بچوں کی صحت و تندرستی کے لیے کھیل کود بھی ضروری ہے۔ بہت سی مائیں اس حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں کہ کھیل بچوں کی نشو و نما میں کس قدر مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کھیل کود سے بچوں کی جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی نشو و نما بھی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے چونکہ اپنے کھیل کے دوران ادھر ادھر چیزیں پھیلا دیتے ہیں جس سے گھر کی سیٹنگ خراب ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر مائیں چاہتی ہیں کہ ان کا بچہ خاموشی سے ایک جگہ بیٹھا کسی ایسے کھیل میں مگن رہے جس کے باعث گھر میں کوئی بےترتیبی نہ ہونے پائے اور وہ بار بار گھر سمیٹنے سےبچی رہیں۔ کئی مائیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ بچہ اپنے کھیل کے دوران ان کی توجہ کازیادہ طلبگار بھی نہ ہوتا کہ وہ جلدی جلدی گھر کے کام نمٹا سکیں۔
بچے کی ذہانت اور اس کی صلاحیتوں میں تب ہی اضافہ ہوگا کہ جب آپ اسے اس کے رجحان کے مطابق کھیلنے کی آزادی دیں گی اور کبھی کبھی کھیل میں اس کے ساتھ شامل بھی ہوں گی۔
بچے کی عمر کا پہلا سال بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دوران وہ بڑی تیزی کے ساتھ کھیل کھیل میں سیکھنے کے مراحل طے کرتا ہے اور نت نئی چیزوں کو چھو کر گویا ایک نئی دنیا دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب بچے گھٹنوں چلنے کی عمر کو پہنچ جائیں تب وہ ہر نئی چیز کو چھونے کے لیے بےتاب رہتے ہیں۔ ایسے میں گھر میں ان کی حفاظت کی خاطر خاص ماحول بنائیں۔ ایسی تمام چیزوں کو نہ صرف بچوں کی پہنچ بلکہ ان کی نظروں سے بھی دور رکھیں جن سے انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ نت نئی چیزیں بچوں کی نظروں کے حصار میں رہیں گی تو وہ انہیں لینے کی ضد ضرور کریں گے۔ نیچائی پر لگے ہوئے بجلی کے تمام سوئچ اور ساکٹس ٹیپ کی مدد سے اچھی طرح ڈھانپ دیں یا ان سے بجلی کا کنکشن ہی نکلوا دیں۔ اردگرد کے ماحول کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کے بعد انہیں اس بات کی اجازت دیں کہ وہ اپنے من چاہے کھیل سے لطف اندوز ہوسکیں اور ادھر ادھر گھوم پھر سکیں۔ اس طرح وہ نئی نئی باتیں سیکھیں گے، تاہم کھیل کے دوران ان پر نظر ضرور رکھیں کیونکہ چھوٹے بچوں کو ہر چیز منہ میں رکھنے اور اسے چکھنے کا تجسس بہت ہوتاہے۔
جس طرح بچے اپنے طور سے کھیل میں مگن رہ کر بہت سی باتیں سیکھتے ہیں اسی طرح بڑوں کی مدد سے کھیلے جانے والے کھیل بھی ان کےلیے کم اہم نہیں ہوتے۔ کیونکہ ایسے کھیلوں سے ان میں لوگوں سے رابطہ رکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے ماں اور بچے کے درمیان کھیلے جانے والے معصومانہ سے کھیل ‘‘تا….’’ کی مثال ہی لے لیں۔ اس کھیل سے بچے انتظار اور پھر خوش گوار حیرت جیسے جذبات سے روشناس ہوتے ہیں اور ہنس کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ماں جب دونوں ہاتھوں سے یا دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپاتی ہے اور پھر اچانک نمودار ہو کر ‘‘تا….’’ کہتی ہے تو بچہ خوشی و حیرت کے جذبات کے علاوہ انسانی تعلق اور رابطے کی اہمیت سے بھی واقف ہوتا ہے۔ اس کھیل کو کئی مرتبہ دہرائے جانے پر بچہ انتظار کی کیفیت سے بھی روشناس ہوتا ہے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو بچے کی بہتر نشو و نما میں معاون ہوتی ہیں۔
والدین کے ساتھ کوئی کھیل کھیلنا بچے کے لیے ہمیشہ انتہائی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا لمس اور جسمانی قرب بچے کو نہ صرف خوشی بلکہ تقویت بھی بخشتا ہے۔ اس سے بچے میں سیکھنے اور لوگوں سے رابطے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔
بچے کے دلچسپاور محفوظ کھلونے
بچوں کے لیے کھلونوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کھلونوں کی مدد سے وہ بہت سی نئی باتیں سیکھتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے تو ان کے ارد گرد موجود ہر چیز کھلونا ہوتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کبھی ماں باپ بھی ان کے لیے ایک دلچسپ کھلونے کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ بچے گھر میں موجود پلاسٹک کی رنگ برنگی اشیاء، برتنوں اور ڈبوں وغیرہ کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں اچھی طرح صاف کرکے انہیں کھیلنے کے لیے دے دیں۔ البتہ جب بازار سے کھلونے خریدنے کا سوال آئے تو چند باتیں ضرور ذہن میں رکھیں۔
نوزائدہ بچوں سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کے کھلونے
یہ خیال درست نہیں کہ نوزائدہ بچے اچھی طرح دیکھ اور سن نہیں سکتے یا کسی چیز کو پہچاننے کی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی۔ وہ نہ صرف چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ مختلف آوازوں کی جانب فوراً متوجہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شوخ رنگ میوزیکل کھلونے انہیں بہت پسند آتے ہیں اور وہ انہیں پہچانتے بھی ہیں۔ پیدائش کے بعد کے چند روز بچوں کی ذہنی نشو و نما میں بہت اہم کردار اداکرتے ہیں اور تین ماہ کی عمر کو پہنچنے تک وہ اپنے پسندیدہ کھلونوں، رنگوں، چیزوں کی شکل و صورت اور مختلف میوزیکل کھلونوں کی آوازیں بخوبی پہچاننے لگتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے نرم ربر کے کھلونے اور رنگ برنگے جھنجھنے خریدیں لیکن خیال رکھیں کہ یہ کسی بھی قسم کے مضر مٹیریل سے بنے ہوئے نہہوں۔
سات سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے کھلونے
سات سال کی عمر کو پہنچنے تک بچے زیادہ سے زیادہ متحرک رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور محض کھلونوں کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ افراد کے معاملے میں بھی ان کی پسند و ناپسند کا معیار قائم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سات سے بارہ سال تک کے دور میں ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس عمرمیں بچوں کو بیٹری کی مدد سے دوڑتے بھاگتے کھلونے جیسے کہ لڑکوں کو ریسنگ کاریں بہت پسند آتی ہیں۔ بچوں کو جب بھی کھلونے دلائیں تو ان کی عمر، ان کی دلچسپیوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت کے پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھیں۔
بچوں کو مختلف شیپس اور اشکال پر مبنی رنگین کھلونے لا کر دیں اور پھر کھیل کھیل میں انہیں شیپس اور رنگوں کی پہچان کرائیں۔ ایسے خوش رنگ بلاکس جن پر اردو اور انگریزی حروف تہجی تحریر ہوتے ہیں، چھوٹے بچوں کی تعلیم کا اچھا ذریعہ ہیں۔ بچے ان تعلیمی بلاکس کو جوڑنے اور توڑے کے دوران حروف تہجی کو پہچاننے لگتے ہیں۔ آپ کی یہ چھوٹی چھوٹی سی کوششیں بچے کی ابتدائی لرننگ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچہ اس قسم کی باتوں کو کھیل سمجھ کر ان میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔