2019ء کے آخری مہینوں سے شروع ہونے والی وبا Covid-19سے اب دنیا کے تقریباً سارے ممالک متاثر ہیں۔کورونا وائرس سے کئی لاکھ اموات ہو چکی ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ افراد اس وائرس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں ۔
اس مہلک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے سماجی دوری کو ضروری قرار دیا گیا۔ کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو لاک ڈاؤن چین میں شروع ہوا، وہ پورے کرۂارض پر پھیل گیا۔ معاشی وتجارتی تعلقات اور ہرقسم کے روابط محدود ہو کر رہ گئے۔ ڈیجیٹل ذرائع سے کاموں کو ترجیح دی جانے لگی۔ معاشی پہیے کے رک جانے کی وجہ سے دنیا کی بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ صورتحال یہاں تک آ ن پہنچی ہے کہ سوائے چند کے ہر کاروبار پر بحران آنے لگا۔
اس طرح کے حالات میں کہ جب پوری دنیا خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے حالات میں ایک سوال جو تحقیقی حلقوں میں گردش کر رہاہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے، یہ اثرات کب تک رہیں گے اور اس وبا کے ختم ہونے کے بعد کی دنیا کی حالت کیسی ہو گی….؟
آج سے چند ماہ بعد جب کرونا کی وباختم ہوگی تو انسانی زندگی کتنی مختلف ہوگی….؟ جس طرح جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بدلی تھی اور نائن الیون کے بعد دنیا کا فوکس پوری طرح سے بدل گیا، ویسے ہی کورونا کے بعد بڑی تبدیلی آئے گی….؟
کسی بھی ناگہانی واقعے یا وبا کی صورت میں اس کے دُور رس نتائج کا تخمینہ لگانا آسان کام نہیں۔ ماہرین کو ابھی تک کورونا وائرس کی ساخت اور انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک نہیں ہے، وائرس کے علاج یا ویکسین کےلیے کوئی ٹائم لائن فی الحال نہیں دی جاسکتی۔ ابھی لوگ یہ طے نہیں کرسکتے کہ دنیا کی معیشت اس سے کتنی تباہ ہوگی اور کب ٹھیک ہوجائے گی۔ تاہم دنیا کے معتبر اور نامور ماہرین کی تجزیوں ، پیش گوئیوں اور عالمی و شمار سے موجودہ اور بعد کی دنیا کے بارے میں جو خاکے بن رہے ہیں، اس کے مطابق دنیامیں کئی نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔
معاشی بحران
ماہرین اقتصادیات نے موجودہ عالمی وبا (Pandemic)کو انسانی تاریخ کا گریٹ لاک ڈاؤن قرار دیا ہے۔ ا س سے عالمی معیشت اور قومی معیشتیں بھی انتہائی سست روی کا شکار ہوئیں۔ عالمی سطح پر کروڑ ہا افراد بے روزگار ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 90 کروڑ افراد اس وباء کے اثرات کی وجہ سے اپنے روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے سروس انڈسٹری اور مینو فیکچرنگ انڈسٹری بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 60 فیصد سروس انڈسٹری یا تو بند ہو چکی ہے یا اس نے اپنی سروسز محدود کر دی ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن، رئیل اسٹیٹ، ٹریول اور ٹورازم کے شعبے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ آن لائن سروسز میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے سروس انڈسٹری کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ کورونا کے بعد بھی سروس انڈسٹری کی فوری بحالی کے امکانات نہیں کیونکہ صارفین پہلے کی طرح اخراجات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ کورونا کی وجہ سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری بھی بڑے بحران کا شکار ہے۔ امریکا سے یورپ اور ایشیا تک کارخانے یا تو عارضی طور پر بند ہو گئے ہیں یا انہوں نے طلب نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پیداوار کم کر دی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ 2020ء میں گلوبل اکانومی 3 فیصد تک سکڑ جائے گی۔ کورونا کی وجہ سے 2020 اور 2021ء میں گلوبل جی ڈی پی کو 9ہزار ارب ( 9 ٹریلین ) ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔
یہ تو معیشت کی موجودہ صورتحال ہے۔ کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت اور حالات پر تیل کے اثرات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔
اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو یہ کساد بازاری مزید سنگین اور طویل ہو سکتی ہے اور اس سے نکلنا اور بھی زیادہ مشکل۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف انٹرنیشنل فنانس کارمین ایم رین ہارٹ کی رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس نے عالمگیریت کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دی ہے۔ اقتصادی کساد بازاری مزید گہری اور طویل ہو گی اور 1930ء کے عشرے والے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا کو 1930 کی دہائی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد سب سے بڑے عالمی بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ییل Yale یونیورسٹی کے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات رابرٹ جے شیلر Robert J Shiller کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس نے جنگ جیسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، حالات میں تبدیلی کا دروازہ کھل گیا ہے۔
معاشرتی اور نفسیاتی اثرات
کورونا وبا کی وجہ سے جس طرح لاک ڈاؤن میں وقت گزارنے پر آج کا انسان مجبور ہے، اس نے سماجی تعلقات کے کمزور ہونے کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ آگے چل کر انسان صرف اپنی ذات تک محدود ہونے جا رہا ہے، اس کے چاروں طرف یا تو مشینیں ہوں گی یا مصنوعی چیزیں ہوں گی۔ کورونا وائرس کے اثرات صرف طبی اور اقتصادی نہیں ہوں گے بلکہ سماجی بھی ہوں گے اور ایک نئے تمدن کو جنم دیں گے۔
کورونا وائرس کے معاشرتی اثرات کے ساتھ اس کے نفسیاتی اثرات بھی ہو رہے ہیں۔ زیادہ وقت گھر میں رہتے ہوئے سر درد اور چڑ چڑے پن کی شکایت بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی افراد کی بھوک اور نیند کم ہو گئی ہے۔کورونا انفیکشن کی وجہ سے کئی لوگ اداسی اور ڈپریشن محسوس کررہے ہیں۔ میل جول کم ہونے سے کئی لوگ اداسی اور ڈپریشن محسوس کررہے ہیں کیونکہ کئی لوگ روزانہ اپنے دوستوں ، رشتے داروں سے ملے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ لوگ کورونا سے اتنے پریشان نہیں جتنا کہ ملاقاتیں کم ہونے پر ہیں۔ کورونا انفیکشن نے کروڑوں انسانوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔دنیا بھر کے نوجوان، بوڑھے، بچے اس کے خطرات کے باعث نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
تعلیم پر اثرات
Covid-19 کی وبا نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو زبردست دھچکا لگایا ہے وہیں تعلیم کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کورونا کی وجہ سے 900 ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ کورونا وائرس کے آتے ہی کئی ممالک نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بند کردی ہیں۔
کورونا وائرس کے خطرے نے پاکستان میں نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کردیا ہے۔ یوں تو اس وبائی بیماری سے پہلے ہی پاکستان میں نظام تعلیم کو رسائی، معیار اور انتظامات میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس وبائی مرض سے پہلے ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں کا تخمینہ 2 کروڑ 28 لاکھ بچے تھا جو ابتدائی یا ثانوی تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں۔
چونکہ بچے اسکول میں کمرہ جماعت تک پہنچ نہیں سکتے اس لیے اسکولوں کو بچوں تک تعلیم پہنچانے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ تعلیمی عمل اور علمی معیار متاثر نہ ہو۔اس وقت گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لا ئے جا رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے انداز اور معیارات کو تبدیل کرنا ہوگا۔
یہ اثرات کب تک رہیں گے
اب اہم سوال یہ نہیں کہ کورونا سے کیا اثرات آئیں گے ، زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ان اثرات کا دورانیہ کتنا ہوگا۔ اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس وبا پر کب تک قابو پایا جائے گا اور انسانی سرگرمیاں کب تک بحال ہوں گی۔ اس وقت کورونا کی کوئی ویکسین یا علاج موجود نہیں ہے ۔ اس کی وجہ سے انسانوں کو مشکلات کے ایک اور سلسلے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے کوروناوائرس کی دوسری لہر کی صورت میں معیشت کو ایک اور دھچکا لگ سکتا ہے۔
لاک ڈاؤن کو طول دیا جائے، معیشت ایک طویل عرصے تک بحران کا شکار رہی تو معیشت میں کئی جگہ Structural Damage آجاتا ہے۔ سپلائی چین، افرادی قوت، سرمایہ کاری، لیبر مارکیٹ، پیداواری صلاحیت سب انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس Damageکا دورانیہ کچھ ماہ سے بڑھ کر کئی سالوں تک چلا جاتا ہے اور یہ Recession سے ڈیپریشن بن جاتا ہے جیسے کہ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد کوئی 10 سال تک گریٹ ڈپریشن چلتا رہا۔
امید نہ چھوڑیں
مصیبتیں، ناگہانی آفات اور وبائیں انسانوں کے لیے آزمائش ہوتی ہیں۔ کوئی ان سے کندن کی طرح سنور کے نکلتا ہے، کوئی بس گزارہ کرتا ہے تو کوئی مزید مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھرجاتا ہے۔ کورونا وائرس ایک اجتماعی آفت ہے۔ اس آفت سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کے، ہوش و حواس اور عمدہ حکمت عملی استعمال کر کے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔
1887ء کی امریکن سول وار کے بعد امریکا ایک مختلف ملک بن کرابھرا تھا ۔ اس آفت نے پورے ملک کو ایک کردیا۔ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد یورپ میں نیشنل ہیلتھ سروس NHS کی بنیاد پڑی۔ عالمی جنگِ عظیم دوم کے بعد سوشل ویلفیئر اسٹیٹ اور سوشل سیکیورٹی جیسے اداروں کو تقویت ملی۔
1918ء کے اسپینش فلو کے بعد بھی دنیا باقی رہی ہے، اس بار بھی اچھے کی ہی امید ہے۔ امید ہے کہ اس وبا کے بعد دنیا پہلے سے بہتر مقام بن سکے گی۔بس لوگوں کو چاہیے کہ تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ تعمیری سوچ رکھیں۔ پیسوں کو احتیاط سے استعمال کریں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ یہ کام اگر سب مل کر کریں گے تو پوری امید ہے کہ انسان اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے۔