Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

اہرامِ مصر – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..

 


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

 

اہرامِ مصر کی تعمیر کا عجوبہ 

عہدِ قدیم کا سب سے حیرت انگیز، سائنس اور عقل سے بعید ذہانت اور تعمیرات کا جیتا جاگتا اور ٹھوس ثبوت جو ہمارے سامنے ہے، وہ ہے اہرامِ مصر!….
اہرام کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں دنیا کے سات عجائبات میں سب سے قدیم پتھروں سے بنے ہوئے فراعین کے دیوہیکل مقبرے آجاتے ہیں۔ یہ اہرام سرزمینِ مصر کی پہچان ہیں اور صدیوں بلکہ قرنوں سے ریگستان کی جھلسا دینے والی گرم ہواؤں، آندھی، بارش اور بجلی کی کڑک کے باوجود دھرتی پر ایستادہ ہیں۔ اپنی عجیب وغریب ساخت، حیرت انگیز خصوصیات اور پُراسراریت کے سبب آثارقدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہرامِ مصر کشش اور تجسّس کا باعث ہیں۔ بڑے بڑے پتھروں کو اس عمدگی سے اس قدر بلندی پر جڑ ے ہوئے دیکھ کر ہر کوئی قدیم مصری تہذیب کے کاریگروں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔


یہ حیرت انگیز اہرام آج سائنس دانوں کے ذہنوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اُبھر تاہے کہ آخر اس نادرِ اور عجوبہ ٔروزگار عمارت کو کیوں اور کس طرح تعمیر کیا گیا ہوگا….؟
اہرام پر صدیوں سے ریسر چ جاری ہے۔ جدید سائنسدانوں، فلسفیوں، آرکیالوجسٹ اور ماورائی علوم کے ماہرین نے اہرام کی تعمیر کے مقصد کے بارے میں گزشتہ دوسوسالوں سے بہت کچھ لکھا ہے، مگر آج بھی اہرام کے متعلق بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔
بعض ماہرین مصریات Egyptologist اہرام کو محض مقبرہ یا پھر معبد قرار دیتے ہیں لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اہرام قدیم علوم کے محافظ ہیں….انتہائی ہولناک تباہیوں اور طوفانوں کے خطرہ کے پیش نظر قدیم لوگوں نے اپنے علوم، کتابیں، ایجادات اہرام کے خفیہ کمروں میں محفوظ کرلی تھیں تاکہ انہیں محفوظ رکھ سکیں۔

اہرام کی تعمیر کے متعلق ایک عام تصور جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتاہے۔


کچھ ریسرچرز کا خیال ہے کہ اہرام خلائی مخلوق U.F.Oنے تعمیر کیے ہیں، تاکہ وہ دوسرے سیاروں سے رابطہ قائم کرسکیں یا پھر یہ علمِ نجوم کے لیے بنائی گئی رصدگاہ ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق اہرام زلزلوں کو روکنے کا کام کرتے ہیں….
چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اہرام دراصل پاور پلانٹ ہیں، جنہیں قدیم ادوار کی ترقی یافتہ قومیں توانائی کے حصول کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ یہ توانائی شمسی تھی یا کرسٹل انرجی یا پھر کا سمک ریز، اس حوالہ سے تحقیق ابھی جاری ہے….
پیرانارمل سائنٹسٹ کا کہنا ہے کہ اہرام دراصل ایسے اینٹینا کا کام کرتے ہیں جو توانائی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل اور دوسری جگہ کی توانائیوں کو موصول بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق قدیم اقوام کے لوگ اسے بطور مواصلاتی نظام بھی استعمال کرتے تھے۔ اسی لیے یہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چند محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ مواصلاتی سسٹم ٹیلی پیتھی کے ذریعہ چلتا تھا۔ قدیم مصر کے لوگ اہرام میں بیٹھ کر اپنے ذہن سے خیالات کو دور دراز فاصلے پر موجود اہرام میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک منتقل کردیتے تھے۔
بعض مغربی ریسرچرز کے مطابق اہرام کی ساری پراسراریت اس کی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں پوشیدہ ہے، ان ماہرین کے مطابق اہرام کی ساخت میں ایک خاص توانائی پنہاں ہے، جسے وہ ‘‘بائیوکاسمک انرجی’’ کا نام دیتے ہیں۔
اہرام کے مختلف پہلوؤں پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، مگر اس کے بارے میں جو کچھ بھی تحقیق پیش کی گئی، وہ ماورائیت یا پُراسراریت کے دائرہ سے باہر نہ نکل سکی….اہرام کا مقصد کیا تھا یہ جاننا تو دُور، ابھی تک سائنس اس بات کا کھوج نہیں لگاپائی ہے کہ یہ اہرام تعمیر کیسے ہوئے ….؟
ایک عام تصور جو اہرام کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتاہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تعمیر پانچ ہزار سال قبل فرعون خوفو کے عہد میں شروع ہوئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ مزدور درختوں کے رولروں پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر رسّوں کی مدد سے کھینچتے ہوئے لاتے….
مگر اس تصور کو ماننے میں بعض قباحتیں بھی ہیں، اوّل یہ کہ صرف غزہ Gizaکے اہرام کی تعمیر میں 30 لاکھ کے قریب گرینائٹ کے پتھر استعمال ہوئے ہیں، جن کا وزن 2.6 ٹن سے 70 ٹن تک ہے۔ گرینائٹ کے پتھروں کو بغیر کسی اسٹین لیس اسٹیل کٹر یا لیزر ٹیکنالوجی کے کاٹنا ناممکن ہے اور پتھر کی سطح اتنی چکنی ہے جیسے چاندی کا ورق۔ اگر آج کی جدید ترین مشینریز کے ذریعہ سینکڑوں میل دور ‘‘اسوان’’کے پہاڑوں سے ٹنوں وزنی گرینائٹ کے بلاکس کاٹ کر فی دن دس بلاکس کے حساب سے بھی لاکر لگائے جائیں تو مکمل اہرام کی تعمیر میں 385سال لگیں گے….اوریہ بھی ظاہر ہے کہ کسی ایک فرعون کی عمر بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ محض اپنے مقبرہ کی تعمیر اپنی موت سے 385 سال قبل شروع کراسکے….
دوسری بات یہ کہ آج سے پانچ ہزار سال قبل پوری دنیا کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہوگی ایسے میں صرف مصر جیسے صحرائی خطہ میں جہاں صرف دریائے نیل کے کنارے زرخیز پٹی ہے، وہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا جمع ہونا، جن میں معمار، سنگتراش، ملاح، راہب، سوداگر، کسان سرکاری اہلکار اور فراعین کا اپنا کنبہ الگ، پھر اس صحرائی خطہ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرنا سراسر ناممکن ہے….دوسری جانب دیوہیکل پتھروں کو درختوں کے تنوں پر لڑھکانے کی بات تو مصر کے صحرائی خطہ میں درختوں کے اتنی بڑی تعداد میں درختوں کے تنے کہاں کہ ان سے
صرف لڑھکانے کا کام لیا جاسکے، کھجور کے چند درخت وہا ں ضرور پائے جاتے ہیں مگران کی کھجوریں بطور خوراک استعمال ہوتی تھیں….

مصری میوزیم میں رکھے وہ اوزار ، جو ماہرین آثار قدیمہ کے خیال کے مطابق اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوئے تھے۔

ایک برطانوی ریسرچر کرسٹو فر پی ڈیون برسوں سے اہرام پر ریسرچ کر رہے ہیں، اُنہوں نے قدیم مصر میں ایڈوانس مشینری کے حوالے سے کئی مضامین اور کتابیں تحریر کی ہیں۔ کرسٹو فر پی ڈیون اپنی کتاب ‘‘غزہ پاور پلانٹ’’ میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ 1986ء کے دوران جب مصر میں قاہرہ میوزیم کی سیر کے لیے گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ میوزیم کے ایک کمرے میں پیتل کے مختلف اوزار رکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
‘‘ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ یہ اوزار اہرامِ مصر کی تعمیر میں استعمال ہوتے تھے۔ میں نے معلوم کیا کہ وہ لوگ تانبہ سے گرینائٹ کیسے کاٹ لیتے تھے۔ گائیڈ نے کئی نظریات بتائے مگر میں مطمئن نہیں ہوسکا کیونکہ میں آرکیالوجسٹ نہیں بلکہ ٹیکنالوجسٹ ہوں۔ میں جانتا ہوں کے اتنے بڑے گرینائٹ کو تانبہ سے کاٹنا ناممکن سی بات ہے….پھر میرا اگلا سفر اسوان کا تھا جہاں سے یہ پتھر کاٹ کر لائے جاتے تھے۔ وہاں ملکہ حتشپسوت کا ایک نامکمل ستون موجود ہے جس کا وزن 1170ٹن کے قریب ہے۔ اس کی تراش خراش اور کٹائی کا گہرا جائزہ لینے پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لیتھ مشین کے بغیر ممکن نہیں۔ تقریباً تمام پتھروں کی کٹائی ایک ہی سائز کی ہے اور ان میں 0.001 کا فرق بھی موجود نہیں۔ دوسری اہم چیز جو دیکھنے میں آئی وہ پتھروں میں ہونے والے سوراخ تھے جو ڈرل مشین کے ذریعے ہی کیے جاسکتے ہیں۔ بعض سوراخ ڈھلوانی طور پر کیے گئے تھے اور بعض لچھے دار انداز کے تھے، بعض سوراخ کا قطر 12 انچ اور گہرائی 100 انچ تک ہے۔ یہ بات طے ہے کہ قدیم مصری موجودہ دور میں استعمال ہونے والی جدید مشینوں کی مانند مشینوں کے استعمال سے واقف تھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گرینائٹ کی چٹانوں میں سوراخ کرنے کے لیے وہ الٹراسونک مشین استعمال کرتے ہوں کیونکہ ان کے اُنیس سے پچیس ہزار سائیکل فی سیکنڈ کے ارتعاش سے ہی گرینائٹ میں سوراخ کیے جاسکتے ہیں۔ قدیم مصریوں نے جو گرینائٹ کاٹے تھے، جدید ترقی یافتہ دور کی ڈائمنڈ ڈرل مشین بھی اس کا صرف 500 واں حصّہ کاٹ سکتی ہے’’۔
ان پتھروں کو اُٹھا کر یہاں لانا اتنا بڑا کارنامہ نہیں، اس سے بڑا کارنامہ ان کو اِس ترتیب سے کھڑا کرنا ہے کہ ان میں ہر ایک کے درمیان انچ کے ہزارویں حصّے کا بھی فرق نہیں۔ اتنی بڑی چٹانوں کو اس کاریگری سے لگانا کہ ذرا بھی عیب باقی نہ رہے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کام موجودہ دور میں زیرِاستعمال دیوہیکل مشینوں کے ذریعہ بھی ممکن نہیں ہوسکتا….یعنی اس کام کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہوگی، موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے….

اسوان میں موجود ساڑھے تین ہزار سال قدیم ملکہ حتشپسوت کاایک نامکمل ستون، جس کا وزن 1170ٹن کے قریب ہے۔ اس کی کٹائی، تراش خراش اورایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل جدید قسم کی مشینریز کے بغیر ممکن نہیں۔


پراسرار علوم کے ماہرین ایڈگرکیسی اور لوب سنگ رمپا کے مطابق قدیم مصریوں کے پاس ایسی مشینیں تھیں جو کششِ ثقل کی نفی کرسکتی تھیں۔ جس کی مدد سے کئی ٹن وزنی پتھروں کو پروں کی طرح اُٹھاکر یا ہوا میں تیرا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔
ایک ماہرِعلومِ مصریات ولیم کنگس لینڈ اپنی کتاب ‘‘گریٹ پیرامڈ ان فیکٹ اینڈ فکشن’’ میں تحریر کرتے ہیں کہ
‘‘اہرامِ مصر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کو اُن منتروں کے ذریعے وہاں تک لایا گیا ہے جو پادری اور مزدور پڑھتے تھے….’’
محترم قارئین! یہ بھی تو ممکن ہے کہ مصری راہب کسی ایسے مخفی علم سے واقف تھے جو کششِ ثقل کو ختم کردیتا ہو….؟اور یہ علم بتدریج وقت کی پنہائیوں میں کہیں کھوگیا ہو …..؟
ایک اور پراسرار علوم کے ماہر اور تھیوسوفسٹ اے پی سینٹ اپنی کتاب ‘‘دی پیرامڈ اینڈ اسٹون ہینج’’ میں لکھتے ہیں
‘‘عظیم اہرام کی تعمیر میں ایسے بھاری بھرکم پتھروں کو اس قدر سلیقے اور ہنر مندی سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ لوگ فطرت کے کسی ایسے علم پر دسترس رکھتے تھے جو آج انسان کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ پوشیدہ فطری علوم کے ماہرین ان پتھروں کو اپنی مرضی کے مطابق ہوا میں تیراتے ہوئے اپنی مطلوبہ جگہ پہنچانے کے طریقے سے پوری طرح واقف ہوں گے۔
اہرام کی تعمیر کرنے والے ماضی کے لوگ نجوم اور ریاضی میں بھی کافی حد تک ایڈوانس تھے۔ ایک اور مغربی ریسرچر ایرک وان ڈینکن کے خیال میں اہرام کمپیوٹر کی مدد سے تعمیر ہوسکتا ہے یا پھر شاید دوسرے سیاروں کی ذہین مخلوق نے لیزر شعاعوں سے بڑے بڑے پتھروں کو تراشا ہوگا اور اینٹی گریویٹی یعنی چیزو ں کو بے وزن کردینے والے آلات سے کام لے کر وزنی پتھروں کو نو سو فٹ کی بلندی تک ترتیب وار جوڑا ہوگا۔ ایرک کے مطابق قدیم زمانے میں مصر ایسا مقام رہا ہے جہاں طوفانِ نوح جیسا عظیم اور تاریخی سانحہ پیش آیا، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ طوفان سے قبل اپنی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اہراموں کی تعمیر کی گئی اور طوفانِ نوح سے قبل ایسی قوم موجود رہی ہو جو ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہو۔
سائنسدانوں کے مطابق اہرام مصرآج سے تقریباً پانچ ہزار برس قبل تعمیر کیے گئے، لیکن موجودہ دور میں بھی ایسی ہی محیرالعقول واقعات رونما ہورہے ہیں، جن کی حقیقت کے حوالے سے سائنسدان انگشت بدنداں ہیں اورسمجھ نہیں پارہے کہ انہیں انسانوں نے کیسے بنایا ….؟
مثال کے طور پر نومبر2011ء کے شمارے میں ہم نے انہی صفحات پر ہم نے تذکرہ پیش کیا تھا کہ اس دور میں دنیا کے مختلف ملکوں میں کھیتوں میں تیار فصلوں کی اس خوبصورتی کے ساتھ پراسرار طور پر کٹائی کی جارہی ہے کہ پُراسرار دائرے اور جیومیٹریکل اشکال نمودار ہوجاتی ہیں،
ان پراسرار دائروں کی تشکیل میں انسانی ہاتھ کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ 70 کے عشرے کے بعد سے 2011ء تک تقریباً 1900 اقسام کی دس ہزار سے زیادہ اشکال اور دائرے دریافت ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 90 فیصد دائرے برطانیہ میں دیکھے گئے ہیں، جبکہ باقی دس فیصد کا تعلق امریکہ، افریقہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی امریکہ، روس اور جاپان سے ہے۔ ان پراسرار دائروں کے اندر کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہاں عموماً مقناطیسی لہریں بہت طاقتور ہوتی ہیں۔ ماہرین کو ان پراسرار دائروں کے اندر آواز کی ہائی فریکوئنسی لہروں کی موجودگی کے شواہد بھی ملے ہیں۔ جب کہ کئی ماہرین نے پراسرار دائروں کے اندر تابکاری کی پیمائش بھی کی ہے۔
یہی صورتحال اہرام مصر کے ساتھ بھی نظر آتی ہے ….اہرام بھی دنیا کے کئی خطوں میں پائے جاتے ہیں اور ان میں بھی مقناطیسی لہروں کی شدت نوٹ کی گئی ہے اور اس کی تعمیر میں بھی انسانی ہاتھوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے اور نہ ہی موجودہ دور کی جدیدٹیکنالوجیز سے آراستہ حساس اور دیوہیکل مشینرز اس قابل ہیں کہ ایسی محیرالعقول تعمیر کا کام انجام دے سکیں….
اگر یہ انسانی ذہانت کا کمال نہیں ہے تو کیا ان کو جنّات یا کسی اورماورائی مخلوق نے بنایا تھا۔ یا پھر کسی دوسرے سیارے سے آنے والی خلائی مخلوق نے اس حیرت انگیز تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اہرام کی تعمیر کی اصل وجہ ابھی تک اسرار کے پردوں میں ہے، کیا سائنسدان ان پراسرار حقائق منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے….؟؟

ماضی کے اہرام کی طرح موجودہ دور کے پراسرار دائروں کا وجود بھی عقل کو حیران کیے ہوئے ہے….جس کی خبریں گذشتہ 40 سال سے منظرعام پر آرہی ہیں۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ کھڑی فصلوں میں یہ دائرے عموماً رات کی تاریکی میں بنتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ دائرہ یا ڈیزائن بننے میں ایک منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔موجودہ دور کے اس محیرالعقول عجوبہ کے بارے میں بھی سائنسدان محوحیرت ہیں اورسمجھ نہیں پارہے کہ انہیں کِس نے اورکیسے بنایا ؟ …. اگر یہ انسانی ہاتھ کا کرشمہ ہے ایسی ہزاروں کارروائیوں کے باوجود ان کے کسی تخلیق کار کو آج تک پکڑا یا دیکھا کیوں نہیں جاسکا….؟؟

 

[یہ مضمون روحانی ڈائجسٹ، فروری 2012ء کی اشاعت میں شامل تھا]

یہ بھی دیکھیں

جنات سے ملاقات

چند مشہور شخصیات کےجنات اور ماورائی مخلوق سے ملاقات کے واقعات زندگی میں کبھی کبھی ...

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے سوال و جواب

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *