پراسرار جھیل – پاؤں نہ رکھنا ورنہ پتھر کے ہوجاؤ گے
اس وقت پوری دنیا میں 3 ملین سے زائد جھیلیں پائی جاتی ہیں جو کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے قابل ِدید ہیں۔ دنیا بھرمیں بے پناہ خوبصورتی والی جھیلیں لاتعداد ہیں، مگر کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں، جن کو اپنی پراسرار اور حیرت انگیز خصوصیات کے باعث مشہور ہیں۔
بچپن میں آپ نے وہ مشہور دیومالائی کہانی تو سنی ہی ہوگی کہ یونانی بادشاہ سی فیوس Cepheus کی بیٹی انڈرومیڈا Andromeda دُنیا کی سب سے حسین شہزادی تھی۔ اس کے متعلق کہا جانے لگا تھا کہ وہ سمندر کی دیویوں Sea nymphs سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ سمندری دیویوں کو یہ بات بری لگی چنانچہ اس کے والد کی حکومت پر ہیبتناک سمندری دیو نے حملہ کیا، یہ دیو اتنا طاقتور تھا کہ اسے مارنا کسی کے بس کی بات نہ تھی، دیو کا کہنا تھا کہ بادشاہ شہزادی کو اس کی بھینٹ چڑھائے ورنہ اس کی پوری سلطنت تباہ ہوجائےگی۔
ایسے میں بادشاہ کے کسی مصاحب نے بتایا کہ یہ دیو صرف میڈوسا Medusa کے ذریعے ہی شکست کھا سکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ میڈوسا ایک خوبصورت مگر دہشتناک بلا تھی، اس کی جلد سونے کی طرح چمکتی ہے، اس کے سر پر سانپ پھنپھناتے ہیں ، سب سے خطرناک اس کی آنکھیں ہیں، وہ جس جاندار کو ایک نظر دیکھ لیتی ہے وہ پتھر کا بن جاتا ہے۔ چنانچہ پرسیوس Perseusکو شہزادی کو بچانے کے لیے میڈوسا کا سر لانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہرمیس Hermes کی مدد سے وہ اس کا سر کاٹ لاتا ہے اور سمندری دیو کو دکھا کر اسے پتھر کا بنادیتاہے۔ یوں وہ انڈرومیڈا کی جان بچا کر اس سے شادی کرلیتا ہے۔
ایسی ہی کہانیاں الف لیلٰی اور فسانۂ عجائب کی داستانوں میں ملتی ہیں جس میں کوئی جادوگر کسی شہزادے کو پتھر میں تبدیل کردیتا ہے۔ کہانیوں میں آپ نے بادشاہ مڈاس کی کہانی تو ضرور سنی ہوگی جو جس چیز کو بھی چھوتا ہے وہ سونے کی بن جاتی ہے، کہاجاتا ہے کہ پارس پتھر کو جو بھی چھو لے وہ سونا بن جاتا ہے حالانکہ یہ تو کسی کو نہیں پتہ کہ یہ سچ ہےیاجھوٹ ….
لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ آج اس دنیا میں ایک جھیل ایسی موجود ہے، جسے چھو کر ہر جاندار چیز پتھر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
جی ہاں!….دنیا کے سب سے بڑے براعظم افریقہ کے ملک تنزانیہ میں ایک ایسی پراسرار جھیل ہے جس کے پانی میں جو جانور بھی داخل ہوتا ہے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جھیل میں داخل ہوکر مرنے والا پرندہ یا جانور کسی پتھر کے مجسمے سی شکل اختیار کرلیتا ہے یا پھر ممی Mummyمیں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جھیل کے پتھر بن جانے والے ان جانوروں کو دیکھ کر کسی ہارر فلم کی یاد تازہ ہوجاتیہے۔
خون کی طرح سرخ رنگ کی یہ جھیل دور سے دیکھنے میں ایسی نظر آتی ہے جیسے گوشت کے بڑے بڑے پارچے اس وادی میں پھیلادئے گئے ہوں۔ اس جھیل کو ‘‘نیٹرون لیک’’ Natron Lake کے نام سے جانا جاتا ہے۔
محلِ وقوع کے لحاظ سے یہ جھیل تنزانیہ کے شمال میں کینیا کی سرحد کے انتہائی قریب واقع ہے اور نیروبی سے تقریباً 140 کلومیٹر دور ہے، کینیا کے ایواسو نیرو Ewaso Ng’iro نامی دریا کے پانی کی وجہ سے وجود میں آئی یہ جھیل معدنی دولت سے مالامال ہے۔
یہ ایک نمکین پانی کی جھیل ہے جو کہ سوڈیم کاربونیٹ اور سوڈیم بائی کاربونیٹ پر مشتمل ہے- جھیل کا درجہ حرارت عام طور پر تقریباً 80 ڈگری فارن ہائیٹ رہتا ہے لیکن یہی درجہ بعض مخصوص حالات میں 140 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے-
جھیل میں کثیر مقدار میں پائے جانے والے نائیٹرون (نطرون)کی موجودگی کا سبب قریب میں موجود آتش فشاں پہاڑ ہے، جس کی راکھ نائٹیرون میں اضافے کا سبب بنتی ہے- یہ آتش فشاں اب تک 8 مرتبہ پھٹ چکا ہے۔ اس آتش فشاں نے پہلی بار 1883 میں لاوا اگلنا شروع کیا تھا-
اب تک کے اندازوں کے مطابق ان خوفناک اموات کی وجہ جھیل میں موجود نائیٹرون٬ اس کا نمکین پانی اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہی بتائی جاتی ہے-
دنیا کو اس جھیل کی اس عجیب و غریب خصوصیت کا پتہ حال ہی میں چلا جب ایک افریقی فوٹوگرافر نک برانڈٹ Nick Brandt نے دنیا کی اس پراسرار ترین جھیل کا دورہ کیا ۔ اس نے وہاں موت کا شکار بننے والے متعدد پرندوں اور چمگادڑوں کی چند تصاویر بھی لیں۔ نک برانڈٹ نے اپنی نئی کتاب اكروس دی ریویجڈ لینڈ Across the Ravaged Land کے لئے اس جھیل کے ارد کے ارد گرد پتھر بن چکے کئی جانوروں کی تصویریں كھچي ہیں اور ان پر ڈاکیومنٹری بھیبنائی ۔
نک برانڈٹ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، جب وہ شمالی تنزانیہ کی نیٹرون جھیل کے ساحل پر پہنچا تو وہاں کے منظر نے اسے چونکا دیا۔ جھیل کے کنارے اس نے جگہ جگہ پر جانوروں اور پرندوں کے مجسمے دیکھے۔ یہ مجسمے مردہ پرندوں کے تھے، جھیل کے پانی میں جانے والے جانور اور پرندے کچھ ہی دیر میں كیلسفائید Calcifiedہوکر پتھر بن جاتے ہیں۔
نک برانڈٹ نے لکھا ہے، ‘‘کوئی یقینی طور پر نہیں جانتا ہے یہ کیسے مرے لیکن…. لگتا ہے کہ جھیل کی عجیب رنگت نے انہیں گمراہ کیا نتیجے میں وہ سب پانی میں اتر گئے۔
پانی میں سوڈا اور نمک کی زیادہ مقدار ان پرندوں کے مردہ جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔ جھیل کے اس پانی میں الكلان کی سطح 9pH سے10.5pH ہے، یعنی امونیا جتنا الکلائن…. پانی میں نمکیاتی عنصر ‘‘نطرون’’ بھی پایا گیا جو آتش فشاں کی راکھ میں ہوتا ہے۔ اس عنصر کا استعمال قدیم مصر کے باشندے فراعین کی مميوں کو محفوظ کرنے کے لئے رکھتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے جھیل کو چھونے والی ہر چیز پتھر بن کر ممی کی طرح محفوظ ہوجاتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پراسرار جھیل کے اندر جہاں ایک طرف تو کوئی بھی جانور اور پرندہ زندہ نہیں رہ سکتا ، وہیں مچھلیوں کی ایک خاص قسم اس جھیل کے انتہائی زہریلے اور خطرناک ہونے کے باوجود بھی اس میں زندہ رہتی ہے۔ مچھلیوں کی اس قسم کو الکائن تِلاپیہ alkaline tilapia کہا جاتا ہے اور یہ زندہ رہنے کے لیے جھیل کے کنارے ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پانی کم نمکین ہوتا ہے-
روحانی ڈائجسٹ
اپریل 2015ء سے انتخاب