قسط نمبر 48 – ستمبر 2019ء [box type=”note” align=”” class=”” width=””] اینٹی ایجنگ پروسس 2 یادداشت بہتر بنائیں [/box] مائنڈ فلنیس اصولوں کے مطابق یادداشت کے چار دشمن ہوتے ہیں ۔ وہ چار دشمن یہ ہیں۔ ….لاپرواہی ….تھکاوٹ ….منقسم توجہ یا منتشر خیالی ….ذہن کا استعمال نہ کرنا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی…
This content is for One Year Subscription members only. Log InRegister
یہ مضمون صرف One Year Subscription ممبروں کے لیے ہے۔
اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے
ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….
روحانی ڈائجسٹ آن لائن کی سالانہ سبسکرپشن صرف 1000 روپے میں حاصل کیجیے۔
یہ رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش، منی آرڈر یا ڈائریکٹ بنک ٹرانسفر کے ذریعے بھجوائی جاسکتی ہے ۔
بذریعہ JazzCash رقم مندرجہ ذیل اکاؤنٹ میں جمع کی جاسکتی ہیں۔ JazzCash : Roohani Digest : 03032546050
بذریعہ Easypay رقم مندرجہ ذیل اکاؤنٹ میں جمع کی جاسکتی ہیں۔ Easypaisa : Roohani Digest : 03418746050
یا پھر اپنی ادائیگی براہ راست ہمارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں. Roohani Digest : IBAN PK19 HABB0015000002382903
رقم ارسال کرکے اس ای میل یا فون نمبر پر میسج کردیں
دوستو پچھلی اقساط سے ہم مائنڈفلنیس کے ساون پر بات کررہے ہیں ۔وہ مراحل جو آپ کو حال میں جینے کا اور اس سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں ۔اگر آپ ان پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنی طرزِحیات کا حصہ بنالیں اور خود کو اسی طرزِ فکر کے سانچے میں ڈھال لیں تو یقیناًآپ ایک ایسی زندگی جی پائیں گے جس کی آرزو ہر کوئی کرتا ہے۔
اب یہاں ایک بات سوچنے کی ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر آپ مائنڈفلنیس کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں گے تو ایک پرآسائش جدید سہولتوں اور روپے پیسے کی ریل پیل والی زندگی حاصل کرپائیں گے۔
کیونکہ عمومی خیال یہی ہے کہ ہر کوئی ایسی ہی زندگی کی خواہش رکھتا ہے ۔اوراسی خواہش کی تکمیل میں ہم اپنی زندگی کا انتہائی قیمتی حصہ محض دولت کمانے اور آسائشیں ڈھونڈنے میں صرف کر دیتے ہیں۔
جناب ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنے ا ندر جھانک کر نہیں دیکھتے ۔اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو یقین جانئے آپ کے اندر سے آوازآئے گی کہ آپ خوش مطمئن اور صحت مند زندگی جینا چاہتے ہیں۔
یہی وہ خواہش ہے جس کی تکمیل کے لئے آپ سمجھتے ہیں کہ دولت ضروری ہے اس لئے اس کے حصول کے لئے حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور یہ خوشیاں مادی آسائشوں میں دھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مائنڈفلنیس آپ کو آپ سے ملاتی ہے ۔آپ کو خوش اور پر مسرت زندگی گزارنے کاوہ فن سکھاتی ہے جو کروڑوں روپے کما کر بھی آپ حاصل نہیں کرپاتے۔ ارے دوستو گھبرائیے نہیں ہم آپ کو پُرآسائش زندگی سے دور رہنے کی تلقین ہر گز نہیں کررہے اور یہ سب کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ آپ سب چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں یا پہاڑوں پر نکل جائیں اور نہ ہی، یہ ہے کہ آپ زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو ،لگن اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی دوڑ دھوپ چھوڑ چھاڑ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی پرفضاء مقام پر مائنڈفلنیس بائیٹ کے مزہ لیتے رہیں ۔نہیں نہیں نہیں ہمارا ایسا مقصد ہرگز نہیں ہے ۔
مائنڈفلنیس تو ایک ایسا آرٹ ہے جو آپ کو زندگی کے اس روپ سے روشناس کرواتا ہے جسے آپ اپنا اصل روپ کہہ سکتے ہیں۔ جو آپ کی اصل ہے۔جسے لے کرنسلِ آدم اس دنیا میں آئی ہے۔ بات یہ ہے کہ نسلِ آدم کے لئے جو ضروریات ثانوی ہے اسے ہم نے اولیت دے دی ہے اور جو بنیادی ہے اسے ہم نے ثانوی حیثیت دے دی ہے۔
اگر ذرا غور کریں تو ہم اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ایک اچھا کامیاب انسان بننا چاہتے ہیں اوربہت ساری دولت کماکر ایک اچھا اسٹیٹس چاہتے ہیں۔ ان میں سے غلط اور ناجائز کچھ بھی نہیں اور ان تمام حصولیات کے پیچھے ہمارا مقصد ہوتا ہے خوش اور مطمئن اور صحت مند رہنا۔ کیونکہ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں ۔مطمئن اور پرسکون رہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم صحت مند اوربیماریوں سے کوسوں دور رہنا چاہتے ہیں۔ اس لئے مہنگی سی مہنگی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ برانڈز پر دھیان دیتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی کبھار کوڑا چننے اور اسی کچرے میں سے چن چن کر غذا کھانے والا بچہ آپ سے کہیں زیادہ سرخ و سفید اور صحت مند نظر آتا ہے۔فٹ پاتھ پر کھلے آسمان تلے سونے والا بھرپور نیند لے کر بیدار ہوتا ہے بہ نسبت اس کے جو فل فرنشڈ بیڈرومز میں ریلیکسینٹ کھاکر بھی کروٹیں لیتا ہے۔
معاف کیجئے گا دوستو ہم آپ کو لیکچر نہیں دے رہے۔یہاں ہمارا مقصد کہنے کا بس اتنا ہے کہ زندگی گزارنا الگ بات ہے اور جینا ایک فن۔خوش ہونا اور خوشی محسوس کرنا یہی فن سکھاتا ہے مائنڈفلنیس۔
تو پھر بات شروع کرتے ہیں گزشتہ باب سے پیوستہ تسلسل کی۔ہم نے بات کی تھی ساون کی۔جس کا پہلا اصول ہے کہ سنیئے اپنے دل کی اپنی کیفیت اپنے احساس کی اور پھر ان کیفیات اور خیالات کو اظہار کا موقع دیجیئے ۔اب بات کرتے ہیں اس سے اگلے مرحلے کی
و: وجہ جانیں
مائنڈفلنیس کے ساون کا ‘‘و’’ آپ سے کہتا ہے کہ جب یہ خیالات آپ پر ظاہر ہونے لگے تو پھر ان کی وجہ جانے کی کوشش کیجیئے۔ وہ کون سی وجہ یا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آپ کو غصہ آیا یا ا ٓتا ہے۔ یا آپ اپنے آپ سے یا مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔یا پھر ایک بے نام سی بے چینی اور اداسی آپ کا پیچھا کیے رہتی ہے۔
دوستو! اگر پچھلے دو مراحل آپ نے سمجھ لئے تو یقین کیجئے یہ آپ کے لئے بہت خوش کن ہے۔ کیونکہ اصل پرابلم تو یہی ہے کہ ہم اپنے احساسات اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہوتے کہ ہمیں غصہ آتا ہے یا ہم کسی خوف میں مبتلا ہیں یا پھر کسی احساسِ محرومی یا احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ بلکہ ان خیالات اور جذبات کے ایک ہجوم میں بہتے چلے جاتے ہیں اور کبھی خود کو ،کبھی دوسروں کو تو کبھی قسمت کو الزام دیتے زندگی گزار دیتے ہیں۔
اب جب آپ ان کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو ہی گئے ہیں تو پھر اس کی وجہ جاننا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ساون کے ‘‘و ’’ کی کیا اہمیت ہے اسے ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔
آپ کے گھر میں ایک میز تو ضرور ہوگی۔ اب آپ ذرا اس میز پر غور کیجئے۔یہ لکڑی کی میز ہے۔غور کیجئے کہ یہ میز آپ کے سامنے ان چیزوں کی وجہ سے موجود ہے جن کا میز سے بظاہر کوئی تعلق نظرنہیں آتا۔ سوچیئے کہ اس میز کی بنیاد لکڑی ہے ۔آپ کو لکڑی تو نظر آرہی ہے مگر وہ جنگل نہیں جہاں وہ درخت پروان چڑھا جسے کاٹ کر میز بنانے کے لئے یہ لکڑی حاصل کی گئی۔ اور وہ خام لوہا جسے کیلیں ،اسکرو، پائے اور ایسی کئی چھوٹی موٹی چیزوں کے ساتھ ساتھ میز بنانے کے اوزار میں بھی استعمال کیاگیا۔ اب مزید گہرائی میں غور کیجیئے ۔ سوچئیے سورج کی روشنی کے اور برستے بادلوں یعنی برسات کے بارے میں جو اگر نہ ہوتے تو یہ لکڑی پیدا نہ ہوتی اور نہ ہی نمو پاتی ۔یہاں ایک اور نقطہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس لکڑی کو جس نے میز میں تبدیل کیا وہ بڑھئی، جسے یہ ہنر اس کے آباؤ اجداد سے و رثے میں ملا۔ اس کے بارے میں سوچیئے۔ اگر لکڑی نہ ہوتی اور بڑھئی نہ ہوتا تو میز کہاں سے آتی ۔اب دوبارہ اس میز کی جانب دیکھیئے۔دیکھا اب آپ کے سامنے میز نہیں بلکہ اس کی حقیقت ہے بظاہر وہ معمولی چیزیں جو نظر نہیں آرہی تھیں اب آپ کے سامنے موجود ہیں ۔
اگر یہ تمام چیزیں واپس اپنی جگہوں پر چلی جائیں یعنی لکڑی واپس درخت اور درخت جنگل واپس ایک پودا بن جائے ،کیلیں واپس خام لوہے میں اور بڑھئی کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اس کے ماں باپ اسے یہ کام ہی نہ سکھاتے ۔ تو پھر اس میز کا کوئی وجود باقی نہیں رہےگا۔
ثابت یہ ہوا کہ سامنے نظر آنے والی کوئی بھی شئے اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔یایوں کہیئے کہ سامنے نظر آنے والی چیز دراصل اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی اگر اس کے پیچھے کام کرنیوالے ایک بھی عوامل میں کسی بھی طرح کی کوئی کمی واقع ہوجائے تو۔
بالکل اسی طرح ہمارے خوف ، پریشانی یا کوئی اور الجھن اس وقت تک اپنا وجود رکھتی ہے جب تک ہمارے سامنے اس کے پیدا ہونے کی وجہ نہ ہو۔
ن: نہ روکو جانے دو
اس‘‘ن’’ کا مطلب ہے نہ روکو جانے دو۔ مائنڈفلنیس کا ساون مکمل ہوجاتاہے اور آپ پر سکون اور خوشی کا ساون برسنے لگتا ہے جب آ پ اپنی کیفیات اور خیالات کو سمجھنے اور ان کی وجوہات کو قبول کرنے کی ہمت پکڑ لیتے ہیں۔ آخری مرحلہ یہ ہے اب آپ نے اپنی اس غصے،خوف یا اداسی کی کیفیت کو خود سے الگ کر دینا ہے اور اپنے آپ پر سوار کئے بغیر جذبات کی رو کو بہنے دینا ہے۔
دھیان رہے اپنے خیالات کی رو کو بہنے دیجئے خود اس میں مت بہئے ۔بالکل اسی طرح جس طرح جس کوئی فلم دیکھی، انجوئے کیا اور سب کچھ وہیں چھوڑ کر سنیما سے باہر آگئے ۔مگر یہاں بھی ایک سوال ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد ہم مناظر چاہے بھول جائیں مگر اس کا ایک تاثر ضرور ہمارے اعصاب پر رہ جاتا ہے ۔ اس تاثر پر قابو پانا آپ کے لئے بہت آسان ہوجائے گا جب آپ پچھلے باب میں بتائی گئی مائنڈفلنیس سانس کی مشقوں کی عادت ڈال لیں گے۔ایسا ہم پورے یقین سے کہتے ہیں ۔جیسے ہی آپ کے ذہن میں کوئی منفی خیال یا وہ کیفیت غالب آنے لگے آپ فوراً اپنا دھیان سانس کے آنے جانے پر مرکوز کردیجئے۔کسی بھی خیال کو خود پرحاوی مت ہونے دیجئے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو سننے، دیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ۔اب اپنے شکرگزاری کے اس تاثر کو ایک بھرپور مائنڈفلنیس مسکراہٹ کے ساتھ لاک کر دیجئے ۔
مشق نمبر 1
Mindfulness Bath
مائنڈفلنیس باتھ
اب مائنڈفلنیس ساون کے ساتھ ساتھ مائنڈفلنیس باتھ کی بات بھی کرلیتے ہیں۔ منفی سوچوں اور منفی خیالات پر قابو پانے کے لئے یہ ایک بہت ہی کامیاب مشق اور پریکٹس ہے۔
دوستو! آ پ نے پانی پینے کے فوائد پر تو کئی بار نہیں بلکہ ہزاروں بار سنا ہے۔ اور اب تو آپ مائنڈفلنیس کی مشقوں کے دوران پانی پینے کی عادت ڈال ہی چکے ہوں گے۔ تو آج کچھ بات کرتے ہیں پانی کے دوسرے استعمال یعنی نہانے پر۔ پانی کی اہمیت پینے علاوہ کتنی زیادہ ہے اس سے تو ہم سب ہی واقف ہیں ۔پانی نہ صرف پینے کے لئے بلکہ صفائی ستھرائی کے لئے ایک انتہائی اہم اور ناقابلِ گزیر اہمیت کا حامل ہے ۔یہ بھی بہت عام ہے کہ پینے کے لئے ٹھنڈا اور نہانے کے لئے گرم نہیں تو نیم گرم پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔جبکہ حالیہ سامنے آنے والی ایک دلچسپ ریسرچ کہتی ہے کہ ٹھنڈا پانی پینے کے لئے جتنا کم فائدہ مند ہے نہانے کے لئے اس کے اتنے ہی زیادہ فوائد ہیں۔ جسم پر ٹھنڈا پانی پڑتا ہے تو میٹابولزم کو تیز کرتا ہے ۔جس سے چربی سر گرم عمل ہو جاتی ہے اور جسم کو گرم رکھنے کے لیے سفید چربی اور حراروں کو جلاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق موٹاپے سے نجات کے لئے بھی اگر ٹھنڈے پانی سے نہانا اگر ایک سال تک جاری رکھا جائے تو وزن میں تقریبا ۴ کلو گرام کمی ہو جاتی ہے اور موٹاپے کی بیماری نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ عضلات اور جلدتنی رہتی ہے یعنی یہ اینٹی ایجنگ بھی ہے ۔ بہر حال سردیوں کی آمد آمد ہے اب ایسے میں اگر ہم آپ کو ٹھنڈے پانی سے نہانے کا مشورہ دیں گے تو شاید آپ کو اچھا نہ لگے اور نہ ہی ہمیں ۔
خیر ہم بات کرتے ہیں مائنڈفلنیس باتھ اور اس کے فوائد کی جس کے لئے چاہے ٹھنڈے یا چاہے نیم گرم پانی سے بس آپ کا نہانا ضروری ہے ۔ صبح اٹھ کر نہانے کی عادت ڈالئے اس سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ، دورانِ خون کی رفتار بڑھنے سے جسم میں آکسیجن جاتی ہے جو آپ کو دن بھی چاق و چوبند رکھتا ہے۔اور میٹابولزم تیز ہو جانے سے خون کے سفید خلیوں کی افزائش بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں قوت مدافعت میں اضافہ ہو تا ہے اور بیماریوں سے تحفظ ملتا۔ اب جب بات مائنڈفلنیس باتھ کی آتی ہے تو اس مائنڈفلنیس باتھ کا بنیادی مقصد پانی سے مٹی کا تعلق ہے ۔جب آپ نہاتے ہیں تو اس کا مطلب اپنے جسم کی گندگی کو خود سے دور کرتے ہیں۔ایک نئے دن کے لئے پھر سے تروتازہ ہوتے ہیں ۔ تو پھر کیوں نہ اپنے جسم کے ساتھ ساتھ ہم اپنے خیالات اور سوچ میں پنپنے والی منفیت کو بھی پانی کے حوالے کر دیں۔اس لئے جیسے جیسے پانی کی بوندیں آپ پر پڑنا شروع ہوں پانی کی اپنی ایک خاص قدرتی ٹھنڈک سے محظوظ ہوئیے ۔اس کی شفاففیت کو محسوس کیجئے اورساتھ ساتھ محسوس کیجئے کہ آپ کی تمام منفی سوچیں پانی کے ساتھ دھل گئی ہیں اور آپ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
نہانے کے دوران آپ اپنے ذہن اپنی سوچ کو مکمل طور پر پانی کے لمس سے باندھ لیں۔ایک تعلق بنا لیجئے۔ہمیں یقین ہے کہ اس مائنڈفلنیس باتھ کے بعد آپ خود میں ایک بہت خوبصورت اور مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””]
خیالات ایک حقیقت یا محض ایک خیال
[/box]
آپ کے کالج کے کوریڈور میں آپ کی ایک کلاس میٹ سامنے سے آئی اور تیزی سے گزر گئی اس ٹکراؤ کے دوران مسکراہٹ کا تبادلہ نہ ہوا۔ حالانکہ آپ مسکرائے تھے مگر ادھر سے نوریسپانس۔ اس بات نے آپ کو بڑا ‘‘ہرٹ ’’کیا۔
آپ کے دل میں پہلاخیال کیا آیا….
کتنی مغرور ، گھمنڈی ہے…. یا
کتنی بدتمیز ہے مینرز ہی نہیں ہیں….یا
میری توہین کی ہے۔اب میں اس سے بات نہیں کروں گی ۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ کہ ….
شاید مجھے پسند نہیں کرتی….یا
کوئی بھی مجھے پسند نہیں کرتا…. سب مجھے نظر انداز کرتے ہیں….یا
شایدمجھ میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔
یا پھر یہ کہ….
پتا نہیں شاید پریشان ہو …. یا
شایدجلدی میں ہوگی ….یا
شاید مجھے دیکھا نہیں ہوگا
اب حقیقت کیا تھی یہ تو مل کر ہی معلوم ہوسکتا تھا…. جس کے لئے تھوڑا انتظار کیا جاسکتا تھا یا پھر اسی وقت مل لیا جاتا….
مگر اس کا انحصار بھی آپ کی پہلی رائے پر ہے….
اس لیئے ابھی ہم بات کرتے ہیں سب سے پہلے مرحلے کی، جب کسی بھی ہونے والے واقعہ کے لئے ہمارا ذہن خود بخود ایک رائے قائم کرلیتا ہے۔ اس پر عموما ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس پہلی قائم ہونے والی رائے کا انحصار بھی ہماری اس سوچ اور طرزِفکر پر ہے جو ہم اپنے معمولات زندگی میں اختیار کرتے ہیں۔
یہ طرزِفکر قطعی طور پر وقتی نہیں ہوتی بلکہ ہماری ذات اور ہماری شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار اداکرتی ہے۔
مائینڈ فلنیس ایکسپرٹس ایسی مشقیں اور میڈیٹیشنز تجویز کرتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن جائیں۔
دھیرے دھیرے ان کے مثبت اثرات ہماری باطن میں منتقل ہوکر ایک مضبوط اور قابلِ تقلید شخصیت کی تعمیر کرسکیں۔
اب مندرجہ بالا تمثیل پرغور کیجئے کہ ایک ہی سچویشن کے بارے میں ایک ہی انسان دو مختلف طرح سے سوچ سکتا ہے۔ اور مزے کی بات دونوں ہی طرح کے خیالات محض قیاس آرائیاں بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیالات ہمارے ذہن میں ہماری سوچ کے مطابق آتے ہیں۔ جن کا حقیقت سے تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ درحقیقت اس میں خیالات کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ دانا کہتے ہیں ہر آنے والا خیال اپنی جگہ ایک حقیقت رکھتا ہے مگر اس کا انحصار ہماری اُس سوچ پر ہوتا ہے جس کے مطابق ہم اپنے خیال کو معنی پہناتےہیں۔
لبِ لباب یہ ہے کہ خیالات پر ردِعمل کا تعلق ہماری سوچ اور طرزِ فکر سے ہوتا ہے۔ حقیقت سے نہیں۔ ہم خیالات کی اس رو کو اپنی سوچ کے مطابق بہتر اور تعمیری رخ پر موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ صلاحیت قدرت کا حسین تحفہ ہے جسے ہر انسان کو ودیعت کیا گیا ہے۔ بس اس کے استعمال کا طریقہ آدمی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا یوں کہیئے کہ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ قدرت کی اس عطا کردہ صلاحیت کا فائدہ کس طرح اٹھاتے ہیں۔
تو پھر بات کرتے ہیں ساون کے الف کی …. مائینڈ فلنیس کے ساون کا الف آپ سے کیا کہتاہے ؟۔
ا : ا سے اجازت دیجئے
اجازت دیجئے
لیکن کس کو؟….
وہ کیفیت جس سے آپ گزر رہے ہوتے ہیں…. اس کی بنیاد ہوتی ہے وہ سوچ جو اس کیفیات کو تحریک دیتی ہے …. وہ خیالات جن پر آپ کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں۔
لہذا جب آپ فوری طور پر اپنے دل کی سننے کے اہل ہوجاتے ہیں تو پھر اس کا پسِ منظر یعنی وہ خیالات بھی آپ کے سامنے واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے آپ غصہ ، اداسی، مایوسی، ضد یا پریشانی محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ مائینڈ فلنیس کا ساون آپ سے کہتا ہے کہ اپنے خیالات کو روکئے مت۔ انہیں آنے دیں۔ ان کو کھل کر برسنے کی اجازت دیں۔
بس یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اپنے خیالات کو صرف نوٹس کرنا ہے۔ مشاہدہ کرنا ہے۔ مگر اس میں الجھنا یا اس پر زیادہ توجہ نہیں دینی ہے….
بس ایک خیال ایک کیفیت کو محسوس کیا اور آپ نے نوٹس کیا کہ یہ غصہ ہے۔ یہ اداسی ہے یا یہ مایوسی ہے۔ جب ہم اپنے دل کی سنتے ہیں کہ دراصل اندر کیا چل رہا ہے …. تو پھر ایک نیا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔
سننے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ ہے ان خیالات کو قبول کرنا۔ دراصل کسی بھی سچویشن میں پیدا ہونے والی کیفیت میں تغیرات کے ساتھ ساتھ خیالات اور سوچ میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ کسی انتہائی معمولی سی بات پر باس سے ڈانٹ کھا کر اگر آپ نے سوچاکہ شاید میں ہی کسی قابل نہیں تو آپ کے دل میں مایوسی اور اداسی کا احساس اُبھرے گا اور اگر آپ کی سوچ یہ ہو کہ ہوسکتا ہے باس پریشان ہو تو آپ کے دل میں باس کے لئے ہمدردی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ کئی بار ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ دراصل ہمیں ہو کیا رہا ہے۔ ہم کس تکلیف میں ہیں۔ وہ کونسی بات ہے جو چبھ رہی ہے۔ اس لئے اب سب سے اہم یہ ہے کہ اجازت دیجیئے اپنی ان کیفیات کو کھل کر ظاہرہونےکی۔
یہاں لفظ ظاہر استعمال کیا گیا ہے بجائے اظہار کے۔ کیونکہ آپ نے اپنی کیفیت کو صرف خود آپ پر ظاہر ہونے کی اجازت دینی ہے ان کا اظہار سب کے سامنے نہیں کرنا ہے …. لہذا محسوس کیجئے جس کیفیت یا احساس سے بھی آپ گزر رہے ہیں۔ اس دوران ہوسکتا ہے کہ آپ خیالات کی بھرمار سے پریشان ہوجائیں۔
مگر کیوں پریشان ہوں؟….
آپ نے تو اپنے ان خیالات کو محض سننا ہے۔ محسوس کرنا ہے۔ پریشانی اس وقت ہوگی جب آپ ان کو اپنی طرف سے اچھے یا برے کا نام دینے لگیں گے …. یا پھر خود ہی جج بن کر اپنی ہی ذات پر انگلی اٹھانا شروع کردیں۔ ایسا کرنے سے تو آپ مزید ذہنی انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔
اس بات کو اس طرح سمجھئے کہ فرض کیجئے کہ آپ نے اپنے بچے کو کم مارکس لانے پر ڈانٹا۔ ظاہر ہے آپ کی خواہش تھی کہ وہ اچھے نمبروں کامیاب ہو….
مگر غصے میں اپنے بچے کی ناکامی کا سارا الزام آپ نے اپنے شریک حیات پر بھی دھردیا کہ اس کی لاپرواہی کی وجہ سے بچہ فیل یا کم مارکس سے پاس ہوا ہے…. یقینا یہ آپ نے غلط کیا۔
اب جیسے ہی آپ کے ذہن میں خیال آیا کہ آپ سے غلطی ہوگئی ہے اسی وقت آپ میں شرمندگی اور پچھتاوے کی کیفیات ابھرنا شروع ہوجائیں گی۔ لیکن ان کیفیات کو سننا اتنا آسان نہیں۔ مگر ….آپ نے اپنی ان کیفیات کو توجہ سے سننا ہے۔ سمجھنا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ شاید آپ کے غصے کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کو اپنے دوست کے سامنے اور دیگر رشتے داروں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ جنہیں آپ نے اپنے بیٹے کی ذہانت کے قصے بڑھا چڑھا کر سنائے تھے۔ اور جو غلطی آپ سے ہوئی وہ یہ کہ ذہانت کے قصے محض آپ کی اپنی خواہشات تھیں۔ سچ تو یہ تھا کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے سے پوچھا ہی نہیں کہ اس کا رجحان کس مضمون میں زیادہ ہے۔ یا اس کی پڑھائی کیسی جارہی ہے۔ لاپرواہی آپ کی ہے ۔
جیسے ہی یہ خیال آیا تو آپ کو اپنے رویے پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ خود پر بھی شدید غصہ آنے لگا۔ہو سکتا ہے کہ اب آپ کی انا بیچ میں آئے اور آپ اس بات کو ماننے ہی سے انکار کردیں۔ اس صورت میں انکار اقرار کی ایک نئی جنگ کا آغازہوجائے گا۔
اس لئے آپ نے ان خیالات کو صرف ظاہر ہونے دینا ہے مگر اس طرح جیسے کہ کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ فلم میں لمحہ بہ لمحہ منظر بدلتا ہے ،سچوئشن بدلتی ہے۔ کوئی سین اچھا لگتا ہے تو کوئی بور کر دیتا ہے۔ آپ ان تمام مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کہانی سے بھی متاثر ہتے ہیں۔ مگر اس سے چپک نہیں جاتے۔ بس دیکھی محظوظ ہوئے۔ جو پسند آیا اس پر داد دی جو پسند نہ آیا اس پر تنقید کی اور بھول گئے اور واپس اپنے معمول پر آگئے۔ یہی آپ نے اپنے خیالات کے ساتھ بھی کرنا ہے۔
آئیے….! اس پر ایک مائینڈ فلنیس کی میڈیٹشن اور سانس کی مشق بھی بتاتے ہیں۔ یہ مشق آپ کو اپنے خیالات کو خود پر ظاہر کرنے اور انہیں فوری طور پر سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے گی اور آپ کے اعصاب کو بھی قوت بخشے گی۔
مشق نمبر 1
Labeling Thoughts Exercise
اپنے خیالات کو نام دیجئے
ساون کے اس مرحلے کے لئے سانس کی خاص مشق سے آپ کو اپنے خیالات کو پڑھنے میں مدد ملے گی۔ اپنی طرزِفکر کو سمجھنے اور اس کو مثبت اور کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
آرام دہ نشست پر بیٹھ جایئے۔
کمر کو سیدھا رکھنے کی کوشش کیجئے۔ ٹیک بھی لگا سکتے ہیں۔کسی کشن یا گدے پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ فرش پر بیٹھے تو زیادہ بہتر ہے۔
اب اپنی توجہ کو سانس کی آمدورفت پر لے جائیے۔ایک دم سے سانس کو دھیما کرنے کی کوشش مت کیجئے۔اب آہستہ آہستہ آنکھیں بند کیجئے۔
اب آپ اپنے سانس کو محسوس کرنا شروع کیجئے۔ سانس لینے اور باہر نکالنے کے عمل کو کم سے کم تین بار غور سے محسوس کیجئے۔
جب آپ سانس لیتے ہی تو اپنی ناک کی نوک پر ہونے والی اس سنسیشن کو محسوس کیجئے۔ یہی احساس آپ سینے اور پیٹ میں بھی محسوس کریں گے۔آپ کا پیٹ پھولے گا اور اندر جائے گا۔ پیٹ کی اس حرکت کو نوٹ کیجیے اور انجوئےکیجئے۔
اب آپ خود کو بالکل ایزی اورریلیکس محسوسکیجئے۔
آہستہ سے اپنا دھیان ان خیالات کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش کیجئے جو اس وقت آپ کے ذہن میں آرہے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ خیال کو محسوس کیجئے ۔
اب اس ایک خیال کے ساتھ دیگر اوٹ پٹانگ خیالات کا مجمع لگنا شروع ہوگیا ہے۔
کوئی بات نہیں۔
انہیں بھی اجازت دیجئے …. قبول کیجئے۔
اب ان خیالات کو نام دینا شروع کیجئے۔
ان پر لیبل لگانا شروع کیجئے …. مثلاً
۔وہ بہت مغرور ، گھمنڈی ہے۔ (لیبل: تنقیدی)
۔کاش میں نے دوستوں سے وعدہ نہ کیا ہوتا۔ (لیبل: پچھتاوا)
۔وہ سب کتنا مزاق بنائیں گے۔ (لیبل: خوف)
اگر اسی طرح فیل ہوتا رہا تو آگے کیا ہوگا۔ (لیبل: بے جاڈر خوف)
۔یہ سب ا س کی ماں کی غلطی ہے۔ وہ اپنے بچے پر بالکل توجہ نہیں دیتی۔ (لیبل: الزام)
۔اب ا س کی بھی کیا غلطی وہ بھی تو سارادن کام میں لگی رہتی ہے۔ شاید میں نے ہی کچھ زیادہ بول دیا۔ (لیبل: ندامت)
۔کاش میں کچھ نہ کہتا۔ (لیبل: پچھتاوا)
۔ٹیوٹر رکھ لیتے ہیں۔وہ پیسے لے گا مگر توجہ سے پڑھا دے گا بچے کی پوزیشن بھی ڈاؤن ہونے سے بچ جائے گی۔ (لیبل: منصوبہ بندی)
اگر کوئی خیال زیادہ سوار ہونے لگے تو فوراً اپنی توجہ سانس پر مرکوز کردیجئے۔
بار بار آپ کے ذہن میں آئے اسے کوئی مزاحیہ نام بھی دے سکتے ہیں۔
یہاں ہم آپ کو اپنے ایک دوست کی مثال دیتے ہیں ۔
جب ان سے یہ مشق کرنے کو کہا تو انہوں نے مشق کے دوران بار بار آنے والے اس تکلیف دہ خیال کو ٹام اینڈ جیری شو کا نام دے دیا۔اس کے ساتھ ہی ان کو جیری کی شرارتیں یاد آنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے اب خیال انہیں زیادہ پریشان نہیں کرتا۔ بلکہ ٹام اینڈ جیری کارٹون میرے سامنے ہوتا ہے اور میں اس سے بہت محظوظ ہوتا ہوں۔
ہمارے ایک دوست کو ان کے ایک دوست کی یاد بہت ستاتی وہ آنکھیں بند کرتے تو دوست کا چہرہ سامنے ہوتا۔ انہیں سمجھانا مشکل ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے اسے رد کرنے کے بجائے بلیو مون کا نام دے دیا۔ جب دوست کا خیال آیا اسے بلیو مون سے لیبل کرتے۔ حالانکہ بلیو مون تو شازو نادر ہی آسمان کو رعنائی بخشتا ہے۔
بہرحال یہ مائینڈفلنیس مشق اور لیبلنگ تھاٹس دس منٹ تک کرنی ہے۔ اگر آپ اس سے زیادہ وقت دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
اب آپ آنکھیں کھول لیجئے۔ اور دو سے تین سیکنڈ تک اپنی سانس کی آمدورفت پر دھیان دیجئے۔
جو خیال آیا جو نام دیا اب اس پر مزید مت سوچئے اور ایک گہری مائنڈ فلنیس مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام میں لگ جائیے۔ اس مشق کو ہفتے میں دو بار ضرور کیجئے۔
مشق نمبر 2
Half Smile Exercise
مُسکان سے دوستی کیجئے
حضرات زیادہ خوش نہ ہوں۔ ہم جس مُسکان سے دوستی کی بات کررہے ہیں وہ کوئی خاتون نہیں بلکہ آپ کی اپنی آدھی مسکراہٹ ہے جو آپ کے چہرے کو خوبصورت بنائے گی اور ایک جاذبیت بھی عطا کرے گی۔ یہ اس مسکان کے ظاہری خواص ہیں۔ جب کہ باطنی خواص ان گنت ہیں۔ مائینڈ فلنیس ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ اپنے چہرے خالی نہ رکھئے۔ اسے ایک ہلکی سی آدھی مسکراہٹ سے سجالیجئے۔
اب پریکٹس کے طور پر آپ ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ ایک مسکراتا ہوا سمبل 🙂 اپنی چھت پر سجالیں کہ جیسے ہی آنکھ کھلے آپ کی نگاہ اس سے ٹکرائے اور قدرتی طور پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ آپ کے لبوں پر آجائے۔ بس اب اس مسکراہٹ کو جانے متدیجئے۔
بستر پر لیٹے لیٹے تین گہرے سانس لیجئے۔ سانس لینے کی رفتار نہ تو تیز ہو اور نہ ہی بہت سست۔بس چند سیکنڈ اپنی سانس پر توجہ مرکوز کیجئے۔
اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے زندگی کا ایک اور خوبصورت دن عطا کیا۔اب آپ بستر چھوڑ سکتے ہیں۔
یاد رکھیئے کتنی بھی جلدی کیوں نہ ہو ایک منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا صبح صبح کی اس پریکٹس میں۔
یہ تو ہوگئی آپ کی ایک خوبصورت صبح ایک پیاری سی مسکان کے ساتھ۔ اب کوشش کیجئے کہ اس کا ساتھ کبھی نہ چھوٹے۔ جس لمحہ آپ کو احسا س ہو کہ آپ پریشان ہورہے ہیں یا کسی ذہنی دباؤ میں ہیں تین بار گہرے سانس لیجئے اور اس دوران اپنی مسکان کو برقرار رکھنے کی کوشش کیجئے۔
ایکسپرٹس کی رائے ہے کہ تھکاوٹ ہو یا پریشانی آپ کسی بھی وجہ سے ڈسٹرب ہوں فطری طور پر آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔
یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب آپ نے فوری طور پر ہونٹوں پر مسکان لانی ہے اور اسی طرح آدھی مسکراہٹ کے ساتھ تین گہرے سانس لینے ہیں۔
یاد رہے آپ نے اپنی سانس کے ہر مرحلے کو محسوس کرنا ہے۔ اس🙂 کا ساتھ بالکل بھی نہیں چھوڑنا۔ اپنی توجہ اپنی سانس کے آنے جانے پر مرکوز کردینی ہے۔
[box type=”note” align=”” class=”” width=””]
ساون اور آپ کی ناقابلِ تسخیر شخصیت
[/box]
مائنڈ فلنیس کے ساون کے ساتھ حاضرِ خدمت ہیں ۔ آج کے باب کا آغاز ذرا مختلف انداز میں ایک کہانی سے کرتے ہیں ۔
یہ کہانی ایک بستی کی ہے جو ایک قدرتی نہر کے کنارے آباد تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ اچانک نہر میں طغیانی آنے لگی ۔ بہاؤ بھی تیز تر ہوتا چلا گیا۔ اس کی طغیانی اور بہاؤ کو دیکھ کر اہلِ بستی کو یقین ہوچلا تھا کہ بہاؤکا یہی حال رہا تو بہت جلد سب ہی لقمہ اجل بن جائیں گے۔ لہذا اس گھمبیر مسئلہ کے حل کے لئے اہلِ بستی ایک جگہ اکٹھا ہوئے۔ تبادلہ خیال کے دوران نظریہ فکر اور سوچ کی بنیاد پر ان کے تین گروہ بن گئے اور تینوں کو اپنی اپنی تجاویز پر عمل درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔
پہلے گروہ کے افراد نے اپنا تمام اسباب اور قوت اس ندی کے بہاؤ کو روکنے اور اس کے آڑے آنے پر صرف کردی مگر اس کے منہ زور ندی کے آگے ان کی ایک نہ چلی نتیجے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے ۔تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کابہاؤ کم سے کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جاسکے۔ لہذا اس گروہ نے سرچشمہ کی تلاش میں اپنی کمر کس اور وہ کامیاب بھی ہوگئے ۔اب صورتحال یہ تھی کہ وہ ایک سوتا بند کرتے تو دوسرے سوتے پر دباؤ بڑھ جاتا اورپانی خارج ہونے لگتا ۔چشمے کے بہنے میں کوئی کمی نہ آئی اور تمام سوتوں کو بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔نتیجتاً اس گروہ کے اقدامات سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔
اب بستی کے مکانات اور کھیتیوں کو محفوظ کرنے کی آخری امید تیسراگروہ تھا۔اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوتے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اسباب اس بات پر صرف کیں کہ ندی کے اس تندو تیز بہاؤ کا صحیح اندازہ لگا کر اسے حسبِ منشا صحیح راہ پر لگایا جائے جس کے لئے انھوں نے نہر کا رخ بنجر زمینوں ،قابلِ زراعت کھیتوں کی جانب موڑ د یا اور تھوڑے تھوڑ ے فاصلے سے کئی مقامات پر تالاب بنادئیے نتیجتاً یہ ہوا کہ تمام زمین سبزے سے مالامال ہوگئی۔
اس پوری کہانی کا لبِ لباب یہ ہے کہ پہلے گروہ نے وقت ضائع کیا اور دوسرے نے بے جا محنت کی جبکہ تیسرے گروہ نے اس کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے نہ تو اسے روکا اور نہ ہی دبایا بلکہ اسے ایک مثبت اور باثمر کام میں استعمال کیا۔
دوستو دراصل یہ تمثیلی کہانی مائنڈ فلنیس کے ساون کا پیغام ہے جو وہ آپ کے لئے لایا ہے ۔ اب اگر غور کیا جائے تو نہر میں دو مخصوص عناصر ہیں۔ ایک پانی اور دوسرا اس کے ساتھ چلنے والی مٹی ۔اور یہ ہم جانتے ہیں کہ حضرتِ انسان کے تخلیقی فارمولے میں بھی یہ دو عناصراپنی جگہ اہم اور لازمی ہیں۔
دوستو ! ذرا گہرائی میں سوچئے تو آپ جان پائیں گیں کہ ساون، برسات یا بارش بھی تو پانی کا مٹی سے ایک گہرے تعلق ہے۔ ایک بندھن کا نام ہے جو بندھتا ہے تو دنیا میں سرسبزی وشادابی لاتا ہے، خوشحالی لاتا ہے۔ نہ بندھے تو چاروں اُور ویرانی سی ویرانی ،بنجر زمین، ریت اڑاتے سوکھے ویران میدان ہی نظر آئیں گے۔
یہ برستی بوندیں جب آسمان سے زمین کا رخ کرتی ہیں تو ایک گول قطرے کی مانند آہستہ آہستہ نزول کرتی ہوئی جیسے جیسے پیاسی زمین کے قریب ہوتی جاتی ہیں ویسے ویسے اپنی ہیت کھوکر مٹی میں مل جاتی ہیں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں اس میں جذب ہوجاتی ہیں اور یہی جذب زمین کی سیرابی اور اس کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔
اب ذرا اسی تمثیل کو مائنڈ فلنیس کے پیرائے میں سمجھتے ہیں۔
انسانی جذبات اور اس کی سوچ کا تال میل ہی ایک موثراور مضبوط یا پھر ایک کمزور ٹوٹی پھوٹی شخصیت کی تخلیق کرتا ہے۔ مائنڈ فلنیس ایکسپرٹ بتاتے ہیں کہ اگر ہم اپنے جذبات اور احساسات کے بہاؤ کوصحیح رخ پر موڑنا سیکھ لیں اور اپنے ماحول میں بہتی لہروں کو مثبت انداز میں خود میں جذب کرنا سیکھ لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے سامنے آپ ایک موثر اور مضبوط شخصیت کے روپ میں سامنے آئیں ۔ایک ایسی شخصیت جس کے جیسا بننے کی لوگ چاہ کریں ۔ مگر یاد رکھئیے گا کہ صرف مطالعے سے کام نہیں چلے گا اپنی شخصیت کے ارتقاء اور کامیابی کے لئے اس پر عمل بھی بہت ضروری ہے۔ یقیناً ساون رت کا یہ پیغام ان افراد کے لئے مفید ہے جو خود کو ایک موثر اور پرکشش شخصیت کے روپ میں دیکھتے ہیں یا دیکھنا چاہتے ہیں
مائنڈ فلنیس میں لفظ س۔ا۔و۔ن۔ چار حرفی لفظ یعنی چار اہم قدامات ہیں جو دراصل کسی بھی طرح کی جذباتی کیفیت یا اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے اور سچویشن کو ہینڈل کرنے میں اہم ثابت ہوتے ہیں ۔ آئیے ….! سب سے پہلے بات کرتے ہیں ساون کے پہلے حرف س یعنی پہلے قدم کی ۔
مشق نمبر 1
س: سنیے اور سمجھیے اپنے دل کی
یہ پہلا قدم ہے، اپنی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کیجیئے ۔آپ کو غصہ آرہا ہے یا تھکن محسوس ہورہی ہے یا اداسی ہے یا جلن۔ جو بھی ہے اسے محسوس کیجئے۔ جو بھی خیالات اس وقت آپ کے ہوں ان کو غور سے سنیئے،ایک شور سا آپ محسوس کرتے ہیں اپنے دل و دماغ میں ۔ایک جنگ سی چھڑی ہوتی ہے۔
آپ سمجھ نہیں پاتے کہ آپ کو غصہ زیادہ آرہاہے یا رونا۔ان کیفیات کو آپ نظر انداز مت کیجئے ۔ہوسکتا ہے آپ کے د ل پر چوٹ لگی ہو ۔کسی اپنے کی کہی کوئی بات بہت د رد دے رہی ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے آپ خود کو شکست خوردہ محسوس کررہے ہوں ۔یا پھر اپنی کسی محرومی کا احساس شدت سےستارہا ہو۔
اب یہ وہ باتیں اور احساسات ہیں جو ہم میں سے کوئی بھی کسی اور سے بھی برسبیلِ تذکرہ کہنا بھی پسند نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہیئے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ احساسات سے ہم خود بھی چشم پوشی کرتے ہیں ۔اب اگر آپ کو احساس ہوجائے کہ آپ کو بے وجہ غصہ بہت آتا ہے۔ آپ کے گھر والے اور قریبی دوست آپ کی اس عادت سے سخت نالاں بھی ہیں ۔تو بہتر ہوگا کہ اپنی اس بری عادت سے منہ پھیرنے کے بجائے اپنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کا غصہ بے وجہ نہ ہو۔ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انتہائی معمولی بات پر کسی نے آپ کو جھڑک دیا۔آپ کو برا لگا اور آپ نے چاہا کہ آپ اپنی ناپسندیدگی کا اظہاربھی کریں اور اپنا نکتہ نظر سمجھانے کی کوشش کریں۔ مگر آپ ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے ۔وجہ کوئی بھی بنی بہرحال آپ ایسا نہ کرسکے اور ایسا نہ کرسکنے کی صورت میں الٹا اپنے آپ کو کوسنا شروع کردیا یا تنہائی میں چھپ کربیٹھ گئے، منہ بنالیا، دل ہی دل میں جلتے کڑھتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں رات کو سونے لیٹے تو سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اب کیا کریں ماسوائے اس کے کہ ایک سر درد کی گولی کھائی اور تکیہ میں سر دبا کرلیٹ گئے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہم ظاہری طور پر کرتے ہیں ۔حالانکہ قدرت نے ہمارے دماغ کو اتنی صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ جب بھی وہ دباؤ محسوس کرتا ہے فوری طور پر آپ کی توجہ کو کسی اور جانب مبذول کرتا ہے ۔اس تبدیلی کو ہم شعوری طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔
جوزف گولڈسٹین Joseph Goldstein ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے دماغ میں چیزوں کو خود کار کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔یعنی جب ہم زیادہ ڈپریشن یا ذہنی دباؤ میں چلے جاتے ہیں تو اس صورت میں اکثر لوگوں کوبھوک زیادہ لگنے لگتی ہے،کچھ لوگوں کی نیند بڑھ جاتی ہے اور وہ ہر وقت بستر پر نظر آتے ہیں ۔ان کہنا ہے کہ ہم انہی پریشان کن اور منفی اتار چڑھاؤ میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ گولڈسٹین کہتا ہے کہ جب آپ کو یہ شعور ہے کہ آپ کو اچھی یا ایک موثر شخصیت بننا ہے تو آپ اپنے دماغ کی اس خود کار صلاحیت کو رحم دلانہ اور مثبت سوچ کی طرف گامزن کر دیں۔ مائنڈ فلنیس اس خود کار صلاحیت کو بہتر بنانے اور متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے۔
مایئنڈ فلنیس آپ کو یہ نصیحت کرتی ہے کہ جیسے ہی آپ کے دماغ میں کوئی پریشان کن خیال آئے تو آپ فورا اپنا دھیان وہاں سے نہ ہٹا یئے اور اسی وقت اچھا بننے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ایسا کرنے سے آپ مزید دباؤ میں چلے جائیں گے ۔عین ممکن ہے کہ یہ دباؤ یا غصہ لاشعور میں گھس کر کسی اور جارحانہ روپ میں اپنا اظہار کرنے کی کوشش کرے۔اس لئے اپنے جذبات کو ایک بچے کی طرح ٹریٹ کریں ۔جیسے بچہ کو کسی بات پر روکا جائے تو وہ اس کی ضد پکڑ لیتا ہے۔ اس لئے آپ اسے جھڑکنے کے بجائے اگر اس کی بات سن لیں اور کسی اور طرح بہلالے تو مسئلہ جلدی حل ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح آپ نے اپنے جذبات اور احساسات کے ساتھ انتہائی پیار اور شفقت والا برتاؤ رکھنا ہے ۔
اس کے لئے سانس کی مشق بہت اہم ہے۔ فوری طور پر آپ ایک لمبی گہری سانس لیں۔ سانس لینے کی رفتار کو دھیما رکھئے ۔بہت تیز تیز سانس نہیں لینا ہے اور اپنے اس لمحے کے احساسات کو جو غصہ ہو،مایوسی یا اداسی یا پھر جلن حسد بھی ہوسکتی ہے قبول کیجئے۔یعنی سب سے پہلے سنئے اپنے دل کی ۔اپنے احساس کو پوری طرح سمجھئے۔ بہتر یہ ہوگا کہ اگر رونا آرہا ہے تو رولیجئے ،مگر آپ کو شاید اس لمحے رونا اچھا نہ لگتا ہو۔تو فوری طور پر اپنی پوری توجہ سانس کے آنے جانے پر مرکوز کردیجئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو پائے گا۔ جب صورتحال بگڑتی ہے یا کوئی ناگوار بات سامنے آتی ہے تو اتنا ہوش ہی کہاں ہوتا ہے کہ ان تمام باتوں پر دھیان دیا جائے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے دل کی سننے بیٹھ جاؤ۔
ہم آپ کے اس اعتراض سے ذرا بھی احتراز نہیں برتیں گے کیونکہ آپ کو ابھی مائنڈ فلنیس طرزِحیات کی عادت نہیں ہے ۔مائنڈ فلنیس سے استفادہ کے خواہش مند خواتین و حضرات کو ابھی یہ عادت ڈالنی ہے اور یہ صرف مسلسل مشق سے ہی ممکن ہے۔ آپ اپنی ذات اور جذبات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیسے حاصل کرسکتے ہیں اسی کے لئے تو ہم آپ کو مائنڈ فلنیس سے آگاہی فراہم کررہے ہیں۔
مائنڈ فلنیس ساون کے جس پہلے قدم کی ہم نے وضاحت کی اسے آسانی سے اپنانے کے لئے اب ہم آپ کو چند مشقیں بتاتے ہیں یہ مشقیں آپ کو اپنی دل کی بات سننے اور اسے سمجھنے کی اہلیت میں ضافہ کریں گی تاکہ کسی بھی صورتحال میں آپ فوری طور پر خود پر قابو پاسکیں اور بلا وجہ کے تخریبی عمل جن میں خود کو کوسنا ،گالم گلوچ چیزیں پٹخنا یا بادل نخواستہ خود اپنی ذات کو کوئی نقصان پہچانا شامل ہے سے محفوظ رہ سکیں گے۔
مشق نمبر 1
آنکھیں کھُلی رکھیں
ارے ارے ڈرئیے مت ۔ہم خدا نخوستہ آپ کو ملکی حالات سے نہیں ڈرارہے اور نہ ہی حالات ِ حاضرہ پر نظر رکھنے کو کہہ رہے ہیں۔ مائنڈ فلنیس اوئیرنس (Mindfulness Awareness)کہتی ہے کہ آپ اپنے ارد گرد سے مکمل طور پر باخبر رہیے۔ چلیں ہم اسے بات کو اس طرح کہتے ہیں کہ آپ اپنے حواس کی آنکھیں کھلی رکھئے۔اب یہ سوال مت پوچھئے گا کہ کیا حواس کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس کا جواب تو ہے مگراس وقت اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔
اس لئے اپنی توجہ واپس لاتے ہیں مائنڈفنیس پر اوراس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ آپ کسی بھی کام میں مصروف ہوں اس کو پوری طرح سے محسوس کیجئے۔ اکثر گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ ٹی وی بھی چل رہا ہے۔ کوئی سلائی مشین چلارہا ہے تو پانی کی موٹر بھی شور مچارہی ہے، ساتھ میں ماسی صاحبہ جھاڑو بھی لگارہی ہیں اور پڑوس سے کسی کی زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں ۔ایسے میں کبھی ردی والا آوازیں لگاتا ہے تو کبھی سبزی والا۔ یا پھر کسی نے میوزک آن کیا ہوا ہے۔ اب آپ کو ان تمام کا علم یا احساس ہے مگر یہ آپ کی طبیعت پر یا آپ کے کام پر اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتے جب تک آپ ان پر توجہ مرکوز نہیں کرتے ۔اور آپ اپنے معمول کے کام میں مگن رہتے ہیں۔
اسی طرح آفس میں بھی کبھی فون کی گھنٹی بجی تو کبھی دیگر اسٹاف کی ادھر اُدھر نقل وحرکت آپ کے معمولات کو متاثر نہیں کرتی۔ مگر آپ کو پتا سبہوتا ہے ۔
محترم دوستو ! اتنی طویل تمہید کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں بکھری آوازوں کو من وعن قبول کرتے ہوئے کسی ایک آواز پر اپنا پورا دھیان مرکوز کردیجئے اور جتنی گہرائی میں اس آواز کو سن سکتے ہیں سنیئے ۔یہ آوازکس چیز کی ہے؟ کہاں سے آرہی ہے؟کیوں پیدا ہو رہی ہے ؟ان سے آپ کو کوئی سروکار نہیں رکھنا ہے بس اس آواز پر غور کیجئے اور اسے سنیئے ۔اب یہ آواز گھڑی کی ٹک ٹک بھی ہوسکتی ہے ، ہوا کی سائیں سائیں بھی۔ یا پھر کوئی میوزک۔اس دوران دیگر آوازیں بھی آپ کے کانوں سے ٹکرارہی ہیں ،مگر آپ کا دھیان اسی ایک آواز پر ہونا چاہیئے۔ اس مشق کو آپ مائنڈفلنیس مراقبہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
مشق نمبر 2
انگلیوں میں سرسراہٹ محسوس کریں
ہم نے ابتدائی اقساط میں آپ کو مائنڈفلنیس واک (walk)کے بارے میں بتایا تھا۔ اب اس میں مزید کرنا یہ ہے کہ آپ مخصوص اوقات میں ہی نہیں بلکہ اپنے سارادن میں جب بھی حرکت میں آئیں، چلنے کے دوران اپنی پوری توجہ اپنے ایک ایک قدم قدم پر مرکوز رکھئے ۔کام کے دوران آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھ کر جارہے ہیں ۔واش روم میں ہیں ، یا پھر شام کی چہل قدمی پر سیر کے لئے باہر نکلے ہیں چلنے کے دوران اپنی محسوس کرنے کی حس کو مکمل طور پر ایکٹو رکھیئے۔ زمین سے جب جب آپ کا تعلق جڑے اس کا احساس رکھئے ۔آپ کے پیروں کے تلوے انگلیاں انگوٹھے چکنے فرش کو چھورہے ہیں یا دبیز قالین کے رُوئیں کو یا پھرصحن کی گرم زمین پر پڑ رہے ہیں توزمین کی نرمی، سختی ، ٹھنڈک اور گرمی کا پورا پورا احساس رکھیئے ۔مگر اس احساس کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھئے ، اس دوران آپ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے ۔
کام کے دوران کرنا آپ نے یہ ہے کہ جیسے ہی فرصت کا کوئی لمحہ میسر آئے تو اپنے پیروں اور ہاتھوں کی انگلیوں میں ہونے والی سرسراہٹ پر توجہ مرکوز کردیجئے ۔محسوس کیجئے کہ اس سرسراہٹ کی حرکت کس سمت میں جارہی ہے یعنی انگلیوں کی پوروں سے اندر کی جانب پھیل رہی ہے یا اندر سے باہر انگلیوں کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ویسے ہم بتا دیتے ہیں کہ انگلیوں میں یہ سرسراہٹ پوروں سے اندر کی جانب ہوتی ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی توجہ انگوٹھوں پر لے آئیے ۔
مشق نمبر 3 سانس کی مشق
اپنے انگوٹھوں پر توجہ دیجیے
ابتدائی تعارفی اقساط میں بتائی گئی مشقوں پر آپ پابندی سے عمل کرتے رہے ہیں تو پھر مائنڈ فلنیس سانس کی مشق آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں۔
کرنا آپ نے بس اتنا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ،کام کرتے یا فارغ بیٹھے ہوئے اپنی ہر پوزیشن اور سچویشن میں مائنڈ فلنیس بریدھنگ (Breathing)یا سانس لینے کی عادت ڈالنی ہے۔ اس کے لیے کوشش کیجئے کہ سانس کی آمدورفت میں تیزی نہ ہو۔
دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آپ روزانہ اپنی مائنڈفلنیس بریدھنگ (Breathing)کے دوران تھوڑی دیر کے لئے اپنی پوری توجہ اور دھیان اپنے پیرو ں کے انگوٹھوں پر مرکوز کردیجئے۔
نوٹـ:یاد رکھنے کی باتیں
بیان کی گئی ابتدائی دونوں مشقوں دورانیہ کم سے کم 5 منٹ رکھئے ۔ تیسری مشق 2 منٹ سے زیادہ نہیں کرنی ہے ۔
مشق آپ نے روزانہ کرنی ہیں یعنی اپنے معمول کا حصہ بنائیے۔
اس مشق کا بہترین وقت دن کے مصروف اوقات ہیں جب زندگی میں زندگی دوڑ رہی ہوتی ہے،ایک ہلچل ہوتی ہے ۔
میرا دل نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہوسکتا۔ آپ میرا یقین کیجئے ….میرا دل کہتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے۔ نہ جانے زندگی میں کتنی بار آپ کو بھی ایسا کچھ کہنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی ۔دل و دماغ کے درمیان کشمکش سے تو ہر کوئی گزرتا ہے۔ کئی بار زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جب دماغ اور دل مختلف سمتوں پر جانے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کا فیصلہ الگ اور دماغ کا فیصلہ الگ ہوتاہے۔
ارے ایک منٹ رکئے ۔کیا میں نے صحیح کہا کہ دل فیصلہ کرنے کی صلاھیت رکھتا ہے ۔ آپ کہیں گے ۔جی بالکل صحیح کہا مگر دل کا فیصلہ زیادہ تر جذباتی اور غیر حقیقی ہوتا ہے ۔ دماغ کا حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتاہے ۔ جی بالکل صحیح جواب دیا ہے آپ نے ۔ مگر قارئین اکرام دل کے فیصلے کو محض جذباتی اورحقیقت سے دور سمجھنا بھی غلط ہے ۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جتنی بار آپ کے دل نے گواہی دی معاملے کے آخر میں آپ کا دل ہی صحیح اور سچا ثابت ہوا ہوگا۔
یہ دل کیوں بولتا ہے،جب کہ بولنے کاکام زبان کا ہے؟ یہ دل کیوں سوچتا ہے جب کہ سوچنے کا کام دماغ کا ہے….؟ اور یہ دل کیوں گھبراتا ہے جب کہ صحیح غلط کی نشاندہی کا کام شعور کا ہے؟ مائینڈ فلنیس ان سوالوں کا کیا جواب دیتی ہے۔ یہ بتانے سے پہلے کچھ بات کرتے ہیں ان حالیہ تحقیقات کی جو بتا تی ہیں کہ انسانی دل درحقیقت جسم میں نصب پورے جسم کو خون پہچانے والی محض ایک پمپنگ مشین ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ کچھ ایسا جس پر سائنس دانوں نے ابھی تک توجہ نہیں دی یا جسے محض جذباتیت، تصوراتی یا غیر حقیقی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہیومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ کے محقق اور کتاب Heart-Mind Matrixکے مصنف جوزف پیئرس Joseph Chilton Pearce قلبِ انسانی کے متعلق کہتے ہے کہ ‘‘ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔’’ وہ کردار کیا ہے….؟
اسے سمجھنے کے لئے پہلے آپ کو بتاتے ہیں ان جدید سائنسی تحقیقات اب بتاتی ہیں کہ انسانی دل دماغ کے تابع نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے انسانی دل میں اس کا اپنا ایک چھوٹا سا دماغ فٹ کیا ہوا ہے۔ بقول جوزف پیئرس [*1]‘‘دل کا کام ایک پمپ سے کہیں زیادہ لامحدود ہے۔ دل کے خلیات میں 40 فیصد نیورون (دماغی خلیات)ہوتے ہیں۔ دل منی ریڈیو سٹیشن کی طرح برقی مقناطیسی تعدد Electromagnetic Frequency پیدا کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر ایک خلیہ تک بدلتی دنیا سے اپنے تعلقات کا پیٖغام بھیجتا رہتا ہے۔ یہ پروگرام ایک زاویہ نظر کی تبدیلی paradigm shift کی نمائندگی کرتا ہے جو خلیات کے ساتھ ساتھ سوچ بھی تبدیل کردیتی ہے’’۔
دل اپنا دماغ رکھتا ہے
کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر Dr. J. Andrew Armourایم ڈی، پی ایچ ڈی کی تحقیقات کے مطابق انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیےNerve Cells پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔ مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضا حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔ ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر نے تحقیقات کے تحت ایک نئی میڈیکل فیلڈ نیوروکارڈیالوجیNeuro Cardiology کی بنیاد رکھی ہے ۔ یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام Nervous System، انھوں نے دل کے اعصابی نظام کے لیے‘‘دل کے اندر چھوٹا سا دماغ’’ A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ہے۔[*2]
دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ‘‘جدید سائنس ا نسانی دل کے متعلق اب یہ جاننے لگی ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں۔’’ انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کرلے۔ ان کا کہنا ہے کہ دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی محدود یاداشت Short Term Memory بھی پائی جاتی ہے ۔ دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر بھی فرائض ادا کرتا ہے۔
دل کا دماغ سے دو طرفہ رابطہ
1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ اُن کے مطابق کام کرتا ہے،لیکن 1970ءکی دہائی میں امریکی ریاست اوہائیو Ohio کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے معروف موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ American Psychologist کے مارچ 1978 شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھا:[*3] Two-way communication between the heart and the brain اُنہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضا کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپنی ہی کوئی منطق ودانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم میں سب سےزیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو ایک تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ، دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سےپانچ سوگنا زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔
محققین کہتے ہیں کہ انسانی دماغ اور انسانی جسم دل سے آنے والی معلومات کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں اور ایک منفرد تجربۂ زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔کیونکہ دماغ اور بقیہ جسم، دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس تجزیہ کے نتائج کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتےہیں ۔ دماغ سے آنے والے ان نتائج کے جواب میں انسانی دل پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی Neural and Hormonalسگنل بھیجتا ہے اور اُن میں تبدیلی لاتا ہے ۔ یہی تبدیلی زندگی سےمتعلق ا ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر شبت کردیتی ہے جو رویوں ،مزاج میں چھلکتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات کے موجودہ دلائل یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ دل کی باتوں کو نظر انداز مت کیجئے ۔ دل کی سننا اور ماننا سیکھئے مگر ا س کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے دل کے اندر موجود اس کے چھوٹے سے دماغ کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ قارئینِ اکرام….! یہی مائینڈ فلنیس کا نیکسٹ لیول ہے۔ اب تک آپ نے سیکھا کہ مائینڈفلنیس طرزِ زندگی کے مراقبے اور مشقیں دماغ پر کس طرح سے مثبت اثرات مرتب کرکے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لاتی ہیں۔مشقیں کس طرح حال میں جینے کے فن سے آگاہ کرتی ہیں۔ اب اس لیول میں آپ سیکھنے جارہے ہیں کہ مائینڈ فلنیس میڈیٹیشن اور دیگر مشقیں آپ کا آپ کے دل سے رابطہ کس طرح سے شفاف اور مضبوط بناتی ہیں ۔