Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کشورِ ظلمات ۔ قسط 5

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….

 

’’اندھیرا بھی روشنی ہے‘‘….
یہ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے….
جس چیز کو ہم اندھیرا کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اندھیرے کو خوف کی
علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک
کا احساس ہونے لگتا ہے…. سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں زندگی بیِشمار پیکر میں جلوہ گر ہوسکتی ہے…. سائنسی تحقیق کے مطابق
ایک زندگی وہ ہے جو ’’پروٹین اِن واٹر‘‘ کے فارمولے سے وجود میں آئی ہے۔ ہم انسان جو پروٹین اور پانی سے مرکب ہیں اپنی غذا ہائیڈروجن اور کاربن کے سالمات سے حاصل
کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی مخلوق ’’پروٹین اِن ایمونیا‘‘ کے فارمولے پر تخلیق ہوئی ہو تو اُسے ایسی غذا کی ضرورت ہرگز نہ ہوگی جو انسان استعمال کرتے ہیں…. ممکن ہے وہ فضا
سے انرجی جذب کرکے اپنی زندگی برقرار رکھتی ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کے جسم میں نظام ہضم کے آلات مثلاً معدہ، جگر، گردے، آنتیں وغیرہ بھی موجود نہ ہوں!…. اُن
کے جسم کی ہیئت ہمارے تصور سے بالکل ماوریٰ ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کا جسم وزن سے بالکل آزاد ہو!…. وہ ہوا میں اُڑسکتی ہو!…. اتنی لطیف ہوکہ چشم زدن میں
ہماری نظروں سے غائب ہوجائے!…. وہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہو!…. مابعد الحیاتیات کے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں ایسی مخلوق کا پایا جانا جانا
بعیدازامکان ہرگز نہیں ہے….
ظلمات کے معنی ہیں….تاریکی…. اور کشور کے معنی دیس یا وطن کے ہیں…. تاریکی کے دیس میں آباد ایک مخلوق سے متعارف کرانے والی یہ کہانی فرضی واقعات پر
مبنی ہے….  کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی….

(پانچویں قسط)

قسطورہ کی بات سُن کر عمر سوچ میں پڑگیا…. قسطورہ نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا ’’طرزِفکر!…. اس کی طرزِ فکر میں شر کا غلبہ ہے‘‘….
’’کیسی عجیب بات ہے، ایک ایسی مخلوق جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ شرپسند ہے اور انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہے…. وہ مسلسل میری مدد کررہی ہے اور میری نوع کا ایک فرد بلاوجہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہے‘‘…. عمر خود کلامی کے سے انداز میں بولا۔
قسطورہ اُسے دیکھ کر مسکرائی…. اُس کی گول گول آنکھوں میں ایک چمک سی محسوس ہوئی….۔ اُس کا چہرہ خوبصورتی اور حسن کا پیکر نظر آنے کے ساتھ ساتھ پُراسرار سا محسوس ہونے لگا۔ اُس نے آہستہ سے کہا ’’عمر!…. مجھے خوشی ہورہی ہے کہ جناّت کے متعلق تمہاری رائے تبدیل ہورہی ہے‘‘….
دفعتاً عمر کی سوچ نے قلابازی لگائی اور وہ جلدی سے بولا’’لیکن آگیا بتیال والوں کا مجھے اغوا کرنا…. یہ تو سراسر شرپسندی ہی تھی نا؟‘‘….
’’ہاں یہ تو سراسرشرپسندی ہی ہے…. لیکن عقابل چاچا کا اپنی جان پر کھیل کر تمہیں بچانا….اُسے تم کیا نام دو گے؟‘‘…. قسطورہ نے پوچھا
’’ہاں اُن کی وجہ سے ہی تو میں زندہ سلامت ہوں…. لیکن وہ تو کچھ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں…. اگر تم نہ ملی ہوتیں تو میں یہی سمجھتا رہتا کہ میں کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا تھا‘‘….۔
’’یہ اُن کی ڈیوٹی کا تقاضہ ہے کہ وہ خود کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں‘‘….
’’اچھا چلو چھوڑو…. یہ بتائو کہ آگیا بتیال کے لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘…. عمر نے پوچھا….
’’یہ شیطنت پسند گروہ ہے…. اس گروہ میں بہت سے انسان بھی شامل ہیں…. جو استدارجی یعنی شیطانی قوتوں کے مالک ہیں…. کچھ انسانوں کو یہ برین واش کرکے استعمال کرتے ہیں‘‘….
’’برین واش سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘….
’’یہ لوگ کسی انسان کو زبردستی پکڑ کر اُس کے ذہن میں اپنی طرزِ فکر منتقل کردیتے ہیں‘‘….۔
’’ایسے انسان اور جن جو اُن کے ہم مزاج ہوتے ہیں وہ تو اُن کے ساتھ چلنے کے لئے بخوشی رضامند ہوجاتے ہیں…. کچھ لوگوں کو وہ اپنے مطلب کا دیکھتے ہیں تو اُنہیں قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں…. اُس کوٹھی کو آگیا بتیال والوں نے انسانوں کی دنیا میں اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا ہے…. اسی لئے عقابل چاچا کی وہاں پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے…. دیکھو اگر وہ وہاں نہ ہوتے تو تم اُن لوگوں کے چنگل سے نہیں نکل پاتے‘‘ یہ کہہ کر قسطورہ عمر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ’’رات بہت ہوگئی ہے اب تم اطمینان سے سوجائو…. ہاں جب مجھ سے ملاقات ہوا کرے تو اگلے روز دو تین چمچہ شہد لے لیا کرو…. اور نمکین چیزیں کم سے کم استعمال کرنا‘‘….
’’لیکن کیوں؟‘‘….
’’اس بارے میں، میں تمہیں آئندہ کچھ تفصیل سے بتادوں گی…. اب میں چلتی ہوں…. لیکن میں تمہارے آس پاس ہی رہوں گی اچھا خدا حافظ‘‘…. یہ کہتی ہوئی قسطورہ آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہوگئی….
اگلے روز جب صبح سب لوگ بیدار ہوگئے تو ماں جی نے پہلے ہی سب کے لئے اصلی گھی کے پراٹھے، نمکین لسّی اور سرسوں کا ساگ تیار کر رکھا تھا…. سب نے ہی ڈٹ کرناشتہ کیا…. حرا بھی صبح صبح اُٹھ گئی تھی اور ماںجی کے ساتھ ساتھ کام میں لگی ہوئی تھی…. عمر کن انکھیوں سے مسلسل اُسے دیکھے جارہا تھا….
پھر یہ لوگ جھنگ شہر کی سیر کو نکلے…. عمر نے ایک سوزوکی دن بھر کے لئے کرائے پر لے لی تھی…. دوپہر تک موسم کچھ گرم ہوگیا…. سلمیٰ، اسلم، شیراز، حرا اور ثریا سب ہی تیز دھوپ اور گرمی سے پریشان ہوگئے…. لیکن ایم ڈی صاحب جینز اور ٹی شرٹ پہنے، بڑی سے کیپ لگائے بھٹی چاچا کے ساتھ مسلسل گپِشپ میں لگے رہے…. اُن کی پرورش یورپ میں ہوئی تھی…. اُن کے مزاج پر مغربی لوگوں کا بڑا اثر تھا…. وہ اکثر انگریزوں کی طرح ہر قسم کے ماحول کو انجوائے کرنا جانتے تھے…. یعنی ہمارے ہاں کے صاحبوں کی طرح نخریلے نہیں تھے…. اب یہی کیا کم تھا کہ وہ عمر کی دعوت پر اُس کے گائوں آگئے…. اُنہوں نے عمر کی بہن کو بہت قیمتی تحفہ بھی دیا تھا…. عمر کہتا ہی رہ گیا ’’سر آپ کا آنا ہی ہمارے لئے بہت بڑا تحفہ ہے…. اس کی کیا ضرورت تھی‘‘…. تو اُنہوں نے انگلی سے خاموش ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’تم بالکل کچھ نہ بولو…. یہ ہمارا اور منّی بٹیا کا معاملہ ہے‘‘…. اور گھونگھٹ میں چھپی صابرہ جسے منّی پکارے جانے سے سخت چڑ تھی…. ایم ڈی صاحب کی زبان سے ’’منّی‘‘ سُن کر شرم سے دُہری ہوگئی….
جھنگ شہر میں دن بھر خوب گھومنے پھرنے کے بعد آخر میں ہیر کے مزار پر پہنچے تو اُس وقت سورج غروب ہورہا تھا…. جھنگ صدر سے کچھ فاصلے پر، ریلوے لائن کے اُس پار…. ذرا اونچائی پر ایک چوکور سی عمارت میں مائی ہیر کا مقبرہ ہے…. قطعِنظر اس کے کہ ہیر رانجھے کے قصّے میں کتنی سچائی ہے…. اور کس قدر داستان طرازی…. یہ مزار مرجع خاص وعام ہے اور دور دور سے لوگ یہاں منتیں مُرادیں مانگنے آتے ہیں….
ہیر کے مزار کی چھت نہیں ہے…. جھنگ میں روایت مشہور ہے کہ چھت نہ ہونے کے باوجود بارش کا پانی مزار میں داخل نہیں ہوتا…. اصل بات یہ ہے کہ دیواروں کو اوپر سے اس طرح خم دے دیا گیا ہے کہ جب بالکل ہی سیدھی بارش ہوگی تو ہی بارش کی بوندیں اندر داخل ہوسکیں گی….
ہیر کے حوالے سے جو روایتیں یہاںمشہور تھیں عمر سب کو بتا رہا تھا اور سب نہایت توجہ سے سُن رہے تھے….
’’کہتے ہیں جب بابا بلّھے شاہ نے یہاں مراقبہ کیا اور مراقبہ میں ہیرکو دیکھنے کی کوشش کی تو اُنہیں ایک خوبرو مرد نظر آیا…. اُنہوں نے خیال کیا کہ شاید اُن کا مراقبہ کامیاب نہیں ہوسکا…. چنانچہ بابا بلّھے شاہؒ نے دوبارہ مراقبہ کیا اور مائی ہیر کی روح کی طرف توجہ کی…. اس مرتبہ پھر ایسا ہو اکہ اُنہیں ایک خوبرو جوان نظر آیا….
بابا بـلّھـے شاہؒ نے اُس سے پوچھا….
بھائی تُو کون ہے؟….
اُس جوان نے جواب دیا…. میں ہی ہیر ہوں…. میں نے خود کو رانجھے میں اس قدر جذب کردیا کہ میری اپنی ذات کی نفی ہوگئی…. اب میں جو کچھ بھی ہوں…. رانجھا ہوں‘‘….
سب نہایت محویت سے عمر کی گفتگو سن رہے تھے…. اس کے بعد بھٹی چاچا نے ہیر وارث شاہؒ اور بابا بلّھے شاہؒ کا کلام ترنّم سے خوب ڈوب کر گایا…. اردگرد کے بہت سے لوگ بھی جمع ہوگئے تھے….
حرا کی آنکھیں نم تھیں…. وہ یہاں کے ماحول سے بے حد متاثر نظر آرہی تھی….
اندھیرا پھیلنے لگا تھا…. اس لئے سب واپس لوٹ آئے….
اس رات سب اپنا سامان سیٹ کرکے جلد ہی سوگئے…. صبح منہ اندھیرے فیصل آباد کے لئے روانہ ہونا تھا تاکہ وہاں سے کراچی کے لئے فلائٹ پکڑسکیں….
عمر بھی سوگیا لیکن رات کے پچھلے پہر اُس کی آنکھ کھل گئی…. اُسے سخت پیاس لگ رہی تھی…. پانی پی کر وہ چارپائی تک پہنچا تو اُسے قسطورہ نظر آئی….
عمر نے اُس سے کہا کہ چند روز بعد وہ کراچی پہنچ جائے گا لہٰذا اب وہیں ملاقات ہوگی….ابھی اس سے پہلے کہ قسطورہ کچھ کہتی…. اچانک حرا وہاں آگئی…. قسطورہ بدستور عمر کو نظر آرہی تھی اسی لئے عمر سٹپٹا سا گیا…. اُس کے چہرے پر پھیلی ہوئی خجالت کو دیکھ کر حرا نے ایک گہری سانس لی اور کچھ سخت لہجے میں سوال کیا….’’کس سے بات کر رہے تھے؟‘‘….
فوری طور پر عمر کوئی جواب نہیں دے سکا اُس کی نظر قسطورہ پر گئی، حرا کی نظروں نے بھی عمر کی نظروں کا تعاقب کیا لیکن حرا کے چہرے کے تاثرات سے واضح ہورہا تھا کہ اُسے قسطورہ نظر نہیں آرہی ہے۔ اُس کو یکِگونہ اطمینان ہوا اور اُس نے ایک گہری سانس لی، ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ حرا سے کیا کہے…. حرا نے دوبارہ کہا…. ’’مجھے شیراز نے بتایا تھا کہ کل تم رات بھر کسی لڑکی سے بات کر رہے تھے‘‘ حرا نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا….
’’شیراز نے؟!‘‘…. عمر ٹھٹھک گیا…. اُس نے قسطورہ کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی…. گویا قسطورہ کی بات سو فیصد درست تھی شیراز کوئی نیا چکر چلا رہا ہے…. ’’نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے…. اور جو بھی حقیقت ہے میں تمہیں سب کچھ سچ سچ بتادوں گا…. لیکن نہ تو اِس کے لئے یہ مناسب وقت ہے اور نہ جگہ…. کراچی پہنچ کر انشاء اللہ میں تمہاری تسلّی کردوں گا‘‘….
’’لیکن ابھی کیوں نہیں؟‘‘….
’’کوئی وجہ ہے!…. اور یہ وجہ بھی میں تمہیں اِس وقت نہیں بتاسکتا…. تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا چاہئے…. اچھا یہ بتائو شیراز نے تم سے کیا کہا تھا؟‘‘….
’’وہ کہہ رہا تھا کہ عمر تمہیں دھوکہ دے رہا ہے…. اِسی طرح جس طرح وہ گائوں کی کسی لڑکی کو دھوکہ دے رہا ہے‘‘….
’’حرا!…. تم فکر مند نہ ہو ابھی تم سوجائو…. چند روز بعد میں انشاء اللہ کراچی پہنچ کر سب کچھ بتادوں گا‘‘….
٭٭٭
کراچی پہنچ کر جب عمر نے آفس جوائن کیا تو اُسے احساس ہوا کہ حرا کا دل ابھی صاف نہیں ہوا ہے، اِسی لئے وہ اس سے زیادہ بات چیت نہیں کررہی تھی…. شام کو بھی نزدیکی پارک میں بینچ پروہ دونوں خاصی دیر تک خاموش بیٹھے رہے…. آخر عمر نے ہمت کر کے اپنے ساتھ گزرنے والے تمام واقعات حرف بہ حرف کہہ سنائے…. یہاں تک کہ قسطورہ سے ملاقات کا احوال بھی نہیں چھپایا اور یہ بھی بتادیا کہ قسطورہ کا تعلق جنات سے ہے اور وہ اُس سے شدید محبت کرتی ہے….
وہ سوچ رہا تھا کہ حرا اُس کی دماغی حالت پر شبہ کرے گی…. شاید اُسے پاگل ہی نہ قرار دے دے…. وہ دل ہی دل میں دعا بھی کرتا جارہا تھا…. وہ حرا کی محبت کو کسی بھی طور نہیں کھونا چاہتا تھا….
اُس کو شدید حیرت ہوئی کہ حرا نے اُس کی پوری بات سننے کے بعد کسی قسم کا منفی ردّ عمل ظاہر نہیں کیا…. اُس نے پوچھا ’’حرا کیا تمہیں میری باتوں پر یقین آگیا ہے؟‘‘….
’’ہاں!…. یقین نہ کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘…. حرا نے آہستہ سے کہا
’’تم یہ بھی تو کہہ سکتی تھی کہ…. میں اصل بات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک کہانی گھڑ کر تمہیں اُس میں اُلجھانے کی کوشش کررہا ہوں‘‘…. عمرنے آہستگی سے کہا….
’’ہوسکتا ہے…. میں اس طرح سوچتی…. اگر میں نے شیراز کی ٹیلی فون پر گفتگو نہ سن لی ہوتی‘‘…. حرا نے اطمینان سے کہا….
’’شیراز کیا کہہ رہا تھا؟‘‘….
’’ہوا یوں کہ مجھے ایک جگہ ٹیلی فون کرنا تھا…. میں نے 9 کا بٹن دبا کر ڈائریکٹ لائن لی تو اس لائن پر شیراز کسی سے بات کررہا تھا…. میں فون بند کرنے والی ہی تھی کہ شیراز نے تمہارا نام لیا تو تجسس کی وجہ سے میں نے اُس کی پوری گفتگو سن لی…. وہ کسی اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کررہا تھا…. اسٹیٹ ایجنٹ کہہ رہا تھا کہ وہ کوٹھی بھوت بنگلے کے نام سے مشہور ہوگئی ہے۔ اس لئے جتنی قیمت تم مانگ رہے ہو، ملنا ممکن نہیں ہے…. اگر کوٹھی مین روڈ پر بھی ہوتی تو بلڈرز میں سے کوئی خرید لیتا لیکن وہ بھی صرف زمین کے دام ہی ادا کرتا….
اس پر شیراز نے اُس سے کہا…. ارے بھئی میرا آفس کولیگ کئی مہینوں سے وہاں پر رہ رہا ہے….
ہاں لیکن وہ تو انیکسی میں رہتا ہے نا…. کوٹھی کی اصل عمارت تو یونہی ویران پڑی ہے۔ کوٹھی میں اگر کچھ رونق کردو تو میں کسی کسٹمر کو گھیرتا ہوں….
لیکن اُس عمارت میں تو جو بھی گیا زندہ واپس نہیں آیا…. بعض کی تو لاش بھی نہیں مل سکی….
بھّیا…. مال کی خاطر رسک تو لینا پڑے گا…. اسٹیٹ ایجنٹ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو شیراز نے آہستہ سے جواب دیا…. میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے آفس کولیگ کو کوٹھی میں شفٹ ہونے پر آمادہ کرلوں…. میرا خیال ہے کہ وہ آرام سے راضی ہوجائے گا…. لیکن ڈر ہے کہ کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے….
بس ایک ہفتے کی تو بات ہے بھائی…. اس دوران اپنا کام ہوجائے گا‘‘….
حرا نے فون پر سنی جانے والی شیراز کی گفتگو عمر کے سامنے بیان کی تو عمر فکر مند ہوگیا…. وہ سوچنے لگا کہ قسطورہ بالکل صحیح کہہ رہی تھی کہ شیراز کی طرزِفکر میں شر کا غلبہ ہے…. وہ اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوسکتا ہے…. چاہے کسی کا کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے….
’’اُس روز ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ شیراز میرے دل میں تمہارے لئے بدگمانی پیدا کرنا چاہتا ہے…. پھر وہ آئے دن مجھے لنچ یا ڈنر کی آفر بھی کرنے لگا تھا…. اس لئے میں سمجھ گئی کہ اس کی نیچر صحیح نہیں ہے‘‘…. حرا نے کہا….
عمر جو اپنی سوچ میں گم ہوگیا تھا چونک سا گیا…. پھر مسکراتے ہوئے بولا ’’پھر بھی تم مجھ سے دور دور رہیں…. آخر کیوں؟‘‘….
’’دراصل میں شرمندہ تھی کہ میں نے آخر کیوں اپنے دل میں تمہارے متعلق بدگمانی کو جگہ دی‘‘حرا نے نظریں جھکائے ہوئے جواب دیا….’’ویسے عمر تم چاہو تو میں تمہیں اپنے مسٹری انکل سے ملواسکتی ہوں ممکن ہے وہ تمہیں کوئی گائیڈ لائن دے سکیں‘‘….
٭٭٭
حرا کے تایا جنہیں حرا نے مسٹری انکل کا خطاب دے رکھا تھا…. دلچسپ شخصیت کے مالک تھے…. کتابیں اُن کا اوڑھنا بچھونا تھیں….ماورائی علوم اور پُراسرار شخصیات کے متعلق اُن کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود تھا…. اُن کے گھر کے ہر حصے میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں…. کوئی جگہ کتابوں سے خالی نہ تھی…. بیڈ روم، ڈرائنگ، ڈائننگ، دالان، باتھ روم حتیٰ کہ سیڑھیوں پر بھی کتابوں کے ڈھیر لگے تھے۔
عمر حرا کے ساتھ اُن کے گھر پہنچا تو وہ اُس وقت سیڑھیوں پر بیٹھے اوپر تلے رکھی ڈھیروں کتابوں میں سے کوئی کتاب تلاش کررہے تھے…. ان دونوں کو اپنے سامنے پاکر بھی انہوں نے اپنی مصروفیت ترک نہیں کی…. کافی تلاش کے بعد جب اُنہیں اپنی مطلوبہ کتاب مل گئی اور اُس میں مطلوبہ مواد اُنہیں نظر آگیا تو اُس پر نشان لگا کر پھر اُن کی طرف متوجہ ہوئے…. عینک تبدیل کرکے بغور دونوں کو دیکھا اور بولے ’’ہاں بھئی!…. کیسے آئے؟…. کیا شادی کرلی ہے تم دونوں نے؟‘‘….۔
اُن کے سوال پر دونوں بُری طرح جھینپ گئے اور حرا ’’جی!؟…. جی نہیں!‘‘…. کر کے رہ گئی
’’پھر کیا بات ہے؟…. شادی کے لئے سفارش کروانی ہے!‘‘….وہ اپنی خشخشی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔
’’مسٹری انکل…. آپ تو بس!‘‘…. حرا سخت کنفیوز ہورہی تھی….
وہ اُس کی بوکھلاہٹ دیکھ کر مسکرائے اور اُس کے سرپر ہاتھ رکھ کر بولے ’’تم دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ دیکھ کر تو میرے ذہن میں یہی خیال آیا تھا‘‘…. وہ بدستور مسکرا رہے تھے
’’جھوٹ نہ بولئے…. آپ تو اپنی کتابوں میں لگے ہوئے تھے ہماری طرف تو نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا‘‘…. حرا منہ پھلاتے ہوئے بولی….
’’ارے بدھو! دیکھنے کے لئے نظر اُٹھانا ضروری تھوڑی ہیں آدمی چاہے تو اِن دوآنکھوں کے بغیر بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے‘‘….مسٹری انکل نے کہا
’’سر! بڑی عجیب بات کی آپ نے …. کچھ وضاحت کریں گے‘‘….عمر نے پہلی بار زبان کھولی
’’میاں صاحبزادے اللہ نے انسان کو ایک حیرت انگیز صلاحیت دی ہے…. اُس صلاحیت کا نام نگاہ ہے…. گوشت پوست کی آنکھیں کھلی ہوں تو نگاہ اسی کے ذریعے اپنا کام کرتی ہے اگر یہ آنکھیں بند ہوں تو پھر بھی نگاہ بدستور اپنا کام کرتی رہتی ہے…. یعنی جب تم کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتے ہو تو کھلی آنکھوں سے دکھائی دینے والے مناظر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتے…. یعنی یہ گوشت پوست کی آنکھیں نگاہ کا میڈیم ہیں نگاہ نہیں ہیں…. خیر یہ تو بہت تفصیل طلب موضوع ہے…. معلوم نہیں تمہاری دلچسپی بھی ہے یا نہیں…. خواہ مخواہ بور ہوجاؤ گے‘‘۔ پھر وہ حرا کی طرف متوجہ ہو کر بولے ’’بھئی اچھا کیا تم آگئیں…. میں تمہیں ہی یاد کررہا تھا‘‘….
’’کیوں؟…. اب کیا ہوگیا!‘‘…. حرا نے پوچھا
’’بھئی وہ دھوبی کپڑے لے گیا…. دھو کے لایا تو میرے کپڑے ندارد!….کپڑوں کی گٹھڑی کھولی تو اُس میں سارے زنانہ کپڑے تھے‘‘….
’’تو آپ واپس کردیتے اور اُس سے اپنے کپڑے لانے کو کہتے؟‘‘…. حرا نے کہا
’’بھئی وہ تو مہینے میں ایک مرتبہ ہی آتا ہے‘‘….
’’تو آپ خود چلے جاتے اُس کے پاس!‘‘….
’’ارے بھئی میرے پاس ٹائم کہاں ہوتا ہے…. تم تو جانتی ہو میں کتنا مصروف رہتا ہوں‘‘….
’’مسٹری انکل آپ بھی حد کرتے ہیں….۔ کیا خاک مصروفیت ہے آپ کے پاس؟…. سارا دن کتابیں ہوتی ہیں اور آپ ہوتے ہیں…. اچھا چھوڑیں یہ بتایئے کہ آخر میری ضرورت کیوں پڑگئی تھی؟‘‘…. حرا نے پوچھا
’’بات یہ ہے کہ تم میرے لئے چند جوڑے کپڑے خرید لاؤ تا کہ میرا گزارہ ہوسکے…. اب میں فلیپر اور ساڑھیاں تو پہننے سے رہا‘‘…. حرا کے تایا نے اس انداز سے کہا کہ حرا اور عمر کے قہقہے پھوٹ پڑے….
’’اصل میں مسٹری انکل…. آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی‘‘ حرا نے کہا تو وہ نظریں اٹھا کر زیرلب مسکراتے ہوئے بولے ’’شادی کی بات؟؟!‘‘….
حرا جھنجھلا گئی’’مسٹری انکل میں کچھ سیریس بات کرنا چاہتی ہوں‘‘….
’’چلو میرا مسئلہ تو حل ہوگیا…. شادی ایک نانِسیریس کام ہے…. میری منطق تو درست ثابت ہوگئی…. یہ بات تم اپنے باپ کو بھی بتادینا…. اُس کو اس کے علاوہ کوئی بات آتی ہی نہیں ہے…. جب آتا ہے، یہی کہتا ہے بھائی صاحب آپ نے بہت بڑی غلطی کی آپ شادی کرلیتے تو پریشان نہ ہوتے‘‘….
حرا کے تایا نے اس طرح منہ بگاڑ کر کہا…. دونوں کو پھر ہنسے بغیر چارہ نہ رہا….
’’بھئی ایسا ہے کہ آج کل میں ایک خاص موضوع پر کام کررہا ہوں….۔ پرسوں تم دونوں آجاؤ…. تو بیٹھ کر تمہاری بات تسلی سنیں گے ابھی تو میرا ذہن تمہاری طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہوسکے گا‘‘…. یوں ناچار دونوں کو وہاں سے لوٹنا پڑا….۔
اگلے روز عمر آفس پہنچا تو نیا اسائنمنٹ اُس کی ٹیبل پر پہلے سے موجود تھا…. وہ کام میں کچھ اس طرح غر ق ہوا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوسکا…. لنچ ٹائم ہوا تو اسلم، ثریا، سلمیٰ اور شیراز آن دھمکے….
’’بھئی اُٹھو اب بند کرو کام‘‘…. اسلم نے کہا
’’کیوں خیریت تو ہے؟‘‘….
’’ارے تم کو یاد نہیں…. آج چپلی کباب کا پروگرام ہے…. آج بارش کے بعد موسم بھی بہت زبردست ہورہا ہے…. چلو جلدی کرو ورنہ خان کے چارپائی ہوٹل میں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی‘‘….
ہوٹل میں اُس وقت اتنا رش نہیں تھا…. تین چارپائیاں قریب کرکے وہ لوگ اکھٹے ہی بیٹھ گئے…. جب سب کھا پی چکے تو عمر کے سر ہوگئے کہ تم پان کھلائو…. چنانچہ سب کی پسند معلوم کرکے عمر پان کی دکان پہنچا…. پان کا آرڈر دے کر وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا…. اچانک کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا…. وہ چونک کر پیچھے مڑا تو سامنے وہی فقیر کشکول لئے کھڑا تھا جو اُسے چند ماہ قبل برنس روڈ پر ایک ہوٹل میں ملا تھا….
’’حق ہُو!‘‘…. فقیر نے صدا لگائی
عمر نے جیب سے چند سکے نکال کر فقیر کے کشکول میں ڈال دئیے…. فقیر نے اپنی لاٹھی کو تین مرتبہ زمین پر مارا…. لاٹھی کے اُوپری سرے پر لگے گھنگھرو چھنا چھن بجنے لگے….
’’بچہ تو آگ سے کھیل رہا ہے…. پر خیر ہے…. ڈرنا مت…. ہمت مرداں مدد خدا‘‘….
اور وہ فقیر یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا….

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

کشورِ ظلمات ۔ قسط 10

تاریکی کے دیس م ...

پارس ۔ قسط 5

پانچویں قسط : & ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *