Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
قلب کے اسرار و رموز – روحانی ڈائجسٹـ
اتوار , 13 اکتوبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

قلب کے اسرار و رموز

کیا آپـ جانتے ہیں کہ دل محض خون پمپ کرنے والا آلہ نہیں ہے، بلکہ احساسات و جذبات کو سمجھنے، سوچنےاور فیصلے کرنے کاوالا بھی ہے۔ دل اپنے اندر نہ صرف ہزاروں نیورونز پر مشتمل ایک دماغ رکھتا ہے بلکہ اس کا مقناطیسی میدان بھی ہے جو کئی فیٹ دوری سے محسوس کرسکتا ہے٭….

عرصہ دراز سے ہم یہ سنتے اور بولتے آرہے ہیں کہ انسانی جذبات و خیالات اور فیصلہ کرنے کا تعلّق دل سے ہوتا ہے روز مّرہ کی بول چال میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔مثلاً یہ کہ میرے دل میں خیال آیا، میرے دل نے چاہا ، میرا دل نہیں مانتا۔ آپ میرا یقین کیجئے ، میرا دل کہتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ہر زبان ، ہر دور کے ادب اور شاعری میں محبت اور نفرت، دوستی اور دشمنی، دیانت اور خیانت، ایثار و خودغرضی، بخل اور سخاوت جیسے جذبوں اور اعمال نیز روحانی معاملات کا رشتہ دل ہی سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ اسی تصور کے تحت دل جیتے اور ہارے جاتے ہیں۔ محبوب دلوں ہی میں بستے ہیں۔ دلوں کی کشادگی اور تنگی ہی سے باہمی تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں دل کشی، دل فریبی، دل نوازی، دل ربائی، دل داری، دریا دلی وغیرہ جیسی ترکیبیں دل کے اسی تصور کی بنا پر رائج ہیں۔ دل میلا ہونا، دل صاف ہونا، دل ٹوٹنا،دل دُکھانا، دل بہلانا، دل لگانا، دل جلانا، دل خوش کرنا، دل کا باغ باغ ہوجانا،یہ تمام محاورے دل کے بارے میں اسی عمومی تصور کا نتیجہ ہیں جو انسانی معاشروں میں ہر دور میں موجود رہا ہے۔
دوسری جانب سائنسی علوم کی کتابوں میں ہم یہ پڑھتے اور سنتے رہے ہیں کہ انسانی دل کا واحد کام صرف دھڑکنا اور خون پمپ Pump کرنا ہے اور احساسات اور جذبات اور فیصلہ کے لیے دماغ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ صرف دماغ ہی ہے جو سوچنے سمجھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چند برس پہلے تک جدید سائنس کا موقف یہی تھا کہ دل کے بجائے دماغ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتاہے۔ سائنس مادیت، ظاہر اور طبعیات کا علم ہے۔ سائنس کے مطابق دماغ میں موجود نیورون ہی تمام خیالات و جذبات کا منبع ہیں جبکہ قلب میں ایسی صلاحیت سائنس ڈھونڈ نہیں سکی تھی۔تاہم اب پچھلے چند برسوں میں انسانی جسم میں دل کے کردار کے حوالے سے سائنس کے نقطہ نظر میں ایک انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔
نیوروکارڈیالوجیNeuro Cardiology یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام Nervous System، کے نام سے علم طب کی ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھی گئی ہے جو دل اور دماغ کے باہمی تعلق کے امور سے بحث کرتی ہے۔ دل کے اعصابی نظام کی کارکردگی کے متعلق علم کی اس نئی جہت نیوروکارڈیالوجی کے مطابق دماغ ہی نہیں انسانی دل بھی سوچتا سمجھتا اور فیصلے کرتا ہے بلکہ قدرت نے دل کے اندر بھی دماغ کی طرح کام کرنے والا ایک نظام تخلیق کررکھا ہے۔

دل اپنا دماغ رکھتا ہے

ڈاکٹر ڈومینک سُرلDr. Dominique Surel ‘‘تھنکنگ فرام دی ہارٹ’’ Thinking from the Heartکے عنوان سے اپنے مقالے میں بتاتے ہیں کہ ‘‘نیوروکارڈیالوجی کے شعبہ میں گزشتہ دو عشروں میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دل ایک حواسی آلہ اور اطلاعات و معلومات کی چھان بین کرنے والا پروسسنگ کا مرکز ہے جو سیکھ سکتا ہے، یاد رکھ سکتا ہے، اس کے اندر اچھا خاصا پیچیدہ اعصابی نظام موجود ہے جو اسکو قلبی دماغ Heart Brain بناتا ہے۔ دل میں ایسے سرکٹ موجود ہیں جس سے دل کھوپڑی میں موجود دماغ سے بالاتر رہتے ہوئے آزادی سے خودمختارانہ طور پر کام کرسکتا ہے اور سیکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کا عمل بغیر دماغ کی مدد کے کرتا ہے۔دل کے اندر موجود انتہائی منظّم خودکار اعصابی نظام دوہرے یعنی قلیل اور طویل رابطے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گویا ہم اپنے سینے میں ایک دوسرا دماغ رکھتے ہیں’’۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے دی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ میتھ کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر رولن میک کریٹے Rollin McCraty اس بات کو مجازاً یوں کہتے ہیں کہ‘‘دل میں بھی ایک دماغ ہے’’ اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے‘‘دل ایسے اعصاب اور خلیات رکھتا ہے جن کا کام بالکل وہی ہے جو دماغ کا ہے،مثلاً یادداشت۔ یہ علم الابدان کی ایک حقیقت ہے، دل دماغ کو اس سے زیادہ معلومات بھیجتا ہے جو دماغ دل کو بھیجتا ہے’’۔
‘‘ہارٹ برین’’ یعنی ‘‘دل کا دماغ’’ کی اصطلاح 1991ء میں کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر Dr. J. Andrew Armourنے وضع کی، انہوں نے ہی ‘‘دل کے اندر چھوٹا سا دماغ’’ A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ۔ ڈاکٹر آرمر کی تحقیقات کے مطابق انسانی دل کے اندر تقریباً چالیس ہزار اعصابی خلیےNerve Cells پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔
ڈاکٹر آرمر لکھتے ہیں جدید سائنس ا نسانی دل کے متعلق اب یہ جاننے لگی ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں۔ دل کا اپنا دماغ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کرلے۔
ڈاکٹر آرمر کا کہنا ہے کہ دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی محدود یاداشت Short Term Memory کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ جس سے وہ نہ صرف متعین مدت کے لئے معلومات سٹور کرتا ہے ،بلکہ محسوس بھی کرتا ہے۔

دل ودماغ کا دو طرفہ رابطہ

1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ اُن کے مطابق کام کرتا ہے،لیکن 1970ءکی دہائی میں امریکی ریاست اوہائیو Ohio کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ American Psychologist کے مارچ 1978 شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھاTwo-way Communication between the Heart and the Brain
اُنہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضا کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپنی ہی کوئی منطق ودانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔
ڈاکٹر ارمر اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انسانی دل ایک خود مختار عضو ہے۔ دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضا حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انسانی دماغ دل کو ڈھرکن تیز یا کم کرنے کے لئے سگنلز بھیجتا ہے تو دل اپنی مرضی کے مطابق ری ایکشن کرتاہے کبھی کبھار تو دل کا ری ایکشن بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ دل کے دماغ کے نخرے کچھ زیادہ ہی ہیں ، کیونکہ وہ ایک مخصوص انداز میں سوچ بھی سکتا ہے جو کہ دل کو ایمرجنسی حالات میں دماغ سے پہلے فیصلہ کرنے کی تقویت بخشتا ہے۔

دل کا مقناطیسی میدان

ہیومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ کے محقق اور کتاب Heart-Mind Matrixکے مصنف جوزف پیئرس Joseph Chilton Pearce قلبِ انسانی کے متعلق کہتے ہے کہ‘‘ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔ دل کا کام ایک پمپ سے کہیں زیادہ ہے۔ دل کے خلیات میں 40 فیصد نیورون (دماغی خلیات)ہوتے ہیں۔ دل منی ریڈیو سٹیشن کی طرح برقی مقناطیسی تعدد Electro Magnetic Frequency پیدا کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر ایک خلیہ تک بدلتی دنیا سے اپنے تعلقات کا پیٖغام بھیجتا رہتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل انسانی جسم میں سب سےزیادہ طاقت ور الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو ایک تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرو میگنٹک فیلڈ جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ دل کی مخصوص دھڑکن پندرہ فیٹ مدار کا ایک الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ پیدا کرتی ہے جو انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوتا ہے۔ انسان اسی میگنیٹِک فیلڈ کے ذریعے دیگر انسانوں اور مخلوقات کے میگنیٹک فیلڈز سے جڑا تو ہوتا ہی ہے اسی کے ذریعے ہی یہ غیرمحسوس انداز میں دیگر انسانوں اور مخلوقات سے انرجی کا لین دین بھی کرتا ہے۔

دل کا دماٖغ اور جسم پر اثر

ہارورڈ میڈیکل اسکول کی تحقیق کے مطابق ‘‘دل اور دماغ کے درمیان کیمیائی بات چیت دونوں اعضاء کو متاثر کرتی ہے۔ افسردگی، تناؤ، احساس تنہائی،مثبت سوچ اور دوسرے نفسیاتی سماجی عوامل دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دل کی صحت ذہن پر اثر ڈال سکتی ہے’’۔
محققین کہتے ہیں کہ دماغ اور جسم دل سے آنے والی معلومات کے مطابق خود کو ڈھال کر ایک منفرد تجربۂ زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ دماغ اور بقیہ جسم، دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس تجزیہ کے نتائج کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتے ہیں۔ دماغ سے آنے والے ان نتائج کے جواب میں انسانی دل پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی Neural and Hormonalسگنل بھیجتا ہے اور اُن میں تبدیلی لاتا ہے ۔یہی تبدیلی زندگی سےمتعلق ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر شبت کردیتی ہے جو رویوں ،مزاج میں چھلکتا ہے۔ریسرچرز اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ منفی جذبات، دل کی دھڑکن اور دماغی لہروں دونوں کی ترتیب اور آہنگ میں خلل ڈالتے ہیں۔ دل جسمانی واسطوں سے دماغ کو پیغامات بھیجتا ہے اور دماغ انہیں جذبات میں ڈھال دیتا ہے۔ ڈاکٹر میک کریٹے اس کی تشریح کرتے ہیں کہ ‘‘دل کی دھڑکنیں مورس کوڈ کی طرح ہیں، ان پیغامات سے ایک شخص کے جذبات کی کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے’’۔
جدید سائنسی تحقیقات کے موجودہ دلائل یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ دل کی باتوں کو نظر انداز مت کیجئے ۔ دل کی سننا اور ماننا سیکھئے مگر ا س کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے دل کے اندر موجود دماغ کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ دل کی تبدیلی دماغ پر کس طرح سے مثبت اثرات مرتب کرکے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لاتی ہیں، اس بارے میں نیوروکارڈیالوجی اور نیوٹک سائنس کی تحقیق ابھی جاری ہے۔

قلبـ روحانیت کی نظر میں

دل کے دما غ اور جسم پر اثرات کے متعلق ماضی میں الہامی کتب، انبیائے کرام، اولیاء اللہ اور بزرگان دین بارہا انکشاف کرچکے ہیں….
الہای کتابوں ، صوفیائے کرام اور اولیاء اﷲ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ دل یعنی قلب دو طرح کے ہیں ایک جسمانی قلب جو بدن میں خون کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں میں ایک غیر مرئی روحانی قلب بھی ہوتا ہے جو نفس اور روح کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔
حضرت امام غزالیؒ نے انسان کے روحانی قلب کے حوالہ سے خاصی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، آپ اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:‘‘اگر تو ُیہ کہے کہ میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں تو تیرا یہ کہنا غلط ہے، کیونکہ اس قسم کی پہچان معرفتِ حق کی کنجی نہیں کہلا سکتی، یوں تو ڈھور ڈھنگر بھی اپنے آپ کو پہچانتے ہیں۔
قلب سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں جو سینے میں بائیں جانب رکھا ہوا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:‘‘جس کو ہم قلب کہتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی معرفت کی جگہ ہے۔ یہ وہ روح نہیں جو جانداروں میں ہوتی ہے، وہ نہ جسم ہے نہ عرض بلکہ فرشتوں کے گوہر کی جنس سے ایک جوہر ہے….دیکھنے ، سننے، سونگھنے، چھونے کی قوتیں ظاہر ی پانچ حواس ہیں اور خیال ، تفکر، حافظہ، توہم اور تذکرہ کی قوتیں باطنی پانچ حواس ہیں۔ یہ سب ظاہری اور باطنی لشکرِ قلب کے اختیار میں ہے اور قلب سب کا بادشاہ ہے۔ قلب گویا ایک روشن وشفاف آئینہ ہے اور برُے اخلاق دھواں اور ظلمات ہیں، جب قلب تک پہنچتے ہیں تو اسے زنگ لگا دیتے ہیں۔
[کیمیائے سعادت]
امام غزالیؒ نے انسان کے باطنی رُ خ کو ‘‘قلب’’ کے نام سے پکارا ہے اور یہ بھی واضح فرمادیا ہے کہ اس سے مراد وہ دل نہیں جو انسانی جسم میں گوشت کالوتھڑا ہے۔ بلکہ ایک آئینہ یا ایک عکس کی مانند نورانی جوہر ہے۔

 

 

قرآن میں قلب کے کئی  درجات بیان ہوئے ہیں:

قلب سلیم:پاکیزگی والا قلب (سورہ ٔشعراء:89)

قلب منیب:رجوع کرنے والا قلب(سورہ ٔق:33)

قلب شہید: مشاہدہ کرنے والا قلب(سورہ ٔق:37)

قلبِ واجل: خوف رکھنے والا قلب (سورۂ بقرہ :74؛سورۂ   حدید 16)

قلب مطمئنہ:  مطمئن وپرسکون قلب (سورۂ رعد: 28)

قلب مُشیب:  بکھرا ہوا  قلب (سورۂ حشر: 14)

قلب اعمی :  اندھا قلب (سورۂ حج: 46)

قلب ران:  زنگ آلود قلب (سورۂ مطففین : 14)

قلب مختوم :  مہز  ذدہ  قلب (سورۂ بقرہ : 7؛ سورۂ اعراف : 100؛ سورۂ مومن :35)

قلب قاسی :  سخت پتھر  قلب (سورۂ زمر :22؛ سورۂ حج: 53؛ سوۂ حدید :16 )

قلب مریض :  بیمار قلب (سورۂ بقرہ : 10؛ سورۂ مائدہ : 52؛ سورۂ انفال :49؛ سورۂ مدثر : 31)

الیاس انطون الیاس نے اپنی عربی لغت قاموس العصری میں قلب کے معنی دل ، فؤاد Heart اور لُبّ مرکزCore کے ساتھ ساتھ عکس Reversal, Inversionعقل Interior, insidemind، باطن Inmost partاور جان Soulکے بھی لکھتے ہیں۔
[القاموس العصری۔ مطبوعہ قاہرہ۔ مصر]
لفظ’’قلب‘‘ آخری الہامی کتاب قرآن پاک میں 132مرتبہ آیا ہے۔ اس سے مراد انسان کا باطن ہے جس پر انسان کی سوچ، خواہشات، اعمال، امراض اور پاکیزگی کا دارومدار ہے۔
یہ قلب ہی ہے جس پر روح وفرشتوں، وحی والقا کا نزول ہوتا ہے۔ (بقرہ97، شعراء:194)، جو لوگ مومن ہیں ان کے قلب اﷲ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ ( رعد: 28)، ان کے قلوب میں اپنے رب کے پاس لوٹنے کا خوف ہوتاہے۔ (مومنون: 60)، قلب کو ہی تقویٰ ملتاہے ( حج: 32)، ہدایت بھی قلب پاتا ہے (تغابن :11)، الفت کا اورانتشار کا سبب بھی قلوب کی لطافت وکثافت سے ہوتاہے(آل عمران: 159، انفال:63)، اور جن کے قلب ایمان سے پرُ ہوتے ہیں خدا غیب سے ان کی مدد بھی کرتاہے۔ (مجادلہ:22)، ایمان کا تعلق بھی قلب سے ہے (حجرات: 14)، اوریہ قلب ہی ہیں جن کی خداتعالیٰ آزمائش کرتا ہے اور حساب کتاب اور مواخذہ بھی قلب سے ہی ہوگا۔ بقرہ:225،حج:53، آل عمران:154، احزاب:5)، اﷲ کی قربت اُسے ہی مل سکتی ہے جس کا قلب سلیم یعنی پاک صاف ہو۔(شعراء: 89، صافات: 84)، خدا مومنوں کے قلب کو رحمت وسکون عطا کرتا ہے اور ثابت قدم رکھتا ہے۔ (حدید:27، فتح:4، قصص:10، کہف:14، انفال:11)، اور قلب کا حال اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ (نساء:63)
کافر اور منافقین کے قلوب کے متعلق قرآن میں چار طرز یں بیان ہوئی ہیں ۔
ایک وہ جن کے قلوب پھر گئے، ٹیڑھے ہوگئے یا غفلت میں پڑے ہیں اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔(کہف:28، صف:5، الانبیاء:3)، ان منافقوں کے قلب کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ منہ سے جو کہتے ہیں ان کا قلب اس کے بر عکس ہے۔(فتح:11، آل عمران: 167)
دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں پر پردہ ہیں، ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں ۔ ان کے دلوںپر مہر لگی ہے اور یہ لوگ تفکر اور سوچنے سمجھنے سے محروم ہیں۔(محمد:24، جاثیہ:23، بقرہ:7، اعراف179، انعام:25)
تیسرے وہ لوگ ہیں جن کے قلب میں زنگ اور میل ہے جو ان کے اعمال بدکا نتیجہ ہے۔ (مطففین:14، منافقوں :3اعراف:101) قلب میں زنگ اور میل کو اﷲ نے مرض کہا ہے (بقرہ:10، احزاب:32، انفال:49، احزاب:12، احزاب:60، محمد:29) اس مرض کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان کے قلوب میں شک، خوف، اضطراب، کینہ، کجی، خلجان، انتشار اور نفق ہے۔(توبہ:45، نور:50، سبا:23، توبہ:110، حشر:10، حشر:14، تحریم:4، توبہ:77، مائدہ:52، مدثر:31) ان میں اکثر ایسے ہیں جن کے مرض کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ (توبہ: 125)
چوتھاگروہ وہ ہے جن کے قلب سخت ہوگئے ہیں۔ ایسے سخت کہ پتھر بھی ان کے سامنے کچھ نہیں۔ (بقرہ: 74، مائدہ: 13، انعام: 43، یونس:88، حدید:16) اور جن کے قلب پاک نہیں ہوتے ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلّت ہے۔ (مائدہ:41)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اور اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا۔ اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑا، وہ قلب ہے۔ ’’(بخاری، مسلم)
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقوی یہاں ہوتا ہے ۔ ایک حدیث نبویﷺ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’فتنے قلوب کو گھیرلیتے ہیں جو قلب ان فتنوں کو ناپسند کردیتا ہے، اس میں ایک سفید نقطہ لگادیا جاتا ہے اور جو قلب فتنوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس میں سیاہ دھبّہ لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح قلب دو طرح کے ہوجاتے ہیں۔ ایک سفید صاف شفاف جسے قیامت تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دوسرا کالا کلوٹا قلب کوزے کی طرح اُلٹا ہو ا، جو معروف اور منکر میں تمیز نہ کرسکے، صرف اپنی خواہشات ِنفس کو جانے‘‘۔ (صحیح مسلم،مسند احمد)
قرآن میں بیان کردہ قلب کی تعریف Definition کا تعلق انسان کی سوچ، فکر، اعمال اور باطن یعنی جسم مثالی یا روح حیوانی سے ہے۔
صوفیاء کرام اور علمائے باطن کی کتابوں میں گوکہ انسان کے باطنی رُخ کومختلف ناموں سے پکارا گیا ہے مگر ان کامفہوم ایک ہی ہے۔ ناموں کی یہ تبدیلی جسم مثالی کی مختلف صفات مثلاً قرین یعنی ہمنشین، نسمہ یعنی روح ہوائی، نفس یعنی ذات اور قلب یعنی عکس کے مطابق ہوئی ہے۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے باطنی قلب کے متعلق اپنی کئی کتابوں میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور اسے بزبان فارسی نسمہ کا نام دیاہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی کتاب ’’من کی دنیا‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق ایک ماحول یا Atmosphare اپنے اردگرد بنا لیتاہے۔ بدکاروں کا ماحول دیوار کی طرح سخت ہوتاہے، جس سے نہ کوئی فریاد یا دعا باہر جا سکتی ہے اور نہ کاسمک ورلڈ (عالم مثال) کے عمدہ اثرات اندر آسکتے ہیں، ایسا فرد خفیہ طاقتوں کی امداد سے محروم ہوجاتاہے۔ ممکن ہے قرآن کے حجاب، غشاوۃ (پردہ) سد (دیوار) اور غلف (غلاف) سے مراد یہی ماحول ہو‘‘۔(من کی دنیا۔ صفحہ 24)
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کتاب ذات کا عرفان میں فرماتے ہیں ۔ وہ قلب ہے جس کی درستگی کے لئے عضویاتی طب کی درستگی ضروری قرار دی گئی ہے۔ اس گوشت کے ٹکڑے کے علاوہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور قوت ہے اس کو بھی قلب کا نام دیا جاتا ہے۔ آسانی کے لئے روحانی قلب کہہ لیجئے۔ اس کی نشوونما شخصیت کی نشوونما میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ غزالیؒ کے نزدیک قلب روح، نفس اور عقل، قلب ہی کے زیر اثر ہیں۔ یہ سب قوتیں جن کا منبع دراصل قلب ہے، ایک ساتھ ایک نہج پر پروان چڑھتی ہیں تو شخصیت کی صحیح تعمیر ہوتی ہے۔
[ذات کا عرفان از خواجہ شمس الدین عظیمی]
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ناصرف انسان کی اصل حقیقت روح سے متعارف کریا ہے بلکہ روح کے غیرمادّی لباس نسمہ کی مفصّل تشریح بھی بیان کی ہے، آپ لکھتے ہیں:
‘‘کائنات کی ساخت میں بساطِ اوّل وہ روشنی ہے جس کو قرآنِ پاک نے ماء (پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔موجودہ دَور کی سائنس میں اس کو گیسوں Gases کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔تصّوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی اُن بنیادی شعاعوں کے مجموعہ کا نام ہے جو وجود کی ابتداکرتی ہے۔ نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادّی اجسام کی ساخت میں اصل کاکام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب، تقسیم موالیدثلاثہ کی ہیئتیں اور خدوخال بناتی ہیں’’۔(لوح وقلم۔95-93)


اس مضمون کی تیاری  میں مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے

THINKING FROM THE HEART – HEART BRAIN SCIENCE
https://noeticsi.com/thinking-from-the-heart-heart-brain-science/
MYSTERIES OF THE HEART – HEARTMATH
https://www.heartmath.org/resources/infographic/mysteries-of-the-heart/
Joseph Chilton Pearce
https://iamheart.org/The_Heart/articles_joseph_chilton_pearce.shtml
Brain Cells in the Heart? NeuroCardiology
https://theness.com/neurologicablog/index.php/brain-cells-in-the-heart/
https://www.care2.com/greenliving/let-your-heart-talk-to-your-brain-2.html
https://bradyonthebrain.wordpress.com/tag/andrew-armour/
https://www.amazon.com/Neurocardiology-J-Andrew-Armour/dp/0195073045/
Two-way communication between the heart and the brain
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/637402
https://www.researchgate.net/publication/22505709
A healthy heart is not a metronome
https://www.frontiersin.org/articles/10.3389/fpsyg.2014.01040/full
https://www.researchgate.net/publication/265168561

روحانی ڈائجسٹ جنوری 2021ء سے انتخاب

یہ بھی دیکھیں

جنات، آسیب، شر، سحر،حسد، نظربد اور خوف سے نجات کے لیے دعائیں اور وظائف

جنات، آسیب، شر، سحر،حسد، نظربد اور خوف سے نجات کے لیے دعائیں اور وظائف جنات، …

مغفرت ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو

مغفرتـ ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو   ماہِ شعبان کی چودہ تاریخ کی شب ایسے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے