Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

مائنڈ فُلنیس – 10

 قسط نمبر 10

 

مائنڈ فلنیس میڈیٹیشن کے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہارورڈ میڈیکل اسکول Harvard Medical School کے محققین کی ٹیم میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل Massachusetts General Hospital (MGH)میں ایک تحقیقاتی مطالعہ کیا۔ اس تحقیق کو مائنڈ فلنیس بیسڈ اسٹریس ریڈکشن Mindfulness-Based Stress Reduction (MBSR) کا نام دیا گیا۔ اس میں مریضوں کو 8 ہفتے مائنڈفلنیس میڈیٹیشن کروائی گئی اور ایم آر آئی سکین کے ذریعے ا ن کے دماغ کا مطالعہ کیا گیا۔ سامنے آنے والے مشاہدات اور نتائج نے ماہرین اور تجربہ کار نیورو سائینسٹسٹزکو حیران کردیا۔ان کا کہنا ہے کہ طبی شعبے کی تاریخ میں پہلی بار دماغ کے گرے میٹر (سرمئی مادے )میں اتنی بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کوریکارڈ کرکے دستاویزی صورت میں سامنے لایا گیا ہے ۔
یہ تحقیق ہارورڈ یونیورسٹی کے میگزین ‘‘ہارورڈ گزٹ’’ میں شایع ہوئی۔
یہاں ہم بتاتے چلے کہ گرے میٹر یا سرمئی مادہ دماغ کا ایک حصہ ہے۔ اس سرمئی ماد ے میں ہی دماغ کو ملنے والی تمام معلومات یا انفارمیشن پروسس ہوتی ہیں۔ ہمارے عصبی نظام یا نیورونل باڈیز دماغ کے اسی حصے میں تشکیل پاتی ہیں ۔یہ نیورونز پورے جسم سے معلومات یہاں پہنچاتے ہیں اور انہی کے سگنلز یا اشاروں پر مختلف ہارمونز کا اخراج عمل میں آتا ہے اورہمارا جسم ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔
اس تحقیق کی سینئر محقق سارا لزار Sara Lazarکا کہنا ہے کہ اگرچہ اس ریسرچ کا اصل مقصد میڈیٹیشن کے پرسکون دماغ اور مطمئن ذہن سے تعلق پر تھا۔مگر مائنڈفلنیس میڈیٹیشن کے نفسیاتی مسائل اور اس سے متعلقہ کئی دیگر جسمانی حالتوں میں بہت زیادہ بہتری دیکھی گئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ مائنڈفلنیس میڈیٹیشنز اور مشقوں کے عادی ہیں ان کے دماغ کے گرے میٹر اور اور وہ لوگ جو مائنڈفلنیس مشق نہیں کرتے ان کے گرے میٹر Gray Matterیعنی سرمئی مادے میں واضح فرق نوٹس کیا گیا۔

 

عام شخص اور مائنڈ فلنیس کرنے والے کے دماغ میں گرے میٹر ک کا تناسب


مائنڈفلنیس افراد میں اسٹریس کو کم کرنے والے قدرتی کیمیائی مادے اینڈورفن کی متوازن مقدار پائی گئی ۔اینڈورفن ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔ اسے ہم سادہ زبان میں ایک کیمیائی مادہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ انسانی دماغ میں اب تک اس کی بیس سے زائد اقسام معلوم کی جاچکی ہیں ۔ ان نیوروٹرانسمیٹرز یا کیمیائی مادوں کا تعلق ذہنی سکون ،تحفظ اور طمانیت سے ہے۔ اسٹریس یا ڈپریشن کی حالت ہو یا اچانک صدمہ ان کیفیات میں اس کیمیائی مادے کا اخراج غیرمتوان ہوجاتا ہے اور اس کا اظہار ہمارا جسم مختلف صورتوں میں کرتا ہے۔ مائنڈفلنیس لائف اسٹائل کے عادی افراد کی زندگی میں زیادہ ہم آہنگی اور طمانیت پائی گئی۔ وہ زیادہ پرسکون اور اچھی صحت کے حامل تھے ساتھ ساتھ کم عمر لگتے تھے جس کی ایک وجہ اینڈورفن کی مقداروں کا توازن میں ہونا ہے ۔
یہ تو ہوئی بات اس ریسرچ رپورٹ کی جو ابھی چند برسوں پہلے ہی منظرِ عام پر آئی ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں مائنڈفلنیس کے آج کےموضوع کی۔

 


تنہائی اور مائنڈ فلنیس

دوستو….! آج کا موضوع بھی انتہائی دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تنہائی کے احساس سے باہر آنے میں آپ کی مدد کرے گا۔ آپ کو زندگی کے احساس سے روشناس کرائے گا۔ بالخصوص ہمارے وہ دوست جو سمجھتے ہیں کہ ان کا دماغ بالکل منجمد ہوکر رہ گیا ہے ۔یا وہ خود کو بہت زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں ۔اپنی ذات سے محبت نہیں کرپاتے۔ ان کے لئے یہ معلومات زیادہ اہمیت رکھتیہیں۔
ہم آپ کو بتاتے رہے ہیں کہ ما ئینڈ فلنیس کی مشقوں کے انتہائی مثبت اثرات ان افراد میں دیکھے گئے جو تنہائی محسوس کررہے تھے یا جو خود کو بیجان و بے مقصد محسوس کرتے ہیں ۔
آج ہم آپ کو ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو تنہائی کی اذیت سے دوچار تھی ۔
فرحانہ کولگتا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے لئے ایک بوجھ ہے ۔اس کا وجود بے معنی ،بے کار ہے۔ کسی کو بھی اس کی ضرورت نہیں ۔یہ و ہ الفاظ ہیں جو اس نے اپنے تعارف میں خود ادا کئے تھے۔
پسند کی شادی ہونے کے باوجود اسے وہ پیار، عزت اور تحفظ حاصل نہ تھا جس کی وہ حق دار تھیں ۔ شادی کے چند دنوں کے بعد ہی اس کے شوہر معاشی ضروریات اور خاندانی مجبوریوں کے تحت بیرونِ ملک چل دئیے ۔میکےمیں والدین کی شفقتوں کے ساتھ ساتھ خود اس کی ایک اچھی خاصی ملازمت بھی تھی اور یہاں اب حال یہ تھا اسے حالاتِ زندگی سے اکیلے ہی نبرد آزما ہونا تھا۔ وہ ہمسفر کے ہوتے ہوئے بھی اکیلے زندگی گزارنے پر مجبور تھی اور ایسا کرنے پر اس کی قسمت نے نہیں بلکہ اس کے محبوب شوہر نے مجبور کیا تھا۔ وہ اپنی اور خاندانی مجبوریوں کے باعث اس کو اپنے پاس بلانے سے قاصر تھا۔ ہاں جب کبھی غمِ روزگار سے فراغت ملتی تو ایک دو منٹ کی کال سے فرض ادا ہوجاتا۔اب اس دو منٹ کا ل میں وہ کیاحالِ دل بتاتی۔ دنیا کی اس ستم طریفی کے ساتھ فرحانہ کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے خیالات اور جذبات کوخود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں ۔ اوپر سے گھر والوں کے پے در پے سوالات ،دنیا والوں کی بے فضول قیاس آرائیاں اسے تنہائی میں دھکیلتے چلے گئے۔
اس کا بس ، تو خود اپنی زات پر چلتا تھا ۔وہ خود پر غصہ کرتی، گرگڑاتی شاید کوئی بڑا گناہ ہوگیا تھا اس سے۔ جب جب والدین کے ضعیف تھکے تھکے چہروں پر نظر پڑتی تو وہ خود کو جی بھر کر کوستی اور پھر ہار جاتی ۔
رفتہ رفتہ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت کھوتی چلی گئی ۔اور اب وہ ایک ایسی زندگی جی رہی تھی جس میں نہ کوئی خوشی تھی نہ کوئی کشش ۔گھر والوں کی نظروں سے بھی خود کو بچانے کی کوشش کرتی۔ خاندان والوں اور دنیا والوں کی سوالیہ نظروں سے بچنے کی کوشش میں وہ اپنے کمرے تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ۔ جہاں اب احساسِ محرومی اور تنہائی اس کی ساتھی بن چکی تھیں ۔
یہاں فرحانہ کی پرابلم بتانے کا مقصد آپ کو یہ احساس دلانا ہے کہ مشکل چاہے کتنی ہی بڑی کیوں ناں ہو انسان کے عزم سے زیادہ بڑی نہیں ہوتی۔ مائنڈفلنیس کے حوالے سے دیکھیں تو تنہائی کچھ بھی نہیں سوائے ایک احساس کے ۔ورنہ تو لوگ ہجوم میں بھی اکیلے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تنہائی میں بھی ایک ہجوم ہوتا ہے۔ ایک محفلِ یار ہوتی ہے۔ اب اس کا انحصار آپ کی سوچ پر، آپ کے خیالات پر اور آپ کی طرزِ فکر پر ہے ۔
تو پھر اب یہ جانئیے کہ مائنڈفلنیس کی مشقیں کس طرح آپ کی طرزِفکر کو بدلتی ہیں اور کس طرح آپ کے عزم کو قوی بناتی ہیں ۔

 

صحت منددماغ صحت مند جسم کا ضامن

  ہم نے اکثر سنا ہے آپ جیسا کھاتے ہیں ویسی آپ کی جسمانی صحت ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ جیسا سوچتے ہیں ویسے ہی آپ کی شخصیت ہوتی ہے ۔اب اگر دونوں کا آپس میں تعلق اور میل دیکھا جائے تو جناب اچھی غذا آپ کی جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ذہنی قوت بھی عطا کرتی ہے۔ یاداشت کو بہتر بناتی ہے ۔ خراب یا نا قص غذا آپ کی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔
اسی طرح مثبت خیالات ناصر ف آپ کی شخصیت کو خوبصورت اور بہتر بناتے ہیں بلکہ ان خیالات کی خوبصورتی کا اثر آپ کی جسمانی صحت پر بھی ہوتا ہے۔ جب کہ ناقص اور منفی خیالات آپ کی شخصیت کو تو مسخ کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ جسمانی صحت کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
وقت اورحالات کچھ بھی ہوں اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کی عادت ڈالئے ۔

 

  مائنڈفلنیس ٹچ

  انسان کی حیثیت حواس خمسہ کے بغیر بالکل ادھوری ہے ۔ہم زندہ ہیں یہ احساس ہمیں ہوتا ہے جب ہم سنتے ہیں ۔دیکھتے ہیں ، کھاتے ہیں ،پیتے ہیں۔ یہ سماعت بصارت یہ بولنا یہ دیکھنا ہی ایک جیتی جاگتی زندگی کا احسا س دلاتا ہے ۔
دوستو ! زرا غور کیجئے۔ مذکورہ بالا ہر حس انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ مگر ان میں سے ایک حس ایسی بھی ہے جو ان تمام حواس کو زندگی بخشتی ہے۔ نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے اور وہ ہے لمس کا احساس ۔جسے ہم چھونے کی حس کہتے ہیں ۔
چھونے کی حس کتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ آپ اس طرح لگائیے کہ آپ کسی بھی چیز کا ذائقہ اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ اس غذا کے ذرات آپ کی زبان پر موجود ریسیپٹرز جنہیں ہم ٹیسٹ بڈس کہتے ہیں کونہ چھولیں۔ ہم موسیقی سے تب ہی لطف اندوز ہوپاتے ہیں کہ جب موسیقی کے ساز کے تار ایک دوسرے کو چھو لیتے ہیں اور اس سے چھڑنے والے مدھر سرکی مخصوص طولِ موج ہوا کے دوش پر سوار ہمارے کانوں کے سماعتی نظام سے ٹکراتے ہیں ۔ہم دیکھ بھی نہیں سکتے کہ جب تک کسی بھی شئے میں سے خارج ہونے والی مقناطیسی لہریں نگاہ کے پردے سے نہ ٹکرائیں یعنی پردے کوچھوئے بغیر وہ عکس نہیں بنا سکتیں اور پھر کیا ہی بات ہے اس حس کی کہ جب کسی دلعزیز کسی عزیز از جان کا ہاتھ جلتی ہوئی پیشانی کو چھو لے تو روح تک پھیل جاتی ہے تاثیر مسیحائی کی ۔ اور جب چھونے کی یہ تاثیر مائنڈفلنیس ٹچ بن جاتی ہے تو پھر اس سے ہماری ذات کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں ۔یہ ایک نہ ختم ہونے والی کتاب ہے ۔

 

جانئے مائنڈفلنیس ٹچ ہے کیا؟

مائنڈفلنیس ٹچ دراصل آپ کو آپ کے اپنے ہی لمس سے روشناس کرواتا ہے ۔
یہ آپ کو سکھاتا ہے کہ آپ کس طرح اپنے لمس کو محسوس کریں ۔آپ کس طرح اپنے اندر دور کرتی توانائی کو خود اپنے لئے تعمیری بنا سکتے ہیں ۔
مائنڈفلنیس ٹچ کس طرح آپ کے ہارمونز کو متحرک کرتا ہے اور ان کے اخراج کو متاثر کرتا ہے اس کی سائینس فی الحال زائد از تفصیل ہے ۔بہتر ہے کہ ہم اس کی مشقوں پر اپنا پورا دھیان رکھتے ہوئے انھیں باقاعدگی سے کریں اور ایک مائنڈفلنیس لائف جینے کی عادت ڈالیں ۔فوائد خود بخود آپ کے سامنے آتے چلے جائیں گے۔
مندرجہ ذیل تمام مشقیں عام نوعیت کی ہیں انہیں سب لوگ کرسکتے ہیں۔ جو خوش ہیں وہ ہمیشہ خوش رہیں اور جو ذرا کم خوش ہیں وہ خوش رہنا سیکھلیں ۔

 

مشق نمبر 1

Mindfulness Touch

ا پنے دل پر ہاتھ رکھیں 

نومولود جب اس دنیا میں آتا ہے تو پہلا احساس پہلی حس، جس سے متعارف ہوتا ہے وہ چھونے کی حس ہے ۔ماں کی بانہوں کا لمس ۔وہ تھپکتی ہے سینے سے لگاتی ہے اور دونوں کو قرار آجاتا ہے ماں کو نعمت ملنے کا احساس ، نومولود کو تحفظ کا احساس مل جاتا ہے۔
بس یہی وہ تکنیک ہے جسے آپ نے اپنے معمول کا حصہ بنانا ہے ۔بظاہر یہ چھوٹی سی مشق ہے۔ مگر جذبات کو سمجھنے میں بہت موثر ثابت ہوئی ہے ۔ یہاں جذبات کو سمجھنے سے ہماری مراد ہے کہ جس لمحے آپ کو نہ صرف اپنے بلکہ کسی اور کے درد کا بھی احساس ہو۔تو جب بھی آپ کو کسی کی یاد، کوئی کمی، یا پھر کبھی کہی گئی یا سنی گئی کوئی تلخ بات یاد آجائے تو نرمی سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیجئے۔ اور دو منٹ تک مائنڈفلنیس سانس کی مشق کیجئے۔ اگر آپ چاہیں تو اس دوران آنکھیں بھی بند رکھ سکتے ہیں۔ مگر دومنٹ تک ہاتھ کو دل پر ضرور رکھیے۔
Trauma Expert پیِٹر کے تجزئیے کے مطابق دل پر ہاتھ رکھنے کی مشق ایک کامیاب مشق ثابت ہوئی ہے۔ دراصل چھونے کی حس کا تعلق بھی رابطے سے ہے۔
جب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہیں تو آپ کے انگلیوں سے نکلنے والی توانائی آپ کا آپ سے رابطہ بناتی ہے ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے مائنڈفلنیس کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارے نروس سسٹم میں پھیلے ہوئے نیورونزکا جال چھونے کے احساس پر فوری متحرک ہوجاتا ہے اورفوری responseکرتا ہے۔ نیوروسائینسٹز یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ پریکٹس جیسے جیسے آپ کا حصہ بنتی جاتی ہے ویسے ویسے آپ ناصرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی نرم اور مثبت جذبات محسوس کرتے ہیں۔
آپ نا صرف اپنے ساتھ بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی نرم رویہ اختیار کرتے ہیں ۔

 

 

مشق نمبر 2

  آپ کے پاؤں اور قالین سے مساج 

  آج ایک دلچسپ مشق آپ کو بتاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے اس سے پہلے یہ مشق ہمارے کم ہی قارئین نے کی ہوگی۔
یہ ایک طرح کا مساج ہے ۔جس کے لئے کسی اور کی نہیں آپ کو اپنی ہی ضرورت ہے۔ اپنے تلووں کو قالین یا چادر پر انتہائی ملائمیت اور آہستگی سے سہلائیے یا مسلیئے جیسے کہ ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے کسی کپڑے کی نرماہٹ کو ہتھیلیوں سے رگڑتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔بالکل اسی طرح آپ بہت نرمی اور آہستگی کے ساتھ اپنے پیروں کو کسی قالین پر آہستہ آہستہ پھیر ئیے یا مسلئے ۔اس طرح کہ اس کے روئیں کی نرماہٹ کو آپ کے پیروں کے تلوے بہت اچھی طرح محسوس کریں ۔یہ رگڑنے کا احساس بالکل سہلانے جیسا ہونا چاہیئے۔ خیال رہے کہ قالین زیادہ کھردرا نہ ہو۔
اس عمل سے آپ کے ذہن کوبہت سکون ملے گا۔اس مشق کو جتنی دیر چاہیں جاری رکھیئے ۔اپنے تلوں پر ہونے والی سرسراہٹ کو خوب غور سے محسوس کیجئے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ قالین کے روئیں کی نرم نرم سی سختی آپ کے پیروں میں موجود پوائینٹس کو متحرک کرتی ہے اور نرو اینڈنگز Nerve Endings میں سینسیش کو تیز کرتی ہے جو آپ کے لئے توانائی اور ساتھ ساتھ سکون و طمانیت کا باعث بھی بنتا ہے۔
اگر آپ قالین پر یہ مشق نہ کرنا چاہیں تو کمبل یا پھر کھیس بھی اس کا نعم البدل ہو سکتے ہیں ۔صبح بستر سے اُٹھنے سے پہلے یا رات کو سونے سے پہلے آپ اس انوکھے مساج سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔

 

مشق نمبر 3

  اپنی انگلیوں سے اپنا چہرہ دیکھئے

پرکشش چہرہ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہی چھپا ہے۔یقین نہ آئے تو یہ مشق کیجئے اورخود جان لیجئے ۔یہ مشق ناصرف آپ کو پرکشش بنائے گی بلکہ آپ میں اعتماد بھی بڑھائے گی۔ یہ مشق آپ کو خود سے پیار کرنا بھی سکھائے گی۔آپ کو آپ کے ہونے کا احساس بھی دلائے گی۔
اب اپنی مشق کا آغاز کرتے ہیں ۔
آئینے کے سامنے بیٹھ جائیے یہ ضروری تو نہیں مگر اس سے فائدے جلد حاصل ہوں گے۔
آنے والے خیالات پر سے توجہ بالکل ہٹا لیجئے ۔
آپ کے بیٹھنے کی پوزیشن آرام دہ ہو۔ماحول پرسکون ہو۔
مائنڈفلنیس سانس کی مشق کم سے کم دو منٹ تککیجئے ۔
یہ یاد رکھیئے کہ ہمارا گمان ہماری پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔اس مشق کے لئے اپنے گمان یعنی احساس کو خیالات کو مکمل طور پر مثبت رکھنا بہت ضرورہی ہے۔
اپنی آنکھوں کو بند کر لیجئے ۔
اب اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیجئے ۔جیسے شرماتے ہیں یا مسکراہٹ کو چھپاتے ہیں ۔سیدھا سیدھا کہیں گے تو بڑا شاعرانہ سا ہوجائے گا مگر یہ کہ آپ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا لیجئے۔
خیال رکھیئے کہ آپ کی آنکھیں بند ہیں ۔
اب آہستہ آہستہ دس تک گنتی گنیں ۔
اس دوران میں اپنا سارا دھیان اپنی انگلیوں کی پوروں اور چہرے کی کھا ل کے درمیان پیدا ہونے والے رابطے پر مرکوز رکھیئے ۔
اب آپ اس حرارت پر توجہ دیجئے جسے آپ کا چہرہ محسوس کررہا ہے ۔
اس مشق کے دوران آپ کا خیال جیسے ہی کسی شور یا آواز کی جانب جائے بالکل بھی اہمیت نہ دیجئے ۔
اب آہستہ آہستہ گہر ے لمبے سانس لیجئے ۔
رفتہ رفتہ اپنی سانس لینے کی رفتار کو نارمل حالت پر لے آئیے
اب اپنی انگلیوں کی پوروں کو اپنے چہرے پر دھیرے دھیرے پھیریئے ۔
یاد رہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہیں اور آپ اپنی انگلیوں کی پوروں سے خود کو دیکھنے کی کوشش کررہےہیں۔
سب سے پہلے انگلیوں کے پور سے اپنی پیشانی کو چھوئیے۔ دل میں دہرایئے کہ یہ آپ کی پیشانی ہے ۔اس کی کھال اور ساخت کو ذہن میں لائیے ۔
اب اپنی آنکھوں کی ساخت کو محسوس کیجئے ۔غور کرنے کی کوشش کیجئے کہ آپ کی آنکھیں بڑی ہیںیاچھوٹی ۔
اب آنکھوں کے پپوٹوں پر نرمی سے انگلیوں کوپھیریئے ۔
اب انگلیوں کی یہی حرکت دہراتے ہوتے اپنے گالوں کو چھوئیے۔ ان کی نرماہٹ کو محسوس کیجئے ۔اپنے گالوں کی کھال کو محسوس کیجئے۔ ہو سکتاہے آپ کی لاپرواہی سے یا موسم کی وجہ سے جلد کھردری ہورہی ہو،اس میں خشکی محسوس ہورہی ہو ایسا ہو تو اس کے لئے مشق کے بعد کوئی موئسچرائزر ضروراستعمال کیجئے ۔
اسی طرح ناک کو چھوئیے ۔بند آنکھوں سے بس اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کی ساخت کو پہچانئیے۔محسوس کیجئے حرارت کو ۔ آپ کی کھال آپ کی انگلیوں سے نکلنے والی حرارت کو محسوس کررہی ہے ۔
اسی طرح اپنے ہونٹوں پر ،تھوڑی پراور پھر آہستہ آہستہ کانوں کی لوؤں سے نکلنے والی حرارت کو محسوسکیجئے ۔
اپنی آنکھوں کو مسلسل بند رکھیئے اور دوبارہ سے اپنے پورے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیجئے۔تھوری دیر اسی طرح بیٹھے رہیئے ۔
تھوڑی دیر بعد اپنے چہرے سے ہاتھوں کو اٹھالیجئے۔ مگر آنکھیں بند رکھیئے ۔
غور کیجیے کہ اب آپ خود کو کتنا زیادہ پرسکون محسوس کر رہے ہیں؟۔سانس لینے کی رفتار کو نارملرکھیئے
۔اب آپ کے خیالوں میں جو چہرہ آپ کا ابھرا، جسے آپ نے اپنی انگلیوں سے دیکھنے کی کوشش کی تھی ۔ اسے بند آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کیجئے ۔ اورپورے اعتماد کے ساتھ اپنے خدوخال کو سامنے لائیے ۔لیکن بند آنکھوں سے ۔ہو سکتا ہے کہ اس مرحلے پر آپ کو گھبراہٹ ہو یا رونا آئے تو فورا ًاپنا دھیان سانس کے آنے جانے پر لے جائیے۔اس لمحے اگر کسی کم مائیگی کا احساس پیدا ہو تو فوری طور پر اسے سانس کے ساتھ باہر نکال دیجئے ۔
۔اب آپ اپنے موجودہونے کا احساس کیجئے ۔آپ کا وجود ہے ۔آپ کا اپنا چہرہ ہے۔جو مکمل ہے خوبصورت ہے ۔خود کو اسی روپ میں دیکھنے کی کوشش کیجئے جو آپ چاہتے ہیں ۔
۔اگر آپ کو نظر نہ بھی آئے تو کوئی بات نہیں لیکن اس مشق کے دوران آپ کے اندر ایک احساس ضرور جاگے گا۔آپ کا من چاہا روپ چاہے سامنے آنے میں خواہ کچھ عرصہ لگے لیکن اس کی فیلنگ ضرور پیدا ہوجائے گی۔ بس اب آپ اپنی اسی فیلنگ پر اپنا پورا دھیان لے جائیے ۔
اب آپ نے اس فیلنگ کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔کچھ بھی نہیں سوچنا نہ کسی آواز ،نہ کسی خیال کو خود پر حاوی ہونے دینا ہے ۔
۔جتنی زیادہ دیر آپ اس فیلنگ اس احساس میں رہ سکتے ہیں اس میں خود کو بالکل جذب کرکے رکھیے۔
۔اب اپنے چہرے پر مائنڈفلنیس مسکان کو سجائیے۔
اللہ کا شکر ادا کیجئے ۔کہ اس نے آپ کو زندگی کی نعمت عطا فرمائی ۔شکر ادا کیجئے کہ آپ محسوس کرسکتےہیں۔
۔اچھی طرح جان لیجئے کہ آپ تنہا نہیں ہیں ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو پیدا کرنے والی زات ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتی ہے ۔
۔خود آپ کا وجود آپ کے اپنے رحم و کرم پر ہے۔ اس کاخیال رکھیئے۔ اس سے محبت کیجئے ۔اس کی عزتکیجئے ۔
۔اللہ کی ہر نعمت کا تہہ دل سے شکر ادا کیجئے اور اسی کیفیت میں اب آپ بالکل آرام اور اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئیے اپنی آنکھیں کھول لیجیے ۔
۔آپ کے بالکل سامنے آئینہ ہے اور اس میں آپ کا مسکراتا ہوا چہرہ ہے ۔
۔ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں جیسے جیسے یہ مشق کرتے رہیں گے ایک بہت خوبصورت، تروتازہ گلاب سا مسکراتا آپ کا اپنا روپ آپ کے سامنے ہوگا ۔اس پر مزید دھیان دیجئے ۔خوب تفصیل سے خوب پیار سے اسے دیکھیئے اور اپنے اندرجذب کر لیجئے ۔اچھی طرح یقین کر لیجئے کہ ہنستا مسکراتا پرکشش چہرہ آپ کا ہیہے۔
یہ مشق ،ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ جب آپ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھیں گے۔ تو گالوں کی لالی، آنکھوں کی چمک ہونٹوں کی مسکان دیکھ کر بے ساختہ اللہ کا شکر ادا کرنے کو جی چاہے گا ۔
مائنڈ فل نیس کے بارے میں کوئی سوال ذہن میں آئے یا کسی مشق کے حوالے سے کوئی وضاحت درکار ہو تو روحانی ڈائجسٹ کے پتے پر بذریعہ ای میل یا بذریعہ خط رابطہ کرسکتے ہیں ۔
ہمیں آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
۔

 

 

 

 

                     (جاری ہے)

تحریر : شاہینہ جمیل

دسمبر 2015ء

;

 

یہ بھی دیکھیں

مائنڈ فُلنیس – 17

   قسط نمبر 17       دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک آپ کی اچھی ...

مائنڈ فُلنیس – 16

   قسط نمبر 16       ایک سیانے کا قول ہے : ‘‘پریشانی اور ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *