کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….
سولھویں قسط ….
گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کے ایک نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ دو سال سے بھیڑیں ہی اس کی دنیا تھیں لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں خانہ بدوش عورت سے ملتا ہے، جو خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ مدد کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں غائب ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشے کا سوداگر تھا، اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے کے کام کرنے پر سوداگر اسے کھانا کھلاتاہے۔ لڑکا اُسے بتاتا ہے کہ اسے مصر جاننے کے لیے کام چاہیے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ مگر لڑکا دکان میں کام کرنے لگتا ہے۔ لڑکے کو اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر کے پوچھنے پر لڑکا بتاتا ہے کہ اہرام دیکھنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا خواب مکّہ معظّمہ کا سفرکرنا تھا، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ وطن واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔ لڑکے کو سامان سے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ، اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اندلوسیا واپسی تو کبھی بھی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ نہ ملے گا۔ سوداگر کے پاس ایک شخص قافلہ کے ذریعہ سامان صحرا پار لے جانے آیاکرتا تھا، وہ اس کے گودام جاتا ہے، جہاں انگلستان کا ایک باشندہ ملتا ہے۔ جس نے زندگی کائناتی زبان کی جستجو میں وقف کر دی اور اب کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا۔ عرب کے ریگستان میں مقیم ایک کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسے ملنے یہاں چلا آیا۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دوستی ہوگئی۔ گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو صرف کیمیاگر کی تلاش تھی۔ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قافلہ کا سردار اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلے نے مشرق کی سمت سفر شروع کردیا، سورج کی تمازت پر سفر رک جاتا اور سہہ پہر میں دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں گزارتا۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر خاموشی سے ہونے لگا۔ انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں، لیکن کتابیں دقیق تھیں، لڑکے کے کچھ پلے نہ پڑا، اُس نےسب کتابیں یہ کہہ کر واپس کردیں، کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا، خوف کے اس دور میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ الفیوم نخلستان پہنچ گیا۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر ہورہے تھے۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ انگلستانی باشندہ لڑکے کے ساتھ مل کر کیمیاگر کی تلاش کرتا ہے لیکن وہ نہ ملا۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھتاہے، وہاں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے، جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے لڑکے نے عشق کے جذبات کو محسوس کیا اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی نے بتایا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں چل پڑا۔ لڑکا اس لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر دوبارہ پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزرا ، صحرا میں جنگ جاری رہی۔ لڑکی اُسے سفر آگے جاری کرنے کا کہتی ہے، لڑکی سے بچھڑنے کا سوچ کر لڑکا اداس ہوگیا۔ لڑکا انگلستانی باشندے کے پاس پہنچا، جو اپنے بھٹی بنا کر تجربات کررہا ہوتا ہے۔ انگلستانی باشندہ بتاتا ہے کہ کیمیاگر نے اسے گندھک الگ کرنے کا کام دیا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ لڑکا اُس کے عمل کو دیکھتا رہا اور پھر صحرا میں نکل گیا۔ کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا اور پھر ایک پتھر پر مراقب بیٹھ گیا۔ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا نظر آیا۔ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو جھماکے سے ایک عکس نظر آیا کہ ایک فوج نخلستان میں داخل ہورہی ہے۔ اُسے لگا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ وہ نخلستان کی جانب دوڑگیا اور ساربان کو بتایا، ساربان نے یقین کرلیا کیوں کہ وہ ایسے مستقبل شناس لوگوں سے مل چکا تھا، وہ ایک بزرگ سے ملا تھا جس نے اسے سمجھایا تھا کہ مستقبل کو کھوجنے سے بہتر ہےکہ حال پر غور کرو، حال ہی میں اصل راز پوشیدہ ہے۔ مستقبل صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے، البتہ قدرت کبھی کبھی مستقبل کو کسی پر منکشف بھی کردیتی ہے، ساربان سردار ِقبیلہ کو اطلاع دینےکا کہتا ہے۔ لڑکا ججھکتا ہے لیکن ساربان کے سمجھانے پر سردارِ قبیلہ کے خیمہ جا پہنچتا ہے۔ پہرے دار کے کہنے پر سنہرے لباس پہنے ایک نوجوان باہر آتا ہے، لڑکا اسے سب کچھ بتادیتا ہے۔ خیمے میں گہماگہمی پیدا ہوئی، تاجر اور ہتھیاروں سے لیس جنگجو لوگ باہر نکلے، الاؤ بجھا دیا گیا اور نخلستان سنّاٹے کی زد میں آ گیا، لڑکا خیمے کے اندر گیا اور وہاں سجاوٹ دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ لڑکااپنا مکاشفہ بتاتا ہے، سردارانِ قبیلہ لڑکے کی بات سن کر آپس میں بحث کرنے لگے۔ بڑا سردار یوسف اور خواب کی تعبیر کا قصہ سنا کر کہتا ہے کہ ہمیں صحرا کے پیغامات پر یقین کرنا چاہیے، پنچائت کی نشست ختم ہو تی ہے، سردار لڑکے کو کہتا ہے کہ کل دشمن کے مارے جانے پر تمہیں انعام ملے گا۔ لیکن کل دشمن نہ آیا تو ہتھیار کا استعمال تم پر ہوگا۔ لڑکے اپنے خیمہ لوٹتاہے ، اچانک ریت کے طوفان کے ساتھ ہاتھ ایک گھڑسوار آتاہے اور لڑکے پر تلوار سوت کر پوچھتا ہے کہ کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنے کی اس نے ہمت کیسے کی، لڑکا بتاتا ہے کہ اس طرح ہزاروں جانیں محفوظ ہوجائیں گی۔ اجنبی شہسوار کہتا ہے کہ وہ اس کی ہمت کا امتحان لینے آیا تھا، اپنے مقدر کی تلاش میں تم اتنا دور آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا، اس کے بعد کل ملنے کا کہہ کر اجنبی گھڑسوار چلا جاتا ہے، لڑکے کو خوشی ہوتی ہے کہ آج وہ کیمیاگر سے ملا ہے۔ …. اب آگے پڑھیں ….
…………
….(گزشتہ سے پوستہ)
دوسرے دن صبح سویرے ہی تقریباً دو ہزار اسلحہ بردار جنگجو الفیوم کے نخلستان میں درختوں کے درمیان اِدھر اُدھر پھیل چکے تھے۔
دوپہر سے پہلے جب سورج اپنے عروج پر پہنچنے ہی والا تھا ، شمال کی جانب صحرا کے افق سے تقریباً پانچ سو کے قریب گھڑ سوار قبائلی نمودار ہوئے اور نخلستان میں داخل ہوگئے۔ بظاہر وہ لوگ پُرامن مسافر کی طرح گھوڑوں پر سوار نظر آرہے تھے لیکن سب نے اپنے لبادوں میں ہتھیار چھپا رکھے تھے۔ جب یہ لوگ نخلستان کے مرکزی علاقے میں بڑے سفید خیمہ کے قریب پہنچے تو اچانک تلوار اور بندوقیں نکال کر خیموں پر حملہ آور ہو گئے لیکن خیمے خالی تھے۔
نخلستان کے مقامی جنگجو جو درختوں میں چھپ کر گھات لگائے ان کے منتظر تھے، اب نکل آئے اور اُن حملہ آوروں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور پھر محض آدھے گھنٹے کی گھمسان لڑائی میں سوائے ایک کو چھوڑ کر سارے حملہ آور مار ڈالے گئے۔
نخلستان کے سب بچے پہلے ہی کھجور کے باغوں کی طرف پہنچا دئے گئے تھے، اُنہیں پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا۔ رہی ساری عورتیں تو وہ اکھٹا الگ خیموں کے اندر میں چھپی رہیں اور اپنے آدمیوں کی خیریت کے لیے دعا کرتی رہیں۔ اُنہیں بھی باہر جو کچھ ہوا اُس کا پتہ نہ چل سکا۔ اگر زمین پر اُن حملہ آوروں کی لاشیں بکھری نہ ہوتیں تو لوگ اُسے بھی نخلستان کا ایک عام دن ہی سمجھتے۔
جس آدمی کو قتل نہیں کیا گیا تھا وہ اِس حملہ آور فوجی پلٹن کا کماندار تھا۔ اُسی روز دوپہر کو جب اُسے سرداروں کے سامنے پیش کیا گیا تو سب سے پہلے اُنہوں نے یہی پوچھا کہ
‘‘آخر اُس نے صحرا کی صدیوں پرانی روایت توڑنے کی جرات کیوں کی۔ ’’
اُس نے جواب میں کہا تھا کہ ‘‘اُس کی بٹالین کے ساتھی طویل عرصہ سے جاری جنگ سے تھک گئے تھے۔ بھوک اور پیاس سے مر رہے تھے۔ ’’
انہوں نے سوچا کہ نخلستان پر قبضہ کر کے اُن کی یہ ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اِس طرح تازہ دم ہو کر وہ پھر جنگ میں کود پڑیں گے۔
اِس کی بات سُن کر نخلستان کے سردار نے اُن لوگوں کی حالت پر دکھ کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ‘‘ہمدردی کے باوجود صحرائی روایت کے تقدّس کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔’’
حملہ آور بٹالین کے کماندار کو بغیر کسی احترام و تعظیم کے موت کا حکم سنا دیا گیا اور گولی یا تلوار کے بجائے اُسے پھانسی کا حکم ہوا۔
درخت سے لٹکی ہوئی اُس کی لاش ریگستانی تیز ہواؤں کے دوش پر جھولتی رہی۔
قبیلے کے سردار نے لڑکے کو بُلایا اور اُسے پانچ سو دشمن مارے جانے کے عوض پچاس سونے کے سکے پیش کیے اور کہا
‘‘ایسا لگتا ہے کہ آج یوسف کی داستان پھر سے دہرائی گئی ہے، تمہارے مکاشفہ نے ہمیں بڑی تباہی سے بچایا ہے، اس لیے جو عزت افزائی اور سلوک یوسف کے ساتھ ہوا اسی طرح ہم بھی تمہیں ‘‘الفیوم’’ کے اس نخلستان کے مشیر کا عہدہ قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ’’
***
جب سورج غروب ہو ا اور پہلا تارہ آسمان پر نمودار ہوا تو لڑکا اپنے اونٹ پر سوار جنوب کی سمت چل پڑا۔ آخر کار وہ ایک ایسی جگہ جاپہنچا ،جہاں صحرا کے بیچوں بیچ بس ایک ہی خیمہ ایستادہ نظر آرہا تھا۔
اس راستہ پر چلتے وقت قریب گزرنے والے مقامی عربوں نے اسے خبردار بھی کیا تھا کہ وہ جگہ سحر زدہ ہے، اُس جانب جنّات کی بستی ہے۔ ، لیکن لڑکاے پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پھر بھی خیمے کے پاس جاپہنچا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
چاند جب تھوڑا اور بلند ہو ا تو ایک جانب سے کیمیاگر اپنے گھوڑے پر سوار آتا نظر آیا۔ اُس کے کاندھے پر دو مردہ عقاب لٹک رہے تھے۔
‘‘میں یہاں آگیا ہوں….’’ لڑکا بولا۔
‘‘ویسے تو تمہیں اِس علاقے میں ہونا نہیں چاہیے۔’’ کیمیاگر نے اے دیکھ کرجواب دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن تمہارا مقدر ہی تمہیں یہاں کھینچ کر لے آیا ہے۔’’
‘‘قبیلوں کی آپسی جنگ کی وجہ سے صحرا عبور کرنا ناممکن ہو گیا تھا، اِس لیے مجبوراً یہاں نخلستان میں ہی رُکنا پڑا….’’ لڑکے نے کہا۔
کیمیاگر اپنے گھوڑے سے اُتر آیا اور لڑکے کو اشارے سے خیمہ میں داخل ہونے کو کہا۔ یہ خیمہ نخلستان کے دوسرے خیموں کی مانند تھا۔
لڑکے نے خیمہ کے اندر کیمیاگری کی بھٹی اور کیمیائی تجربوں کے دوسرے آلات اور ظروف دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، جیسا اس نے پہلے انگلستانی باشندے کے خیمے میں دیکھا تھا، لیکن یہاں اُسے ایسی کوئی چیز نظر نہ آسکی۔ البتہ ایک طرف کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک جانب کھانا بنانے کا چولہا تھا اور ایک جانب چند غالیچے اور قالین تھے، جن پر کچھ عجیب و غریب خاکے اور نقشے پڑے ہوئے تھے۔
‘‘بیٹھو!…. پہلے کچھ پئیں گے اور پھر اِن عقابوں کا گوشت کھایا جائے گا۔’’ کیمیاگر بولا۔
لڑکے کو ایسا لگا کہ یہ دو عقاب وہی ہیں جو اُس نے ایک روز قبل صحرا میں دیکھے تھے، لیکن اُس نے کچھ کہنے کی ہمّت نہیں کی۔
کیمیاگر نے آگ روشن کی اور تھوڑی ہی دیر میں خیمہ میں ایک نفیس اور خوش ذائقہ بو پھیل گئی۔ یہ خوشبو عام حُقّہ کی خوشبو سے واضح طور پر مختلف اور اچھی تھی۔
‘‘تم مجھے سے کیوں ملنا چاہتے تھے….؟’’ لڑکے نے آخر اُس سے پوچھ ہی لیا۔
‘‘کائناتی نشانیوں اور علامتوں کی وجہ سے۔’’ کیمیاگر نے جواب دیا۔
‘‘ہواؤں سے مجھے یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ کوئی آنے والا ہے اور مجھے اس کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔’’
‘‘آپ کو شاید ہواؤں نے میرے متعلق نہیں بلکہ ایک دوسرے غیر ملکی مسافر کے بارے میں بتایا ہو گا۔ وہ انگلستانی باشندہ…. وہ بھی تمہاری تلاش میں بہت دور سے سفر کرتا ہو ا آیا ہے۔’’
‘‘ہاں….! مگر اُس کی خواہشات اور ترجیحات مختلف ہیں، لیکن اب میں نے اس کو صحیح راستہ دکھادیا ہے اور ابھی وہ صحرا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔’’
‘‘اور میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟’’
‘‘جب کوئی شخص کسی چیز کے حصول کا مصمم اراداہ کرلے اور اُسے پانے کے لئے واقعی یکسو ہو جاتا ہے تو پوری کائنات اُس کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اُس کی مدد کرنے لگتی ہے….’’ کیمیاگر کے ان الفاظ میں اُسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ کے الفاظ کی باز گشت سنائی دی۔ لڑکا سمجھ گیا کہ مقدّر کے حصول میں کائنات نے ایک اور شخص معاونت کے لئے بھیج دیا ہے۔لڑکے بھی تیار تھا اس نے سوال کیا، ‘‘تو اب کیا….؟ تم مجھے کوئی علم سکھاؤ گے؟؟’’
‘‘نہیں !….’’ کیمیا گر بولا ۔ ‘‘تم تو پہلے ہی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہو اور بہت کچھ جانتے ہو۔ میں تو تمہیں صرف وہ مقام بتاؤں گا کہ جس جگہ تمہارا خزانہ ملے ہے ۔’’
‘‘لیکن ابھی تو صحرا میں قبیلوں کی جنگ جاری رہی ہے۔’’ لڑکے نے اپنی بات دہرائی ۔
‘‘ہاں میں جانتا ہوں صحرا میں کیا ہورہا ہے۔’’
‘‘مگر میرا خزانہ تو مجھے مل چکا ہے…. ایک اونٹ ہے، شیشے کی دکان پر کام کا تجربہ ہے، اس سے کمائی ہوئی رقم ہے اور پچاس سونے کے سکے بھی ہیں۔ اب میں وطن لوٹا تو وہاں کے لوگ مجھے امیر ترین آدمی سمجھیں گے۔’’
‘‘ ہاں! یہ ٹھیک ہے …. لیکن اُن میں سے کوئی بھی چیز تمہیں اہرام سے تو حاصل نہیں ہوئی ناں۔’’ کیمیاگر بولا۔
‘‘ہاں ! لیکن میرے خزانے میں اب سلمیٰ کا اضافہ بھی تو ہو گیا ہے، میری محبت…. جو باقی سب چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔’’
‘‘وہ بھی تمہیں اہرام سے تو نہیں ملی….’’
پھر وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔ کھانے کے بعد کیمیاگر نے ایک بوتل اُٹھائی اور اس میں سے ایک سرخ خوش رنگ مشروب لڑکے کی پیالی میں اُلٹ دیا۔
‘‘کیا تمہارے یہاں شراب پینا ممنوع نہیں ….؟’’ لڑکے نے پوچھا۔
‘‘ یہ شراب نہیں ….’’ کیمیاگر نے کہا
لڑکے پہلے تو جھجھک رہا تھا، لیکن کیمیاگر نے لڑکےکو تسلی دیتے ہوئے کہا،
‘‘یاد رکھو کہ اصل اہمیت اِس چیز کی نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کی تمہارے منہ سے کیا نکل رہا ہے۔ بُرائی یہ نہیں کہ بُری چیز تمہارے اندر داخل ہوجائے ، بلکہ اس کو باہر نکالنا برائی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے زمین اور سمندر نے دنیا بھر کی بُرائیوں اور خرابیوں کو اپنے اندر ایسے سمو کر رکھا ہے کہ باہر سے ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا….’’
کیمیاگر کو ناگوار نہ لگے ، لڑکے نے پیالی اُٹھائی اور وہ مشروب پی لیا، ایسا خوش ذائقہ شربت لڑکے نے آج تک نہیں پیا تھا۔ اس کے بعد دونوں کھانے سے فارغ ہو چکے تو خیمہ کے باہر چاند کی روشنی میں بیٹھ گئے۔چاندنی نے تاروں کی روشنی کو ماند کر دیا تھا۔ عمدہ کھانے اور لذیذ مشروب کا اچھا اثر اُس پر واضح تھا۔ کیمیاگر لڑکے سے بولا۔ ‘‘بس….! کھاؤ، پیو اور شکر ادا کرو۔’’
‘‘آج رات تم آرام کرو، بالکل ایک جنگجو سپاہی کی طرح جو کسی جنگ میں جانے سے پہلے خودکو تیار کرنے لے لیے آرام کرتاہے…. ایک بات یاد رکھو تمہارا خزانہ وہیں ہو گا جہاں تمہارا دل گواہی دے گا …. خزانہ کی جستجو کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں ہے ، ورنہ جو کچھ تم نے اب تک سیکھا ہے اُس کی معنویت ہی ختم ہو جائے گی۔’’﷽
پھر کیمیا گر نے لڑکے کو ہدایات دیتے ہوئے کہا، ‘‘ایسا کرو کہ کل یہ اونٹ بیچ کر ایک گھوڑا خرید لو…. اونٹ بے وفا جانور کی طرح ہے۔ صحرا میں ہزاروں میل کا سفر کرتا رہے گا ، لیکن تمہیں پتہ بھی نہ چلنے دے گا کہ کب وہ تھک چکا ہے، اور پھر اچانک تھک کر چور ہوگا اور گر کر مرجائے گا…. رہی بات گھوڑے کی، تو تھکتے وہ بھی ہیں لیکن رُک رُک کر، دھیرے دھیرے، یوں مالک کو اندازہ رہتا ہے کہ یہ کب تک کام دیتے رہیں گے اور یہ بھی کہ یہ کب مرنے کے قریب ہیں ۔’’
***
اگلی رات وہ لڑکا گھوڑے پر سوار ہو کر کیمیاگر کے علاقے میں اس کے خیمے پر پہنچ گیا۔ کیمیاگر بھی تیار ہی تھا۔ کیمیاگر نے زین کسی ، گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے پالتو باز کو کو اپنے دائیں کندھے پر بٹھا لیا اور لڑکے سے بولا، ‘‘صحرا میں جہاں زندگی موجود ہو مجھے بھی بتانا، کیونکہ جو لوگ ایسی نشانیوں کو پہچان سکتے ہیں وہ خزانوں کی تلاش میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔’’
دونوں کے گھوڑے ریتیلی زمین پر چلنے لگے۔ چاند راستہ روشن کئے ہوئے تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کے آثار پہچان نہ پاؤں۔ میں ریگستان سے اتنا کب واقف ہوں۔
وہ کیمیاگر کو یہ بتایا چاہتا تھا لیکن ڈر سے خاموش رہا۔ چلتے چلتے وہ اُسی پتھریلے مقام تک پہنچے جہاں لڑکے نے دونوں عقابوں کو آسمان میں جھپٹتے دیکھا تھا لیکن اب وہاں گہرے سکوت اور تیز ہوا کی آواز کے سوا کچھ نہ تھا۔
‘‘ریگستان میں زندگی کی تلاش کیسے کروں۔’’ لڑکا کہنے لگا۔ ‘‘یہ تو معلوم ہے کہ زندگی موجود ہے لیکن اُسے کہاں دیکھوں، یہ نہیں معلوم۔’’
‘‘یہ اصول*یاد رکھو!!….زندگی میں زندگی کے لئے کشش ہوتی ہے…. اور زندگی، زندگی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے…. ’’ کیمیاگر نے جواباً کہا۔
لڑکا اُس کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ اُس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی، اب بے لگام گھوڑا کبھی ریت اور کبھی پتھر پر سرپٹ دوڑنے لگا۔
کوئی آدھ گھنٹے تک کیمیاگر بھی اپنا گھوڑا دوڑائے لڑکے کے پیچھے آتا رہا۔ اب نخلستان کے درخت اُن کی نظروں سے دور ہو چکے تھے۔ بس صحرا میں صرف چاند ہی اپنی تمام تر چاندنی کے ساتھ جگمگا تا نظر آرہا تھا اور ریت کے ذرّے چاند کی روشنی سے چمک رہے تھے۔اچانک گھوڑے کی رفتار کسی ظاہری وجہ کے بغیر کم ہونے لگی۔
‘‘مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہیں کہیں زندگی موجود ہے۔’’ لڑکے نے کیمیاگر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اور پھر خود سے مخاطب ہوا ‘‘میں صحرا کی زبان تو نہیں جانتا، لیکن میرا یہ گھوڑا زندگی کی زبان سے ضرور واقف ہے’’۔
کیمیاگر نے کچھ کہا تو نہیں لیکن دونوں گھوڑوں سے اُتر آئے اور آہستہ آہستہ پتھروں کے درمیان کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ کیمیاگر اچانک رک گیا اور ایک جگہ جھک کر کچھ دیکھنے لگا۔ پتھروں کے درمیان ایک سوراخ نظر آ رہا تھا۔کیمیاگر نے اپنا ہاتھ اُس سوراخ میں ڈالا تو اس کا پورا ہاتھ کاندھے تک اُس سوراخ میں چلا گیا۔
* *زندگی میں ہر چیز قانونِ کششLaw of Attraction کے تحت کام کر رہی ہے، اس قانون کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں، یہ عمل ایک مقناطیس کی طرح کام کرتا ہے، اس قانون کے مطابق آپ ان لوگوں کے لیے کشش کا باعث ہوتے ہیں جو لوگ آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں جس طرح ایک جیسے لوگ ایک دوسرے سے خود بخود مل جاتے ہیں، عقلمند افراد عقلمند افراد کی طرف ، نیک اور صالح لوگ اپنے جیسے صالح افراد کی جانب اور اچھے لوگ اچھے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ قانونِ کشش کا کام صرف آپ کی سوچ و خیالات کی پیروی کرنا اور آپ کے احساسات کے مطابق حالات کو رونما کرنا ہے۔ قانونِ کشش کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مثبت سوچ رکھتے ہیں یا منفی۔ انسانی سوچ اور احسات کی اپنی ایک روحانی طاقت ہوتی ہے۔ منفی خیالات کے نتائج منفی ہوتے ہیں اور مثبت خیالات کے نتائج مثبت ہوتے ہیں۔ قانون کشش ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ مثلاً ایک بہت ہی قریبی دوست کو آپ نے یاد کیا تو چند لمحوں بعد ہی اس کا فون بھی آ جاتا ہے۔ روحانی دنیا میں غیر اِرادی حرکت کا نام کشش اور اِرادی حرکت کا نام عمل ہے۔ کشش کیا ہے؟ خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں ، اس وقت ہمارے سامنے جو بھی شئے ہے، وہ خلا ہے۔ کائنات بھی ایک خلا ہے اور اس خلا کا محور ایک ایسی ذات ہے جو خلا کی رگِ جان ہے۔ جب خلا کے ٹکڑے یک جا ہو جاتے ہیں تو مٹی، لوہا، پتھر سونا چاندی بن جاتے ہیں۔ انہیں تقسیم کر دیا جائے تو ناقابل تقسیم عدد تک تقسیم ہو جاتےہیں۔ یہ جو ذرّہ ذرّہ خلا ہے، اس لیئے ہے کہ اس میں کوئی بستا ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ، اللہ نے اپنی شان کونمایاں کرنے کے لیئے ہر ذرّہ کو خلا بنا دیا اور اس میں خود براجمان ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے اور ذرّے کے درمیان ایک پردہ ڈال لیا ہے۔ ہر چیز پردے کے پیچھے اس من موہنی صورت کے دیدار کے لیئے بے قرار ہے۔ اور یہی بے قراری کشش ہے اور یہ کشش ہی تو ہے کہ آدمی اس کو پانے کے لیئے باد شاہتیں چھوڑ دیتا ہے۔ اور یہی وہ کشش ہے جس کو زینہ بنا کر آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں خد و خال (Dimensions) نہیں ہیں۔ یہ کشش ہستیِ مُطلق سے جس قدر قریب ہوتی ہے اسی قدر بندہ اللہ کی بادشاہی میں رُکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کی سوچ بھی اپنے بادشاہ کی سوچ بن جاتی ہے۔ بادشاہوں کا با دشاہ اللہ خلا، ٹائم،اسپیس کے تانے بانے سے آزاد ہے۔
[کتاب آوازِ دوست از خواجہ شمس الدین عظیمی]
سوراخ کے اندر کوئی چیز حرکت پذیر تھی۔کیمیاگر کی آنکھیں، لڑکے نے محسوس کیا کہ مشقّت کے سبب ترچھی ہوئی جا رہی تھیں، ایسا لگا کہ سوراخ میں گھسا ہوا ہاتھ اندر کسی چیز کو بڑی محنت سے پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر اچانک ہی بڑی حیرت ناک سرعت سے ہاتھ باہر نکالا اور کیمیاگر اپنے پیروں پر جھک گیا۔ سانپ کی دم اُس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں تھی۔
لڑکا بھی جھکا، البتہ اُس نے اپنے آپ کو کیمیاگر سے ذرا فاصلہ پر رکھا۔ وہ سانپ غضب ناک ہو رہا تھا اور چھوٹ جانے کی کوشش کر رہا تھا، اُس کی پھنکاروں سے ریگستان کی خاموشی پاش پاش ہو رہی تھی۔ یہ سیاہ ناگ Cobra کوبرا تھا جس کا زہر چند منٹوں ہی میں آدمی کو موت کی نیند سلا سکتا تھا۔
‘‘دھیان سے کہیں تمہیں کاٹ نہ لے’’ لڑکا فوراً بول اُٹھا اور پھر سوچنے لگا کہ کیمیاگر تو اپنا ہاتھ ہی سوراخ میں ڈال چکا تھا اور سانپ نے جانے کتنی بار اُسے ڈسا ہو گا لیکن پھر بھی وہ پُرسکون تھا۔ انگلستانی باشندے نے اُسے بتایا تھا کہ ‘‘کیمیاگر کی عمر دو سو سال ہے۔’’، اتنے برسوں سے صحرا میں رہتے ہوئے یہ تو اُسے معلوم ہی ہو گا کہ صحرائی سانپوں سے کیسے نپٹنا چاہیے۔
کیمیاگر کی ہر حرکت کو لڑکا غور سے دیکھا رہا تھا۔ گھوڑے کی زین سے اُس نے جا کر ایک بڑی سی چھری نکالی اور اُس کے پھل سے ریت میں ایک دائرہ کھینچ کر اُس میں سانپ کو چھوڑ دیا۔ سانپ فوراً ہی پُر سکون ہو گیا۔
‘‘فکر نہ کرو۔’’ کیمیاگر بولا۔ ‘‘یہ اب اِس حصار سے باہر نہ جا سکے گا۔ اب مجھے اطمینان ہوگیا ہے کہ تم نے سیکھ لیا ، اب تم صحرا میں زندگی کے وجود کو پہچان سکتے ہو۔’’
‘‘کیا یہ سب سیکھنا اِتنا ہی ضروری تھا….؟’’ لڑکے نے سوال کیا۔
‘‘ہاں !…. اِس لیے کہ اہرام کے اطراف میں صحرا ہی صحرا ہے۔ وہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہوگی۔ ’’
کیمیاگر لڑکے کو اہرام کے متعلق سمجھانا چاہ رہا تھا، لیکن اُسے محسوس ہورہا تھا کہ لڑکا اہرام کے موضوع پر گفتگو کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ۔ گزشتہ شب سے ہی لڑکے کے دِل پر بڑا بوجھ سا تھا اور جب جب اہرام کا ذکر آتا اس پر اُداسی اور پژمردگی غالب ہوجاتی تھی۔ اُسے یہ خیال بار بار آتا کہ خزانہ کی تلاش کا مطلب ہے سلمٰی سے جدائی اور فراق کے اس خیال سے وہ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا۔
‘‘ریگستان سے باہر نکلنے تک میں تمہارے ساتھ تمہاری راہنمائی کرتا رہوں گا۔ ’’
کیمیاگر کے یہ الفاظ اسے فکر کے سمندر سے کھینچ لائے، پھر لڑکا ہمت جُٹا کر بولا
‘‘لیکن میں تو یہیں نخلستان میں رہ جانا چاہتا ہوں…. مجھے میری سلمیٰ مل گئی ہے، اور جہاں تک میرا تعلق ہے وہ میرے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں ہے ۔’’
‘‘وہ ریگستان کی بیٹی ہے….’’ کیمیاگر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا، ‘‘وہ جانتی ہے کہ مرد واپس آنے کے لئے ہی جایا کرتے ہیں۔اُسے تو اُس کا خزانہ یعنی تم مل گئے ہو اور اب وہ یہ توقع رکھے گی کہ تم بھی وہ خزانہ تلاش کر لو، جس کی جستجو تمہیں یہاں تک لائی ہے۔’’
‘‘لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہوگا، اگر میں یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کر لوں تو۔’’ لڑکا کو بضد دیکھ کر کیمیاگر نے گھمگیر آواز میں مخاطب ہوا۔
‘‘ایسی بات ہے تو چلو، میں تمہیں تمہارے مستقبل سے رُوبرو کراتا ہوں…. اور بتاتا ہوں کہ تمہارے اس فیصلے کے بعد کیا ہو گا….؟؟ ’’
(جاری ہے)
***
تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی