اسٹون ہینج ایک قدیم معمّا
اسٹون ہینج Stone Henge ایک معمّہ ہے۔ انگلینڈ کے علاقے Bury Plain Salis میں چند پتھر خاص گولائی کی شکل میں کھڑے ہیں۔ آرکیالوجسٹ کے مطابق ان کی قدامت پانچ ہزار برس کے لگ بھگ ہے۔ ہر پتھر کا وزن 5 سے 50 ٹن ہے۔ ان پتھروں کو اُٹھا کر یہاں لانا اتنا بڑا کارنامہ تو ہے لیکن، اس سے بڑا کارنامہ ان کو اِس ترتیب سے کھڑا کرنا ہے کہ ان میں ہر ایک کے درمیان انچ کے ہزارویں حصّے کا بھی فرق نہیں۔ یہ چٹانیں جہاں جہاں کھڑی کی گئی ہیں وہاں کی زمین غیر ہموار ہے اور ایک طرف ڈھلوان بھی ہے۔ اتنی بڑی چٹانوں کو اس کاریگری سے لگانا کہ ذرا بھی بےترتیبی باقی نہ رہے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کام جن لوگوں نے کیا ہے وہ کسی خاص ٹیکنالوجی سے واقف تھے۔
سطح مرتفع پتھر کے پراسرار بھاری بھرکم دائرے اسٹون ہینج Stonehenge دنیا کی ایک پراسرار جگہ ہے۔جو وائٹ ٹائر، سالبری Saliebury کے میدانوں میں شمالی جانب واقع ہے۔ یہ علاقہ برطانیہ کے جنوب مغربی حصے میں آتا ہے۔ ماقبل تاریخ بنائے گئے یہ Stonehenge دراصل پتھروں کے کھنڈر ہیں جن کے متعلق صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں ۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ پتھر کھنڈر کیسے بنے، اگر یہ کوئی مکمل عمارت تھی تو اس کو کس نے بنایا اور کیوں بنایا اور اسی مقام پر بنانے کی ضرورت تھی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مقام کی کوئی اہمیت رہی ہو جو آج کی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ Stonehenge دراصل بڑے بڑے پتھر ہیں جو اس علاقے میں بےترتیب پڑےہوئےہیں۔
موجودہ زمانے کے ماہرین نے اس کے متعلق صرف اتنا کہا ہے کہ یہ کوئی گہری ساخت ہے جس سے قبل مسیح کے لوگ فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ممکن ہے یہ موسموں کو پہچاننے یا وقت کو معلوم کرنے کی فلکیاتی گھڑی یا فلکیاتی معلومات حاصل کرنے سے متعلق کوئی ساخت تھی۔ یعنی سورج گہن، اعتدالین (Equinoxes) اور Soistices) (کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا تھا۔ Stonehenge کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا اس کو بنانے والے کاشت کار تھے یا صرف شکار پر اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے۔ لیکن جن لوگوں نے بھی انہیں بنایا تھا ان کو ہم اپنے دور کا Einstein کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ان پتھروں میں کئی راز پوشیدہ ہیں۔ بعض ماہرین نے اس کو رومن قوم کی تعمیر قرار دیا۔ ایک نظریہ انیسویں صدی عیسوی میں یہ پیش ہوا کہ برطانیہ میں Druids افراد رہا کرتے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ روم نے برطانیہ کو فتح نہیں کیا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ ان Drids نے اس عجیب و غریب ساخت کو مذہبی عبادات کی ادائیگی کے لیے بنایا ہو۔ ان پتھروں کو دیکھ کر اچھنبا ہوتا ہے کیونکہ اس دور کے مجسمہ سازوں کی صلاحیت اس قدر نہیں ہوسکتی جس قدر آج کے مجسمہ سازوں کی ہے۔ اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان قدیم مجسمہ سازوں نے ان پتھروں کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے۔ یہ پتھر اس قدر بڑے ہیں کہ ہم آج کے اس جدید دور میں بھی ان کی ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقلی کے بارے میں بآسانی فیصلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا وزن بہت زیادہ ہے۔ اس دور کے انسانوں نے ان پتھروں کو زائد از 220 کلومیٹر دور سے منتقل کیا اور ان مستطیل پتھروں کو ایک دوسرے پر رکھا، جو آج کے دور میں ایک چیلنج ہے کیونکہ ان کے راستے میں دریا اور سمندر بھی پڑتے تھے۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا ہے کہ جس مقام سے ان پتھروں کو منتقل کیا گیا وہاں سے Stonehenge تک گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔
اس پراسرار عجوبے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ معماروں کی کئی نسلیں کئی سو برسوں تک اس عجوبے کو تیار کرتی رہی ہوں گی، ورنہ وسائل سے عاری اس زمانے میں تیز رفتار کام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ علاوہ اس کے یہ کام منصوبہ بند نہیں تھا اسی لیے مختلف اوقات میں تعمیری مراحل کے دوران تبدیلیاں آتی رہیں۔ 1950ء کے بعد ہوئی کھدائی سے پتہ چلا کہ اس کو بنانے والے افراد نے شاید اس کو تین مراحل میں مکمل کیا ہو۔
پہلا مرحلہ 2900 قبل مسیح میں مکمل ہوا جس میں پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا گیا اور نکلنے والی مٹی سے اس بنائی جانے والی ساخت کے اطراف ایک اونچی 320 فٹ قطر رکھنے والی دیوار بنائی گئی۔ دوسرے مرحلہ میں اس میدان کے درمیان میں لکڑی سے بنے ہوئے ستون ایستادہ کیے گئے یہ مرحلہ 2500 قبل مسیح میں مکمل ہوا۔ لیکن تیسرا اور آخری مرحلہ 1600 قبل مسیح میں مکمل ہوا جس میں دوسرے مرحلے کے لکڑی کے ستونوں کو اکھاڑ پھینک کر جملہ ساٹھ کی تعداد میں مختلف اقسام کے پتھر جمائے گئے۔ ان پتھروں کو بلو اسٹون کہا جاتا ہے۔ جو دو ہلالی اشکال میں ایک دوسرے کے مقابل رکھے گئے۔ پہلے مرحلے کی دائروی مٹی کی دیوار کو مرکز مان کر تیسرے مرحلے میں دائروی انداز میں پتھروں کے بڑے بڑے بلاکس کو زمین پر جمایا گیا۔ ان پتھروں کی جملہ تعداد تیس تھی، ان کو Sarsen کہا جاتا ہے اسی لیے اس دائری حلقے کو Sarsen Circle کہا جاتا ہے۔ یہ پتھر دراصل Sand Stones ہیں، جو تقریباً چالیس کلومیٹر دور سے لائے گئے تھے لیکن اب ان پتھروں کی تعداد صرف سترہ رہ گئی ہے۔ ان میں سے صرف کچھ ہی اصل حالت میں باقی ہیں۔ اس دائروی ساخت کے اندر Wales لائے ہوئے ساٹھ عدد نیلے تنگ رنگ کے پتھر رکھے ہوئے ہیں جن کا وزن چار ٹن سے زیادہ ہے۔ یہ تمام پتھر گھوڑے کی نعل کی شکل میں کھدرے ہوئے حصے میں جمائے گئے ہیں۔ ان پتھروں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چاند کی حرکت اور اس کی رفتار کے متعلق آگاہی دیتے ہیں۔ علاوہ اس کے ہلالی شکل یا نعل نما انداز میں جمے پتھروں کے کھلے حصے کی جانب Heel اور Slaughter پتھر موجود ہے، اس کے متعلق ماہرین بتاتے ہیں کہ داخلے کے قریب یہ پتھر رسومات کی ادائیگی کے لیے مختص تھا اور Heel پتھر سال میں ایک دن یعنی سال کے سب سے لمبے دن میں سورج کے ساتھ مکمل صف بندی (Alignment) میں آجاتا تھا۔ اس مکمل کامپلیکس یعنی دائروی ساخت کے مشرقی جانب تقریباً اسی گز کے فاصلے پر چھیتر فٹ اونچا پتھر نصب ہے، اس پتھر کے سائے سے یہ افراد دن کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا اندازہ لگایا کرتے تھے۔
چند ایک برس قبل Stonehenge کے مقام پر کچھ زیورات اور ہتھیار وغیرہ دستیاب ہوئے ۔ کچھ ماہرین ان پتھروں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ اس زمانے کے لوگوں کا کیلنڈر تھا اور اکثر ماہرین خصوصاً Aubrey کا کہنا ہے کہ یہ جگہ دراصل یہاں رہائش پذیر قوم کی عبادت گاہ تھی اور وہ سورج کی پرستش کرتے تھے چونکہ وہ ذہین افراد تھے اسی لیے انہوں نے عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ ایک آبزرویٹری بھی بنا ڈالی جہاں وہ عقیدت سے اپنے تمام مذہبی افعال انجام دیا کرتے اور وقت پڑنے پر سورج کے متعلق تمام معلومات بھی حاصل کیا کرتے۔
روحانی ڈائجسٹ
جولائی 2014ء سے انتخاب