Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے سوال و جواب


جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات
سے متعلق
خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال و جواب

 

سلسلہ عظیمیہ کے مرشد اور روحانی اسکالر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی سے جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق گفتگو….
یہ تحریر روحانی ڈائجسٹ کے سلسلہ روحانی سوال و جواب ، روزنامہ جنگ کے کالم روحانی ڈاک ، عظیمی صاحب کی کتب اور ماہنامہ آنکھ مچولی خوفناک نمبر میں شایع ہوئے ایک انٹرویو سے اخذ کی گئی ہے۔

 

سوال:- جنا ت کیا ہیں ؟ ہم انسانی وجود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ہیں لیکن جنات نظر نہیں آتے ۔ آخر یہ جاندار مخلوق نظر کیوں نہیں آتی ؟….

جوابـ:-

ہر جسمانی وجود کے اوپر ایک اور جسم ہے ۔ اس جسم کو علمائے باطن ہیولیٰ کہتے ہیں۔ اس جسم کے طول وعرض اور جسم میں تمام خدوخال مثلاً ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، ناک ، دماغ سب ہوتا ہے ۔
تخلیق کا قانون بتاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں روشنیوں سے بنا ہوا جسم تخلیق ہوتا ہے پھر مادی جسم کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ روشنی اور مادی دونوں جسموں میں ٹھوس پن ہوتا ہے۔ انسان کی تخلیق میں بنیادی عنصر مٹی، مادہ ہے یعنی انسان کا مادی وجود زمینی عناصر سے مرکب ہے ۔ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر ….آگ بھی ہے۔ جنات کی تخلیق آگ سے ہوتی ہے۔ جنات ہمیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ ہم مادی عناصر میں محدود رہتے ہیں۔ اگر ہم روشنی کے عناصر یاروشنی کی دنیا سے واقف ہوجائیں تو ہم جنات کو دیکھ سکتے ہیں … مادی وجود کی دنیا میں جس طرح انسان کے علاوہ اور بے شمار مخلوقات ہیں اسی طرح جنات کی دنیا میں بھی زمین، آسمان، چاند ، سورج ، ستارے اور وہ تمام مخلوقات موجود ہیں جو ہمیں زمین پر نظر آتی ہیں۔
علمائے باطن فرماتے ہیں کہ : ’’ جنات دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہیں ….
اب یہ سوال کہ جنات نظر کیوں نہیں آتے تو ہم یہ سوال کرنے کی جرأت کرتے ہیں کہ انسان کو وائرس کیوں نظر نہیں آتا ؟ ….بیکٹریا کیوں نظر نہیں آتا ؟ ….لیکن اگر کوئی SENSITIVE DEVICE بنالی جائے تو اس سے بیکٹریا یا وائرس کا ادراک ہوجاتا ہے ۔ اس ہی طرح اگر انسان روشنی کی دنیا کا علم حاصل کرلے تو وہ جنات کی دنیا کو دیکھ سکتا ہے ۔
علم لدنی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہاں ہر چیز مثلث (Triangle) اور دائرہ (Circle) کے تانے بانے میں بنی ہوئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی نوع کے اوپر دائرہ غالب ہے اور کسی نوع کے اوپر مثلث غالب ہے۔ مثلث کا غلبہ ٹائم اسپیس (Time Space) کی تخلیق کرتا ہے اور جس نوع پر دائرہ غالب ہوتا ہے وہ مخلوق لطیف اور ماورائی کہلاتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی ہے اس لئے وہ چاہے تو خود کو مثلث کے دباؤ سے آزاد کر کے دائرہ میں قدم رکھ سکتا ہے۔ جیسے ہی وہ دائرہ کے اندر قدم رکھ دیتا ہے اس کے اوپر جنات کی دنیا اور فرشتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔

سوال:- سائنس کوشش کر رہی ہے کہ پتہ لگایا جائے کہ ہمارے سیارے کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر آبادی ہے یا نہیں۔ آپ سے سوال ہے کہ روحانیت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ میں نے ایسے سادھوؤں، جوگیوں اور سنیاسیوں کے متعلق پڑھا ہے جو اپنی روح کو جسم سے جدا کر کے کائنات میں سفر کرتے ہیں۔ کیا اس روحانی سفر کے ذریعہ دوسرے سیاروں کی مخلوقات کو دیکھا جا سکتا ہے؟

جوابـ:-

باطنی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ستاروں اور سیاروں کا لامتناہی پھیلا ہوا سلسلہ بے آباد، ویران اور خالی نہیں ہے۔ بلکہ ان میں بیشتر سیارے آباد ہیں۔ خالق کائنات نے یہ وسیع و عریض کائنات پیدا ہی اس لئے کی ہے کہ مخلوقات اس بات کو جانیں کہ کوئی ان کا خالق ہے اور وہ اس کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
ہمیں جو سیارے نظر آتے ہیں اور جو نگاہوں سے اوجھل ہیں، ان میں سے اکثر پر مخلوقات آباد ہیں۔ البتہ ہرسیارے میں مخلوقات کی حرکات و سکنات اور شکل و صورت کی مقداروں میں فرق ہوتا ہے۔
یہ بات دلچسپ اور تحیر خیز ہے کہ جس سیارے پر جس نوع کی مخلوق آباد ہے اس سیارے میں ذیلی مخلوق یعنی جمادات، نباتات وغیرہ بھی اسی مخلوق کی طرح تخلیق کی گئی ہیں۔ ہر سیارے میں وقت کی پیمائش اور درجہ بندی بھی الگ الگ ہے۔ اس کی مثال ہم اس طرح دے سکتے ہیں کہ جنات کی نوع میں بھی ولادت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے ہاں بھی پیدائش 9ماہ بعد ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ماہ و سال سے اس کی پیمائش کریں تو وہ مدت9سال بنتی ہے یعنی ہمارا ایک ماہ جنات کے ایک سال کے برابر ہے۔ اسی مناسبت سے ان کی عمریں بھی ہوتی ہیں۔ اگر ایک انسان 100سال کی زندگی پاتا ہے تو اس حساب سے ایک جن کی عمر ہزار بارہ سو سال ہو گی۔

سوال: کسی پر جنات کا چڑھ جانا، بزرگ کی سواری …. کے بارے میں کچھ وضاحت فرمادیں….؟

جوابـ:-

‘‘دراصل نورانی لہریں انسانی شخصیت کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں۔ اس کا ہر جذبہ، ہر رجحان اور ہر صلاحیت نورانی لہروں کا ایک مکمل پیڑن ہے۔ انسانی زندگی انہی ماورائی لہروں کے زیرِاثر ہوتی ہے اور اسی سے اس کی سوچ بنتی ہے اور ارادہ سوچ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے سوچ محدود خول میں قید ہوجائے تو یہ کیفیت نورانی لہروں کے نظام پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ لہریں اس شخصی پیٹرن پر اثرانداز ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض جسم مثالی Aura کا کوئی لاشعوری پرت متحرک ہوجاتا ہے۔ جب یہ پریت ظاہر ہوتا ہے تو اُس شخص کی آواز اور اندازِ گفتگو بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔اسی کو اکثر اوقات جنات یا بزرگ کی سواری کہا جاتا ہے۔ ایسا زیادہ تر خواتین کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ دراصل ناآسودہ خواہشات کو دباتے دباتے نورانی لہریں غیر متوازن ہوجاتی ہیں۔ اکثر ایسا غیر شادی شدہ خواتین کے ساتھ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پرانے زمانے میں جب لڑکیوں کو اس قسم کے دورے پڑتے تھے تو بزرگ فوراً اس کی شادی کردیا کرتے تھے اور عام طور پر لڑکیاں ٹھیک بھی ہوجاتی تھیں۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ناآسودہ خواہشات کو دبانے کے سبب ایسا ہوتا ہے جو کہ دماغی و ذہنی امراض کے زُمرے میں آتا ہے۔ ایسا مریض ماورائی لوگوں کو دیکھتا اور اسی قسم کی آوازیں سنتا ہے۔ مریض اپنے آپ کو ایک عظیم ہستی تصور کرتا ہے۔
اب رہا سوال روحانی بزرگوں کی سواری کا تو یہ اُن کی شان میں سخت گستاخی معلوم ہوتی ہے۔ جن ہستیوں نے اپنی زندگی کو خدمتِ خلق کے لئے وقف کردیا، غریبوں کی ہر ممکن امداد کی، مظلوموں کو ظالم کے شکنجے سے آزاد کرایا وہ اپنے وصال کے بعد نعوذ باﷲ کسی کو اذیت کیوں پہنچائیں گے؟….
یہ سوال کہ آخر مریض کسی خاص بزرگ یا جنات کا نام کیوں لیتا ہے؟…. دراصل دورے کی حالت میں جبکہ مریض کا شعور معطل ہوچکا ہوتا ہے اُس وقت اس کے پاس بیٹھے ہوئے دوست احباب و لواحقین اس کے سامنے کسی بزرگ یا جنات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مریض کا جسمِ مثالی اُسی نام کو اپنی پہچان بنالیتا ہے اور انہی ناموں اور القابات سے اپنا تعارف کراتا ہے جو اس کے سامنے لئے گئے ہوتے ہیں۔ ایسا عام طور پر پس ماندہ شعوری ، علمی اور ذہنی اعتبار سے بہت کمزور خواتین کے ساتھ دیکھنے میں آتا ہے ۔ اس دورے کی وجہ سے ان کے بعض سرپرستوں کو بھی چڑھاوے، نذرانے اور نقدی وغیرہ ملتی رہتی ہے اسی وجہ سے ایسے کچھ لوگ مریضہ کی شادی بھی نہیں کرتے کہ کہیں نام نہاد بزرگ ناراض ہوکر رُخصت نہ ہوجائیں۔

سوال: جناب آپ لوگوں کی رہنمائی کیجیے اور انہیں بتائیے کہ انہیں کس طرح علم ہو کہ واقعی وہ اس مخلوق کے ستائے ہوئے ہیں؟

جوابـ:-

دیکھیں….! یہ بہت آسان ہے، انسان کبھی نہ کبھی بیمار پڑ جاتا ہے یہ کوئی عجب بات نہیں…. انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اس کا جسم بیمار ہوتا ہے جبکہ اس کے ذہن کا رویہ بیمار نہیں ہوتا لیکن اگر ذہن بھی بیمار ہوجائے، یعنی وسوسے ستائیں، برے خیالات آئیں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے…. اور ایسے میں نیک لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے…. ان قرآنی آیات اور دعاؤں کا ورد کرنا چاہیے جو ایسے مواقع کے لیے علمائے کرام نے بتائی ہیں۔

سوال: جنوں کا انسانوں کے قبضے میں ہونا کس حد تک درست ہے….؟ کیا الہٰ دین کے جن کی طرح کا کوئی واقعہ حقیقت بھی ہوسکتا ہے….؟

جوابـ:-

جن انسانوں سے بالکل مختلف مخلوق ہے، جو نظر نہیں آتی مگر روپ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عموماً انسانوں سے دور رہتی ہے مگر انسانوں کی طرح ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھیتی ہے، شادی بیاہ اور بہت سے کام، ان کے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں، یہ لوگ عبادات بھی کرتے ہیں۔ جنات اکثر اچھے ہوتے ہیں اور انسانوں کو عموماً تنگ نہیں کرتے…. ہاں ایسا جن یا ایسا انسان جو روحانی طور پر مضبوط اور نیک ہوں ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، ایک دوسرے کے دوست بن سکتے ہیں…. روایات ہیں کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے مدرسے میں جنات پڑھا کرتے تھے، اللہ کے نبی حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے تو آپ نے جنات کے کئی واقعات پڑھے ہوں گے۔ اچھے لوگوں کے ساتھ جنوں کا اٹھنا بیٹھنا کوئی انہونی بات نہیں….ویسے ایک بات بتاؤں کہ جن دوست ہو جائیں تو تعاون بہت کرتے ہیں….
سوال: کیا امتحان میں نقل بھی کرواسکتے ہیں، میں نے ازراہِ تفنّن پوچھا۔
جواب: جو لوگ روحانیت کی اس منزل پر ہوں کہ جنات سے دوستی کرلیں یا جن ان سے دوستی کرلے تو دراصل وہ نقل وغیرہ یا شعبدہ بازی کی منازل سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں….

سوال: کبھی کبھار برے خواب ہمیں عالم غفلت میں بھی سخت خوفزدہ کرجاتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے….؟

جوابـ:-
خواب ہماری زندگی کا حصہ ہیں یقین کی کمی سے زندگی وسوسوں میں گھر جاتی ہے، زیادہ تر ہمارے وسوسے ہی خواب میں آکر ہمیں ڈراتے ہیں۔ کبھی برا خواب دیکھ لیا جائے تو حسب توفیق صدقہ نکال دینا چاہیے اور استغفار کرنا چاہیے۔

سوال: انسا ن اگر ماورائی مخلوقات سے خوف زدہ ہو تو کیا کرے ….؟

جوابـ:-
  بچوں کےو الدین کو سمجھاؤں گا کہ وہ ابتدا ہی سے بچوں کو ڈرانے سے گریز کریں۔ ان کی تربیت اور پرورش بےخوفی کے ماحول میں کریں، دراصل جو والدین خود شعوری یا لاشعوری طور پر خوفزدہ ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بھی ڈراتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ بچہ جس چیز سے ڈرتا ہو اسے وہیں لے کر جائیں اور بتائیں کہ دیکھو ڈرنے کی تو یہاں کوئی بات نہیں ہے۔ والدین پہلے اپنی اصلاح کرلیں بچے خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ والدین گھر میں بیمار ذہن کی باتیں بھی نہ کریں، جادو، ٹونہ، دشمنی، حسد اور موت وغیرہ جیسے موضوعات پر بچوں کے سامنے باتیں کرنے سے گریز کریں۔ انہوں نے ایسا کیا تو یقیناً جسمانی اور روحانی طور پر مضبوط، قوی اور بہادر نسل پیدا ہوگی۔
یہ کون نہیں جانتا کہ ڈر اور خوف دوری اور جدائی کا اکیسری نسخہ ہے۔ یہ کون نہیں تسلیم کرے گا کہ ڈر گھٹن ہے، ڈر اضطراب ہے، ڈر بے چینی ہے، ڈر خوف ناکی دو دلوں میں جدائی کی ایک دیوار ہے۔قانون یہ ہے کہ ڈر اور خوف دو انسانوں کے درمیان دُوری اور بُعد کی دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔
مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ حالات کیسے بھی لرزہ خیز ہوں وہ حق پر قائم رہتا ہے، گبھرا کر، بے ہمت، بزدل اور پریشان ہو کر، خوف کے سامنے سرنگوں اور کمزور نہیں ہوتا ۔
خوف و دہشت کا غلبہ ہو جائے تو اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ یہ دعا پڑھیے ان شاء اللہ ڈر اور خوف سے نجات مل جائے گی اور اطمینان قلب نصیب ہو گا۔
ایک شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ ‘‘یا رسول اللہﷺ! مجھ پر دہشت طاری رہتی ہے۔’’
آپﷺ نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔اس نے اس دعا کا ورد کیا۔ خدا نے اس کے دل سے دہشت دور کر دی۔
سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ، رَبِّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ ، جَلَّلْتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوتِ
ترجمہ: پاک و برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی، عیبوں سے پاک، اے فرشتوں اور جبرئیل کے پروردگار تیرا ہی اقتدار اور دبدبہ آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔’’ [طبرانی؛ ابن السنی؛ العقیلی]
اس نے اس دعا کا ورد کیا۔ خدا نے اس کے دل سے دہشت دور کر دی۔

ڈر خوف سے نجات کے لیے دعا

خوف و ہراس کے نجات اور حفاظت کے لیے ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہئے۔

اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوَرَاتِنَا ، وَآمِنْ رَوَعَاتِنَا

ترجمہ: خدایا! تو ہماری عزت و آبرو کی حفاظت کر اور خوف و ہراس سے امن عطا فرما۔

 خوف سے نجات پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کا ذکر ایک مفید اور موثر ذریعہ ہے۔ اسٹریس، ٹینشن، ڈپریشن، خوف (Phobia) وغیرہ کی کیفیات میں مبتلا کئی افراد کو میں نے مختلف وظائف اور مراقبے تجویز کیے۔ الحمدللہ اکثر افراد کو فائدہ ہوا اور وہ اپنی پریشان ذہنی اور بوجھل طبیعت پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ایسے افراد جو کسی خوف میں منتلا ہوں وہ   روزانہ صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورہ توبہ (9) کی آیت 40 میں سے

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ  مَعَنَا

تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے پی لیں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ رات سونے سے پہلے اکتیس مرتبہ

أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن غَضَبِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِن ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَاَن یَحضُرُونَ

سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں اور تین بار دستک دے دیں۔

چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء  یاحی ، یاقیوم کا ورد کرتے رہیں۔

[ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے کالم روحانی ڈاک میں ایک خط کا جواب ]

Khawaja Shamsuddin Azeemi Interview about Mysterious Creatures

یہ بھی دیکھیں

شیطانی مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 1

شیطانی مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل ایک نہ حل ہونے والا پُراسرار معمّا حصہ اول ...

نرالی تصویریں

نِرالی تصویریں  کیا آسمانی بجلی فوٹوگرافی بھی کرسکتی ہے….؟  آج کے دور میں فوٹو اتارنا ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *