Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

آئیے مراقبہ کرتے ہیں ۔ 9

حصہ 9

کیا آپ کی یہ خواہش ہے کہ لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوں ۔ آپ سے مشورہ طلب کریں ۔ آپ کی رائے پر چلیں ۔ آپ کے انداز کی تقلید کریں ۔
بہت سے لوگ زندگی میں آئیڈیل کے قائل ہیں ۔ کیا آپ کی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ آپ کی ذات کو اپنا آئیڈیل قرار دیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ بات اس وقت آپ کو ناممکن معلوم ہورہی ہو لیکن یہ ناممکن نہیں… ایسا ہوسکتا ہےخاص طورپر ان لوگوں کے لئے یہ مقام حاصل کرنا اور بھی آسان ہے جو اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں استاد کے منصب پر فائز ہیں ۔ گو کہ استاد صرف تعلیمی اداروں میں ہی نہیں ہوتے ، زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف لوگ استاد یا معلم کا درجہ حاصل کرتے ہیں ۔ ٹیچر کا کام صرف تدریس ہو تو یہ محض ایک پیشہ ہے جیسے انجینئر ، اکاؤنٹنٹ وغیرہ ۔معلمی ایک عظیم اورقابل صد افتخار منصب اور مرتبہ بھی ہے ۔ معلم کا کام اپنے شاگردوں کوصرف علوم کی منتقلی نہیں بلکہ ان کے اخلاق کی درستگی اور ان کے کردار کی تشکیل بھی ہے ۔


انفرادی طورپر شخصیت کی تعمیر یا کردار سازی کامعاملہ ہو یا معاشرہ کو منظم بنانے اور ان کی اصلاح کے کام ہوں ، ان کاموں کی ذمہ داری تنہا کسی فرد یا محض کسی ایک طبقہ کی نہیں ہوتی ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے معاشرے کے مختلف عناصر باہم مل کر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں ۔ معاشرے کے ان عناصر یا طبقات میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی اہمیت ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت اچھے استادکیہے۔
موجود ہ دور میں معاشرے کی مختلف خرابیوں اور ان کے سدباب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ماہرین قوم میں تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ مسائل کے حل کے لئے اور معاشرے کو منظم خطوط پر چلانے کے لئے تعلیم کے فروغ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ صرف تعلیم کا فروغ پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہے ۔ پاکستان میں کراچی ، لاہور ، راولپنڈی ، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں آبادی کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود معاشرتی انتشار ، بے ہنگم پن اور کئی دوسری خرابیاں ہمیں ان شہروں میں بھی واضح طورپر دکھائی دیتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان شہروں میں تعلیم کی فراوانی کے باوجود یہاں ایسے بہت سے مسائل اور معاشرتی بگاڑ کیوں موجود ہیں… ؟ ہماری نظر میں ان معاشرتی خرابیوں کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اور تعلیمی ادارے علم توفراہم کررہے ہیں لیکن یہاں تزکیہ یعنی کردار سازی کی طرف توجہ نہیں دی جارہی۔
مونٹیسوری یا پرائمری ٹیچرہوں یا سیکنڈری کلاسز کے اساتذہ ، کالج یا یونیورسٹی کے لیکچرار ہوں یا پروفیسر عموماً یہ سب اپنے شاگردوں کو علوم کی بہتر طورپر منتقلی کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے ایک استاد کا اپنے متعلقہ سبجیکٹ پر زیادہ سے زیادہ عبور اور اس سبجیکٹ کے حوالے سے تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ (UPDATE) رہنا ، اپنی بات سمجھانے کے لئے عام فہم ، پرکشش اور دلنشین طرزتعلیم ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کلاس روم کے تمام طلبہ وطالبات کے مختلف ذہنی معیار(MENTAL LEVEL)کے باعث وجود میں آنے والے مجموعی ماحول کوسمجھنا اور اس مجموعی ماحول کے ساتھ ساتھ کلاس روم میں موجود تمام نہیں تو بیشتر طلبہ وطالبات کے انفرادی مزاج وافتاد طبع کو ذہن میں رکھنابھی ضروری ہے ۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں استاد کا کام شاگردوں کو محض سبق پڑھادینا یا صرف علوم کی منتقلی یا کسی خاص مضمون سے متعلقہ معلومات فراہم کردینا ہے ؟ ان لوگوں کے نزدیک جو ٹیچنگ کو دوسرے عمومی پیشوں کی طرح محض ایک پیشہ سمجھتے ہیں اس سوال کا جواب شاید ہاں میں ہو لیکن جو لوگ ٹیچنگ کو ایک عظیم اور قابل صدافتخار منصب سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا ۔ کیونکہ صرف کتابی سبق پڑھادینے یا کتابی علم کی منتقلی کے ذریعے اخلاق کی درستگی ، شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔ نوجوانوں کے کردار کی تشکیل میں اساتذہ کا بہت اہم اور مؤثر رول ہے ۔ اس رول کی اہمیت کے پیش نظر اساتذہ سے قوم کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اس رول کی بحسن وخوبی ادائیگی اور قوم کی توقعات کی تکمیل کے لئے ‘‘استاد’’ کو ہمہ وقت ذاتی تربیت ، مزید علم کے حصول ، خوداحتسابی کے مراحل سے گزرتے رہنا ضروری ہے ۔
ایک معلم کے لیے نسلی فاصلہ (GENERATION GAP) بالکل بے معنی چیز ہونی چاہیے ۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ استاد اپنی عمر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی لازمی اور فطری ذہنی تبدیلیوں کا راستہ روک دے ۔ یہ تو خود ایک خلاف فطرت بات ہوگی ۔ جنریشن گیپ پیدا نہ ہونے دینے سے مراد یہ ہے کہ پختہ عمر کا استاد بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اپروچ کوسمجھنے کی کوشش کرے اور ان کے فطری تقاضوں اور ذہنی رویوں کی بلاوجہ مخالفت اور مزاحمتنہکرے ۔


آیئے مراقبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلہ مضامین میں اس ماہ ہم قوم کے معمار طبقے یعنی اساتذہ کرام کے لیے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کے لئے چند مشقیں تجویز کررہے ہیں ۔
ان مشقوں کے نتیجے میں ذہنی صلاحیتوں میں ہونے والے اضافہ سے توقع ہے کہ اساتذہ میں کام کے دباؤ کے باوجود ذہنی اور اعصابی تکان کی کیفیت پیدا نہیں ہوگی ۔
اساتذہ کی ذہنی صلاحیتوں میں یہ اضافہ استاد و شاگرد ریلیشن شپ کے بہتر قیام ، شاگردوں کی اصلاح ، شاگردوں کو علوم کی منتقلی اور ان میں بصیرت ودانش کے اوصاف پیدا کرنے میں ممد ومعاون ہوگا۔ بطور استاد مخلصانہ طورپر آپ اپنے شاگردوں میں یہ تاثر اور یقین پیدا کردیں کہ آپ کو ان کی ذات سے بہت محبت ہے اور آپ ان کی ذات کو بہترین اوصاف سے بہرہ ور اور انہیں زندگی میں کامیاب وکامران دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور یہ کہ آپ کی تمام کوششوں کا محور اپنے طالبعلموں کا روشن مستقبل ہے ۔ اپنے شاگردوں میں یہ احساس پیدا ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ خود دیکھ لیں گے کہ شاگرد کس طرح آپ کی محبت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔ آپ کی شخصیت سے کس قدر متاثر ہوتے ہیں اور ان میں سے کتنے ہی آپ کو اپنا آئیڈیل قرار دینے لگیں گے ۔
ان مشقوں میں قرآنی آیات ، اسمائے الہٰیہ ، درودشریف کا ورد اورمراقبہ شامل ہیں ۔
قرآنی آیت
ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر ( سورۂ قمر )
درود خضری:
صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد وسلم
اسمائے الہٰیہ :
یا علیمُ یا فتّاحُ یا خبیر
صبح فجر کی نماز کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے ایسے کمرہ میں جہاں اندھیرا ہو یا بہت کم روشنی ہو تخت پر یا فرش پر روئی کا گدا اور چادر بچھاکر بیٹھ جائیں ۔ کسی خاص انداز نشست کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ دو زانو ہوکر ، آلتی پالتی مارکر دونوں ہاتھ کی کلائیاں گھٹنوں پر رکھ کرجس طرح بھی آپ آرام دہ اور بہتر محسوس کریں بیٹھ جائیں ۔ دو تین منٹ تک گہرے گہرے سانس لیں ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک سے ایک لمبا سانس لیں اور پھیپھڑوں کو زیادہ سے زیادہ ہوا سے بھرلیں ۔ چند سیکنڈ تک سانس روکے رکھیں پھر دونوں ہونٹوں کو گولائی میں لاکر اس طرح جیسے سیٹی بجاتے ہیں ، آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دیں ۔ جب پھیپھڑے ہوا سے کافی حد تک خالی ہوجائیں تو ایک دوسیکنڈ تک توقف کریں اور دوبارہ ناک سے سانس اندر لیں اور پہلے کی طرح سارے عمل کو دہرائیں ۔ اس طرح شروع کے چند دنوں میں تین سے پانچ بار کریں پھر آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھاتے رہیں اور چند دنوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد اکیس تک لے جائیں ۔ سانس کی مشق کے بعد قرآنی آیت ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر اکتالیس بار پڑھیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسماء یا علیم ُ یافتّاح ُ یاخبیر ایک سو ایک بار پڑھیں۔ اس کے بعد اکیس بار دورد خضری ﷺ کا ورد کریں ۔ درود شریف کے بعد نیلی روشنی کا مراقبہ شروع کریں ۔
اندازاً دس منٹ تک مراقبہ کریں ۔ مراقبہ کے بعد چند منٹ تک گدے پر بیٹھے رہیں اور پھر اٹھ جائیں ۔ رات کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد سونے کے لئے بستر پرجاسکتےہیں ۔
سونے سے قبل بات چیت کرنے ، مطالعہ کرنے یا کوئی اور کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ صبح کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد ہلکی جسمانی ورزش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد دیگر کام کاج میں مشغول ہوجائیں ۔ اگر صبح کے وقت مراقبہ کریں تو مراقبہ کے بعد سونے سے گریز کریں ۔ صبح مراقبہ ناشتہ سے قبل کریں اور رات کو کھانا کھانے کے ڈھائی گھنٹے بعد مراقبہ کریں ۔ مراقبہ میں آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ آپ نیلے رنگ کے ماحول میں بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ کمرے میںنیلے رنگ کا بلب یا نیلے رنگ کی ٹیوب لائٹ سے کمرے کے ماحول میں نیلا رنگ غالب آجاتا ہے ۔
صبح شام اکیس بار اسمائے الہٰی یا علیمُ یا فتّاحُ یا خبیر پڑھ کر ایک ٹیبل اسٹون شہد پر دم کرکے پئیں ۔

 

(جاری ہے)

 

 

 

۔

(جاری ہے)

مارچ 2013ء

یہ بھی دیکھیں

ریفلیکسولوجی – 4

ستمبر 2019ء –  قسط نمبر 4 پچھلے باب میں ہم نے انسانی جسم کے برقی ...

آئیے مراقبہ کرتے ہیں ۔ 11

حصہ 11 نوجوانوں اور طالب علموں کے لیے مراقبہ گزشتہ سے پیوستہ   ہرانسان کی ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *