کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….
دسویں قسط
گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت اور دنیا کو جاننے کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں رات گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال تک ان بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان سے مانوس ہوچکا ہے۔ اب اس کی دلچسپی کا محور تاجر کی بیٹی تھی، اس کا ارادہ تھا کہ دوبارہ اس لڑکی سے ملے اور اسے اپنے بارے میں بتائے ۔ لیکن پہلے وہ شہر طریفا میں خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو بتاتی ہے کہ جس خزانہ کی خواب میں نشاندہی ہےوہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے شخص سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوتا ہے۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔
خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا شخص بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا اُسے دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ دونوں پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی طنجہ شہر کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔
اسی شہر میں ایک شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کیے شیشے اور ظروف کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے اسے بتایا کہ اسے مصر کے اہرام جانا ہے جس کے لیے وہ اس کی دکان پر صفائی کا سارا کام کرنے کو تیار ہے۔ لڑکے کی بات سن کر سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے ہوئے ایک مہینہ بیت جاتا ہے تو لڑکا اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آتی ہے۔ ، کام خاصا بڑھ جاتا ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ شیشے کا سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے۔ تھوڑی پش و پیش کے بعد سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوئے تو اس نے شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کا اظہار کیا۔
بوڑھے سوداگر نے دعا کے ساتھ رخصت کیا، لڑکے نے اپنا سامان باندھا، اسے اپنا پرانا بیگ نظر آیا جس میں سے سیاہ و سفید پتھر نکلے۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ اس شخص کے گودام جاتا ہے۔ گودام کی ٹوٹی پھوٹی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا تحقیقی جرنل کی ورق گردانی کررہا تھا۔ اس نے پوری زندگی کو ایک ایسی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دیا جو صحیح معنی میں کائنات کی زبان ہو۔ اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ اس سے ملنے کو بے قرار ہوگیا اور یونیورسٹی کی نوکری چھوڑ کر انگلستان سے رختِ سفر باندھا اور الفیوم پہنچے کے لیے وہ یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکل کہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن شاید انگریزی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آئی کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔
قافلہ کا سردار باریش بوڑھا عرب اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ لڑکا سوچتا رہا ‘‘جب میں نے بھیڑوں سے ، بوڑھے بادشاہ سے اور شیشوں کی دُکان سے بہت سی باتیں سیکھی ہیں تو اسی طرح میں اِس صحرا سے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہوں ’’۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں۔ لڑکے نے سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا اور اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔ …. اب آگے پڑھیں ………….
….(گزشتہ سے پوستہ)
جب لڑکے کو کتابوں سے کچھ پلّے نہ پڑا تو آخر کار جھنجھلا کر ایک رات لڑکے نے انگلستانی باشندے سے پوچھ ہی لیا کہ:
‘‘آخر ان کیمیا گروں کو علم الکیمیا کی ان کتابوں کو اِتنا گنجلک، دقیق اور پیچیدہ بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ ’’
لڑکے نے محسوس کیا تھا کہ اس کی بات سن کر انگلستانی باشندے پر چڑچڑاہٹ طاری ہونے لگی ہے اور اُسے اپنے علم اور کتابوں کی کمی اور بے قدری کا احساس ہونے لگا ہے۔
‘‘اسے پیچیدہ اس لیے بنایا جاتا ہے تاکہ جو لوگ سمجھنے کی ذمہ داری رکھتے ہیں صرف وہی لوگ اُس علم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔’’
پھر وہ خود ہی بولا، ‘‘اب ذرا تم ہی سوچو کہ اگر ہر شخص سیسہ کی دھات کو سونے میں بدلنے پر قادر ہوجائے تو سونے کی قدر تو ختم ہی ہو جائے گی۔’’
‘‘سنو!…. علم کیمیا کے شاہکار یعنی پارس پتھر اور الاکسیر تک پہنچنا اتنا آسان نہیں، اس کے لئے بے پایاں استحکام، ثابت قدمی ، لگن، مسلسل محنت و جدوجہد اور چیزوں کی گہرائی میں پہنچنے کی سکت لازمی ہے۔
اب تم مجھ ہی کو دیکھو، میں انگلستان میں اپنے عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر کس طرح اِس تپتے صحرا کی خاک چھان رہا ہوں، محض اُس کیمیاگر سے ملنے کی خاطر جو علم الکیمیا کی خفیہ اشاروں اور علامات کی زبان کے رموز کو حل کرنے میں میری رہنمائی کر سکتا ہے۔’’
انگلستانی باشندے کی بات سن کر لڑکے نے پوچھا ‘‘یہ کتابیں کس زمانے کی ہیں ’’۔
‘‘صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں’’ انگلستانی باشندے نے جواب دیا۔
‘‘اچھا !’’ پھر لڑکے نے سوچتے ہوئے کہا
‘‘لیکن اُس زمانہ میں تو چھاپہ خانہ ہوتے ہی نہیں تھے۔ اس لیے اس بات کا خدشہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ کسی عام شخص تک علم الکیمیا کی کتابوں کی ہی رسائی ہو، اور جب کتابیں عام آدمی کی پہنچ میں ہی نہیں تھیں تو پھر عجیب و غریب زبان، الٹی سیدھی لکیروں کی کیا ضرورت تھی….؟’’
انگلستانی باشندے کے پاس لڑکے کی اس دلیل کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے اس سوال کا جواب تو نہ دیا ، البتہ بات پلٹتے ہوئے کہنے لگا کہ‘‘گزشتہ کئی روز سے میں تمہارے کہنے پر قافلے پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوں لیکن مجھے کوئی نئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ بس! زیادہ تر تو قبائل کی آپسی جنگ کی خبروں پر گفتگو ہی ہورہی ہے۔’’
vvv
آخر ایک لڑکا انگلستانی باشندے سے لی ہوئی سب کتابیں واپس کرنے پہنچ گیا۔
‘‘کچھ سمجھ میں بھی آیا؟’’ انگلستانی باشندے نے دلچسپی سے فوراً دریافت کیا۔ وہ جاننے کے لیے بے تاب تھا کہ لڑکا کچھ سمجھ پایا کہ نہیں۔ ویسے بھی قافلے میں جنگ کے موضوع پر زیادہ گفتگو ہوتی تھی اور وہ کسی سے بات کر کے جنگ کے موضوع سے اپنی توجہ بھی ہٹانا چاہتا تھا۔
لڑکے نے کتابیں رکھتے ہوئے کہا:
‘‘ہاں ! میں نے ان کتابوں سے کچھ باتیں سیکھی ہیں۔ ایک یہ کہ اِس کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائنات کی زبان جان لیتا ہے۔ جتنے بھی کیمیا گر گزرے تھے، انہوں نے اپنے مقدّر کو جان لیا تھا، وہ اس کے حصول کے لئے کوشاں رہے اور اِس کائناتی روح تک پہنچ کر وہ الاکسیر اور پارس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔’’
‘‘لیکن سب سے بڑھ کر جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ علم الکیمیا کی سب باتیں واقعی اتنی سادہ ہیں کہ زمرّد کی لوح پر تحریر کی جا سکتی ہیں۔’’
انگلستانی باشندے کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی۔ کیمیا گروں کے ذہن متحیّر کر دینے والے کارنامے، سالہا سال کی تحقیق و جستجو، محیر العقول طلسماتی علامتیں اور پُراسرار الفاظ اور لیباٹریوں کے عجیب و غریب آلات، ان کتابوں میں کیا کچھ نہیں بھرا ہوا لیکن اُن میں سے کچھ بھی تو اُس لڑکے کو متاثر نہ کر سکا تھا۔
‘‘لگتا ہے کہ اس لڑکے کے شعور میں وہ بالیدگی ہے ہی نہیں کہ یہ علم الکیمیا کی تحقیق و جستجو کو سمجھ سکے ۔ انگلستانی باشندے نے یہ سوچتے ہوئے کتابیں واپس اپنے صندوق میں حفاظت سے رکھ دیں اور ذرا تلخ لہجے میں لڑکے سے بولا
‘‘جاؤ ….! تم اس قافلے کے نظاروں ہی میں اپنا سر کھپاؤ۔ مجھے تو اس سے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔’’
لڑکے کی توجہ ایک بار پھر صحرا کے سکوت اور جانوروں کے قدموں سے اُڑنے والی ریت نے مبذول کر لی۔ وہ خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
‘‘ہر انسان کے سیکھنے کے اپنا الگ الگ طریقہ ہوتا ہے ۔ جس طریقہ سے وہ کسی چیز کو سمجھ لیتا ہے ضروری نہیں کہ میں بھی اُسی طرح سمجھ سکوں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ میرے طریقہ سے کسی چیز کو سمجھ پائے۔ اس کا طریقہ میرے جیسا نہیں اور میرا طریقہ اس کے جیسا نہیں، البتہ یہ بات اور ہے کہ ہم دونوں ہی اپنے اپنے مقدر کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور اسی بنا پر میں اس کے کا احترام کرتا ہوں۔
vvv
اب تک تو صرف دن کے اوقات ہی میں سفر ہورہا تھا لیکن اب سفر تیز کرنے کے لیے قافلے نے رات میں بھی چلنا شروع کر دیا۔ عمامہ باندھے پراسرار سیاہ پوش بدّو اب بار بار ظاہر ہونے لگے اور ساربان جو لڑکے سے خاصا گھل مل گیا تھا، نے لڑکے کو بتایا کہ قبیلوں میں جنگ پہلے ہی سے چھڑ چکی ہے۔ اگر قافلہ کسی طرح نخلستان پہنچ جائے تو یہ بہت خوش قسمتی کی بات ہو گی۔
دن رات سفر کرنے سے جانور تھکن سے چُور ہوئے جارہے تھے اور لوگ بھی تھکن کے مارے آپس میں کم ہی بات کرتے تھے۔ رات کے اوقات میں یہ خاموشی اور بھی بھیانک ہوتی جا رہی تھی۔ رات میں اونٹ کے بلبلانے کی آواز پہلے تو محض اونٹ کی کراہنے کی آواز سمجھی جاتی تھی لیکن اب اس ماحول میں وہ آواز کسی ممکنہ حملہ کے خطرہ کا گھنٹی سمجھی جا رہی تھی۔
لیکن ساربان کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اسے جنگ کے خطرہ کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔
اس اندھیری رات میں نہ آسمان پر چاند تھا اور نہ ہی زمین پر آگ کی روشنی۔ لڑکے کے پوچھنے پر ساربان نے کہا، ‘‘میرے لیے یہی اہم ہے کہ میں اس وقت زندہ ہوں۔’’
ساربان خوشہ سے کھجور توڑ کر منہ میں رکھتے ہوئے دوبارہ بولا۔
‘‘جب میں کچھ کھا رہا ہوتا ہوں تو اس وقت میں بس اُسی کے متعلق سوچتا ہوں۔ جب سفر کر رہا ہوں تو بس اس وقت اُسی سفر پر توجہ مرکوز کرتا ہوں اور اگر مجھے کسی دن جنگ میں لڑنے کے لیے کودنا پڑے تو بھی میرے لیے وہ دن کسی عام دن جیسا ہی ہوگا۔ کیونکہ موت کسی بھی دن آسکتی ہے۔ اِس لئے سب دن برابر ہیں۔’’
‘‘کیونکہ مجھے اپنے ماضی یا مستقبل سے کوئی سروکار نہیں، میں نہ تو ماضی کی یادوں میں رہتا ہوں اور نہ ہی مستقبل کے اندیشوں میں، میرے لئے تو بس حال زیادہ اہم ہے۔ اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ شاداں اور خوشحال گزرے گی ۔ ’’
‘‘حال میں جیو گے تو پھر یہ روزمرّہ ہونے والے واقعات و حادثات تمہیں معمولی لگیں گے اور تمہیں اس صحرا میں بھی زندگی کی چہل پہل نظر آئے گی۔ اِس ریگستان میں آسمان میں تاروں کے وجود میں ، اِسی طرح قبیلوں میں جنگوں کا سلسلہ اس لئے ہے کہ وہ انسانی جبلت کا ایک حصہ ہے۔ اِس طرح اگر سوچو گے تو زندگی ایک میلہ ، ایک مسرتوں بھری تقریب یا عظیم تہوار کی طرح محسوس ہو گی ، کیونکہ زندگی تو بس اُس لمحہ کا نام ہے جو ابھی اور اس وقت ہم گزار رہے ہیں۔’’
دو راتیں جاگنے کے بعد جب لڑکا آرام کے لئے لیٹنے کی غرض سے بستر تیار کر رہا تھا۔ اُس کی نظر یں اُس ستارے کو تلاش کرنے لگیں جس کی رہنمائی میں وہ ہر رات سفر کرتے تھے۔ اُسے محسوس ہوا کہ اُفق کی سطح جیسے کچھ زیادہ نیچے ہوگئی ہے، اور ستارے جیسے ریگستان کی سطح پر ہی نکل پڑے تھے۔
یہ دیکھتے ہوئے ساربان بولا۔ ‘‘اس کا مطلب ہے کہ ہم نخلستان پہنچ چکے ہیں۔’’
‘‘کیوں نہ ہم ابھی وہیں چلیں ؟’’ لڑکے نے خوشی میں اُٹھ کر پوچھا۔ لیکن ساربان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
‘‘ابھی نہیں …. کیونکہ اس وقت آرام کرنا زیادہ ضروری ہے…. ’’
vvv
سورج طوع ہوتے ہی لڑکے کی آنکھ کھل گئی۔ گزشتہ رات جس مقام پر اُسے چھوٹے چھوٹے تارے نظر آئے تھے، وہاں اب کھجور کے درختوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آرہا تھا جو صحرا کے افق پر دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔
‘‘ہم بالآخرپہنچ گئے ….’’ انگلستانی باشندہ جو صبح سویرے اُٹھنے کا عادی تھا، کھجور کے جھنڈ دیکھتے ہوئے پُکار اُٹھا، اس کے لہجے میں جوش نمایاں تھا۔
لیکن لڑکا خاموش ہی رہا۔وہ صحرا کے سکوت سے ہم آہنگ اور اس کا عادی ہو چکا تھا۔ اُس نے بس درختوں کو دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اُسے تو ابھی اہرام ِ مصر تک پہنچنے کے لیے اور بھی دور جانا تھا۔ لیکن آج کی یہ صبح اُس کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جانے والی تھی۔ اُس نے ساربان کی بات یاد کرتے ہوئے سوچا کہ
‘‘یہی لمحہ تو اُس کا حال ہے اُسے ضائع نہ کرنا چاہیے بلکہ جس طرح ماضی کے سبق اور مستقبل کے خوابوں سے میں نے اب تک کی زندگی کو پُر عزم بنائے رکھا ہے اُسی طرح مجھے حال کی زندگی کو ایک میلہ ایک تہوار کی طرح جینا چاہیے اور اس سے مسرّتیں حاصل کرنی چاہئیں۔’’
بعد میں درختوں کے اس خوبصورت منظر کی حیثیت ایک خوبصورت یاد سے زیادہ نہ رہے گی۔ لیکن ابھی اِس وقت یہ درخت علامت ہیں پانی کی ، سایہ اور جنگ کے خطرات سے حفاظت کی۔
کل اونٹ کی اسی بلبلاہٹ میں خطرہ کا اعلان تھا لیکن آج نہیں ہے۔ آج کھجور کے درختوں کی یہ قطار ایک معجزے کا اظہار کر رہی ہے۔ دنیا بھی کتنی عجیب ہے۔ ایک ہی چیز بیک وقت مختلف زبانیں بولتی ہے۔ لڑکا سوچتا رہا۔
vvv
‘‘وقت جس تیزی سے آتا اور جاتا رہتا ہے، اُسی طرح قافلے بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔’’
کیمیاگر اُس آنے والے قافلے کو دیکھ کر سوچنے لگا۔ سینکڑوں لوگ اور جانور اِس قافلے میں آئے تھے اور نخلستان آ کر رُکے تھے۔ نئے آنے والوں کو دیکھ کر مقامی باشندے خاصے جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔ اُڑتی ہوئی دھول نے سورج کو دھندلا کر دیا تھا۔ مقامی بچے اجنبی اور نئے چہروں کو درمیان میں دیکھ کر کھل اُٹھے تھے۔ کیمیا گر نے دیکھا کہ قبیلہ کے سردار نے قافلے کے سردار کو خوش آمدید کہا اور دیر تک اُس سے گفتگو کرتا رہا۔
لیکن کیمیاگر کو اِن سب باتوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ اُس نے اپنی زندگی میں ان گنت لوگوں کو آتے جاتے دیکھا تھا لیکن صحرا ہمیشہ سے ایک سا ہی رہا ہے ۔ بادشاہ ہوں یا فقیر اس صحرا کی ریت پر اس نے دونوں ہی کو چلتے دیکھا ہے۔ ریت کی بنتی بگڑتے بلند و وسیع ٹیلوں کو ہوائیں یہاں سے وہاں اُڑائے لئے پھرتی تھیں لیکن ریت وہی رہی جیسی وہ بچپن سے دیکھتا آیا تھا۔ کیمیا گر صرف اُن چہروں کی خوشی دیکھنے آتا ہے، جب قافلے کبھی نیلے اور کبھی زرد آسمان تلے ہفتوں مہینوں کا تھکا دینے والا سفر کر کے پہلی بار سبز نخلستان میں وارد ہوتے ہیں تو اُن کی چہروں پر جو خوشی ہوتی ہے۔ یہ کیمیاگر اُن کے سفر کے تجربوں کے بعد ملنے والی اس خوشی اور طمانیت کو اپنے اندر محسوس کرتا اور سوچتا ہے کہ شاید خدا نے صحرا کو اِسی لئے پیدا کیا ہے کہ انسان پر اُن کھجور کے درختوں کی اہمیت اور قدر آشکارا ہو اور وہ اس کے شکر گزار بنیں ۔
یہ سوچتے سوچتے اُس نے ذہن کو قافلے کے لوگوں کے تاثرات سے ہٹایا اور اپنی توجہ ان عملی امور کی طرف کردی جن کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔
یوں تو کائنات کی علامتوں اور نشانیوں کو دیکھ کر اس پر یہ انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے کے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا مگر اُسے اندازہ تھا کہ اُس کی تجربہ کار نگاہیں جیسے ہی اُسے دیکھیں گی، پہچان لیں گی۔
اُس نے سوچا کہ کاش یہ نو وارد اجنبی بھی اُتنا ہی قابل اور اہل ہو جتنا کہ اِس سے پہلے والے شاگرد رہ چکے تھے۔
کیمیاگر سوچنے لگا۔ ‘‘نہ جانے کیوں ؟…. ہمیں ان علوم کو منہ زبانی سینہ بہ سینہ منتقل کرنا پڑتا ہے۔ کتابوں کے ذریعے اس علم کی منتقلی کیوں نہیں ہوسکتی۔ ’’ پھر وہ خود سے بولا
‘‘شاید اسی لیے کہ الفاظ سے ان رازوں کو اس طرح بیان نہیں کیاجاسکتا جیسے کہ وہ حقیقتاً ہیں …. اور خدا بھی تو اپنے رازوں کو اپنی مخلوق پر نشانیوں کے ذریعے بآسانی القا ء کرتا رہتا ہے۔’’
کیمیاگر کے ذہن میں اس بات کی توجیح بس اتنی ہی آسکی کہ اِس خصوصی نظامِ منتقلی کی اصل وجہ شاید یہی ہے کہ یہ علم خالص زندگی سے مشتق ہیں اور اس علم کو تصویروں اور لفظوں میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ ان دنیاوی الفاظ اور تصویروں نے ہی تو انسانی ذہن کو ایسا سحر زدہ کر دیاہے کہ وہ لاشعور کی اپنی اصل زبان یعنی کائناتی زبان کو بالکل بھول ہی گیا ہے۔
vvv
لڑکا جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ دیکھ کر اُسے خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے ۔ اُس نے جغرافیہ کی کتاب میں کبھی دیکھا تھا کہ نخلستان تو بس ایک آدھ کنویں کے نزدیک کھجور کے چند درخت اور تھوڑی بہت آبادی کا نام تھا ….
لیکن یہ نخلستان تو اندلوسیا کے بہت سے قصبوں سے بھی کہیں بڑا تھا۔ کوئی تین سو کنویں تھے، پچاس ہزار سے بھی زیادہ کھجور کے درخت اور اُن کے درمیان رنگ برنگ کے لاتعداد خیمے پھیلے ہوئے تھے۔
‘‘یہ تو الف لیلہ کی کسی داستان کا سا منظر پیش کررہا ہے۔’’
انگلستانی باشندہ جو کیمیاگر سے ملنے کے لئے بے تاب ہوا جا رہا تھا، نخلستان کے منظر سے متاثر ہوتے ہوئے بولا۔
(جاری ہے)
***
تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی