاکوں کوجن پہاڑوں سے کاٹ کر لایاگیا وہ کئی میل دورہیں۔ ان دیواروں کے بلاکس کی کٹائی کس طرح کی گئی….؟ یہ بھی ابھی معمہ ہے پتھروں کو اس ترتیب سے کاٹا اور پھر جوڑا گیاہے کہ ان کے درمیان ایک چاقو تو درکنار ایک باریک کاغذ بھی نہیں رکھا جاسکتا۔

 

دائیں جانب دی گئی تصویرسے آپ اس چٹان کے حجم کا اندازہ لگاسکتے ہیں جس کے سامنے ایک عام آدمی کتنا چھوٹا دکھائی دیتا ہے، جبکہ اوپر دی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان چٹانوں کو کس طرح آپس میں جوڑا گیا ہے ۔

 


تاریخ دان آج بھی حیران ہیں کہ وہ کون سی خوبی تھی جس کی وجہ سے انکا اتنے بڑے علاقے پر حکومت کرتے رہے کیونکہ انکا کے معاشرے میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔ یہاں لوگ بڑے منظم طریقے سے رہتے تھے ان کے پاس وافر زمین اور کھانے کو خوب غلہ ہوتا تھا۔ یہاں بڑے شہر ، قلعے، آبپاشی کا نظام اور سڑکیں بنائی گئی تھیں۔ ایک ایسے معاشرے میں ان چیزوں کا ہونا بڑا تعجب انگیز ہے جہاں لوگ نہ تحریر کا علم جانتے تھے اور نہ ہی روپے پیسے کا لین دین ہوتا تھا، حتیٰ کہ وہ پہیے تک کا استعمال نہیں جانتے تھے۔ روایتی سائنس اور آثار قدیمہ کی تحقیق بتاتی ہے کہ نہ ہی انکا اور نہ ہی مایا اور دوسری جنوبی امریکی تہذیبوں میں پہیہ کی ایجاد کا کوئی تصور ملتا ہے۔ تو آخر ان لوگوں نے اتنے ٹنوں وزنی پتھروں کی نقل مکانی کسی سواری کے بغیرکی ہو۔
اس قلعہ کی تعمیر کے وقت کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا ہے، بعض محققین انہیں 1508ء یعنی محض پانچ سو سال قدیم بتاتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک اس کی قدامت تین ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔ ان تعمیرات کےمتعلق بہت سے نظریات ہیں،کوئی کہتا ہے کہ انہیں جادو کے زور سے بنایا گیا ہے، کوئی ان کی تعمیر میں خلائی مخلوق کا ہاتھ بتاتا ہے، تو کوئی پتھروں کو درختوں کے تنے پر لاد کرلانےے کی کہانی سناتا ہے۔ لیکن آج تک کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ آخر کار اس قلعہ کی تعمیر کیسے ہوئی تھی….؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے ماہرین آثار قدیم سے لیکر ماہرین تعمیرات تک کو پریشان کررکھا ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر میں تین ٹن(3,000 کلوگرام) سے لیکر300 ٹن وزنی پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ روایتی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ بیس سے تیس ہزار افراد نے دن رات کی مسلسل محنت کے بعد دیواروں کو استوار کیا اور ان کی تعمیر میں ایک خام اندازے کے مطابق ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ لگا۔

 

آثار قدیمہ اس ضمن میں وہی روائتی کہانی بیان کرتے ہیں کہ ان چٹانوں کو کاٹ کر بڑے بڑے گول پتھروںcobblestones پر رکھ کر آگے منتقل کرنے کے لیے لکڑیوں کو لیور کی صورت میں استعمال کرکے گھسیٹ کرلایا گیا ہوگا۔
بلاکس کی فٹنگ کے لیے یہ طریقہ کار اپنایا گیا کہ سے نیچے بنیاد میں چٹانوں کو لگانے کے بعد اوپر رہ جانے والی خلا کے عین مطابق چٹانوں کا تعین کیا گیا ہوگا اور اس کو توازن سے بٹھانے کے لیے ارد گرد بڑے شہتیر استعمال کیے گئے ہونگے۔

 

 


بعض ماہرین ان دیواروں کی تعمیر کا دور 1508 کے لگ بھگ بتاتے ہیں جبکہ عظیم مؤرخ گارسیلوسو ڈی لاویگا Garcilaso de la Vega اسی علاقے میں پیدا ہوا جہاں آج یہ دیواریں موجود ہیں۔ وہ 1530ء میں لگ بھگ 22 سال بعد پیدا ہواتھا لیکن وہ لکھتا ہے کہ یہ دیواریں اس کی پیدائش سے پہلے ایسے دور میں تعمیر کی گئی تھیں جس دور کا کوئی فرد تب زندہ نہیں بچا تھا نہ ہی کسی کو تب اس بات کا علم تھا کہ انہیں کب تعمیر کیا گیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ وہ اپنی دستاویز میں لکھتا ہے کہ ‘‘ان دیواروں کو عجائبات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دیواروں کی تعمیر کے لیے جس قدر خام مواد، انسانی محنت اور تعمیراتی مہارت کی ضرورت تھی، وہ اس دور کے انسانوں کے حوالے سے غیر معمولی معلوم ہوتی ہے کہ کیسے ان انڈینز نے چٹانوں کو اس انداز میں کاٹا کہ انہیں اینٹوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر اور ساتھ ساتھ لگا کر جوڑا جائے کہ آج کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کے تناسب اور فٹنگ میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔اس حوالے سے ایک ہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ ان انڈینز نے ماورائی قوتوں کو اس تعمیر کو ممکن بنانے کے لیے استعمال کیا ہوگا کیونکہ ان کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ وہ جادو پر یقین رکھتے تھے اور ان میں ایسے لوگوں کی تعداد اس دور میں بہت زیادہ تھی جو جادو کے فن میں بد طولیٰ رکھتے تھے اور جادو کی قوت سے کچھ بھی کر گزرنے پر قادر ہوچکے تھے۔’’

 

 

 

ساکسے ہومن قلعہ کا نقشہ

 ساکسےہومن عام طور پر ایک قلعہ کے طرح نظر آتاہے تاہم، جدید تحقیقات کے مطابق یہ شاید سورج دیوتا کی عبادت کے لئے وقف ایک مندر تھا۔ تین ڈھلانوں پر قائم اس قلعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، فصیل، ٹاور، اندرونی بھول بھلییا ں اور شاہی تخت….
(1)فصیل (Rampart) بہت ہی زیادہ متاثر کن حصہ ہے جو بڑی چٹانوں اور چونے کے پتھر سے بنی دیواروں پر مشتمل ہے۔ اس حصہ میں 25 ڈگری زاویے کی ڈھلان پر کل 60 دیواریں کھڑی ہیں۔ ان کے سامنے ایک کھلا میدان Chuquipampaہے۔ سب سے پہلی دیوار میں سب سے بڑی چٹان ستّر ٹن وزنی اور تقریبا تین کلومیٹر دورSisicancha نامی ایک کان سے لائی گئی ہے۔ ان دیواروں کے درمیان میں کل دس دروازے ہیں جن کے نام بھی ہے، ان میں Rumipunco، Tiupunku، Achuanpunku اور Viracocha Punku مشہور ہیں۔ (2)برجی حصہ یعنی ٹاورTower ساکسےہومن کے ٹیلے پر تین مختلف سائز میں واقع ہے، جس میں سب سے اہم ٹاور Muyucmarca ہے جس کی بنیادیں گول ہیں اور زیر زمین آبی گزرگاہیں ہیں۔ مؤرخ گارسیلاسو کے مطابق اس ٹاور پر سونے کی پلیٹوں چڑھی ہوئی تھیں اور ان کے زیر زمین ایک سرنگ بھی ہے۔ دیگر ٹاور کے نام Pucamarca اورSallaqmarca ہیں۔ (3) انکا کے تخت کا حصہ (Rodadero) قلعہ کے ٹیلے کے سامنے واقعہ ہے۔ اس حصہ کو آتش فشاں سے لائے گئے آتشی چٹانوں سے بنایا گیا ہے، جہاں پتھروں سے بنی سیڑھیاں ایک اونچے مقام تک جاتی ہیں یہی Incas تہذیب کا تخت ہے. (3)اندورنی بھول بھلییاں(Labyrinths)، شاہی تخت کے پیچھے واقع ہے۔ اس حصہ کو چنکاناس Chincanas کہا جاتا ہے، یہ دراصل زیر زمین آڑھی ٹیڑھی لہراتی سرنگیں ہیں، جسے زیر زمین پانی کی ترسیل کی لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

 

 

یہ پراسرار دیواریں ایسے لوگوں نے بنائیں جن کے بارے میں تفصیلات بتانے سےتاریخ ابھی تک قاصر ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان مزدوروں کی نسلوں میں سے، جنہوں نے اس تعمیر کو مکمل کرنے میں حصہ لیا تھا، باقی شدہ لوگوں کو بھی یاد نہیں تھا کہ کیسے یہ تعمیر مکمل ہوئی اور انکے آباؤ اجداد نے کن قوتوں کو استعمال کرکے یہ معجزہ کر دکھایا۔
انکا کی مقامی زبان کیوچیو Quechuaمیں ساکسے ہیومین sacsahuaman کا مطلب مطمئن شاہین Satisfied Falconکے ہیں اور کوزکو کا مطلبمرکز یا وسط ہے۔
اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کیوں انکا قبیلے نے ان دیواروں کو تعمیر کرنے کا دشوار گزار کام کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مقام دنیا کا مرکز ہے۔ جبکہ دنیا کا مرکز ہی ایسا مناسب ترین مقام ہے جہاں زمینی دیوتاؤں کا مسکن ہو اور جہاں دیوتا رہتے ہوں، اس مقام کو علیحدہ طریقے سے دکھائی بھی دینا چاہیے۔ انکاقبیلے والے خود کو ان دیوتاؤں کے چنیدہ افراد تصور کرتے تھے کیونکہ ان دیوتاؤں نے خاص طور پر انہیں اس علم سے باخبر کیا تھا کہ دنیا کا مرکز کون سا ہے۔ وہ اس جگہ دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک عظیم.الشان مندر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
یہ دیواریں اصل میں اس احاطے کی طرف اشارہ کرتی ہیں جہاں انکا قبیلے کے لوگ ایک مندر اور اس سے ملحق عمارات تعمیر کرنا چاہتا تھے۔
انہوں نے یہ عمارتیں تعمیر کیں یا نہیں، اس بارے میں کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ شاید ایسا کبھی ممکن نہیں ہوسکا تھا کیونکہ اگر یہ عمارتیں تعمیر ہوئی ہوتیں تو ان کے آثار ضرور موجود ہوتے۔ اس بارے میں بھی مؤرخین خاموش ہیں کیوںانکا قبیلے کے لوگ اپنے اس منصوبے کو عملیجامہنہپہناسکے….؟
کوزکو سے ایک فرلانگ کی دوری پر ایک پہاڑی پر ایک مندر کے آثار موجود ہیں جسے مقامی لوگ چاند کے دیوتا مندر کہتے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر اس مندر کی موجودگی ماہرین آچار قدیمہ اورماہرین تعمیرات کے لیے آج بھی ایک لایخل عقدہ ہے۔ کیونکہ عظیم الجثہ پتھروں کو چوٹی تک لے جانا اور پھر انہیں تراش خراش کے بعد ایک دوسرے کے اوپر رکھنا، ایسے لوگوں کے حوالے سے ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے جن کے پاس لوہے یا ایسی کسی دھات کے اوزار نہیں تھے۔ تاہم اس مندر کے حوالے سے کئی اور باتیں بھی نہایت دلچسپیکیحامل ہیں۔
چاندنی رات میں پہاڑی کے نیچے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو چاند کی ٹکیہ مندر کی دیوار پر اس انداز میں ٹکی معلوم ہوتی ہے جیسے اسے نہایت اہتمام کے ساتھ یہاں رکھا گیا ہو اور رات بھر چاند دیوار پر یوں سفر کرتا ہے جیسے وہ چہل قدمی کر رہا ہو۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے سیاحوں کے ٹولے چودھویں رات کو پہاڑی کے نیچے کیمپ لگالیتے ہیں اور رات بھر چاند کی اس چہل قدمی سے محظوظ ہوتے ہیں۔

اکتوبر 2013ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *