آئرلینڈ کے لوگوں میں ایک بہت دلچسپ اور مزاحیہ حکایت مشہور ہے ، کہ کسی زمانے میں آئرلینڈ میں ایک دیوہیکل رہتا تھا جسکا نام فنماکولFinn MacCool تھا، اس کی اسکاٹلینڈ کے ایک شخص بیننڈونر Benan donner سے دشمنی تھی ۔ وہ اس کے ساتھ طاقت آزمائی کرنا چاہتا تھا۔ مگر ایسا کرنے کیلئے اِن میں سے ایک کو سمندر پار کرکے دوسرے کے علاقے میں پہنچنا تھا۔ لیکن اُنکے پاس اتنی بڑی کشتی نہیں تھی جس میں وہ سفر کر پاتے۔ اِس مشکل کو حل کرنے کیلئے فنماکول نے پتھروں کے بڑے بڑے ستونوں کو استعمال کرتے ہوئے اسکاٹلینڈ اور آئرلینڈ کے درمیانی سمندر پر ایک عظیم شاہراہ بنائی۔
اسکاٹلینڈ کا بیننڈونر مقابلے کیلئے تیار ہو گیا اور شاہراہ کے ذریعے سمندر پار کرتے ہوئے آئرلینڈ پہنچا۔ بیننڈونر، فنماکول سے نہ صرف بڑا تھا بلکہ اُس سے زیادہ طاقتور بھی تھا۔ جب فنماکول کی بیوی نے بیننڈونر کو دیکھا تو اُس نے اپنے شوہر کا بھیس بدلنے کیلئے چالاکی سے اُسے چھوٹے بچوں کے کپڑے پہنا دئے۔ پھر جب بیننڈونر اُنکے گھر پہنچا اور اُسکی نظر اُس ‘‘بچے’’ پر پڑی تو وہ خوفزدہ ہو گیا۔ اُس نے سوچا کہ اگر بچہ اتنا بڑا ہے تو اُسکا باپ کتنا بڑا ہوگا؟ وہ فوراً وہاں سے بھاگ نکلا۔ سکاٹلینڈ کی طرف دوڑتے دوڑتے وہ شاہراہ کو بھی تباہ کرتا گیا تاکہ فنماکول اُسکا پیچھا نہ کر سکے۔
یہ مزاحیہ حکایت صدیوں سے آئرلینڈ میں سنائی جارہی ہے اور تین سو سال قبل کی آئرش لوک کہانیوں کی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی آئرلینڈ میں اِس شاہراہ کی باقیات موجود ہے، اس پُل کے جو پتھر باقی ہیں اُنہیں انگریزی میں ‘‘جائنٹس کوزوئے’’ Giant’s Causeway یعنی دیوہیکل شاہراہ کہا جاتا ہے۔اسے دیکھنے کیلئے لوگ دُور دُور سے آتے ہیں اور اس بات پر حیرت کرتے ہیں کہ اگر یہ محض آئرلینڈ کی پرانی لوک داستان ہے تو یہ شاہراہ اصل میں کیسے وجود میں آئی ….
یہ شاہراہ شمالی آئرلینڈ کے شہر بیلفاسٹ Belfast کے شمالی مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس ساحل پر لگاتار 6 میٹر [20فٹ] اُونچے ستون کھڑے ہیں ، کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں چالیس ہزار ایسے ستون موجود ہیں۔ ان ستونوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اُنکی شکل بھی بہت متاثر کن ہے۔ ستون 39 سے لے کر 51 سینٹیمیٹر [15 تا 20 اِنچ] چوڑے ہیں۔ ستون اُوپر سے برابر ہیں اور دیکھنے میں چھ کونیا لگتے ہیں۔ اگر اِن ستونوں کو اُوپر سے دیکھا جائے تو وہ ایک شہد کی مکھی کے چھتّے کی طرح لگتے ہیں۔ لیکن بہت سے ستون پانچ کونیا ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ستون ہیں جنکے4، 7،8 اور 9 کونے ہیں۔
اس دیوہیکل شاہراہ کے تین حصے ہیں۔ سب سے بڑا حصہGrand Causeway سمندر کے کنارے شروع ہوتا ہے۔ پہلی نظر میں یوں لگتا ہے جیسے اُونچے نیچے ستون بےترتیبی سے کھڑے ہوں لیکن جیسے جیسے ستون سمندر کی طرف بڑھتے ہیں اُنکی اُونچائی برابر ہوتی جاتی ہے۔ یہ حصہ ایک سڑک کی طرح لگتا ہے۔ اِس مقام پر شاہراہ 20 سے لے کر 30 میٹر [60تا100 فٹ] چوڑی ہے۔ جو آگے جاکر سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ جب سمندر کے پانی کا چڑھاؤ کم ہونے لگا تو لوگ پھرستونوں پر ٹہلنے لگتے ہیں۔ سمندر کی لہروں تلے ستونوں کا سلسلہ ایسا لگتا تھا جیسے وہ سکاٹلینڈ کی جانب رُخ کر رہا ہو۔
شاہراہ کے باقی دو حصے Middle Causeway اور Little Causeway اصل میں شاہراہ نہیں بلکہ ستونوں کے ٹیلے ہیں۔ ساحل پر تقریباً 6کلومیٹر [4 میل] شاہراہ کے دوسری طرف ہزاروں ستون ایک بڑی چٹان کی ترتیب میں کھڑے دکھائے دیتے ہیں۔ انکی ترتیب سیڑھیوں کی طرح ہے اسلئے ان پر آسانی سے چڑھا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرتے وقت احتیاط برتنی چاہئے کیونکہ سمندر کے پانی کی وجہ سے ان ستونوں پر پاؤں پھسل سکتا ہے۔
مقامی لوگوں نے ان ستونوں کو اس کی اشکال کی مناسبت سے مختلف نام دئے ہیں، کئی ستون لمبے اور برابر ہیں اسلئے اُنکے مجموعے کو موسیقی کا ایک ساز آرگن کے نام پر giant organ کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹیڑھے ستونوں کے ایک مجموعے کو بربط Giant’s Harp کہا جاتا ہے۔
دوسرے ستونوں کے نام دیوہیکل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیو کا کرگھاGiant’s Loom ، دیو کا صندوقGiant’s Coffin, ، دیوکی توپGiant’s Cannons ، دیو کی آنکھیںGiant’s Eyes اور دیو کا جوتاGiant’s Boot وغیرہ….
دیوکا جوتا شاہراہ سے کچھ فاصلے پر ساحل پر واقع ہے۔ یہ 2 میٹر [7 فٹ] اُونچا ہے۔ کئی لوگوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جس دیوہیکل نے یہ بوٹ پہنا ہوگا، اُسکا قد کمازکم 16 میٹر [53 فٹ] ہوگا۔
ستونوں کا ایک اَور مجموعہ چمنیوں جیسا لگتا ہے۔ ہوا اور پانی کے اثر کی وجہ سے یہ مجموعہ بڑے چٹان سے کٹ گیا ہے۔ اِسکو دیکھ کر ایک دلچسپ واقعہ مقامی لوگ سناتے ہیں کہ سن 1588ء میں انگلینڈ اور اسپین کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ انگلینڈ کے ساحل پر ہسپانوی جنگی جہازوں کو شکست ہوئی۔ وہ آئرلینڈ سے گزرتے ہوئے اسپین واپس لوٹ رہے تھے کہ ہسپانوی ملاحوں نے اپنے سمندری جہاز پر سے چمنیوں کے اِس مجموعے کو دیکھ لیا۔ ایک ہسپانوی جنگی جہاز نے اِن چمنیوں کو دُشمنوں کا قلعہ سمجھ کر اِن پر توپ چلا دئے۔
آئرلینڈ کی لوک داستان کے مطابق اگر دیو نے آئرلینڈ اور سکاٹلینڈ کو جوڑنے کیلئے اس شاہراہ کو تعمیر کِیا تھا۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیا اسکاٹلینڈ میں بھی اِس شاہراہ کا حصہ پایا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب ہاں میں ہے ، اسکاٹلینڈ کے مغربی ساحل پر سٹافا Staffaنامی ایک جزیرہ ہے۔ سٹافا کا مطلب ‘‘ستونوں کا جزیرہ’’ ہے۔ اور واقعی یہاں ایسے ستون پائے جاتے ہیں جو آئرلینڈ میں پائے جانے والے ستونوں سے ملتے جلتے ہیں۔ سکاٹلینڈ کے دیوہیکل بیننڈونر کو فنگول کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سٹافا کے جزیرے پر ستونوں سے بنے چٹان میں ایک غار ہے جسے ‘‘فنگول کا غار’’ Fingal’s Cave کہتے ہیں۔ اِس غار میں سمندر کی لہروں کے ٹوٹنے کی آواز نے جرمنی کے ایک کمپوزر کو اتنا متاثر کِیا تھا کہ سن 1832 میں اُس نے ایک سُر ترتیب دیا جسے ”فنگول کا غار“ کا نام دیا گیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ ستون وجود میں کیسے آئے؟ آیا کیا واقعی کبھی آئرلینڈ پر دیو ہیکل بستے تھے؟…. اگر شاہراہ کے ستون دیوہیکل کے ہاتھ نہیں بنائے گئے، توپھر وہ کیسے وجود میں آئے؟
بعض سائنسدان اس کی یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ شمالی آئرلینڈ کی زمین کے نیچے چونے کے پتھروں کی ایک تہہ پائی جاتی ہے۔ پرانے زمانے میں آتشفشانی عمل کی وجہ سے چونے کے پتھر میں شگافوں سے لاوا اُگلنے لگا۔ لاوا کا درجۂحرارت ایک ہزار ڈگری سینٹیگریڈ سے زیادہ تھا۔ جب یہ زمین کی سطح تک پہنچا تو اس نے ٹھنڈا ہو کر پتھر کا روپ اختیار کر لیا۔
لیکن اس لاوے نے ستونوں کی شکل کیوں اختیار کر لی؟ اس کے متعلق ریسرچرز کہتے ہیں کہ مختلف قسم کے لاوے Magma میں جو کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں اِنکے مطابق لاوا کئی قسم کے پتھروں Molten rockکی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شاہراہ کے ستون جس پتھر سے بنے ہوئے ہیں اُسے بسالٹ basalt کہتے ہیں۔ جب لاوا ٹھنڈا ہونے لگا تو اس میں موجود کیمیائی عناصر کی وجہ سے پتھر میں چھ کونیا شگاف پڑنے لگے۔ جیسے جیسے لاوا ٹھنڈا ہوتا گیا یہ شگاف ستونوں کی شکل اختیار کرنے لگے۔
ایسے ستون صرف آئرلینڈ اور اسکاٹلینڈ میں ہی نہیں پائے جاتے۔ لیکن دوسرے ممالک میں جن علاقوں میں یہ ستون پائے جاتے ہیں وہاں اُنکو قریب سے دیکھنا آسان نہیں ۔ آئرلینڈ کی شاہراہ کے چھ کونیا ستون بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اور وہ ایک ایسی جگہ واقع ہیں جہاں ان تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔
دیوہیکل شاہراہ جائنٹ کازوے پر چند ڈوکیومنٹری فلم
روحانی ڈائجسٹ
جون 2014ء