Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Win Heart in Career

دوسروں کے دل میں کیسے گھر کریں!؟

Win Heart in Career

اکثر لوگوں اور خاص کر نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ انہیں پہچانیں، ان کی تعریف کریں، حوصلہ افزائی کریں اور دل سے انہیں یاد رکھیں۔ اس کے لیے جن بنیادی باتوں کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ تر نوجوان ان سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

اپنی دنیا میں مگن موبائل، کمپیوٹر اور فیس بک سے اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ لوگوں پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔

لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے یہاں ڈیل کارنیگی کا ایک مضمون دیا جارہا ہے اس کے ذریعے آج کے نوجوان اس حقیقت سے آشنا ہوپائیں گے کہ لوگوں کے دلوں میں گھر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

میں نیویارک کے کسی ڈاک خانے میں ایک خط کی رجسٹری کرانے کے لیے قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ رجسٹری کلرک اپنے کام سے اکتا چکا تھا، لفافوں کا وزن کرتے کرتے، ٹکٹ بانٹتے بانٹتے، ٹکٹ لگے لفاے واپس لیتے لیتے اور رسیدیں جاری کرتے کرتے، وہ تھک چکا تھا۔ وہ سال ہا سال سے یہی بےلطف کام کرتا آیا تھا۔

 میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ نوجوان مجھے پسند کرے۔ ظاہر ہے اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے مجھے اپنی ذات کے بجائے خود اس کے متعلق کوئی عمدہ سی بات کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ اس کلرک میں کون سی ایسی بات ہے، جس کی میں تعریف کرسکتا ہوں۔

اس سوال کا جواب بعض اوقات بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ یہ سوال اجنبیوں سے متعلق ہو۔ لیکن میرے لیے یہ سوال اس وقت کچھ اتنا مشکل نہ تھا۔ مجھے فوراً ایک ایسی چیز نظر آگئی۔ جس کی میں جائز طو رپر تعریفکرسکتا تھا۔

جب وہ میرا لفافہ تول رہا تھا، تو میں نے بڑے جوش آمیز لہجے میں کہا :

‘‘کاش میرے بال بھی آپ کے سے ہوتے۔’’

کلرک نے حیران ہو کر اوپر دیکھا۔ اس کا چہرہ مسکراہٹ سے چمک رہا تھا۔ انکسار سے کہا:

 ‘‘ہاں اب یہ بال ویسے کہاں رہے جیسے کبھی ہوا کرتے تھے۔’’

میں نے اسے یقین دلایا کہ ہوسکتا ہے اس کے بالوں کی خوبصورتی قدرے کم ہوگئی ہو لیکن اب بھی یہ بہت شاندار ہیں۔ وہ بےحد خوش ہوا۔ ہم نے کچھ وقت دلچسپ گفتگو کی اور آخری بات جو اس نے مجھ سے کہی، یہ تھی :

‘‘بہت سے لوگوں نے میرے بالوں کی تعریف کی ہے۔’’

میرا دعویٰ ہے کہ وہ نوجوان اس روز کھانا کھانے گیا ہوتا تو اس کے پاؤں زمین پر نہ پڑے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس نوجوان نے یہ بات رات کو اپنی بیوی سے ضرور کہی ہوگی۔ میرا دعویٰ ہے کہ اس نے اس روز آئینہ دیکھ کر کہا ہوگا، یہ میرا بالوں بھرا سر کتنا خوبصورت ہے۔

میں نے یہ کہانی ایک مرتبہ ایک اجتماع میں بیان کی تو بعد میں ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا۔ آپ کو اس رجسٹری کلرک سے آخر کیا مطلب تھا….؟ میں اس سے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا….؟ اس سے کیا کام تھا….؟ مجھے اس سے کیا غرض تھی….؟ اگر ہم اس قدر خود غرض ہیں  کہ کسی کو ذرا بھی خوش نہیں کرسکتے، دوسرے آدمی سے معاوضے کی تمنا رکھے بغیر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے، اگر ہماری روحیں اتنی ہی چھوٹی اور تنگ ہیں تو ہمیں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

ہاں یاد آیا۔ میں اس نوجوان سے کچھ حاصل بھی کرنا چاہتا تھا، مجھے ایک بےبہا چیز کی ضرورت تھی اور وہ مجھے مل گئی۔ مجھے یہ احساس ملا کہ میں نے اس کی ایک طرح سے بےلوث خدمت کی ہے۔ مجھے یہ احساس ملا کہ میں نے اس کی اکتاہٹ بھری زندگی میں مسرت کی ایک کرن داخل کردی ہے اور یہ ایسا احساس ہے جو ایسے واقعات کے گزر جانے کے بعد طویل مدت تک آپ کے تصور میں چمکتا اور آپ کے دل میں گنگناتا رہتا ہے۔ انسانی تعلقات کا ایک قانون سب سے اہم ہے۔ اگر ہم اس قانون کی پابندی کریں تو ہمیں کبھی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ سچ بات یہ ہے کہ اس قانون کی پابندی ہمارے لیے بےشمار دوستیوں اور مسرتوں کا سرچشمہ ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جونہی ہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو فوراً مسلسل مصیبتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ وہ قانون یہ ہے۔

دوسرے شخص میں ہمیشہ اہمیت کا احساس پیداکیجیے۔

‘‘دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو، جیسے سلوک کی تم ان سے توقع رکھتے ہو۔’’

آپ اپنے ملنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنی خوبیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔ آپ کو یہ احساس چاہیے کہ آپ اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت اہم شخصیت ہیں۔ آپ جھوٹی خوشامند سننا نہیں چاہتے، لیکن آپ جائز تحسین و ستائش کے خواہش مند ہیں۔ آپ اپنے دوستوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جی بھر کر داد دیں اور دل کھول کر تعریف کریں۔ ہم میں سے ہر کسی کو یہ بات پسند ہے۔ اس لیے ہمیں اس سنہری اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دوسروں کو وہی کچھ دیں، جس کی توقع ہم ان سے رکھتے ہیں۔ لیکن کب….؟

کیسے اور کہاں….؟

جواب ہے ہر وقت اورہرجگہ۔

مثال کے طور پر میں نے ریڈیو اسٹیشن میں متعلقہ کلرک سے ہنری سودین کے  دفتر کا نمبر پوچھا۔وہ کلرک بڑی خوبصورت وردی پہنے ہوئے تھا، وہ جس طریقے سے لوگوں کو اطلاعات بہم پہنچاتا تھا، اس پر وہ بجا طور پر بےحد نازاں  بھی تھا۔ اس نے ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح ادا کیا۔ ہنری سودین (وقفہ) اٹھارویں منزل، (وقفہ) کمرہ نمبر 1816۔ میں دوڑ کر لفٹ کی طرف گیا۔ پھر ٹھہر گیا اور واپس آکر کلرک سے کہا :

‘‘جس شاندار طریقے سے آپ نے میرے سوال کا جواب دیا ہے، اس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ نے بہت مختصر اور مکمل جواب دیا ہے۔  یہ بڑی نایاب چیز ہے۔’’ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کیوں بات کی اور ہر جملے کو اس اچھوتے طریقے سے کیوں ادا کیا۔

میرے چند الفاظ نے اس کی نکٹائی کی گرہ کو ذرا اور اونچا کردیا اور جب میں اٹھارویں منزل کی طرف روانہ ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے آج شام انسانی مسرت میں اضافہ کیا ہے۔

دوسروں کی قدر دانی کرنے کے لیے اس وقت تک انتطار کرنے کی ضرورت نہیں، جب تک آپ کسی ملک کے سفیر نہیں بن جاتے، یا آپ کسی خیرسگالی وفد کے رہنما نہیں بن جاتے، فلسفہ قدر شناسی کی بدولت آپ  ہر روز جادو جگا سکتے ہیں۔ دوسروں کی مسرت میں اضافہ کرکے اپنی خوشی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر ہوٹل کا ویٹر ہمارے آرڈر کے مطابق تلے ہوئے آلوؤں کی جگہ آلوؤں کا بھرتہ اٹھا لائے، تو ہمیں کہنا چاہیے۔

تکلیف معاف، میں تلے ہوئے آلو پسندکرتاہوں۔

وہ جواب دے گا ‘‘تکلیف کی کوئی بات نہیں اور خوشی خوشی آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا کیونکہ آپ نے اس کی عزت کی ہے۔

اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فقرے، جیسے تکلیف معاف، یا براہ کرم، آپ کو تکلیف تو ہوگی، کیا آپ، یا آپ کا بہت بہت شکریہ وغیرہ، روزمرہ کی زندگی کی اکتا دینے والی مشین کے پرزوں کے لیے تیل کا کام دیتےہیں اور یہ فقرے اچھی تعلیم و تربیت کے امتیازی نشان بھی ہیں۔

اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پسند کریں تو اصول ہے: دوسرے شخص کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں اور تہہ دل سے اس کی تعریف کیجیے۔

آپ اس تحریر کو کچھ دیر سے پڑھ رہے ہوں گے اب اسے پڑھنا بند کریں، مصم ارادہ کرلیں اور اس فلسفے کو قریب ترین شخص پر آزمانا شروع کردیں، اور اس کا جادو دیکھیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

شکریہ ۔ قسط 7

   ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *