Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
امن و سلامتی رحمت کے پیکرﷺ – روحانی ڈائجسٹـ
منگل , 3 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

امن و سلامتی رحمت کے پیکرﷺ

امن و سلامتی رحمت کے پیکرﷺ

World Peace Day 2023
21 ستمبر عالمی یومِ امن کے موقع پر خصوصی مضمون

 

اس دنیا میں انسانوں کے مختلف طبقات میں چاہے وہ مشرق سے ہوں یا مغرب سے، ہر شخص کی جد وجہد میں اگر غور سے کام لیا جائے تو واضح ہو گا کہ اگرچہ محنت اور کوشش کی راہیں مختلف ہیں مگر آخری مقصد سب کا ایک ہی ہے ،اور وہ ہے ‘‘امن وسکون کی زندگی’’….
حقیقی صورت حال آج یہ ہے کہ امن و سلامتی کا دُور دُور تک سراغ نہیں ملتا۔ ہرشخص بے اطمینانی اورپریشانی کے عالم میں ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازارگرم ہے اورکرپشن اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی، لسانی یاسماجی گروہ ایک دوسرے کوبرداشت کرنے پر تیارنہیں۔ قتل وغارت گری عام ہے۔ مختلف ممالک کے سربراہان باہم ملتے ہیں توامن کے موضوع پر چرچاکرتے ہیں۔ امن کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر مختلف ادارے قائم ہیں۔ ان کے تحت آئے دن مختلف ممالک میں کنونشن منعقدہوتے اور قراردادیں منظورکی جاتی ہیں۔قیام امن کے لیے ہرملک اپنے یہاں سیکورٹی ایجنسیاں قائم کرتاہے۔ لیکن اس کے باوجودامن کا حصول دشواربلکہ ناممکن نظرآتاہے۔ مقامی سطح سے لے کرعالمی سطح تک بدامنی،انتشار اورفتنہ وفسادمیں برابراضافہ ہورہاہے۔
اگر ہم تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو ہمیں طرح طرح کے رہنما دکھائی دیتے ہیں جن کی تعلیمات صرف خیر و فلاح تک کے ذکر دکھائی دیتی ہیں اور ان کے اثرات زندگی کے کسی ایک پہلو یا گوشہ پر اثر انداز ہوتے ہو ئے نظر آتے ہیں مگر محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کے سوا کوئی شخص پوری تاریخ انسانیت میں ہمیں ایسا دکھائی نہیں دیتا جس نے نہ صرف انسان کو بلکہ پورے معاشرے کو اجتماعی طور پر اندر سے بدل دیا ہو۔ جس قدر گہرائی میں جاکر حضرت محمدﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے اُسی قدر انسان میں احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے اور یہ بات یقین کا درجہ حاصل کرلیتی ہے کہ نوعِ انسانی کی آخری پناہ گاہ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات ہیں۔
آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے نجات دہندہ بن کرتشریف لائے۔ آپﷺ نے انسانوں کو اللہ کاپیغام پہنچایا۔ رسول اللہﷺ نے آفاقی احکام کے ذریعے عامتہ الناس کی رہنمائی کی اور جنگ و جدل کی کیفیت سے لوگوں کو نکال کر امن و سلامتی عطا فرمائی۔ قرآن کریم آپﷺ کی خصوصیت ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:‘‘ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔’’ (سورۂ انبیاء : 107)
اس دین کا ہی پیغام ہے کہ اللہ رب العالمین ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجاہے ۔ امن و سلامتی کے پیغام کو عام کرنا آپ ﷺ کے بنیادی مشن میں شامل تھا۔ آپﷺ امن وسلامتی کا علم برداردین لے کر آئے،اس عظیم دین کا حسن دیکھئے کہ اسلام ‘‘سلامتی’’ اور ایمان ‘‘امن’’ سے عبارت ہے اور اس کا نام ہی ہمیں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دینے کیلئے واضح اشارہ ہے۔
قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں، دین میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں(سورۂ بقرہ: 256)،جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا (سورۂ مائدہ: 32)، اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیونکہ اللہ فساد پھیلانے والوں والوں کو پسند نہیں فرماتا۔(سورۂ قصص: 77) جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے خداؤں کو برا مت کہو نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو برا کہیں گے۔(سورۂانعام: 108) ، اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ انتہائی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ اور ان کے ساتھ بہتر طریقے پر مباحثہ کرو (سورۂ نحل: 125) ۔
تعلیمات نبوی پر ایک نظر ڈالئے۔ واضح احکام ہیں کہ وہ مومن نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ نہ ہو(بخاری)، آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو(مسلم)، تم سلامتی کو عام کرو ، تم بھی سلامتی میں رہوگے(مسند احمد) تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتاہے(بیہقی)
قرآن اور حضور نبیٔ کریم کی تمام تعلیمات امن وسلامتی اور اس کے متعلق احکامات سے وابستہ ہے۔ خود نبئ رحمتﷺ کی حیاتِ طیبہ، صبر و برداشت، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے ، آپ ﷺ نے ہمیشہ محبت و اخوت اور اعتدال و توازن کا درس دیا ہے، جبر، بے انصافی، ظلم و تشدد وغیرہ آپﷺ کی تعلیمات کے قطعاً منافی ہے۔ آپ کی تعلیمات سے انسانوں کے ضمیرپاکیزہ ہوگئے، ان کی معاشرتی زندگی میں سدھارآگیا۔ پیغمبر امن ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپﷺ کی زندگی کا اہم گوشہ ‘‘بحیثیت داعی امن و اخوت’’ ہے۔ آپﷺ نے اپنے اخلاق کریمانہ سے تائید غیبی کے ساتھ لوگوں کو محبت و اخوت کی لڑی میں پرو دیا جو معاشرہ انتشار و افتراق میں مبتلا تھا اس میں لوگوں کو ایک دوسرے کےساتھ منسلک کر دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:‘‘اوراللہ کے ان احسانات کو یادکروکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوںمیں الفت پیداکردی اورتم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے’’۔ (سورۂ آل عمران:103)
ہجرت کے موقع پر مہاجرین دین کی خاطر اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر ایک نہایت اہم قدم اٹھاتے ہوئے انصار و مہاجرین کو اسلام کے رشتۂ اخوت میں منسلک کر دیا۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصاری کا بھائی بنا دیا گیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ فیاضی اور ایثار کے جو مظاہرے کیے وہ اسلامی و عالمی تاریخ میں سنہری حرفوں سےلکھے گئے۔
پیغمبر امنﷺ کی شخصیت کا قبل بعثت مطالعہ واضح کرتا ہے کہ آپﷺ عرب کے جاہلانہ معاشرہ میں بھی امن و اخوت کے داعی تھے۔ اس کی ایک مثال قریش میں آپﷺ کے ثالث مقرر ہونے سے دی جاسکتی ہے۔ خانہ کعبہ میں ازسر نو تنصیب حجر اسود کے معاملے میں عربوں میں شدید اختلاف رونما ہوا مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی، اور قتل وقتال کا اندیشہ پیدا ہوگیا،اس انتہائی سنگین وقت میں آپﷺ نے حسن تدبر اور ذہنی بصیرت کی بناء پر چادر میں حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے رکھ کر ہر قبیلے کے سردار سے کہا کہ چادر کے کونے کو پکڑ لو چنانچہ تمام سرداران قریش نے مل کر اس چادر کے کنارے چاروں طرف سے پکڑ کر پتھر کو اٹھالیا، جب پتھر اس مقام پر پہنچا جہاں اس کو نصب کرنا تھا تو آپﷺ نے چادر سے اٹھا کر اس کی جگہ نصب کردیا۔ اس طرح ایک بڑے فتنہ کاسد باب ہوا، اور امن کی فضا قائم رہی۔(سیرۃ ابن ہشام)
قبل از بعثت آپﷺ ہی کی کوششوں سے تاریک معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہوا۔ آپﷺ ہی کی کوششوں سے اکثر قبیلوں کے سردار ایک معاہدہ کرنے پر رضا مند ہوئے جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سب لوگ مل کر ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کریں اور مظلوم کی مدد کریں، اس معاہدہ کو‘‘حلف الفضول” کہتے ہیں ، اس پُرامن معاشرتی معاہدہ میں بنوہاشم، بنو عبدالمطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم شامل تھے۔ اس معاہدہ کی اہم شقیں یہ تھیں کہ ملک سے بدامنی دور کریں گے، مسافروں کی حفاظت کریں گے، غریبوں کی امداد کیا کریں گے، زبردستوں کو ظلم کرنے سے روکیں گے۔ آپﷺ بھی اس معاہدے میں شریک تھے اور اس کو اس قدر پسند فرمایا تھا کہ آپﷺ ارشاد فرماتے تھے: ‘‘اس معاہدے کے بدلے مجھے سرخ اونٹ دیے جاتے تو بھی میں نہ لیتا اور اگر اب بھی مجھے ایسے معاہدہ کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔’’ (طبقات ابن سعد)
بعثت کے بعد جب آپ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، تو جواب میں مشرکین نے آپ کو بہت اذیتیں دیں، حضور ﷺکو ستانے کے لئے انتشار انگیزیاں، کٹ حجتیاں، دلائل، استہزاء، غنڈہ گردی ہر ممکنہ صورت کو اختیار کیا گیا۔ محلہ کے پڑوسی جو بڑے بڑے سردار تھے آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے ، نماز پڑھتے وقت شور مچاتے، اوجھڑیاں لاکر ڈالتے، گلا گھونٹتے لیکن حضور ﷺ نے ان سب حرکتوں پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ مشرکوں نے بنوہاشم کو شعب ابی طالب میں قید کردیا گیا۔ پھر جب مکہ سے طائف گئے، تو وہاں جو برتاؤ کیا گیا اگر آپ چاہتے تو فرشتوں کی پیش کردہ تجویز پر عمل کرکے پورے طائف کو تباہ کردیتے آپ ﷺ نے ایک لفظ ان کے خلاف نہ کہا بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے اچھی توقعات کا اظہار فرمایا۔
امن وسلامتی کی ایک واضح مثال صلح حدبیہ ہے۔ مہاجرین کو ہجرت کئے ایک مدت ہوگئی تھی۔ ان کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوتا کہ اپنے خاندان سے ملاقات کریں، بیت اللہ کی زیارت کریں، اسی ارادے سے حضور ﷺ صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر جانب مکہ روانہ ہوئے، مقام حدبیہ پرقیام کیا اور اطلاع کے لیے حضرت عثمان کو بھیجا، مکہ کے سرداروں نے مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو ایک معاہدے کے نکات کے ساتھ آئے، تو اس موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی ہر شرط قبول کی، اور بظاہر اتنا دب کر صلح کی کہ بعض صحابہ تک اس پر دل برداشتہ ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہم حق پر نہیں….؟
مدنی زندگی میں امن کے لئے کوششیں حضورﷺ نے کیں ۔ آپ نے مدینہ آتے ہی وہاں کے یہود سے عہد کیا کہ ہم آپس میں امن وامان کے ساتھ رہیں گے، اگر کوئی خارجی حملہ ہوگا تو ہم سب مل کر اس کا دفاع کریں گے، اسی طرح کا معاہدہ حضورﷺ نے آس پاس کے دیگر قبائل سےبھی کیا۔
حضور ﷺ نے دورانِ جنگ بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا چاہے وہ مشرکین ہی کیوں نہ ہوں، نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے ساتھ بھی نرمی کرنے کی ترغیب دی۔ اسی طرح جو اطاعت قبول کرلے اس کو بھی معاف کرنے کا حکم دیا، بدر کے قیدیوں سے حسن سلوک کرکے، فتح مکہ کے بعد عام امن وامان کا اعلان کرکے، یہودیوں کی سازشوں کے بعد جلاوطنی پر اکتفا کرکے، خیبر کی فتح کے بعد کاشت کے لئے ان کو زمین دے کر امن وامان اور سلامتی وسلامتی کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
امن و سلامتی اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی مثال رسول اللہﷺ عظیم ترین تاریخ ساز خطبہ ‘‘خطبہ حجتہ الوداع’’ ہے جو آپﷺنے میدانِ عرفات میں نے ایک لاکھ مسلمانوں کے سامنے دیا۔ اس خطبے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں پیغمبر آخرالزماںﷺ نے محض مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو مخاطب کیا۔ اس خطے میں انسانی حقوق کی بابت ایسے اہم اور ضروری ارشادات ہیں جو قانون دان و قانون ساز افراد کے لئے قانون مدون کرنے اور دستور وضع کرنے کے سلسلہ میں بیک وقت مشعل راہ اور منزل مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج اقوام متحدہ کا قائم کردہ انسانی حقوق کا عالمی منشور جن چھ بنیادی نکات پر استوار ہے وہ بڑی خوبی سے اس میں بیان ہوئے ہیں۔ خطبہ حجتہ الوداع کا خلاصہ یہ ہےکہ
انسانی جان بہت اہم اور بیش قیمت ہے، چنانچہ اُسے تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات ہونے چاہئیں۔ اسلام مذہب،نسل اور جنس سے ماورا ہو کر تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق عطا کرتا ہے۔ اسلام کی نظرمیں تمام انسان برابرہیں، کیوں کہ سب ایک ماں باپ سے پیداہوئے ہیں۔ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر ،نہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،اسی طرح نہ کسی گورے کو کسی کالے پر،نہ کسی کالے کوکسی گورے پر ،کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کا دارومدارصرف تقوی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندرسب سے زیادہ پرہیزگارہے۔ تمام مؤمن بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کا مال حلال نہیں سوائے اس کے کہ وہ خوش دلی سے دے۔ یقینا تمہارے لیے ایک دوسرے کا خون، مال اور عزت قابل احترام ہیں، جیسے تمہارے لیے یہ دن یہ مہینہ اور یہ شہر (مکہ)قابل احترام ہے- اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ مجرم خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے۔ نہ باپ کے بدلہ بیٹے کا مؤاخذہ کیا جائے گا اور نہ بیٹے کے جرم پر باپ سے باز پرس ہوگی۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ جاہلیت کا سارا سود اور خون معاف ہے ۔ یقینا ہر صاحب حق کو اس کا حق دو۔ کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے۔ تمہارے اوپر تمہاری بیویوں کے حقوق واجب ہیں اور اُن کے ذمہ تمہارے حقوق ہیں-
حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ایک نظر میں محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ ایسے وسیع اور ہمہ گیر ذہن رکھنے والی محبِ انسانیت ہستی کی مقدس زندگی ہے جس کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ امیر اور غریب ، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب سب انسانوں کو آپؐ اِس حیثیت سے دیکھتے تھے کہ یہ سب ایک باپ آدمؑ کی اولاد ہیں اور ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں۔ آپﷺ کی زبانِ مبارک سے تمام عمر کوئی ایک لفظ یا ایک فقرہ ایسا نہ نکلا جس سے کسی قوم کی برائی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات اقدس میں ہی حبشی ، ایرانی ، رومی اور دیگر حضرات اُسی طرح رفیق کا ر بنے جس طرح کہ عربی النسل…. آپؐ کے پردہ فرمانے کے بعد زمین کے ہرگوشے میں ہر نسل اور ہر قوم کے انسانوں نے آپﷺ کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کرلیا جس طرح کہ خود آپ ﷺ کی اپنی قوم نے ۔
ایسا اس لئے ہوا کہ آپﷺ کی شخصیت ، آپﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺکا پیغام دنیا کے تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے ۔

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ جنوری 2015 کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن مطالعہ کرنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیجیے!

روحانی ڈائجسٹ آن لائن کی سالانہ سبسکرپشن صرف 1000 روپے میں حاصل کیجیے۔

یہ رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش، منی آرڈر یا ڈائریکٹ بنک ٹرانسفر کے ذریعے بھجوائی جاسکتی ہے ۔

    • بذریعہ JazzCash  ۔ 03032546050 
    • بذریعہ Easypaisa  ۔ 03418746050
  • یا پھر اپنی ادائیگی براہ راست ہمارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں
    .Roohani Digest : IBAN PK19 HABB0015000002382903

مزید رابطے کے لیے   سرکیولیشن مینیجر

manageroohanidigest@gmail.com

واٹس ایپ نمبر   03418746050

فون نمبر : 02136606329

یہ بھی دیکھیں

سانحہ کربلا کا پیغام

نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے …

ارطغرل کی داستان

روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء  سے انتخاب….   یہ کوئی ناول،کہانی یا ڈرامہ نہیں بلکہ خلافت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے