Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
مرکزی مراقبہ ہال میں محفلِ مشاعرہ – روحانی ڈائجسٹـ
Tuesday , 15 October 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

مرکزی مراقبہ ہال میں محفلِ مشاعرہ

Mehfil e Mushaira 2023 – Markazi Maraqba Hall 

 

مرکزی مراقبہ ہال میں 

پُروقار اور ادبی بزمِ سخن

 

محفلِ مشاعرہ

مشاعرہ ہماری ایک بہت قدیم تہذیبی روایت ہے ۔ اس روایت کی پاس داری علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی اور تہذیبی لحاظ سے کئی اچھائیوں کا ذریعہ بنتی ہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمدعظیم شاعری بھی کرتے تھے ۔اپ کا تخلص برخیا ہے۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  کی خواہش پر مراقبہ ہال میں محافل مشاعرہ  ہوتی رہتی ہیں ۔  

مرکزی مراقبہ ہال میں ہفتہ 11 فروری کی شب ایک محفل مشاعرہ  ممتاز شاعر ، دانش ور ،  قائد اعظم اکیڈیمی کے سابق ڈائریکٹر  محترم خواجہ رضی حیدر کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔   

نظامت کے فرائض جناب خالد معین نے انجام دئے۔   اس مشاعرہ میں محترم خواجہ رضی حیدر ، محترمہ نسیم نازش، محترم خالد معین،  محترم کاشف حسین غائر، محترم عبدالحکیم ناصف، محترمہ ناہیدعزمی، محترمہ ڈاکٹر حنا عنبرین طارق،  محترم علاؤ الدین خانزادہ،  محترمہ شائستہ سحر،     محترم کریم بلال نے کلام پیش کیا ۔  

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

پروفیسر رضٰی حیدر

آئے گی کب بہار میری عمر کٹ گئی 

اے  شرط انتظار میری عمر کٹ گئی 

اے  میرے غم گسار تری عمر ہو دراز 

اے  میرے غم گسار  میری عمر کٹ گئی 

اے میرے سلسلے مری  تاریکیوں کے بیچ

کچھ  روشنی اُتار میری عمر کٹ گئی  

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

عجب انداز سے  اب کہ بہار آئی گئی ہے

نہ ویرانی گئی دل کی نہ تنہائی گئی ہے

نہیں تھا آئینہ خانہ میں کوئی عکس لیکن 

تماشہ دیکھنے چشمِ تماشائی گئی ہے

مناظر سب ہی میری دسترس میں خوشنما تھے

تعاقب میں یہ کس منظر کے بینائی گئی ہے

بھڑکتی ہے نئے موسم میں پہلے سے زیادہ 

عجب خواہش میرے سینے میں دہکائی گئی ہے

تمنائے تعلق جسم کو اب  خاک کردے 

ہوائے حجر  یہ کہتے ہوئے یہ پائی گئی ہے

بڑی مدت میں آیا خودکلامی کا سلیقہ 

بڑی مدت میں گھر سے میرے تنہائی گئی ہے

وہ شعلہ بجھ گیا ہے جس کو میں دل کہہ رہا تھا

کہاں سے پھر  یہ اتنی روشنی لائی گئی ہے

رضی اس مرد خوش گفتار کو کیسے بتاؤں

کہ شوق ِ گفتگو میں میری گویائی گئی ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اک عرصہ ٔدشنام و کدورت سے نکل کر 

میں خود پہ کھلا  تھا کسی قربت سے نکل کر 

میں قوتِ گویائی سے محروم نہیں تھا

اندازہ ہوا رسمِ مروت سے نکل کر 

ہوسکتا ہے وہ بدخواہ بھی دیکھے 

قامت میرا رنگ قدوقامت  سے نکل کر

دیکھا تو وہاں پر بھی سماں عین وہی تھا

پہنچا میں جہاں خاک کی عسرت  سے نکل کر 

ایک خوف تھا درپیش مجھے جان کا مگر میں 

بے خوف ہوا اپنی حفاظت سے نکل کر 

شاید رخ زیبا کو یہ معلوم نہیں ہے

وہ آئینہ مغموم ہے حیرت سے نکل کر 

گر آئی ہے دل میں مرے دیرینہ کوئی یاد

مصروف ہوا ہوں غمِ فرصت سے نکل کر 

کہتا ہے رضی کوئی شب و روز یہ مجھ سے 

کھوجائے گا اس بھیڑ میں نسبت سے نکل کر 

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

حاکم میرے خلاف سپاہی میرے خلاف 

ملتی نہیں ہے پھر بھی گواہی میرے خلاف 

دو چار نام ہوں تو کسی کا میں نام لوں 

اک سلسلہ ہے لامتناہی میرے خلاف 

کیوں کردیا ہے تنگ مرے سر  پر آسماں

کیوں ہوگئے ہیں ضلِ الٰہی میرے خلاف 

یہ کیا کہ میری شان میں رطب اللسان  شخص 

بکنے  لگا ہے واہی تباہی میرے خلاف 

ٹوٹا جو قربتوں کا تسلسل تو یہ کھلا 

جیسے وہ اک عمر سے تھا ہی میرے خلاف 

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

خالد معین

جوازِ ترکِ تعلق فقط بہانہ تھا

بچھرنے والے کو اک دن بچھڑ ہی جانا تھا

ہمیں تو سود و ضیا سے غرض ہی نہ تھی لیکن 

مزاجِ یار کم و بیش تاجرانہ  تھا

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

فریبِ کارِ جمال کرنے سے کیا ملے گا

ہمیں سپرد ِزوال کرنے سے کیا ملے گا 

گئی رُتوں کا شریک رقصِ وصال 

اکیلے پن میں دھمال کرنے سے کیا ملے گا 

یہ پھول اٹھاؤ ، یہ خواب اٹھاؤ ، یہ آئینہ بھی 

یہاں کوئی بھی کمال کرنے سے کیا ملے گا 

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

زندگی بھر اسی کاوش میں لگا رہتا ہے

آدمی اپنی نمائش میں لگا رہتا ہے 

حرفِ تنقید اٹھاتا ہے  پش پشت کوئی 

سامنے ہو تو ستائش  میں لگا رہتا ہے 

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

لڑکھڑا کر سنبھل بھی سکتے ہیں

دن ہمارے بدل بھی سکتے ہیں

سب سے پیچھے سے ہی مگر اک دن

سب سے آگے نکل بھی سکتے ہیں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

میں نے تجھ کو منزل جانا

تو مجھ کو رستہ سمجھا تھا

ہاتھ چھڑا کر جانے والے 

میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-..-.-.

ایسی جرأت مگر روبرو چاہیے 

 تجھ سے کیسے کہوں،  مجھ  کو تُو چاہیے 

خامشی سے تجھے جذب کرتا رہوں 

اک ملاقات بےگفتگو چاہیے 

پھر لگاوٹ وہی ، مسکراہٹ وہی 

ناک نقشہ وہی ہُو بہو چاہیے

تجھ کو کیا چاہیے میں نہیں جانتا

مجھ کو تُو چاہیے ، تُو ہی تُو چاہیے 

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اک عشق اک دھمال کیا، اور کیا کیا

ہم نے یہی کمال کیا، اور کیا کیا

کیا کیا طنز ہم پہ جواباً کیے گئے 

ہم نے تو اک سوال کیا، اور کیا کیا

تو آستین کا سانپ تھا، ڈستا رہا ہمیں 

اُس پر تیرا خیال کیا، اور کیا کیا

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کیا عجب اہتمام چل رہا ہے

سب کا اپنا مقام چل رہا ہے

ساری تنقید دوسروں کے لیے 

خود مگر بےلگام چل رہا ہے

ہم نہیں جاتے آئینے کی طرف

خود سے کچھ انتقام چل رہا ہے

ان دنوں گھر سے کم نکلتے ہیں 

اپنے اندر قیام چل رہا ہے

باقی سب تالیاں بجاتے ہیں

چند لوگوں کا نام چل رہا ہے

کھل کے باتیں بھی آپ سے ہوں گی

ان دنوں احترام چل رہا ہے

کم سخن آپ کی توجہ سے 

کچھ ہمارا بھی کام چل رہا ہے

کیسے کیسوں کے قد نکل آئے 

کیسا کیسا کلام چل رہا ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

نسیم نازش

کشتیٕ قربت بہہ جاتی ہے 

بس تنہائی رہ جاتی ہے

گردشِ وقت سے ڈر لگتا ہے

چاند سی صورت گہہ جاتی ہے

سارے سورج بجھ جاتے ہیں

رات اندھیری رہ جاتی ہے

جھوٹ پہ رکھی ہوئی عمارت

اک جھونکے سے ڈھہ جاتی ہے

بچپن کا کوئی راز پرانا

رت بارش کی کہہ جاتی ہے

درد میں جتنی بھی شدت ہو

سیل اشک میں بہہ جاتی ہے

نازش شاخ کو گل ملتے ہیں

زخمِ خزاں جب سہہ جاتی ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

میں تیرے ہجر کے ہیجان  سے نکل آئی 

کہ جیسے قریہ انجان سے نکل آئی

اکیلا پاکے مجھے قاتلوں نے گھیر لیا

مگر میں اک عجب شان سے نکل آئی

کہاں کا عشق کہا کی وفا کہاں کا خلوص

میں تیرے وعدہ و پیمان سے نکل آئی

پھر اک چہرہ پرانا نگاہ میں آیا

پھر اک غزل میرے دیوان سے نکل آئی

کسی کے قدموں کی مانوس سی صدا سن کر

میں دوڑتی ہوئی دالان سے نکل آئی 

فریب عشق کے شعلے بجھا دئیے آخر

میں راکھ ہونے کے امکان سے نکل آئی

یہ دیکھ کر کہ خزاں زاد ہیں گلوں کے امین 

صبا کی طرح گلستان سے نکل آئی  

قدم  قدم تھے محبت کی راہ میں کانٹے 

میں تیری سمت دھیان سے نکل آئی  

علی کا نام لیا میں نے جس گھڑی نازش

ہجومِ یاس کے طوفان سے نکل آئی

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

آنکھ کو ذوقِ تماشہ نہیں ہے 

جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم 

وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے 

یوں سرِ راہ گذر بیٹھے ہیں

جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے 

پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں

 دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے 

شہر والوں کبھی اس کو بھی پڑھو

وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے 

ہم کو ہے قربِِ میسر کا نشہ 

ہم کو اندیشۂ فردا نہیں  ہے

تم نہ ہو گے   تو جئیں گے کیسے 

ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے 

اب ہمیں تیری تمنا نہیں 

آنکھ کو ذوقِ تماشا نہیں ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

شائستہ سحر

درد کو بےوقار مت کیجیے

راہ میں انتظار مت کیجیے

کھائیے مت فریب پھولوں سے

خود کو وقفِ بہار مت کیجیے

اپنے اندر سے پُھوٹیے صاحب

شاہ کو داغ دار مت کیجیے

جائیے پھول لے کر قبروں پر

زندہ لوگوں سے پیار مت کیجیے

کچھ تو رکھیے بچا کر دامن میں

سب ہی نظرِ بہار مت کیجیے

آسماں سے ہٹائیے سیڑھی

دشت کشتی میں پار مت کیجیے

لوگ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں

آپ لوگوں سے پیار مت کیجیے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کس طرح دل سے تذبذب کی بلائیں جائیں

آپ بھی نعرۂ  مستانہ لگائیں جائیں

اسم وہ  پڑھیے کہ آجائے دلاچین مجھے

ذکر وہ کیجیے کہ وحشت کی وبائیں جائیں

آپ سے زیادہ سمجھتی ہوں میں دنیا کے چلن

مجھ کو آدابِ زمانہ نہ سکھائیں جائیں

شہرِ کم گوش میں کوئی  نہیں سننے والا

علم و دانائی کے موتی نہ لٹائیں، جائیں

شیشۂ دل کو نہیں عکس گوارا دُوجا

آپ کو اِذنِ حضوری ہے سمائیں جائیں

کسی کونے سے تو امید کی خوشبو بکھرے

گھر کی دیوار پہ اک بیل لگائیں جائیں

مجھ کو معلوم ہے صحرا کسے کہتے ہیں سحرؔ

مجھ کو ویرانے کے معنی نہ بتائیں جائیں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کاشف حسین  غائر :

یہ دئیے آگ لگانے کے لیے رکھے ہیں

وہ الگ ہیں جو جلانے کے لیے 

جو بھی اس شہر میں آتا ہے وہ جاتا ہی نہیں 

کیونکہ دروازے ہی آنے کے لیے رکھے ہیں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

وہ شخص میرا ساتھ نہ دے گا سمجھ گیا

جب اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا سمجھ گیا

اب تو تماشہ گر یہ تماشہ تمام کر

اب تو ہر ایک دیکھنے والا سمجھ گیا

چشمے ابل پڑیں گے اسی سرزمین سے 

جس دن ہماری پیاس کو صحرا سمجھ گیا

جتنے تھے آنکھ والے سبھی سوچتے رہے

لیکن ہماری بات کو اندھا سمجھ گیا

اڑتا نہیں ہے شور مچانے کے باوجود

بچے کی سرخوشی کو پرندہ سمجھ گیا

تنہائی جیسی شے کو سمجھنا محال ہے

لیکن جو تیری بزم میں بیٹھا سمجھ گیا

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

وہ ہنس رہا ہے اسے دل دکھانا آتا ہے

میں رو رہا ہوں مجھے مسکرانا آتا ہے

ہم ایسے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے 

ہمارے بعد ہمارا زمانہ آتا ہے

دئیے جلاؤں گا یونہی میں صبح ہونے تک

وہ دل جلائے جسے دل جلانا آتا ہے 

یہ بحر عشق ہے غائر کوئی مذاق نہیں 

وہی بچے گا جسے ڈوب جانا آتا ہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-..-.-.

عبدالحکیم ناصف

خاموشی بزمِ سخن میں ہے یہ کانٹوں کی طرح

جس میں کانٹے ہی ہوں وہ گلشن تو نہیں ہوتا  ہے

بھائی بہنو میں ہوں شاعر، مجھے واہ واہ کہو

واہ واہ کہنا کرپشن تو نہیں ہوتاہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

مَگ کو پکڑنا مِگ کو اڑانا نہیں ہے کھیل

جب بھی گرے گا ایسی کڑک چائے پائے گا

بھابھی سے کہہ رہی تھی  شرارت سے نند ابھی

مونچھوں سے مِگ جہاز اڑایا نہ جائے گا

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

لڑکیاتُن محبتن لڑکن

دل گلابن معطرن گفٹن

لفظ و پیمان و  عہد  کے بعداُن

ویل انٹون ٹنا ٹنا ٹُن ٹُن

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

یہ لڑکے تو دیکھو  پہلواں پھسڈی

بدن پر نہ پٹھے نہ پٹھوں میں ہڈی

مگر کھیلتے ہیں یہ موبائلوں پر  

کبڈی کبڈی کبڈی کبڈی

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کلائی خشک   سوکھا جسم چہرے پر نہایت ڈینٹ

لباس ایسا کہ لگتا ہے کوئی چالیسویں کا ٹینٹ

میں ڈرتا ہوں  نہ گر جائے کہیں تہذیب سے  اخلاق

یہ ظالم حد حیرت سے بھی نیچے باندھتا ہے پینٹ

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

فیشن کے واسطے کسی گلناز نے کہا

ہر کچھ قبول کرلیا اس نے جو دے دیا

میں نے کہا گلے کا دوپٹا کدھر گیا

بولی وہ پی ٹی آئی کے مردوں کو دے دیا

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

لڑکیاں دیکھ کے بائیک  کو رُکا دیتے تھے

بےنیازی سے گزر جاتے ہیں اب تو روگی

گرل  خود لفٹ بھی مانگے تو اسے کہتے ہیں

پہلے بتلاؤ کہ پیٹرول کے پیسے دو گی

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اِک نوجوان کہنے لگا گرل فرینڈ سے

چاہت کا راز داں ہے محمد علی جناح

قائد کے مقبرے پہ چلی آؤ بےدھڑک

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

تھا پراڈو میں جو محمود تو کورے میں ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

جونہی سی این جی پمپ آیا نظر دونوں کو

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

چڑھائی پر تو دم گھٹتا ہے میرا

یہ کس کی ڈاکٹر  پھٹ لگ گئی ہے

کہا اس نے ڈرپ لگنی تھی تجھ کو

مگر اسی این جی کٹ لگ گئی ہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اک برابر تو تین ہیں پیچھے

شیخ صاحب کا دل لبھاتی ہیں

کار اک مذہبی سواری ہے

بیویاں اس میں چار آتی ہیں

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

میری بیگم نے کوسا میڈیا کو

یہ جھوٹا مرتبے سے گر رہا ہے

گدھے کے گوشت کی جھوٹی ہیں خبریں

گدھا تو میرے گھر پہ پھر رہا ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ڈانٹ پھٹکار کے خطاب کے بعد

سینسرڈ گالیاں بھی بکتی ہے

اک اشارہ ہے یہ بڑھاپے کا

بیوی سوتیلی بیوی لگتی ہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

دفعتاً وِگ میرے سر سے کیا گری

اک پری نے کس کے فقرا دے دیا

دیکھ کر بولی وہ میری گوری ٹنڈ

آپ کی وِگ نے تو انڈا دے دیا

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

زمانے کے تمسخر کا ہے تنہا سامنا

اکیلا مرد گنجی کھوپڑی پاتا ہے کیوں

میاں بیوی اگر گاڑی کے دو پہیے ہیں یار

تو اگلا ویل  ہی چل چل کے گھس جاتا ہے کیوں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

گنج کا رنج مت کرو گنجوں

ہنسنے والے تو قددر کھوتے ہیں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

صرف انسان ہوتا ہے گنجا

بال تو جانور کے ہوتے ہیں

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-..-.-.

تھی حسینا سیاہ عبایا میں

اس کی آنکھوں نے کردیا گھائل

پھر اچانک مجھے صدا آئی

چل بے  گھائل نکال موبائل

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ڈاکٹر حنا عنبرین طارق

یہ میں نے کب کہا ،  سارا جہاں برباد کردوں گی

مگر اک دن میں خود کو خود سے ہی آزاد کردوں گی 

مجھے امید کی کرنیں یقیں ہر پل دلاتی ہیں

کہ اب تک جو نہ کرپائی میں کچھ دن بعدکردوں گی

تمہارا ساتھ ہو یوں ہی شہرِ تمنا میں

تو باقی خواہشوں کو نظرِ ابر و باد کردوں گی

میرے جذبوں کی شدت تم نہیں سمجھے تو پھر اک دن

غدر ایسا مچاؤں گی،تمہیں بغداد کردوں گی

تیری بےزار سوچوں کو اگر ترتیب سے رکھ دوں

تو اُن سے اک نیا ہیجان سا ایجاد کردوں گی 

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ہوتے تو رہے دل پہ کئی وار لگاتار

ہم کرتے رہے  عشق  سے انکار  لگاتار

سیلفی نہ بناؤ مجھے آنکھوں میں بھرو تم

ہوتی ہے اسی بات پہ تکرار لگاتار

تم دل کے مکیں ہو یہ بتا دی ہے تمہیں بات

سوچوں پہ بھی قابض ہو لگاتار لگاتار

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

یہاں بن موسموں کی بارشوں کا سلسلہ ہے

نموں کی منتظر کچھ کونپلوں کا سلسلہ ہے

فلک سے جو بھی اترے کیا گلا اس کا  کہ یوں بھی 

زمیں پر سانس لیتی خواہشوں کا سلسلہ ہے

جنونِ عشق کے رستے میں ہے اک ایسا دریا

جہاں پر تیرتے ٹوٹے گڑھوں کا سلسلہ ہے

یہ ہجرت راس آتی ہے پرندوں کو تب ہی تو

بہت ہی دور تک اُن ٹولیوں کا سلسلہ ہے

کہیں پر تیرگی پھیلی ہوئی آسماں تک

کہیں پر روشنی کے دائروں کا سلسلہ ہے

محبت  کا یقیں جب سے ہواؤں نے دلایا

گلابی گنگناتی خوشبوؤں کا سلسلہ ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ناہید  عزمی

دوستوں کی محفل میں سارے دوست تھوڑی ہیں

ایک آدھ دشمن بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اپنا ہونا چھوڑ آئی ہوں میں اس کے دروازے پر

اتنی بات بتا کر پلٹی جتنی بات ضروری تھی

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کس کو پتا ہے کس نے اب تک کتنی سانسیں کھینچی ہیں

کس کو خبر  ہے کس کی اب تک کتنی مہلت باقی ہے

-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

سرد مہر لوگوں سے شوخیاں نہیں رکھنا

رابطے بڑھائیں تو تلخیاں نہیں رکھنا

ہر طرف زمانے کے  کان کار فرما ہیں

آئینے کی مٹھی میں ہچکیاں نہیں رکھنا

کون کتنا مخلص ہے وقت خود بتا دے گا

دوست اور دشمن کی گنتیاں نہیں رکھنا

جس سے بھی کہیں ملنا مسکرا کے مل لینا

ذات کے جزیرے میں تلخیاں نہیں رکھنا

گھونٹ گھونٹ پی لینا حجر کو محبت میں

عشق کی عدالت میں پیشیاں نہیں رکھنا

جس کے سرد لہجے میں سلوٹیں نمایاں ہوں

دیکھو ایسے قدموں میں پگڑیاں نہیں رکھنا

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

اس نے جو عشق وشق کے ہجے الگ نہیں کیے 

ہم نے بھی درد سہہ لیے صدمے الگ نہیں کیے 

میرے اور اس کے درمیاں رشتہ وبال جان تھا 

دل کو سرہانے رکھ دیا کمرے الگ نہیں کیے 

گھر کے ہر اک مقام پر سہمی کھڑی تھیں الفتیں 

کمروں سے اس کی یاد کے جالے الگ نہیں کیے 

دل سے اسے لگا لیا ایسا سکوں ملا کہ بس 

روتی رہی میں دیر تک کاندھے الگ نہیں کیے 

بیٹوں نے رخ بدل لیا چھوڑ کے اس کو چل دئے 

باپ نے جسم ہار کے رشتے الگ نہیں کیے 

لہجوں کی ساری برہمی سیتی رہی تمام عمر 

میں نے کتاب زیست سے بخیے الگ نہیں کیے 

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

علاؤالدین خانزادہ 

 صاحبِ صدر کی اجازت سے  

شعر سن لیجیے شرافت سے

ورنہ سب جانتے ہیں کیا ہوگا

کون چھڑوائے گا حراست سے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

لوفر لفنگا یعنی کہ لچّا بنائیے

پتلون پھٹ گئی ہے تو کچھا بنائیے

جس کو بھی ہم پہ آپ مسلط کریں جناب

پہلے اسے انسان کا بچہ بنائیے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ایسا  لگتا ہے کہ اب اس کی سمجھ میں آئی ہے

یہ جو مسٹر ایکس ہے دراصل مسٹر وائی ہے

اک موالی نے نہایت بےدلی سے یہ کہا

سب نشے مہنگے ہوئے ہیں اس قدر مہنگائی ہوئی

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

بہت چاہا جوانی پھر نہ آئی

طبیعت میں روانی پھر نہ آئی

کئی منظر پرانے یاد آئے

مگر ماموں، ممانی پھر نہ آئی

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

مت تردد کیجیے ہرگز نہیں شرمائیے

ہائی فن کے ساتھ اپنی گفتگو فرمائیے

گفتگو کرتے میں بنیادیں ہلا دیں آپ نے

اُس کی ویڈیو وائرل ہو بد دعا فرمائیے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

جو بانس پر چڑھ گئے تھے ، اب وہ اتر رہے  ہیں

جو مکر کرتے تھے قوم سے، اب مکر رہے ہیں

وہ کم نظر جو لگا رہے تھے نظر کا چشمہ

نظر کا چشمہ لگا کے بھی کم نظر رہے ہیں

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

نہیں گاڑا کوئی جھنڈا تو پھر تم نے اُکھاڑا کیا

بتاؤ یاد کرسکتے ہو  اب نو کا پہاڑا کیا

بتا قاصد میرے محبوب نے خط میرا پھاڑا کیا

وہ ایسے کانپتا کیوں تھا اُسے لگتا تھا جاڑا کیا

نئے آئے ہیں ان کو لمبی لمبی چھوڑنے دینا

کچھ عرصے بعد پوچھیں گے بنایا کیا بگاڑا کیا

لنگوٹی کس ذرا ڈنڈ پیل پھر تو جان جائے گا

کھلیں گے راز ،ہوتا ہے سیاست کا اکھاڑا کیا

بتاؤ دوستوں جو کچھ ہوا الزام کس کو دیں

زراعت کے محکمے نے ہے کھیتوں کو اُجاڑا کیا

چماروں کی طرح وہ برف خانے میں اکڑتا ہے

یہ جھنڈا کامیابی کا کہو اس نے ہے گاڑا کیا

سبق سیکھا نہیں دشمن کے بچوں کو پڑھایا ہے

زیادہ پڑھ گیا دشمن تو اس پہ غل غپاڑا کیا

اب امپائر کی انگلی گدگدی کے کام آئے گی

تو پھر دُبلا توانا کیا کباڑی کیا  کباڑا کیا

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

یہ ہائے ہائے دعا اور سلام تھوڑی ہے

اور ایسا کرنا کوئی اچھا کام تھوڑی ہے

اے بھائی بس مجھے آوارگی کا چسکا ہے

میں آگیا ہوں  کوئی کام وام تھوڑی ہے

نشے کا رنگ الگ ہے مگر سب ہی ٹُن ہیں

ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں جام تھوڑی ہے

حرام گوشت سے بس اجتناب لازم ہے

شراب سُود کرپشن حرام تھوڑی ہے

بہت کمال سے کی چائنا کٹنگ میں نے

کسی بھی لسٹ میں فدوی کا نام تھوڑی ہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کریم بلال عظیمی

دم بہ دم فیضِ قلندر چار سُو

روشنی کے ہیں سمندر چار سُو

فرش سے تا عرش چھایا نور ہے

ہوگیا پُرکیف منظر چار سُو

مرشدی اور مرشدی کا شور ہے

میرے خواجہ ہیں منور چار سُو

ہیں عظیمی برخیا بحرِ سقا

بٹ رہا ہے جن کا لنگر چار سُو

آپ کے دَر سے ہوئے جو منسلک

شعرائے مثلِ سکندر چار سُو

خواجہ تیرے فیض سے تیرے غلام

ہیں غلامی میں تونگر چار سُو

عرس میں تھی سادگی بےحد بلالؔ

پھر بھی ہے شورِ قلندر چار سُو

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

ہم جو اپنی ذات میں گم ہیں

فکرِ کائنات میں گم ہیں

لے گیا گر سیلاب بہا کر

بچے تو برسات میں گم ہیں

شاید ہونے والا ہے کچھ

تارے اندھیری رات میں گم ہیں

چاند سا ایک چہرہ دیکھا تھا

اب تک تمثیلات میں گم ہیں

مل جائے وہ کاش بلال

جس کی خواہشات میں گم ہیں

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

بےکاری کی حد ہوتی ہے

بےزاری کی حد ہوتی ہے

کس سے حال کہیں اپنا

لاچاری کی حد ہوتی ہے

مر کر بھی کیا ساتھ رہے گی

بیماری کی حد ہوتی ہے

موت سے کب تک بچتے رہیں گے

ہشیاری کی حد ہوتی ہے

اپنے آپ کو کھو مت دینا

کچھ یاری کی حد ہوتی ہے

دل ہی گنوا بیٹھو گے بلالؔ

دل داری کی حد ہوتی ہے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

کوششوں کے ساتھ چلنا چاہیے

بادلوں کے ساتھ چلنا چاہیے

شاید اُن میں بھی کوئی بقراط ہو

پاگلوں کے ساتھ چلنا چاہیے

رفتہ رفتہ دوستی ہوجائے گی

دشمنوں کے ساتھ چلنا چاہیے

منزلوں پر تو ٹھہرنا موت ہے

راستوں کے ساتھ چلنا چاہیے

ہار بھی ہے جیت بھی ہے کھیل میں

فیصلوں کے ساتھ چلنا چاہیے

راستے تو زیست کے ہیں پُرکٹھن

حوصلوں کے ساتھ چلنا چاہیے

ان کو غفلت سے جگانے کے لیے

بےحسوں کے ساتھ چلنا چاہیے

–.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

زندگی کا بھی ایک مسئلہ ہے

آدمی کا بھی ایک مسئلہ ہے

اب کسے اعتبارِ جاں کرلیں

دوستی کا بھی ایک مسئلہ ہے

گھر غریبوں کے سارے چھوٹے ہیں

اجنبی کا بھی ایک مسئلہ ہے

کون سنتا ہے تیرے شعر بلالؔ

بےحسی کا بھی ایک مسئلہ ہے

.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.

 

 
روحانی ڈئجسٹ – مارچ  2022ء
مرکزی مراقبہ ہال میں 
محفلِ مشاعرہ

یہ بھی دیکھیں

المصطفیٰ المصطفیٰ – سماعتوں میں رس گھولتی نعت  رسول مقبول ﷺ

المصطفیٰ المصطفیٰ – سماعتوں میں رس گھولتی نعت  رسول مقبول ﷺ شیخ مشاری راشد العفاسی …

بوعلی سینا اور البیرونی کی گفتگو اور کورونا وائرس

بوعلی سینا اور البیرونی درمیان ہوئی گفتگو  آج ہزار برس بعد بھی کورونا وائرس سے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *