کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….
چوتھی قسط
گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اسپین کے صوبے اندلوسیا کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان چراوہا سان تیاگو کی ہے، ماں باپ اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سفرکر کے دنیا کو جاننے کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں رات گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام بتانے سےقبل ہی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ دو سالوں سے ان بھیڑوں کے ساتھ وادیوں میں پھررہا ہے، ان بھیڑو ں سے اتنامانوس ہوچکا ہے کہ وہ اُن سے باتیں کرتا ہے ۔ لیکن اب اس کی دلچسپی کا محور تاجر کی بیٹی ہے، جسے وہ گزشتہ سال ملا تھا ، اس کا ارادہ تھا کہ دوبارہ اس لڑکی سے ملے اور اسے اپنے بارے میں بتائے گا کہ کس طرح اس نے پڑھنا سیکھا تھا۔ کیسے وہ چراوہا بنا ۔ اب وہ مطمئن اور آزاد ہے، جہاں اُس کا جی چاہتا وہ جاتا ہے۔ لیکن پہلے اس نے شہر طریفا جانے کا ارادہ کیا ، جہاں وہ خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملا۔ جس نے بتایا کہ وہ خزانہ جس کی خواب میں نشاندہی کی گئی تھی اسے ضرور ملے گا۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر وہاں سے چل دیا اور شہر کے چوک پر بیٹھا کتاب پڑھنے لگا کہ اچانک ایک بوڑھا شخص اس کے پاس بیٹھ کر بات کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ وہ بوڑھا اپنا نام ملکیِ صادق اور اپنے آپ کو شالیم شہر کا بادشاہ بتاتا ہے اور کہتا ہےخزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا سمجھا کہ یہ بوڑھی عورت کا شوہر ہوگا، لیکن جب اس بوڑھے نے ریت پر وہ باتیں لکھیں جو اس نے کسی کو نہیں بتائی تھیں ، تو اسے بوڑھے پریقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ۔ خزانہ کے بارے میں مدد کرنے کے بدلے بوڑھا شخص بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے اور کل آنے کا وعدہ کرکے چلاجاتا ہے۔ لڑکا شہر میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے سوچتا ہے اور آخر اگلے دن بھیڑوں کا دسواں حصہ بوڑھے کو دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانہ اہرامِ مصر میں ہے اور اسے ڈھونڈنے کے لیے قدرت کے اشاروں کی زبان کو سمجھنا ہوگا۔ بوڑھا اپنے سینے پر لگی طلائی زرہ میں جڑے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں پارہے ہو تو یہ دونوں پتھر ان اشاروں کو سمجھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ البتہ کوشش کرنا کہ سوال بالکل واضح اور بامقصد ہو۔لیکن بہتر یہی ہو گا کہ تم اپنے فیصلہ خود اپنی عقل سے کرنے کی کوشش کرو۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرتا ہے اور اپنی بھیڑیں لے کر چلاجاتا ہے ۔…. اب آگے پڑھیں …………
….(گزشتہ سے پوستہ)
اطریفا کے بلند ترین مقام پر جہاں مسلمانوں کا تعمیر کردہ قلعہ تھا۔ اُس کی دیواروں کے اُس پار دُور افریقہ کی سرزمین کی جھلک نظر آتی تھی۔
اُسی دوپہر شالیم کا بوڑھا بادشاہ ملکی صادق قلعہ کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنے چہرے پر مشرق سے آنے والی لیوانتر ہوؤں کو محسوس کررہا تھا۔ بھیڑیں اِدھر اُدھر چارہ چر رہی تھیں۔ ان کا مالک اب بدل چکا تھا۔ لیکن یہ تبدیلی اُن بھیڑوں کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہ تھی، نہ ہی انہیں مالک سے بچھڑنے کا کوئی غم تھا۔ انہیں تو بس کیسے بھی چارہ اور پانی چاہیے تھا۔
قلعہ کی دیوار پر بیٹھے بوڑھے ملکی صادق کی نظر بندر گاہ سے نکلنے والےایک چھوٹے سے بحری جہاز پر پڑی جو افریقہ کی طرف گامزن تھا۔ اُس نے حسرت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور دل میں سوچا کہ اس لڑکے سے آئندہ کبھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ جیسے ابراہیم سے ملنے کے بعد میں پھر کبھی نہ مل سکا تھا۔ لیکن قدرت کے فرائض کی انجام دہی میں ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہی طریقہکار ہے۔
ویسے بھی کائنات اور تقدیر کی مرضی میں خود کو ضم کردینے والے بندے خواہشات سے ماورآ ہوتے ہیں۔ ولیوں کی نہ کوئی خواہشات نہیں ہوتی ہیں نہ ہی کوئی مرضی یا چاہت۔
لیکن جانے کیوں شاہ شالیم کے دل میں یہ شدید خواہش بار بار سر اُبھارتی کہ کسی نہ کسی طرح یہ لڑکا کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔البتہ اسے اس بات کی بھی فکر تھی کہ اس سفر کی صعوبتوں میں یہ لڑکا جلد ہی اس کا نام تک بھول جائے گا۔
‘‘ میں نے بھی تو صرف ایک ہی بار اُسے اپنا نام بتایا تھا’’۔ اس نے سوچا۔
‘‘کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اس کے سامنے بار بار اپنا نام دہراتا رہتا ، تاکہ کہیں اگر میرا تذکرہ ہو تو شالیم کے بادشاہ ملکی صادق کے نام سے ہو۔’’
لیکن پھر خود ہی نادم ہوکر بولا: ‘‘اےمیرے مالک ! میں جانتا ہوں کہ یہ خود نمائی، جھوٹی شان تیرے نزدیک بالکل بے بنیاد اور ہیچ ہے۔ لیکن کبھی کبھی تھوڑی ہی دیر کے لئے ہی صحیح، ماضی کے ایک بادشاہ کو اپنے اوپر تھوڑا ناز تو کرنے دے۔’’
***
بحر اوقیانوس کو بحیرہ روم سے منسلک اور یورپ اور افریقہ کو جدا کرنے والی آبنائے جبرالٹر Strait of Gibraltar شاندار محل وقوع کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ اس کو یہ نام جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام پر ملا، جہاں 711ء میں مسلم جرنیل طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے کے لیے اترے اور یورپ کے ایک نئے سنہری دور کا آغازکیا۔
اس آبنائے کے شمال میں جبرالٹر (جبل الطارق)اور اسپین کا ساحلی شہر طریفا جبکہ جنوب میں مشہور ساحلی شہر ‘‘طنجہ’’Tangier واقع ہے، جبرالٹر کے پہاڑ سے طنجہ کی روشنیاں صاف نظر آتی ہیں۔ شہر طریفا سے طنجہ صرف 30 کلومیٹر دور ہے۔ یہ سفر فیری کشتی پر آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔
***
‘‘افریقہ بھی کتنا عجیب و غریب خطہ ہے،’’ لڑکے نے سوچا۔ وہ اِس وقت ایک قہوہ خانہ میں بیٹھا تھا۔ طنجہ Tangier کی پتلی پتلی گلیوں میں ایسے بہت سے قہوہ خانے تھے۔ ایک مجلس میں یہاں کچھ لوگ ایک لمبا سا پائپ لیے تمباکو نوشی کر رہے تھے، جب ایک پی چکتا تو وہ یہ طویل پائپ دوسرے کی طرف بڑھا دیتا ۔ اب دوسرا اُس سے لطف اندوز ہونے لگتا۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس پائپ کا نام یہاں حقہ hookahہے ۔ کچھ لوگ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے تھے۔ جتنی بھی عورتیں نظر آئیں چہروں کو نقابوں میں چھپائے ہوئے تھیں۔ اس نے بلند و بالا میناروں پر چڑھ کر عابِدوں کو عربی زبان میں خوش الحانی سے پکارتے بھی سنا اور لوگوں کو ایک خاس طریقے سے عبادت کرتے بھی دیکھا۔ اس پکار کو اذان اور اس طریقہ عبادت کو صلوٰۃ کہتے ہیں۔
اسپین کی بہ نسبت مراکش میں زیادہ مسلمانوں آباد ہیں، ایک مسیحی گھرانے میں پرورش پانے والے اس لڑکے کے لیے یہ سب ماحول عجیب تھا۔
‘‘یہ غیر مسیحی مورش کے رواج بھی عجیب ہیں۔’’ اُس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے دل میں سوچا۔ (اسپین کے لوگ مسلمانوں کو مراکش کی نسبت سے مور یا مورش کہتے تھے۔ )
بچپن میں اُس نے چرچ میں سینٹ سانتیاگو* کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ننگی شمشیر لئے ایک سفید گھوڑے پر سوار ہیں اور مورش فوجوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ بطور مسیحی بچپن ہی سے اسے مسلمانوں سے خوب ڈرایا گیا تھا اور اب ان عرب اجنبیوں کے درمیان لڑکا وہ آپ کو بالکل تنہا اور اُداس محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ ایسے اجنبی لوگوں کے درمیان آگیا ہے جو شاید اسے دشمن نظر آرہے تھے۔
سفر کی خوشی اور عجلت میں اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ یہاں آتو گیا ہے مگر یہاں کے لوگوں کی زبان سے بالکل ناواقف ہے۔ یہاں سب لوگ صرف عربی بولتے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ کہیں عربی سے ناواقفیت، خزانہ کی تلاش میں دشواری اور تاخیر کا باعث نہ بن جائے۔
اتنے میں قہوہ خانہ کے مالک نے اُس کے پاس آکر پوچھا تو لڑکے نے اُس مشروب کی طرف اشارہ کر دیا جو برابر والی میز پر بیٹھے شخص نے منگوایا تھا۔ لیکن مشروب کا پہلا گھونٹ اُس کے لئے تلخ اور اجنبی تھا، یہ چائے تھی جسے شاید وہ کوئی شربت سمجھ رہا تھا۔
اجنبی شہر، اجنبی لوگ، اجنبی زبان اور اجنبی مشروب …. لیکن یہ سب اِس کے لیے اتنی فکر مندی کا باعث نہ تھے۔ اُسے تو بس اِس بات کی فکر تھی کہ اس اجنبی ماحول میں خزانہ کی تلاش کا آغاز کس طرح ہوگا۔
یوں تو اُس کے جامہ بند پوٹلی میں کافی رقم موجود تھی جو اس نے بھیڑیں بیچ کر حاصل کی تھی اور لڑکے کو یہ تو معلوم تھا کہ پیسے میں جادو ہوتا ہے ، جس سے کوئی کام ناممکن نہیں، اور جب تک اس کے پاس پیسہ ہے تنہائی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں وہ اہرام تک پہنچ جائے گا۔
اُسے یقین تھا کہ بوڑھے آدمی نے محض چھ بھیڑوں کے لئے جھوٹ نہ بولا ہو گا۔ پھر اُسے یاد آیا، بوڑھے نے شگون اور نشانیوں کے بارے میں بتایا تھا۔ جب وہ آبنائے جبرالٹر پار کر رہا تھا تو اُسے اُن نشانیوں کا خیال آیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ بوڑھے کو اِن سب باتوں کی اچھی معلومات تھیں۔ اندلس کے میدانوں میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ گھومتے ہوئے بھی اُسے بہت سی نشانیوں اور علامات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ میدان کی کیفیت اور آسمان دیکھ کر راستے کا اندازہ کرنا اُسے آتا تھا۔
ایک چرواہا ہونے کی حیثیت سے وہ اُس چڑیا کو پہچانتا تھا جو اگر کہیں پائی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں قریب میں سانپ موجود ہے۔ بعض گھاس ایسی ہیں جو اگر کہیں موجود ہوں تواِس کا مطلب یہ ہے کہ قریب میں کہیں پانی موجود ہے۔ یہ سب چیزیں اُس نے بھیڑوں سے سیکھی تھیں۔
جب خدا بھیڑوں کو اتنی آسانی سے راستہ سُجھا اور دکھا دیتا ہے تو میں تو انسان ہوں۔ اِس خیال نے جیسے ایک بڑا بوجھ کم کر دیا۔ چائے کی تلخی بھی اس کے لیے کم ہو گئی تھی۔
‘‘تُم کون ہو ….؟’’ کسی نے ہسپانوی زبان میں اُس لڑکے سے پوچھا۔
اپنی زبان کے الفاظ سن کر لڑکے کو تعجب ہوا تھا…. یہ سوچتے ہوئے کہ ابھی تو وہ شگون کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ان اجنبیوں کے دیس میں فوراً ہی ایک ہم زبان شخص مل گیا ، یہ بھی ایک اچھا شگون ہے۔
کوٹ پینٹ، گلے میں ٹائی، نووارد اپنے خوش لباس اور مہذبانہ انداز سے تو کوئی یورپی لگتا تھا، لیکن اُس کی رنگت بتا رہی تھی کہ وہ اسی شہر کا باشندہ ہے، اُس کی عمر اور قد لڑکے جیسی ہی تھی۔ لڑکے نے اس سے سوال کیا:
‘‘تم ہسپانوی کیسے جانتے ہو؟’’
‘‘اِس علاقہ میں ہر کوئی ہسپانوی زبان جانتا اور سمجھ لیتا ہے۔ اسپین یہاں سے محض دو گھنٹہ ہی کی مسافت پر تو ہے۔’’ اجنبی نووارد بولا ۔
‘‘آؤ بیٹھو ! کیوں نہ ہم لوگ کچھ اور مشروبپئیں۔
مجھے یہ چائے تو کڑوی لگتی ہے۔’’لڑکے نے نووارد سے کہا۔
‘‘یہ اسپین نہیں ….! اس ملک میں کسی قسم کی الکوحل یا مشروب نہیں مل سکتا، یہاں اس کی ممانعت ہے۔ ’’ نووارد نے بتایا۔
لڑکا اور نووارد آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ لڑکے نے گفتگو کے دوران نووارد سے مصر کے اہرام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، اور بتایا کہ وہ اسپین سے یہاں اس لیے آیا ہے کہ مصر کے اہرام گھوم سکے، لیکن وہ خزانہ کی بات کہتے کہتے رک گیا۔
اُس نے سوچا کہ کہیں یہ عرب بھی اہرام تک پہنچانے کے عوض خزانہ کا کوئی حصہ نہ مانگ بیٹھے۔ اُسے یاد آیا کہ بوڑھے نے بھی ایسے ہی موقع پر حصہ مانگا تھا۔ پھر اس نے نووارد شخص سے پوچھا کہ :
‘‘اگر تم اہرام مصر تک پہنچنے میں میری رہنمائی کرو گے تو میں تمہیں اُس کا مناسب معاوضہ ادا کروں گا۔’’
‘‘کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اہرام تک کیسے پہنچا جاتا ہے ۔’’ نووارد نے پوچھا۔
لڑکے نے انکار کیا، اس دوران لڑکے نے محسوس کیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اُسے بغور دیکھ رہا ہے اور اُن کے بیچ ہونے والی گفتگو کو سننے کی کوشش رہا ہے۔یہ بات لڑکے کو ناگوار لگی لیکن اُس وقت وہ اس کوشش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا رہنما مل جائے جو اُسے اہرام تک پہنچا دے۔ اس نووارد سے معلومات حاصل کرنے کے اس موقع کو وہ ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
‘‘اہرام تک پہنچنے کے لیے صحارا کا پورا ریگستان پار کرنا ہو گا ’’ نووارد نے لڑکے سے کہا‘‘یہ خاصا مشکل اور دقّت طلب کام ہے اور اِس کے لئے کافی رقم درکار ہو گی۔ کیا تمہارے پاس اتنی رقم ہے؟’’
لڑکے کو یہ سوال عجیب سا لگا، لیکن اُسے بوڑھے بادشاہ کی اس بات پر اعتماد تھا۔
‘‘جب تم اپنی کسی خواہش کو مقصد بنا کر اُس کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہو تو قدرت کی طرف سے کائنات کی قوتیں تمہارا ساتھ دینے ، تمہاری مدد کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔’’
لڑکے نے اپنی جامہ بند پوٹلی نکالی اور اُس میں رکھی رقم نکال کر اجنبی کو دکھادی۔ اِس دوران قہوہ خانہ کا مالک بھی اُن کے قریب آ گیا، اُس نے بھی رقم دیکھ لی۔
نووارد اور قہوہ خانہ کے مالک کے درمیان عربی زبان میں کچھ تلخ کلامی ہونے لگی۔ دونوں ایک دوسرے کو عربی میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ رہے تھے، لڑکے کو ایسا لگا کہ قہوہ خانہ کا مالک کچھ پریشانی اور ناراضی کا اظہار کر رہا ہے۔
‘‘آؤ یہاں سے باہر چلیں ….قہوہ خانہ کا مالک ہمیں یہاں سے سے جانے کو کہہ رہا ہے۔’’ نووارد بولا ، لڑکے کو اطمینان ہو گیا۔
وہ چائے کی قیمت ادا کرنے کے لئے کاؤنٹر پر گیا تو قہوہ خانہ کے مالک نے اُسے بازو سے پکڑ لیا اور بڑے غصہ سے عربی میں کچھ کہنے لگا۔
قہوہ خانے کا مالک بوڑھا تھا اور لڑکا ڈیل ڈول میں اس سے زیادہ مضبوط تھا ۔ وہ چاہتا تو قہوہ خانے کے مالک کو دھکّا دے کر گرا سکتا تھا لیکن بہر حال اس نے ایسا نہیں کیا، وہ ایک اجنبی ملک میں تھا۔
لیکن اِس دوران نووارد ساتھی نے مداخلت کرتے ہوتے ہوئے قہوہ خانہ کے مالک کو دھکّا دے کر لڑکے کو باہر کی طرف کھینچ لیا اور لڑکے سے ہسپانوی میں بولا ‘‘ چلو یہاں سے مجھے لگتا ہے کہ اس قہوہ خانے کے مالک کی نظر تمہارے پیسوں پر ہے، طنجہ کیونکہ ساحلی بندرگاہ اور سیاحوں کا شہر ہے اس لیے افریقہ کے دوسرے علاقہ کی بہنسبت اس علاقے میں ٹھگ اور چور بہت ہیں۔
لڑکے کو اپنے اس نئے دوست پر بھروسہ تھا، ویسے بھی اِس نووارد ساتھی نے اجنبی دیس میں ایک خطرناک صورت حال میں اُس کی حفاظت کی تھی۔ چنانچہ اس نے جامہ بندپوٹلی سے اپنی رقم نکالی اور گننے لگا
‘‘اتنی رقم سے تو ہم لوگ اہرام مصر تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔’’ اُس نووارد نے لڑکے سے رقم اپنے ہاتھوں میں لیتےہوئےکہا۔
‘‘البتہ اِس کے لئے دو اونٹوں کی ضرورت پڑے گی۔’’
***
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے چلتے باتیں کرتے ہوئے طنجہ کی پتلی پتلی سڑکوں پر لگے بازار میں مختلف اشیاء کو دیکھتے ہوئے مرکزی بازار میں پہنچے۔
یہ شاید بہت بڑی منڈی تھی جہاں بہت بھیڑ تھی۔ کہیں دکاندار اپنی دکانوں کے سامان بڑھ چڑھ کر بولیاں لگانے میں مصروف تھے، دوسری جانب گاہک سامان کا تول بھاؤ کر رہے تھے، کہیں سبزیاں فروخت ہورہی تھیں تو کہیں دیواروں پر تلواریں، خنجر اور قالین لٹکے نظر آرہےتھے ، کہیں صراحیاں اور حقہ کی دکانیں تھیں، فروخت کے لئے اور بھی بہت سی اشیاء کی ریڑھی پتھارے لگے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران لڑکا مسلسل اپنے نووارد ساتھی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ آخر پوری رقم بھی تو اُسی کے پاس تھی۔
اُس نے سوچا بھی کہ اپنی رقم واپس مانگ لے لیکن یہ سوچ کر کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے، واپس مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ نا صرف یہ علاقہ اُس کے لئے اجنبی تھابلکہ یہاں کے رسم و رواج اور مزاج سے بھی وہ واقف نہیں تھا۔
‘‘لیکن اُس پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے’’ وہ لڑکا اپنے آپ سے بولا۔ ویسے بھی میں اس سے ڈیل ڈول میں مضبوط ہوں اور اُسے زیر کرنا میرے لئے مشکل نہیں۔ اگر اُس نے نیت بدلی تو میرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔
ابھی وہ اسی الجھن میں تھا کہ اُس لڑکے کی نظر ایک دکان پر لٹکی ہوئی انتہائی خوبصورت تلوار پر پڑی۔ ایسی خوبصورت تلوار اس سے قبل اُس نے نہ دیکھی تھی۔ اُس تلوار کی نیام والا حصہ چاندی کا تھا اور تلوار کادستہ سیاہ رنگ کا تھا۔ دونوں پر بیش قیمت جواہرات کی باریک تہہ جڑی ہوئی تھی۔ لڑکے نے سوچا کہ مصر سے واپسی کے سفر پروہ اُسے ضرور خریدے گا۔
‘‘اس دُکان کے مالک سے ذرا عربی میں پوچھنا تو کہ اس تلوار کی قیمت کیا ہے….؟’’ تلوار پر نظر جمائے ہوئے اُس نے اپنے نووارد ساتھیسےکہا۔
لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو اُسے لگا جیسے اُس کا دِل بیٹھا جارہا ہو، جیسے کسی نے اُس کاسینہ بھینچ دیا ہو ا، اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اُسے احساس ہوا کہ تلوار دیکھنے میں وہ اتنا مگن تھا کہ اس دوران وہ اپنے نئے دوست سے توجہ ہٹا چکا تھا…. لیکن اب وہ فوری طور پر ادھر دیکھنے کی ہمت بھی جٹا نہیں پارہا تھا کہ آیا اُسے جس بات کا اندیشہ ہے وہ کہیں یقین میں نہ بدل جائے۔ وہ جسے دیکھنا چاہتا تھا شاید وہ وہاں موجود نہ ہو ۔
ایک لمحہ کے لئے اُس نے پھر ایک نظر تلوار پر ڈالی اور آخر ہمت کر کے نظر اُٹھا کر نو وارد ساتھی کی جانب دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن چاروں طرف بازار ہی بازار تھا۔ اس نووارد کے علاوہ بازار میں وہی کچھ تھا جو اس نے پہلے دیکھا تھا ، لوگ آ جا رہے تھے، خریدو فروخت کرنے والوں کا شور اور ہنگامہ، اجنبی کھانوں کی خوشبو…. لیکن اُس کا وہ نیا دوست اُسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔
***
پہلے تو لڑکے نے خود کو سمجھانا چاہا کہ اُس کا نیا دوست محض اِتّفاق سے بازار کی بھیڑ میں بچھر گیا ہوگا ، چنانچہ اُسے کچھ دیر رک کر اُس کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر اپنے دوست کا انتظار کرنے لگا۔ اِس دوران قریب ہی بلند بالا مینار پر چڑھے ایک شخص نے خوش کن آواز میں اذان کے ذریعہ لوگوں کو صلوٰۃ کے لیے پکارا۔ لڑکے نے دیکھا کہ بازار میں تمام لوگ ہی اپنا سب کام چھوڑ کر اکھٹا ہوگئے ۔ سب لوگ ایک ساتھ مل کر صلوٰۃ میں مصروف ہوگئے، جیسے یہ عمل اُن کے شعور کا حصہ ہو، سب کو خبر تھی کہ کیا کرنا ہے۔ کچھ دیر بعد سب لوگوں نے اپنی اپنی دکانیں بند کیں اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
سورج بھی اب واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا۔ لڑکا ٹکٹکی باندھے سورج اُس کو اُس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ بازار کے ارد گرد کی بلند بالا سفید عمارتوں کے عقب میں چھپ نہ گیا۔
آج صبح جب وہ اسی سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہا تھا تو وہ ایک دوسرے برِّ اعظم میں تھا۔ وہاں وہ چرواہا تھا ، ساٹھ بھیڑوں کا مالک اور تاجر کی بیٹی سے ملنے کی امید دِل میں بسائے۔ اُسے نہ مستقبل کی فکر تھی اور نہ آنے والے وقت کے اندیشے تھے۔ اسے انہی چراگاہوں سے گزرنا ہوتا تھا جن سے وہ روز گزرتا رہتا تھا۔ کوئی نئی چیز ہونے والی نہ تھی۔
لیکن اب جب وہی سورج غروب ہونے لگا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ ایک دوسرے براعظم میں ہے، اجنبی شہر ، اجنبی ماحول میں وہ خود بھی بالکل اجنبی ہے، اوپر سے زبان بھی اجنبی کہ وہ کسی سے بات کرکے اپنا مدعا بھی بیان نہیں کرسکتا۔ اب وہ نہ تو کوئی چرواہا ہے ، نہ ہی کوئی چیز اس کی ملکیت ہے۔ اُس کے پاس تواب کچھ بھی نہیں تھا۔ بے یار و مددگار اور بے سرو سامان…. اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ واپس اپنی سرزمین اندلوسیا جاکر دوبارہ کوئی کام کر سکے۔
اور یہ سب کچھ محض سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی درمیانی مدّت میں ہو گیا۔ لڑکا غمگین تھا اور خود پر ترس کھارہا تھا ۔ وہ اس حقیقت پر نوحہ کناں تھا کہ اس کی زندگی میں اتنی تیزی سے اور اِس حد تک بڑی تبدیلی اتنے کم وقت میں کیسے آگئی ہے۔
اپنی بے چارگی اور بے کسی پر اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر روئے، لیکن اِس سے قبل وہ کبھی بھی نہ رویا تھا، تب بھی جب بھیڑیں اس کے پاس تھیں۔ لیکن اب وہ خالی بازار میں تنہا اور اکیلا کھڑا تھا اور کوئی اُسے دیکھنے والا نہ تھا۔ اُس کی آنکھیں قابو میں نہ رہ سکیں اور وہ رونے لگا۔ وہ خدا سے شکوہ کرنے لگا۔ کیا اُس خواب پر یقین کر کے اُس سے غلطی ہو ئی تھی، منفی جذبات نے لڑکے کو جیسے جکڑ لیا ۔ وہ سوچنے لگا۔
‘‘جب بھیڑیں میرے پاس تھیں تو مجھے کوئی غم نہ تھا بلکہ میں اپنے اردگرد کے دوسرے لوگوں کو بھی خوش رکھتا تھا۔ لوگ مجھے آتا دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے، میرا خیر مقدم کرتے تھے۔’’ اُس نے سوچا‘‘لیکن آج خوشیاں مجھ سے روٹھ گئی ہیں، غم اور تنہائی نے مجھے آگھیرا ہے۔
اس ایک شخص نے مجھے دھوکا دے کر میری زندگی میں تلخیاں بھردی ہیں، اب میں شاید کسی انسان پر پھر کبھی اعتماد اور اعتبار نہ کر سکوں گا۔ اب مجھے اُن تمام قصوں اور اُن تمام لوگوں سے نفرت ہورہی ہے جن کے بارے میں میں نے کتابوں میں پڑھا تھا ، جو اپنی کوششوں سے خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن میں اب شاید اس خزانے کو پانے کے قابل نہ رہا اور نہ ہی اس دنیا کو فتح کرنے کی اہلیت ہے۔اب میرے پاس جو کچھ بھی بچا ہے، اسی میں مجھے گزاراکرناہوگا۔ ’’
یہ سوچ کر ان لڑکے نے بیگ کھول کر یہ دیکھنا چاہا کہ اُس کے پاس اب بچا کیا ہے۔ شاید جو سینڈوچ اُس نے بحری جہاز میں کھایا تھا، اس کا کچھ حصہ بچا پڑا ہو، لیکن اس بیگ میں سوائے ایک موٹی سی کتاب، جیکٹ اور دو پتھروں کےاورکچھنہ تھا۔
پتھروں پر نظر پڑتے ہی کچھ سوچ کر اُسے اطمینان ہوا، اُس نے سوچا کہ چھ بھیڑیں دے کر اُس نے یہ دو پتھر لیے تھے۔ یہ بہت قیمتی پتھر ہوں گے تبھی تو یہ اس بوڑھے بادشاہ کے سونے کے سینہ بند زرہ میں جواہرات کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اگر ضرورت پڑی تو ان قیمتی پتھروں کو بیچ کر وہ واپسی کا ٹکٹ تو خریدا ہی جاسکتا ہے۔
‘‘لیکن اب مجھے ہوشیار اور چوکنّا رہنا ہو گا۔ ’’ اُس نے دونوں قیمتی پتھر بیگ سے نکال کر احتیاطاً اپنی جیب میں رکھ لئے۔ اُس اجنبی نووارد شخص نے ایک بات جو سچ بتائی تھی وہ یہی تھی کہ یہ ساحلی بندرگاہ، سیاحوں کا شہر ہے اور ایسے علاقے چوروں لٹیروں سے بھی بھرے ہوتے ہیں۔
‘‘اب میری سمجھ میں آیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اِس قدر پریشان اور غصہ میں کیوں تھا۔ وہ شاید مجھے یہی بات بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے اس اجنبی شخص پر ہرگز بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن میں بھی تو دُنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہوں، اوروں کو اپنے جیسا سمجھتا ہوں ، ہر ایک شخص کو میں اپنی طرح سیدھا سادہ سمجھتا ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ دنیا اپنے حساب سے چلتی ہے۔’’
وہ اپنی اُنگلیاں ان پتھروں پر پھیر ریا تھا اور اُن کی حرارت ، خوبصورت خدوخال اور سطح کو محسوس کررہا تھا۔ اب یہی تو اُس کا سرمایہ تھا۔ پتھر کے لمس سے اُسے سکون اور اطمینان کا احساس ہوا۔ یہ پتھر بوڑھے بادشاہ کی یاد دلارہا تھا۔
‘‘جب تم کسی چیز کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہو تو قدرت تمہاری مدد کی تدبیر کرنے لگتی ہے’’۔ بوڑھے نے ایک بار کہا تھا۔
لڑکا بوڑھے بادشاہ کے بیان کی سچائی پر غور کرتا رہا۔ وہ بازار میں بالکل تنہا تھا، نہ تو اب اُس کے پاس بھیڑیں تھیں جن کی نگرانی کرتے وہ رات گزار سکتا اور نہ ہی جیب میں کچھ پیسے تھے۔ لیکن یہ دونوں پتھر اِس بات کا ثبوت ضرور تھے کہ وہ ایک بادشاہ سے ملا تھا۔ ایسا بادشاہ جو اس کے ماضی کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔
‘‘دیکھو ….! یہ سفید پتھر اوُریم و سیاہ پتھر تُمیّم ہے، یہ تمہیں قدرت کی نشانیاں سمجھنے میں مدد کریں گے۔’’ اُسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ الفاظ یاد آئے۔ لڑکے نے دونوں پتھروں کو اپنی پوٹلی میں رکھ کر انہیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔
بوڑھے بادشاہ نے بتایا تھا کہ اگر کسی الجھن میں ہو اور قدرت کا کوئی اشارہ کوئی نشانی سمجھ میں نہ آئے تو ان پتھروں کی مدد حاصل کرنا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان پتھروں سے بالکل واضح سوال کرنا ہیں۔
چنانچہ ابھی اس کے سامنے سب سے پہلا سوال تو یہی تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ اُس نے یہ جاننا چاہا کہ بوڑھے بادشاہ کی دی ہوئی دعا کا اثر اب بھی اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔
اُس نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک پتھر باہر نکالا۔ یہ سفید پتھر ‘‘اُوریم ’’تھا یعنی جواب ‘‘ہاں ’’ میں تھا۔
‘‘کیا مجھے خزانہ مل پائے گا۔’’ اُس نے پتھر تھیلے میں ڈالتے ہی فوراً دوسرا سوال پوچھا۔
اب لڑکے نے پتھر نکالنے کے لئے ہاتھ تھیلے میں ڈالا اور پتھر کو نکالنا چاہا تو اسے احساس ہوا کہ تھیلے میں دونوں پتھر نہیں ہیں، بلکہ پتھر تھیلے کے ایک چھوٹے سوراخ سے باہر نکل کر نیچے گِر پڑے ہیں۔ لڑکے کو اِس سے قبل اس بات کا علم بالکل نہ تھا کہ اس کے تھیلے میں کوئی سوراخ بھی ہے۔
لیکن جب اُسے وہ دونوں پتھر زمین پر پڑے نظر آئے، وہ جھکا اور دونوں پتھروں کو اُٹھا کر پھر تھیلے میں رکھنا چاہا تو اُس کے ذہن میں شالیم کے بوڑھے بادشاہ کا ایک اور فقرہ یاد آ گیا۔
اُس نے کہا تھا:‘‘ بس غیبی اشاروں کو پہچاننا سیکھو اور پھر اُن کے مطابق کام کرو۔ خدا نے راستوں کی پہچان کے لیے کائنات میں نشانیاں بکھیری ہوئی ہیں ، بس تمہیں ان نشانیوں کو دیکھ اور سمجھ کر اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنا ہے۔’’
‘‘شاید پتھروں کا نیچے گرنا بھی ایک غیبی اشارہ ہی ہے۔’’ لڑکا یہ سوچ کر خود ہی مسکرا اُٹھا۔ اُس نے دونوں پتھروں کو اُٹھا کر تھیلے میں ڈال لیا۔ تھیلے کے سوراخ کو رفو کرکے بند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ پتھروں کو جب گِرنا ہوگا تو خود ہی گِر جائیں گے۔
اب اُس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ورنہ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے بھاگنے لگتا ہے اور اپنے مقصد سے بھٹک جاتا ہے۔
اُسے یاد آیا کہ میں نے شالیم کے بوڑھے بادشاہ سے یہ بھی تو وعدہ کیا تھا کہ ‘‘میں اپنے فیصلے اپنی عقل سے خود ہی کیا کروں گا۔’’
البتہ پتھروں کے اس تجربے سے اُسے یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی دی ہوئی دعا ابھی تک اس کے ساتھ ہے ۔
اِس احساس نے اُسے اور بھی پُراعتماد کر دیا۔
اُس نے مسکراتے ہوئے خالی پڑے ویران بازار کے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ اب وہ خود کو اکیلا اور رقم سے محسوس نہیں کررہا تھا ۔ انجان جگہ کی اجنبیت کا وہ احساس جو تھوڑی دیر پہلے اُسے گرفت میں لئے ہوئے تھا، اب اس کے دل میں بالکل نہیں تھا ۔
‘‘یہ جگہ نئی ضرور ہے، لیکن میری بچپن سے تمنّا بھی تو آخر یہی تھی کہ نئی نئی جگہ گھوموں، دنیا کے نئے نئے علاقے دیکھوں….
اگر میں کبھی اہرامِ مصر نہ بھی جا سکا تو کیا ہوا، میں نے ابھی تک جتنا بھی سفر کیا ہے ، دنیا کے کسی چرواہے نے آج تک نہیں کیا ہو گا….
کاش میرے چرواہے دوستوں کو اس بات کا ذرا بھی احساس ہوتا کہ اندلس کے میدانوں سے محض دو گھنٹہ کی بحری مسافت پر کیسی مختلف اور نئی دنیا آباد ہے….’’ حالانکہ اِس وقت یہ نئی دنیا محض ایک خالی ویران بازار ہے، لیکن چند لمحے پیشتر میں اسے گہما گہمی اور رونق سے بھر پور دیکھچکا ہوں۔
بازار کی رونق کے گزشتہ لمحوں کو یاد کرتے ہوئے اُسے وہ خوبصورت تلوار بھی یاد آ گئی جس کی بدولت وہ لُٹ گیا تھا۔ اس واقعہ کو وہ زندگی بھر نہیں بھول پائے گا…. اس نووارد اجنبی کا خیال آتے ہی اس کو تھوڑی تکلیف تو ہوئی اور اس کا دِل تھوڑا افسردہ بھی ہوا، لیکن پھر اُس نے سوچاکہ یہ بھی تو سچ ہے کہ اُس نے آج تک ایسی تلوار کبھی نہیں دیکھی تھی۔
پھر اس نے خود کو گزرے لمحات کے بھنور سے جھنجھوڑ کر باہر نکالا، میں نے شالیم کے بوڑھے بادشاہ سے عہد کیا تھا اور یہ مصمم ارادہ کیا تھا کہ میں اپنی عقل سے اپنے فیصلے خود کروں گا….
اب مجھے ان دو باتوں کے درمیان فیصلہ کرلینا چاہیے کہ میں خود سے کیا چاہتا ہوں،
میں اپنی آئندہ زندگی کس طرح گزاروں ؟…. کیا میں آنے والا وقت محض یہی سوچ کر افسردگی میں گزارتا رہوں کہ میں ایک چور سے لُٹا ہوا بدحال انسان ہوں یا پھر میں خود کو خزانہ کی تلاش میں نکلا ایک مہم جو مانتا رہوں۔
پھر اُس نے خوداعتمادی سے کہا۔
‘‘میں کوئی چورگزیدہ مفلوک الحال شخص نہیں بلکہ میں ایک مہم جو ہوں، خزانہ کی تلاش میں نکلا ہوا مہم جو….’’
(جاری ہے)
***
تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی
(جاری ہے)