موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
سائیکوکائناسس – ذہن کی پُراسرار قوت
ذہن کے ذریعہ خیال کی منتقلی کی قوت کو ٹیلی پیتھی Telepathyکہا جاتا ہے، جبکہ ذہن کی قوت کو استعمال کر کے کسی مادی چیز کو حرکت دینا یا اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ذہنی قوت کوسائیکوکائناسس Psychokinesis یعنی P.K کا نام دیا گیا ہے۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ آج بھی موجود ہیں جو اپنے ذہن کی طاقت استعمال کر کے کسی چیز کو چھوئے بغیر موڑ دیتے ہیں یا پھر ہوا میں معلق کردیتے ہیں۔
کئی سال قبل سن 80 کی دہائی میں ٹیلیویژن پر ایک انگریزی فلم میتھیو اسٹار نشر ہوا کرتی تھی۔ جس میں فلم کاہیرو میتھیو اسٹار محض اپنی ذہن کی قوت کے بل پر آنکھوں کے ذریعے گھورتے ہوئے کوئی بھی چیز ہوا میں معلق کر دیتا تھا۔ مختلف چیزوں کو متحرک کر دیتا تھا یا ان کو توڑ موڑ دیتا تھا۔
90 کی دہائی میں فلم میٹرکس کے بہت چرچے ہوئے جس کے ایک سین میں ہیرو اپنے ہاتھوں کے اشارے سے اس کی طرف آنے والی سینکڑوں گولیوں کو روک لیتا ہے۔ اسی طرح ایک فلم لوسی میں مرکزی کردار دماغ کے 50 فیصد صلاحیتوں پر رسائی حاصل کرنے کے بعد اپنے ذہن سے مادہ کو کنٹرول کرنے لگتی ہے۔ وہ بھاری سے بھاری اشیا بھی صرف آنکھوں کے اشارے سے ہلا لیتی ہے ۔
ہالی ووڈ کی مشہور فلم سیریز ‘‘ایکس مین’’ کی کہانی بھی کچھ سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے کرداروں کے گرد گھومتی ہے ۔ اس فلم کے دو کردار…. پروفیسر ایکس چارلس زاویر قدرتی طور پر ایسی صلاحیتوں کے حامل ہیں کہ خیال خوانی کے ذریعے نہ صرف اپنی بات دور دراز کسی شخص کے دماغ تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ دماغی طور پر اسے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے اشارے پر چلنے پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔ جبکہ ایرک لہنشر جو بعد میں میگنیٹو کا منفی کردار ادا کرتا ہے، کسی بھی میٹل کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے پر قادر ہے، جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے ایرک بھی لوہے اور اسٹیل کو اپنے اشارے پر حرکت میں لاسکتا ہے۔
حال ہی میں نیٹ فلیکس پر آنے والی ویب سیریز اسٹرینجرز تھنگز میں الیون نامی بچی کا کردار دکھایا گیا ہے، جو اپنی ذہن کی طاقتوں سے محیر عقل کام کرلیتی ہے۔
یہ تو خیر فلمی دنیا کی بات ہے۔ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فلم میں فینٹسی شامل کرنا کہانی کار کی مجبوری ہوتی ہے لیکن ایک سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا حقیقی دنیا میں واقعی سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے ایسے لوگ موجودہیں جو مذکورہ قوتوں کے حوالہ سے اپنی مثال آپ ہوں۔
بعض حیوانات اور نباتات قدرتی طور پر اس صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، چونکہ حیوان نطق سے محروم ہوتے ہیں اس لیے قدرت نے انہیں یہ صلاحیت دے دی ہے کہ وہ اپنی بات اپنے ہم جنسوں کو خیال خوانی کے ذریعے پہنچا سکیں۔
انسانوں میں بھی قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے ۔ ہر انسان میں یہ خارق العادات مظاہر چھپے ہیں لیکن چونکہ ہم اپنے دماغ کا ایک محدود حصہ استعمال کرتے ہیں اس لیے ان صلاحیتوں کا ادراک ہر کسی کو نہیں ہوتا۔ بعض لوگ مسلسل ریاضت سے اپنی ان صلاحیتوں کو استعمال میں لے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہپناٹزم کے ماہر اپنے معمول کو ہپناٹائز کر کے جو بھی حکم یا ہدایت دیتے ہیں بیدار ہونے پر معمول مقررہ وقت پر وہی کام کرتا ہے۔
یوں تو تاریخ اور مذہبی روایات میں ایسے کئی قصے مشہور ہیں جن میں برگزیدہ ہستیاں خیال یا ذہن کی قوت سے کسی مادی چیز پر تصرف کرلیتی ہیں، جیساکہ حضرت سلیمان کے دربار میں ملکہ سبا کے تخت کو پلک جھپکتے لانے کا واقعہ ، اس کے علاوہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا واقعہ مشہور ہے کہ ان کی اشارہ سے ان کی جوتیاں ہوا میں معلق ہوکر جادوگر جے پال کے سر پر برستی رہیں۔
سائیکوکائناسس / ٹیلی کائناسس
ریسرچرز نے ذہن کے ذریعہ خیال کی منتقلی کی قوت کو ٹیلی پیتھی Telepathyکہا ہے، جبکہ ذہن کی قوت کو استعمال کر کے کسی مادی چیز کو حرکت دینا یا اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ذہنی قوت کوسائیکوکائناسس Psychokinesis یعنی P.K کا نام دیا ہے، اسے ٹیلی کائناسس بھی کہتے ہیں۔
ماضی میں کئی لوگوں نے اس طرح کی صلاحیتو ں کے دعوے کیے جن میں ولیم میریوٹ William Marriott اور اسٹینسلوا ٹومازک Stanisława Tomczyk قابل ذکر ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ آج بھی موجود ہیں جو اپنے ذہن کی طاقت کو استعمال کر کے کسی چیز کو چھوئے بغیر موڑ دیتے ہیں یا پھر ہوا میں معلق کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں برطانوی نوجوان اُوری گیلر Urigeller کا نام سرفہرست آتا ہے۔
اُوری گیلر
بی بی سی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں وہ پہلی دفعہ منظرِعام پر آیا تھا….لوگوں نے دیکھا کہ وہ اسمارٹ سا ایک نوجوان ہے جو کہ گھبرایا گھبرایا سا لگ رہا ہے…. ظاہر ہے اسے اُس دن لاکھوں ناظرین کے سامنے وہ کچھ پیش کرنا تھا جو کہ اس سے پہلے کبھی پیش نہیں کیا گیا تھا…. نہ لوگوں نے کبھی دیکھا اور نہ سناُ تھا…. اس لیے اُس کی گھبراہٹ فطری تھی…. اس پروگرام سے پہلے صرف دو مضامین میں اس کی خوبیوں کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ برطانیہ کے دو رسالوں میں چھپ چکے تھے۔ اب وہ اس پروگرام میں اپنی اسی خوبی کا مظاہرہ کرنے والا تھا…. اس نے پروگرام میں ایک چمچ کو اپنے ذہن کی قوت سے صرف اُسے دیکھ کر دوہرا کردیا…. اُسے ایسا کرتے لاکھوں افراد نے دیکھا…. اور وہ سب حیران تھے….
لیکن اس پروگرام کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ گیلر نے اپنے ناظرین اور سامعین سے کہا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے کچھ چمچے اور کانٹے وغیرہ رکھ دیں، وہ یہیں اسٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے ان کو بھی موڑ دے گا۔ یہ پروگرام براہ راست نشر کیا جا رہا تھا…. چنانچہ لوگوں نے اپنے گھروں میں چمچے اور کانٹے اپنے اپنے ٹی وی کے سامنے رکھ دیئے…. گیلر نے ٹی وی کیمرے کی طرف گھورنا شروع کردیا…. اس طرح وہ لوگوں کے ٹی وی اسکرین پر ’’گھورتا‘‘ ہوا نظر آرہا تھا…. اور پھر لوگوں کی حیرت کا کیا پوچھنا کہ جب انہوں نے اپنے گھروں میں چمچوں اور کانٹوں کو دوہرا ہوتے ہوئے دیکھا۔
اس پروگرام کے بعد بی بی سی والوں کو لوگوں کے فون موصول ہونے لگے کہ ان کے گھروں میں ٹی وی کے سامنے موجود چمچ اور کانٹے وغیرہ مڑگئے ہیں…. تو اخبارات اور رسالوں میں دھڑادھڑ گیلر کی خبریں شائع ہونے لگیں….
اس تجربہ کے بعد برطانیہ میں اُوری گیلر urigeller کی شہرت کو یکایک چار چاند لگ گئے۔ دنیا ئے سائنس میں بھی تہلکہ برپا ہوگیا اور لاکھوں لوگوں میں تجسس پھیل گیا۔ اُس وقت گہرے سیاہ بالوں کے مالک جاذب نظر 26 سالہ نوجوان شعبدہ باز کو خود بھی علم نہیں تھا کہ کیا اور کیوں کر ہوا اور آج بھی اس کا تاثر یہ ہے کہ شاید یہ کوئی ایسی طاقت ہے جسے ہر شخص بروئے کار لاسکتا ہے کیونکہ یہ ہر ایک میں موجود ہوتی ہے۔ لیکن اسے ابتداء میں گاڑی کے اگنیشن کی طرح کچھ قوت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ چل پڑے یا متحرک ہو جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قوت دراصل توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا تعلق عقل سے ہے۔
گیلر کے بقول وہ ان عجیب وغریب توانائیوں کو تین سال کی عمر سے محسوس کرتا رہا ہے۔ اس کے والد کا خاندان کچھ روحانی پس منظر رکھتا ہے۔ اس کے دادا ایک مذہبی پیشوا تھے۔ بچپن میں اسے ایک گھڑی دی گئی جو کبھی صحیح وقت نہیں بتلاتی تھی۔ کیونکہ وہ جب بھی گھڑی دیکھتا تھا تو اس کی سوئی پانچ چھ گھنٹہ آگے بڑھ جاتی تھی۔ اس لئے اس نے گھڑی باندھنی چھوڑ دی۔ اس کی والدہ جب گھڑی دیکھتیں تو وہ ٹھیک وقت بتاتی لیکن گیلر کے دیکھتے ہی سوئی بے قابو ہوکر گھومنے لگتی اور وقت کئی گھنٹے آگے ہوجاتا۔
ایک دن سوپ پیتے ہوئے اس کا چمچ ازخود مڑنا شروع ہوگیا اور سوپ کا پیالہ اُلٹ گیا۔ ایک دن وہ والدین کے ہمرا ہ ایک ریسٹورنٹ میں تھا کہ ساتھ والی میز کے تمام چمچے اور چھریاں دوہرے ہوگئے۔ جلد ہی وہ جان گیا کہ ان انہونی باتوں کا سبب وہ خود ہے۔
تیرہ سال کی عمر میں اس نے اس صلاحیت پر قابو پالیا یعنی اب یہ سب کچھ آزادانہ نہیں بلکہ اس کی مرضی شامل ہونے پر ہوتا تھا۔ جب اس کے والدین کے مابین طلاق ہوگئی تو وہ کچھ عرصہ پریشان رہا اور اس دوران یہ قوت کمزور رہی اور جب اس نے ایک اسکول میں ملازمت اختیار کرلی تو یہ قوت اس کے اندر پھر اُبھر آئی۔ اس نے پرائیوٹ پاریٹوں اور اسکولوں میں شعبدہ دکھانا شروع کیا۔ 1968ء تک وہ کافی مشہور ہوچکا تھا لیکن 1974ء میں بی بی سی ٹیلیوژن کا شو تو اُسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا….
سائنسدان اپنی جگہ حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے اور ہمارا تو کوئی نظریہ بھی اس واقعہ پر پورا نہیں اُترتا۔ چنانچہ کئی سائنسدانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ فراڈ ہے اور گیلر میں کوئی پُراسرار خوبی نہیں ہے…. اس پر گیلر نے کہا کہ وہ ہر قسم کے تجربات کے لیے تیار ہے چنانچہ برطانیہ کے بہت سے سائنسدانوں نے تحقیق کے لیے رابطہ کیا…. گیلر نے لیبارٹری میں بھی وہ سب کچھ پیش کیا جو وہ ٹی وی پر پیش کر چکا تھا۔ سائنسدانواں نے ہر طرح چیک کیا کہ فراڈ نہ ہو مگر وہ یہ بات ثابت نہ کرسکے…. ان تجربات کے بعد بہت سے سائنسدانوں نے اپنے اپنے خیالات ظاہر کیے….
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پلازما فزکس Max Planck Institute of Plasma Physics کے ڈاکٹر فریڈ رک کرگر Dr Friedbert Karger نے کہا ‘‘ابتدائی تجربات کے بعد میں نے یہ جانا ہے کہ گیلر فراڈ نہیں ہے….لیکن جو قوتیں اس میں موجود ہیں انہیں علم طبیعات Physics کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا’’….
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدان ڈاکٹر ورنر فان بران Dr. Wernher von Braun نے تسلیم کیا ‘‘گیلر نے میری انگوٹھی میرے ہاتھ کی ہتھیلی میں بغیر چھوئے موڑ دی …. میں نہیں سمجھ سکتا کہ اُس نے یہ کیسے کیا ہے’’….
لندن یونیورسٹی کے برک بیک کالجBirkbeck College, University of London کے پروفیسر جان بی ہاسٹڈ Prof. John Hasted نے بتایا‘‘گیلر جس طرح دھات کی چیزوں کو موڑدیتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی دھات کو 600 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر موڑدیا جائے…. میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے’’….
فرانس کی ٹیلی مینٹری لیبارٹریTelemetry Laboratory کے ڈاکٹر البرٹ ڈکروک Dr Albert Ducrocq نے کہا‘‘دھات کی چیزوں میں جو خم گیلر نے اپنی پُراسرار طاقت سے ڈالے وہ کوئی ہاتھ سے بھی نہیں ڈال سکتا’’….
آسٹریا کی گریز یونیورسٹیUniversity of Grazکے ماہر نفسیات پروفیسر ایرک مٹینکر Prof. Erich Mittennecker نے واضح کیا‘‘ گیلرمیں ٹیلی پیتھی کی بے پناہ قوت موجود ہے’’۔
اُوری گیلر کو ٹیلی پیتھی کے لیے بھی ٹیسٹ کیا گیا ، حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ہر ‘‘خیال’’ صحیح بتا دیتا تھا…. ایک بار ایک ٹیسٹ میں ایک آدمی ایک تصویر لیے ایک کمرے میں بیٹھ گیا…. گیلر کو دوسرے کمرے میں بٹھایا گیا…. اسے ایک کاغذ اور پنسل دے دی گئی…. اور کہا گیا کہ ساتھ والے کمرے میں ایک شخص تصویر لے کر بیٹھا ہے اور تصویر کو دیکھ رہا ہے…. تم نے اس شخص کے ذہن سے معلومات لے کر کاغذ پر تصویر بنانی ہے…. گیلر آنکھیں بند کر کے کچھ دیر بیٹھا رہا پھر اس نے تصویر بنانی شروع کی…. اور کچھ ہی دیر میں تصویر تیار تھی….
تجربہ کرنے والوں نے تصویر کو دیکھا…. وہ ایک انگوروں کے گچھے کی تصویر تھی جو کہ گیلر نے بنائی تھی اور جو تصویر ساتھ والے کمرے میں تھی وہ بھی انگوروں کے گچھے کی ہی تھی…. یعنی کہ گیلر اپنے امتحان میں پورا اُترا تھا….مگر ایک بات اور بہت زیادہ حیرت انگیزیہ تھی کہ جتنے انگور اصل تصویر والے گچھے میں تھے اتنے ہی انگور گیلر نے اپنی تصویر میں بنائے تھے…. یہ ٹیلی پیتھی کی ایک شاندار اور سب سے عمدہ مثال تھی جو کہ ایک جدید لیبارٹری میں پیش کی گئی….
گیلر سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اس کے ذہن میں دوسروں کے خیالات کیسے آجاتے ہیں…. تو وہ کہتا ہے کہ میرے دماغ میں گویا ایک اسکرین موجود ہے…. جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو اس اسکرین پر خود بخود منظر اُبھر آتے ہیں جسے دیکھ کرمیں بتا دیتا ہوں…. اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ دھات کی چیزوں میں خم کیسے ڈال دیتا ہے؟…. تو وہ کہتا ہے کہ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ بچپن میں اسکول لائف کے دوران میں اپنی آنکھوں سے گھڑی کی سوئیاں روک دیتا تھا یا سوئیوں کو بغیر ہاتھ لگائے جدھر چاہے گھما لیتا تھا۔ اُس وقت میرے کلاس فیلو بہت شوق سے یہ مظاہرہ دیکھتے تھے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھ میں یہ بات بہت انہونی ہے یہ تو مجھے وقت گزرنے کے بعد پتہ چلا….
گیلر میں جو خوبیاں ہیں وہ خُداداد ہیں…. عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہر شخص میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتیں…. مگر کیمبرج یونیورسٹی کے پیراسائیکلوجسٹ ڈاکٹر کارل سارجنٹ کچھ اور کہتے ہیں ….
اُن کے مطابق ہم میں سے ہر شخص میں یہ خوبیاں موجود ہیں مگر ہم ان کا استعمال بھول گئے ہیں….ٹیلی پیتھی کی صلاحیت کا استعمال ہم اس لیے نہیں کر پاتے کہ ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو اس حد تک استعمال کرتے ہیں کہ ہم اپنے دماغ میں آنے والے ٹیلی پیتھک خیالات کو بالکل اہمیت نہیں دیتے ہیں…. یعنی ہم ہر وقت ان چیزوں کا ’’تجزیہ‘‘ کرتے رہتے ہیں جو کہ ہماری آنکھوں کے ذریعے منعکس ہو کر ہمارے دماغ میں پہنچتی ہیں یا وہ آوازیں جوہم کانوں سے سنتے ہیں…. چنانچہ ان عکسوں اور آوازوں کے ہجوم میں ذہنی اطلاعات کو وصول نہیں کر پاتے ….
ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ہزارہااقسام کی لہریں اور توانائیاں ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں۔ یہ توانائیاں آزاد الیکڑون ہیں، ان لیکڑونز کی قوت کو استعمال کرنے کے لئے انہیں یکساں توانائی کے گچھوں کی صورت میں باندھنا پڑتا ہے، اس توانائی کی مدد سے نظر آنے والی چیزوں کے الیکٹرونز کو بغیر گرم کیے نرم بنایا جا سکتا ہے موڑا، توڑا جا سکتا ہے، حرکت دی جا سکیں ہے۔
سائنس نے توانائی کے استعمال کا ایک ہی طریقہ سیکھ رکھا ہے، وہ ہے دھکیلنا، جس طرح ایک بھاری شئے کو لیور کے ذریعے طاقت استعمال کرکے اُٹھایا اور کسی دوسری جگہ رکھا جاسکتا ہے، راکٹ کے ذریعہ ایک سیٹلائٹ کو خلاء میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ توانائی کے استعمالات کے لئے قوانین بھی وضع کئے گئے ہیں اور انہیں موٹر گاڑیوں، لفٹ، کرین، ٹرین، ہوائیجہاز ، پرنٹنگ پریس غرض کئی جگہ استعمال کیاجاتا ہے۔
لیکن توانائی کو استعمال کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ ان کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ اب علم کی ترقی کے بعد ان طریقوں کو استعمال کرنے کا ڈھنگ بھی سیکھا جارہا ہے۔ لہروں کے ذریعے ماحول میں موجود توانائی کو ترتیب دیکر یکجا کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق اس توانائی کو استعمال کرنا سائیکو کائناسس ہے۔ اس تیکنیک کے ذریعہ مضبوط خیالی قوت اردگرد کے ماحول میں موجود بکھری ہوئی توانائی کو یکجا کرکے ایک قوت مدرکہ میں تبدیل کرسکتی ہے، اس توانائی کی مدد سے نظر آنے والی چیزوں کے الیکڑونز کی گردش میں بے پناہ اضافہ کرکے اس چیز کو بغیر گرم کئے نرم بنایا جا سکتا ہے،موڑا ، توڑا، کھینچ کر لمبا یا ٹیڑھا کیا جا سکتا ہے۔
اُوری گیلرکی شہرت صرف ستر کی دھائی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ بعد میں کئی اخبارات، میگزین اور ٹیلیویژن کی زینت بنا رہا۔ 10 اپریل 2006ء کو جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن چینل Daserste کے ٹاک شو بیکمین Beckmann میں اُوری گیلر نے اپنے کمالات کا اظہار کرکے ثابت کردیا کہ برسوں بعد بھی اس کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
دنیا میں صرف اُوری گیلر ہی نہیں اور بھی کئی ایسے لوگ دنیا میں موجود ہے جو اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعہ کسی چیز کو چھوئے بغیر موڑ دیتے ہیں یا پھر ہوا میں معلق کردیتے ہیں ان میں سابقہ سوویت یونین کی نینا کلاجینا Nina Kulagina ، کیلفورنیا(امریکہ) کے ٹیڈاوونز Ted Owens، لندن (انگلینڈ) کی اسٹیلاسی Stella C اور کیمبرج (انگلینڈ) کے میتھیومیننگ Matthew Manning کے نام مشہور ہیں۔
دسمبر 2013ء