نظرِ بد اور شر سے حفاظت – قسط 3
نظر کیسے لگتی ہے….؟
علامہ ابن القیم *نے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے: ‘‘نظر بد کی اصل یہ ہے کہ نظر لگانے والے کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے، تو اس کے نفس کی ایک بُری (یعنی منفی) کیفیت اس پر غالب آجاتی ہے۔ نفس اپنے اس زہر (یعنی منفی کیفیت) کونافذ کرنے کے لیے اس شخص کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ہے۔ [زادلمعاد۔باب:نظر ،394/3]
لوگوں پرنظر کی تاثیر ان کی ذہنی سکت وقوتِ ارادی کی مضبوطی یا کمزوری کی مناسبت سے مختلف ہوتی ہے لیکن حاسد کی نظر میں پوشیدہ ایک خاص کیفیت محسود پرواضح طور پر اپنا منفی اثر ضرور کرتی ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی**نے نظر کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
‘‘نظر بد کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو اچھی سمجھ کر اس کی طرف ایسی نظر اٹھائے جس میں خبیث طبیعت (منفی کیفیت Negativity = )کے باعث حسد بھی شامل ہو توایسی نظر سے نقصان پہنچتاہے۔ ’’
[فتح الباری۔ابن حجر۔200/10]
*حافظ ابن قیم الجوزیۃؒ 691ھ کو دمشق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مدرسہ الجوزیہ کے قیم (نگراں )تھے۔ اسی وجہ سے انہیں ابن قیم کہا جاتاہے۔ آپ کی تصانیف 50 کے قریب ہیں، جن میں سیرت اورفقہ پر بیش بہا تصنیف ‘‘زاد المعاد’’اور ‘‘طبِ نبوی’’کے علاوہ تہذیب سنن ابی داؤد، تحفۃ المودود فی احكام المولود، الوابل الصیب، مدارج السالكین اور شفاء العلیل قابل ذکر ہیں۔ آپؒ کی وفات 751ھ بمطابق1350ء کودمشق میں ہوئی۔
**حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ نامور مورخ، فقیہہ اورعلوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ آپ 773ھ میں مصر میں پیدا ہوئے۔ علم حدیث کے لیے مصر، شام اور یمن کے کئی سفر کیے۔ اکیس برس تک قاضی پھر قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز رہے، اس کے علاوہ مسجدوں اور مدرسوں میں تفسیر قرآن، حدیث اورفقہ پر درس دیتے رہے۔ آپؒ کی تصانیف کی تعداد150بتائی جاتی ہے۔ ان کی بہترین تصنیف صحیح بخاری کی شرح ‘‘فتح الباری فی شرح بخاری’’ ہے۔ اس کے علاوہ احادیث کا مجموعہ ‘‘بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام’’، صحابہ کرام کے احوال پر ‘‘الاصابہ فی تمیز الصحابہ’’ اور ‘‘تہذیب التہذیب’’ بھی قابل قدر کتاب ہے۔ آپؒ کی وفات 852ھ بمطابق1449ء کو ہوئی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے…..؟
آیئے ! اس طریقۂ کار یا عمل (Phenomena)کو اپنے بزرگوں کی تعلیمات اورسائنسی تحقیقات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس دنیا میں ہر وجود اپنی مخصوص توانائی رکھتا ہے۔ ہر چیز کا، ہر عنصر کا اپنا اپنا ایک علیحدہ Spectrumہے۔ توانائی کی ان مقداروں کی وجہ سے ہر شئے ایک مخصوص ارتعاش کی حامل ہے۔ یہ ارتعاش برقی اثرات کے حامل ہیں۔ اس ارتعاش کی وجہ سے ہر شئے کے گرد ایک برقی مقناطیسی میدان (Electro Magnetic Field) وجود میں آتا ہے۔ ہرعنصر کا EMF دوسرے عنصر سے مختلف ہوتاہے۔
روشنی کی صورت میں ایک خاص قسم کی توانائی ہمارے وجود میں ہروقت گردش کرتی رہتی ہے۔ یہ روشنی یا یہ توانائی جسم کے اردگرد یعنی بیرونِ جسم بھی موجود ہے۔ جسم سے ان روشنیوں کا اخراج ‘‘اورا’’Auraکی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
انسان کے کئی احساسات اور بہت سے ردّعمل کی وجہ لہریں (Waves) ہیں۔ ناصرف انسان بلکہ دیگر مخلوقات بھی اپنے اردگرد موجود لہروں سے متاثر ہوکر کشش یا گریز محسوس کرتی ہیں۔
انسان کے ارد گرد جو لہریں پائی جاتی ہیں یا یوں کہا جائے کہ انسان کے ارد گرد جو برقی مقناطیسی میدان (EMF) موجود ہے، وہ آواز کے اتار چڑھاؤ سے بننے والی لہروں(Sound Waves)اور آنکھوں سے یا انسان کے ذہن سے خارج ہونے والی لہروں سے متاثر ہوتا ہے۔ نرم لہجہ، کھنکھناتی ہنسی، پانی کاجھرنا، پرندوں کی چہچہاہٹ، انسان کے جذبات سے مناسبت رکھنے والے سُراورتال، چڑیا کی چوں چوں، کوئل کی کو کو، شیر کا دھاڑنایا بادلوں کی گھن گرج یہ سب لہروں کے ذریعہ ہی انسان کو خوشی، اُمید یا خوف ودہشت میں مبتلا کرتے ہیں۔ جانور، درخت، پودے وغیرہ بھی جذبات واحساسات کی لہروں سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس (ب م م یاEMF )کااظہار مختلف رنگوں سے ہوتاہے۔
انسانی جسم یا کسی بھی مخلوق کے جسم میں پائے جانے والے مختلف عناصر اورجسم میں کام کرنے والے مختلف نظام، مخصوص آلات سے دیکھے اورشناخت کیے جاسکتے ہیں۔ ان عناصر اور نظاموں کی نشاندہی مختلف رنگوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان مقررہ رنگوں کے ذریعے عناصر (Elements)کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ جذبات واحساسات اور کسی شخص کے مثبت یامنفی طرزفکر کی نشاندہی بھی ہوسکتی ہے۔
مثال کے طورپر کوئی شخص غصے میں ہو تو اس کے اِردگرد سُرخ روشنیوں کا غلبہ ہوگا۔ خوشی اور سُرور کے عالم میں نیلی، تخلیقی فکر کے دوران سبز، لاشعوری کیفیات کے دوران بینگنی، جنسی تحریکات کے دوران سرخی کی زیادتی لیے ہوئے نارنجی، صحت آمیز خیالات کے دوان ہلکے بینگنی رنگ کی روشنیاں غالب ہوتی ہیں۔
بیرون جسم روشنیوں کے اس رنگ برنگ ہالے کو سائنسدانوں نے اورا (Aura)کانام دیا ہے۔ مشرق کے روحانی دانشوروں، باطنی نظر کے حاملین نے جسم کے اندر اور بیرون جسم روشنیوں کے ایک نظام کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے روشنیوں کے اس نظام کو نسمہ (NASMA)کا نام دیا ہے۔
نسمہ کی اصطلاح وسیع تر معنوں کی حامل ہے۔ یہ اصطلاح ایک پورے نظام کی ترجمانی کرتی ہے۔ بعض جگہ لوگوں کوسمجھانے کے لیے نسمہ کا ترجمہ اورا (Aura) کیا گیا ہے، تاہم نسمہ کا یہ ترجمہ یعنی اوراAura) )دراصل نسمہ کے ایک محدود ظاہری رُخ کی ترجمانی کرتا ہے۔ نسمہ ایک وسیع المعانی اصطلاح ہے اور میں سمجھتاہوں کہ اس لفظ کے تمام معانی کوسموئے ہوئے کوئی لفظ انگریزی زبان میں موجود نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ نسمہ کو انگریزی یا دیگر زبانوں میں بھی NASMA ہی لکھنا چاہیے، جیسا کہ یوگا کو ہر زبان میں یوگا کہا جاتا ہے۔ اورا (Aura) نسمہ کا ایک حصہ ہے اوریہ ظاہری حصہ ہے۔
برقی مقناطیسی میدان
(Electro Magnetic Field)
سائنس کے مطابق ہر وہ شئے جو ارتعاش رکھتی ہے برقی مقناطیسی میدان بناتی ہے۔ ایک عام مقناطیس سے لے کر کرۂ ارض میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہر جاندار خلیہ ایک مقناطیسی اکائی ہے۔
جاندار اجسام کھربوں خلیات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ تمام خلیات ارتعاش کی حالت میں رہتے ہیں، اس مسلسل ارتعاش کی وجہ سے ان خلیات کے درمیان ایک برقی مقناطیسی میدان بن جاتا ہے، یہ برقی مقناطیسی میدان ہر جاندار کے اردگرد غلاف کی طرح موجود ہے۔ اس مقناطیسی میدان کے توازن سے صحت برقرار رہتی ہے اور جب کسی بیرونی یا اندرونی وجہ سے اس توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو معمول کے افعال میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے، جسے عرفِ عام میں بیماری کہا جاتا ہے۔
نسمہ کی تعریف:
معروف بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ* کے نظریات کے مطالعہ سے نسمہ کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ آپ کی تحریروں سے پتہ چلتاہے کہ انسان اپنی اصلی صورت میں اس لیے قائم رہتاہے کہ وہ لطیف روشنیوں کے روپ کا مظہر ہے۔ اس لطیف جسم میں ایسی صلاحیت ہو جس کی وجہ سے وہ خاص صورت اس پرطاری کردے۔چونکہ ہیولیٰ صورتوں میں لطیف ترین، صاف ترین اور مضبوط ترین صورت ہے، اس لیے اس کے وجودِ ظاہر(کااظہار)بھی اس لطیف ترین شئے پرہوسکتا ہے جولطافت و اعتدال میں اپنی مثال آپ ہو۔
یہ جسم جو لطیف وکثیف(مٹی کاجسم) میں سرایت کرنے اور اپنے کمالات دکھانے کااظہار آسانی سے کرسکےہمارے نزدیک ‘‘نسمہ’’کہلاتا ہے۔
نسمہ ایک لطیف ترین جسم ہے، جو انسان کے باطن سے ہم آہنگ ہے (جس طرح پھول میں اس کی خوشبو بسی ہوئی ہوتی ہے )لیکن اس کا اظہار ظاہری جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔ انسانی فکر و کردار کا مختار بھی یہ نسمہ ہے۔ [البدورالبازغہ۔ صفحہ 85]
سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضرت قلندربابا اولیاء** کتاب لوح قلم میں تحریر فرماتے ہیں:
کائنات کی ساخت میں نسمہ( نظر نہ آنے والی روشنی) ہرچیز کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔احاطہ کرنے سے مُراد ہرمثبت اورمنفی زندگی کی بساط میں نسمہ کا محیط(عمل دخل )ہونا ہے۔ گویا ہر چیزکے کم ترین اورلانشان جزو‘‘لاتجزاء ’’ کی بنیاد دو قسموں پر ہے۔ ایک اس کی منفیت اوردوسری اس کی اثباتیت۔ ان ہی دونوں صلاحیتوں کی یکجائی کانام نسمہ ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
اشیاء کی ساخت میں اﷲ تعالیٰ نے دو رُخ رکھے ہیں۔ ہم جس چیز کو ظاہر کہتے ہیں ا س کے تمام نقش ونگار مکانیتِ زندگی( گوشت پوست کے جسم ) پر مشتمل ہیں لیکن یہ جس بساط پرقائم ہے، وہ زمانیت ہے۔ بغیر زمانیت کی بساط کے کائنات کاکوئی نقش ظہور میں نہیں آسکتا۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ ان تمام مظاہرکی بساط زمانیت ہے جس کوہم مادی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، تویہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام مظاہر کی بنیادیں ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں۔ تصوف میں زمانیت کادوسرا نام نسمہ ہے۔ [لوح قلم ۔ص 147۔146]
دورحاضر کے معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب*** اپنی کتاب ‘‘توجیہات’’ میں فرماتے ہیں:
انسانی (وجود کے دو رُخ)جسم دو ہیں۔ ایک وہ جسم ہے جس کو گوشت پوست کا جسم کہا جاتاہے جبکہ دوسرا جسم وہ ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا لیکن یہ جسم گوشت پوست کے جسم سے تقریباً 9انچ اوپر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ موجودہ سائنس نے اس جسم کی تلاش میں کافی جدوجہد کی ہے۔ اس جسم کے مختلف نام سامنے آچکے ہیں۔ بےشمار ناموں میں دو نام بہت زیادہ معروف ہیں۔ ایک جسم مثالی اور دوسرا نام Aura۔
انسانی گوشت پوست کے جسم کا دارومدار اس Aura کے اوپر ہے۔ Aura کے اندر صحت مندی موجود ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔ سمجھنے میں آسانی کے لیے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح گوشت پوست کے جسم کے اوپر اﷲ تعالیٰ نے دولینسز(آنکھیں) فٹ کردیے ہیں، جن کے ذریعے مادی دنیا میں موجود تمام چیزوں کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوکر ڈسپلے ہوتا ہے، اسی طرح جسم مثالی کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کا پورا پورا اثر گوشت پوست کے جسم پر مرتب ہوتا ہے۔
روشنیوں کا بنا ہوا یہ جسم یعنی نسمہ صرف انسان کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ زمین کے اوپر جتنی مخلوق موجود ہے، روشنیوں کے جسم سے اسے Feed (توانائی) ملتی ہے۔
[توجیہات :خواجہ شمس الدین عظیمی ۔ص86]
اس روشنی میں توازن جسم کو صحتمند رکھتاہے۔ اس روشنی میں کسی قسم کا عدم توازن جسم کے لیے تکلیف یا دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس تکلیف یا دباؤ سے امراض یا مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان میں جسمانی ونفسیاتی ہر قسم کے امراض یا مسائل شامل ہیں۔
نظر لگنا ایک ایسا عمل (Phenomena) ہے جو لہروں اور روشنیوں کے نظام کے ذریعے اثرانداز ہوتا ہے۔ نظر کی وجہ سے روشنیوں کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ یہ عدم توازن صحت کی خرابی اور معاملات میں خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔
* شاہ ولی اللہ : عہد مغلیہ کے مشہور عالم، مفسر، فقیہہ اور صوفی شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ1104ھ بمطابق 1703ء میں بمقام دہلی پیدا ہوئے۔حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تصنیف و تالیف سے دینی و سماجی اصلاح کا کام کیا۔ شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ آپؒ نے علم تفسیر، حدیث،فقہ، تاریخ اور تصوف پر کئی تصانیف لکھیں، ان میں حجۃ اللہ البالغہ ، الفوز الكبیر فی اصول التفسیر، الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، فیوض الحرمین، القول الجمیل، الطاف القدس، الخیر ، شفاء القلوب، ہمعات ، انفاس العارفین اوردیگر تصانیف شامل ہیں ۔آپؒ کی وفات 1176ھ بمطابق1762ء کو ہوئی۔
**امامِ سلسلہ عظیمیہ حضرت محمد عظیم برخیاؔ المعروف قلندر بابا اولیاءؒ کی ولادت قصبہ خورجہ،ضلع بلند شہر یوپی(بھارت) میں ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپؒ کی طبیعت میں درویشی کی طر ف میلان بہت زیادہ ہوگیا۔ قلندربابا اولیاءؒ اپنے نانا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں نوسال تک رہے۔ تقسیم ہند کے بعد آپؒ کراچی تشریف لے آئے۔ مختلف رسائل وجرائد میں صحافت کی۔ 1956ء میں سلسلۂ سہروریہ کے بزرگ ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ کے ہاتھ پربیعت کی۔ آپؒ کی تصنیفات میں رباعیاتِ قلندربابااولیاءؒ، لوح وقلم، تذکرہ تاج الدین باباؒ قابل ذکر ہے۔ آپؒ نے تصوّف کے سلسلۂ عظیمیہ کی بنیاد رکھی۔آپ کی وفات1979ء کو ہوئی۔
*** حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اکتوبر 1927ء بھارت کے شہر سہارن پور(یوپی) میں پیداہوئے۔آپ کا سلسلۂنسب میزبان رسول حضرت خالد ابو ایوب انصاریؓ سے جاملتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ صادق آباد میں مقیم رہے،بعد ازاں کراچی تشریف لائے۔ یہاں آپ نے حضرت محمد عظیم برخیاء المعروف قلندربابا اولیاءؒ سے بیعت کی۔ آپ نے پاکستان کے معروف اخبارات ورسائل میں روحانی موضوعات پر کالم اورمضامین لکھے۔ ان اخبارات میں روزنامہ جنگ، روزنامہ حریت، روزنامہ جسارت، روزنامہ مشرق، ہفت روزہ اخبارجہاں اوردیگر رسائل شامل ہیں۔ 1978ء میں آپ نے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کا اجرا کیا۔ آپ نے بہت سی کتابیں تحریر کی، جن میں رنگ اور روشنی سے علاج ،روحانی علاج،روحانی نماز،کلرتھراپی ،مراقبہ ،محمد رسول اللہ اوردیگر تصانیف شامل ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ‘‘احسان وتصوف’’ پاکستان کی معروف درس گاہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب اس یونیورسٹی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد تیس سے زاید ہے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر 80 سے زایدکتابچے تحریر فرمائے۔
نظر کے اثرات اور علاج :
حضرت عائشہ ؒسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
اسْتَعِیْذُوْا بِاﷲِ مِنَ الْعَیْنِ
فَاِنَّ الْعَیْنَ حَقٌّ
‘‘نظر بد سے اللہ کی پناہ طلب کرو کیونکہ نظربد برحق ہے۔’’
[سنن ابن ماجہ: مستدرک حاکم:تمہیدابن عبدالبر]
مختلف روایات اور واقعات پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظربد کی وجہ سے انسان کی صحت یا معیشت متاثر ہوسکتی ہے۔ محبت کرنے والے قریبی لوگوں کے درمیان رنجش ہوسکتی ہے اور دیگر انداز سے منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ انسانوں کے علاوہ دیگرمخلوقات بھی نظر سے متاثر ہوسکتی ہے۔ نظر کے منفی اثرات سے بچاؤ یانظر لگ چکی ہو تواس سے نجات کے لیے مناسب تدابیر اختیارکی جانی چاہئیں۔
حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا :جعفر (حضرت اسماء کے شوہر)کے بیٹوں کو نظر جلدی لگ جاتی ہے، کیا میں ان پر دم کردیا کروں….؟
آپ ﷺنے فرمایا: ہاں،اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے سکتی ہے تووہ نظر ہے۔
[مسلم:کتاب السلام؛ ترمذی:کتاب الطب ]
نظر سے نجات کے طریقے :
انسانوں یا دیگر مخلوقات پر نظر کے منفی اثرات کے ازالے کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ ان کا انحصار نظر کی شدت پر ہے۔
نظر کی شدت کم ہوتو اس کی وجہ سے ہونے والی کسی خرابی کا تدراک فوری طورپر ہو سکتا ہے، یعنی کوئی آسان سا جائز طریقہ استعمال کرکے متاثر ہ شخص کی نظر اُتار دی جائے اور اس کی طبیعت بحال ہوجائے۔
نظر کی شدّت زیادہ ہونے کی صورت میں نظر کی وجہ سے ہونے والی خرابیوں کے ازالے کے لیے مرحلہ وار تدابیر کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ متاثرہ شخص کی نظر اُتار دی جائے اوراس کا باقاعدہ طبّی علاج بھی کیا جائے۔ مثال کے طورپر کسی مرد یا عورت کو یا کسی بچے کو نظر لگنے سے بخار آجائے یا کوئی اور مرض لاحق ہوجائے تونظر اُتارنے کے ساتھ ساتھ اس کا کسی ڈاکٹر یا حکیم سے مناسب علاج بھی کروایا جائے۔
نظر بد کے اثرات سے صحت کو شدید نقصان کی صورت میں طبّی علاج پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ اس امر کوایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی شخص کو نظر بد کی وجہ سے شدید اعصابی دباؤ (Stress) محسوس ہوتا ہے۔
نظربد سے ہونے والے اعصابی دباؤ کے طویل عرصہ تک رہنے کی وجہ سے اس شخص کا نظام ہضم خراب ہوتا ہے، اس کی نیند کادورانیہ متاثر ہوتا ہے۔ ان کیفیات کی شدت سے نظربد سے متاثرہ شخص آخرکار ذیابیطس کا مریض بن جاتا ہے۔ اب حالانکہ اس ذیا بیطس کا سبب نظربد کی وجہ سے ہونے والا اعصابی دباؤ ہی بناہے، چنانچہ اس نظربد کے اثرات سے نجات کے لیے مناسب تدابیر کرنی چاہئیں۔ قرآنی آیات اور مختلف دعاؤں کے وِرد اورصدقہ خیرات سے وہ متاثرہ شخص بفضل ربّی نظربد سے تونجات پالے گا لیکن اس دوران اسے جو ذیابیطس ہوچکی ہے وہ نظر بد سے نجات کے باوجود ٹھیک نہیں ہوگی۔ اس لیے ذیابیطس کے کنٹرول کے لیے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پرہیز اور دواؤں کا استعمال جاری رکھنا ہوگا۔
نظر کے درجات :
مختلف مشاہدوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نظربد سے ہونے والے نقصانات کے مختلف درجے یا کیٹگریز ہیں۔ ہلکی نظر کی وجہ سے صحت متاثر ہو تو صدقہ خیرات سے تکلیف ٹھیک ہوجائے گی، دیگر کسی طبّی علاج کی ضرورت نہیں ہوگی۔
نظر کی شدّت زیادہ ہونے سے صحت خراب ہوتو دم کرنے اورصدقہ خیرات کے ساتھ طبی علاج بھی کروانا ہوگا۔
تیسرے درجے یعنی بہت شدید نظر سے صحت کی خرابی کی صورت میں نظربد سے نجات مل جانے کے بعد بھی طبّی علاج مسلسل جاری رکھنا ہوگا، کیونکہ نظربد سے ہونے والا ایسا نقصان مستقل نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض سے دی جاسکتی ہے۔ ایسی شدید صورتوں میں صرف نظربد کا علاج کرلینا کافی نہیں بلکہ جسمانی امراض کا حسب ِضرورت علاج کرتے رہنا ہوگا۔ ان امراض کے طبّی علاج کو غیر ضروری سمجھنا یا طبّی علاج سے لاپرواہی برتنا صحت کے لیے سنگین نقصانات اورزندگی کے لیے شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
(جاری ہے)
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی