Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

شکریہ ۔ قسط 10

دنیا بھر میں ہر روز بے شمار تربیتی پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں ، مضامین، کالم اور کتابیں یہ بتانے کے لئے لکھی جاتی ہیں کہ کس طرح ان خواہشات کے حصول کی تکمیل کی جائے۔ زندگی بہتر انداز میں گزارنے کے لئے ہم اپنے طور پربھی کوشش اور تجربات کرتے رہتے ہیں ۔اس کے باوجودہم ایسی زندگی نہیں گزار پاتے جو انسانیت کے شایانِ شان ہو۔ہم غربت، جہالت، بے روزگاری جیسے مسائل سے دو چار ہیں ۔ ہمارے رشتوں میں محبت ، قربانی اور روا داری کا فقدان رہتا ہے۔ اچھی زندگی ہمارے لئے ایک خواب بن جاتی ہے، وہ خواب جو ہم ہر رات دیکھتے ہیں ۔زندگی ایک معمہ بن جاتی ہے ، جسے سمجھتے سمجھتے پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ 1998 سے میرا تعلق پڑھانے اور ٹریننگز کرانے سے رہا ہے۔ اس دوران میں نے سینکڑوں لوگوں کے نقطہ نظر کو سنا، کتابیں پڑھیں اور یہ کوشش کی کوئی ایسا فارمولا ہاتھ لگ جائے جس کے باعث ہم مطلوبہ نتائج حاصل کر تے ہوئے خوشحال زندگی گزاریں ۔ ایسی زندگی جو دونوں جہانوں میں سرفراز کر دے۔میرا ایمان ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے وہ حاصل کر ہی لیتا ہے۔مجھے بھی وہ فارمولا مل گیا۔ میں اس کے بارے میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یہ کامیابی اور خوشحالی کا واحد فارمولا ہے،واحد فارمولا۔ اس سلسلۂ مضامین کا مقصد یہی ہے کہ نا صرف اُس قانون کو بیان کیا جائے بلکہ اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا جائے تاکہ ہماری زندگی صحت ،محبت ، دولت اور خوشیوں سے بھر نے کے ساتھ ساتھ خدا کی رضا بھی حاصل کر لے ۔ محمد زبیر


زندگی کا ایندھن

دسواں دن

 

It is not happiness that makes you grateful; it is gratefulness that makes you happy.
~Brother David Steindl – Rast

‘‘خوشی آپ کو شکرگزار نہیں بناتی بلکہ شکرگزاری آپ کو خوش رکھتی ہے’’۔  [برادر ڈیوڈ اسٹینڈل]

کھانا کھانے سے پہلے شکر ادا کرنا ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ یہاں تک کہ اس کے شواہد قدیم مصری تہذیب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں ہم اُن تمام خوبصورت چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہونی چاہئیں۔آج ہم نے شکر ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کئی کئی دنوں، کئی کئی ہفتوں اور بعض اوقات کئی کئی مہینوں تک ہمیں بلا ناغہ دن کے تینوں اوقات میں وقت پر گرم اور صاف ستھرا کھانانصیب ہوتا ہے ۔ لیکن ہم ایک بار بھی شکر ادا کئے بغیر کھاتے رہتے ہیں، کھاتے رہتے ہیں اور اگر کبھی ایک مرتبہ بھی وقت پر یا ہماری مرضی کے مطابق نہ ملے تو ہم فوراً سب کچھ بھول جاتے ہیں اور جو نعمتیں ملتی رہی ہیں ان پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں۔
اگر ہم اپنے کھانے کو شکر سے مزین کر لیں تو نہ صرف کھانے میں بلکہ بے شمار کاموں میں اللہ خوشیاں بھر دے گا۔ سنن ابنِ ماجہ کی روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، :

 اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ

‘‘کھانا کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کے برابرہے’’۔ [ترمذی؛ ابن ماجہ]

اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ 

‘‘کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کے لیے صبر کرنے والے روزہ دار کے اجر کی مثل (اجر) ہے’’۔ [جامع صغیرطبرانی]

کھانا کھا کر شکر ادا کرنا بظاہر کتنا عام سا عمل ہے لیکن اس کے اثرات ہماری سوچ اور توقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔
اگر آپ ایک لمحہ کے لئے وہ وقت یاد کریں جب آپ کو بھوک لگ رہی تھی، شدید بھوک۔ آپ کو یاد آئے گا آپ نہ تو کچھ کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی سوچنے سمجھنے کے۔ آپ کو کمزوری محسوس ہورہی تھی اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔اس وقت کھانے کی کوئی عام سی چیزبھی کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں تھی۔ چند گھنٹوں کی بھوک نے آپ کی عقل ٹھکانے لگا دی تھی۔ 

The belly rules the mind.  ~Spanish Proverb

‘‘پیٹ دماغ پر حکومت کرتا ہے۔ ’’ [ہسپانوی کہاوت]

One cannot think well,  love well, sleep well,
if one has not dined well.  ~Virginia Woolf

‘‘کوئی شخص نہ تو اچھی طرح سوچ سکتاہے، اچھی طرح محبت کر سکتا ہے،اور نہ ہی اچھی طرح سو سکتا ہے، اگر اس نے اچھی طرح کھانا نہ کھایا ہو’’۔ [ورجینیا وولف]

ہمیں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے زندہ رہنے کے لئے، سوچنے کے لئے، اور زندگی کو بھر پور انداز سے جینے کے لئے ۔اب اگر اس کے لئے بھی شکرا دا نہیں کریں گے تو کس طرح کے معجزے دیکھنے کے بعد کریں گے۔
تھوڑی سی توجہ اور دیں ،شکر گزاری مزید آسان ہوجائے گی۔ اُن تمام لوگوں کے متعلق سوچیں جن کی محنت آپ کے ہر ہر نوالے میں شامل ہوتی ہے ۔ اگر غور کریں گے تو ہر ہر کھانے کے لئے نہیں ہر ہر لقمے کے لئے شکر اد ا کریں گے ۔
باغوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے لوگوں کو ہم تک تازہ پھل اور سبزیاں پہنچانے کے لئے ان پودوں اور درختوں کی نشو نما کرنی پڑتی ہے، مستقل پانی دینا پڑتا ہے ، تپتی دھوپ میں ہل چلانا پڑتا ہے، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ پھر اُن کی کٹائی اور صفائی ہوتی ہے اُس کے بعد کچھ لوگ اُسے پیک (Pack)کرتے ہیں ، کچھ تقسیم کرتے ہیں، کچھ گاڑیوں میں لاد کر میلوں سفر طے کرتے ہیں، پھر یہ سب منڈیوں میں آتا ہے، منڈیوں میں کچھ لوگ انہیں خریدتے ہیں اور پھر بہت سارے لوگ تھوڑی تھوڑی مقدار میں لے کر بازاروں ، دکانوں یا گھر گھر جاکر فروخت کرتے ہیں جن سے ہم بغیر کسی محنت کے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اور شکر تک ادا نہیں کرتے۔
اسی طرح گوشت ، مچھلی ، دودھ ، چائے ، کافی اور دیگر اشیاء بے شمار ہاتھوں سے ہوتی ہوئی مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی ہم تک پہنچتی ہیں جن کا شکر ادا کرنا تو ایک طرف ہم انہیں اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اگر نہ ملے تو واویلا مچادیتے ہیں ۔ یہی ناشکری ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
نا شکروں کے ساتھ دوطرح کے معاملات ہوتے ہیں ۔ پہلا تو یہ ہے کہ وہ نعمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ترستے رہتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ ان نعمتوں سے گھر بھرا ہونے کے باوجود ان میں برکت نہیں رہتی۔ ان چیزوں کی قدر نہیں ہوتی ا ور آپس میں محبت نہیں ہوتی۔ اتنا کچھ انہیں کم لگتا ہے ۔ وقتی طور پر ہوسکتا ہے کہ سب کچھ صحیح لگ رہا ہولیکن وقت کے ساتھ ساتھ ساری خوشیاں اور سارا سکون ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
جب کبھی کھانا کھائیں تو ‘‘الحمدللہ’’ یا ‘‘اللہ تیرا شکر ہے’’ کہیں ۔ یہ کھانا اور پانی صحت ، برکت اور مزید نعمتوں کا سبب بنے گا۔کھانے کا شکر یہ ادا کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اس کھانے سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
ہمارے ایک دوست اکثر ہمارے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ، بعض اوقات جب وہ اپنا آدھے سے زیادہ کھانا کھا چکے ہوتے ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کھانا ٹھیک ہے، کسی چیز کی کمی یا زیادتی تو نہیں تو وہ کہتےہیں :
‘‘میں نے غور سے نہیں کھایا، ابھی بتاتا ہوں ’’،
پھر وہ غور سے کھاتے ہیں ا ور کہتے ہیں ، ہاں یار نمک تھوڑا کم ہے یا بہت مزے کا بنایاہے وغیرہ ۔
آپ ہر گز ایسا نہ کریں۔ کھانا لطف اندوز ہونے کیلئے دیا ہے، اس سے لطف اندوز ہوں ۔ جتنا زیادہ لطف اندوز ہوں گے اتنا زیادہ اچھے انداز سے شکر ادا کر سکیں گے۔

People who love to eat are always the best people. ~Julia Child

‘‘جو لوگ کھانے سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیشہ بہترین لوگ ہوتے ہیں ’’۔ [جولیہ چائلڈ]

اگلی مرتبہ جب کبھی کھانے کے درمیان آپ کو خیال آئے کہ کھانے کے لئے شکر ادا نہیں کیا تو رُکیں ، شکر ادا کریں اور پھرکھانا جاری رکھیں ۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ کتنی بڑی نعمت کی اہمیت کو نظر انداز کئے ہوئے تھے۔
سوچیں یہ وہی کھانا ہے جو نہ ملے تو کمزور کردیتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لیتا ہے، غلط کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔آپ کو اندازہ نہیں یہی کھانا شکر گزاری کے باعث کتنی تقویت پہنچاسکتا ہے ۔ جب ہم اس کی اہمیت سمجھے بغیراسے استعمال کرتے رہتے ہیں تو ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس میں سے برکت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کام کریں ۔شدید بھوک میں وقت پرکھانا نہ ملنے یا مزیدار کھانا نہ ملنے پر اگر اب تک غصہ آتا رہا ہے تو آج سے جب بھی ایسی صورتِ حال پیش آئے تو اس بھوک کیلئے دل سے شکر ادا کریں کیونکہ ہر روز بے شمار لوگ اپنی محنت سے کمایا گیا ایک بہت بڑا حصہ ان ادویات پر خرچ کرتے ہیں جس کے باعث انہیں تھوڑی سی بھوک محسوس ہو جائے۔ یہ بھوک قدرتی بھوک کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
قدرتی طور پر لگنے والی بھوک تو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جسے ہم فراموش کیے ہوئے ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ ہم سب نے کیا ہے کہ جب جب بھوک جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کی جاتی ہے، اس کا پہلا اثر ہمارے تعلقات پر پڑتا ہے۔
اگر آپ کھانے کے لئے شکر ادا کرنا بھول جائیں تو دن کے کسی بھی وقت جب بھی یاد آئے اسی وقت آنکھیں بند کریں اور وہ وقت یاد کریں جب آپ پانی پی رہے تھے یا کچھ کھارہے تھے۔ پھر د ل سے شکر ادا کریں کہ اگر یہ سب کچھ آپ کو میسر نہ ہوتا توآپ کے لئے کتنی پریشانی کا باعث ہوتا۔
شکر گزاری کے بغیر زندگی ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارے خوابوں کا انحصار انہی تشکّر کے جذبات پرہے۔

‘‘اگر آپ آج سے شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو سمجھیں کہ حالات آج سے بہتر ہو گئے’’۔
[واصف علی واصف]

 

 

[دسواں دن ]

اپنے من پسندکھانوں کے نام لکھیں:۔

1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لوگوں کے نام لکھیں جن کے ساتھ آپ کھانا کھاتے ہوئے بہت محظوظ ہوتے ہیں :

 

1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان مقامات کے نام لکھیں جہاں کا کھانا آپ کو بہت پسند ہے:

1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فوائد و تاثرات: 
_____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________

 

کیون کارٹر ایک حیران کن شخصیت

پوری دنیا میں کیون کارٹر Kevin Carter کی شہرت کے چرچے تھے۔ لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کی جستجو کرتے۔ لڑکیاں اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے، اس سے آٹوگراف لینے کیلئے بےتاب رہتیں۔ 33سالہ اس نوجوان نے 1993 میں ایک ایسی تصویر کھینچی جس کی شہرت میں آج تک کمی نہیں آئی ۔


اس تصویر کو پوری دنیا میں کتنے اخبارات اور تمام سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں پر نہ جانے کتنی بار لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی طرف سے اسٹاک کیا گیا ہے، کروڑوں لوگوں نے اس کو ٹیگ کیا ہے، آج بھی ہر روز لاتعداد لوگ سوشل میڈیا پر نا صرف اس کی اُس انعام یافتہ تصویر کو دیکھتے بلکہ اس تخلیق کے خالق کے متعلق انہماک سے پڑھتے اور اپنی رائے کا اظہاربھی کرتے ہیں۔مگر کیا اس کے پیچھے کی چھونے کہانی کسی کو معلوم ہے؟
اسی تصویر نے کیون کارٹر کو پلٹزر ایوارڈPulitzer Prize بھی دلوایا۔ یہ ایوارڈ امریکہ میں صحافیوں کو دیا جانے والا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔یہ ایوارڈ ملنے کے چند ماہ بعد ہی کارٹر نے خود کشی کرلی۔اہم ترین بات یہ ہے کہ خود کشی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی تصویر بنی، جس نے اسے ناموری عطا کی تھی۔
مارچ 1993میں کارٹر سوڈان گیا، جہاں اس کا کام قحط زدہ لوگوں کی تصویریں لینا تھا۔ ایک دن اسے ایک ایسی بچی کی تصویر لینے کا موقع ملاجس کے والدین اسے چھوڑ کر کھانا لینے گئے ہوئے تھے ، اوروہ بھوک سے نڈھال آہستہ آہستہ سسک سسک کر اپنے والدین کے پیچھے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس بچی کے جسم پر ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آرہی تھیں، گوشت نام کو نہیں تھا۔اسی دوران ایک گدھ اس کے پیچھے آکر تاک میں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ جیسے ہی بچی کی جان نکلتی ہے، وہ اس پر حملہ کر دیگا۔
کافی دیر تک تو کارٹر اس پورے منظر کو دیکھتا رہا، پھر خاموشی سے تصویر لے لی۔تصویر لینے کے بعد اس نے گدھ کوتو بھگا دیا لیکن خود ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس بچی میں اسے اپنی بیٹی کی تصویر نظر آرہی تھی۔
ویسے اس تصویر کے علاوہ سوڈان کے اس بحران کی انہوں نے اور بھی کئی تصویر کھینچی تھیں، مگر یہ تصویر ان کو خاص لگی…. ! واپس آکر کیون کارٹر نے اس تصویر کو مشہور امریکی اخبار New York Times کو فروخت کردیا، یہ تصویر پہلی بار 26مارچ ، 1993کو نیویارک ٹائمزمیں شائع ہوئی اور اس تصویر کا عنوان تھا: "Metaphor for Africa’s despair”

سوڈان میں ایک بچی کے مرنے کے انتظار میں اس کے پاس بیٹھا گدھ! کیون کارٹر کی ایوارڈ یافتہ تصویر ‘‘The vulture and the little girl’’


فوٹو گرافر کیون کارٹر کو اس تصویر کے لئے پلیزر پرائز ملا اور اس تصویر کے شائع ہوتے ہی دنیا بھر کے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے کیون کارٹر سے اس سوڈانی بچی کے بارے میں ہزاروں سوال اُٹھائے! بعض نے تو اس پر یہ الزام بھی لگائے کہ اس نے اس وقت تصویر کھینچنا زیادہ مناسب سمجھا بہ نسبت اس رینگتی ہوئی بچی کو بچانے کے! وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس وقت سوڈان میں متاثرہ بیماریاں پھیلی تھی اور صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو زخمی اور دم توڑتے سوڈانی لوگوں سے دور رہنے کا حکم U .N. (یونائیٹڈ نیشن) کی طرف سے دیا گیا تھا … یہی وجہ تھی کہ کیون کارٹر اس بچی کو اٹھا نہ پائے!….
کیون کارٹر اس پلیزر پرائز کا لطف بالکل نہیں لے پائے چونکہ ان کو ہمیشہ اس سوڈانی بچی کی یاد آتی رہی، لوگوں کے سوالات انہیں پریشان کرتے رہے!…. ان کو یہ بات ستاتی رہی کہ انہوں نے اس بچی کو بچانے کی پوری کوشش نہیں کی اور نہ ہی یہ دیکھ پائے کہ وہ زندہ رہی یا مر گئی! لوگ بھوک سے مر رہے تھے، کھانے اور پینے کی چیزوں کیلئے ترس رہے تھے، اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھ رہے تھے ، کچھ کر نہیں سکتے تھے، بے بس تھے۔ یہ اور اس جیسی بہت سی محرومیاں بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ناچتی رہیں اور پھر اسی احساس جرم میں وہ تنہائی پسند ہو گئے ۔ اس تصویر کے New York Times میں شائع ہونے کے تین ماہ بعد جب پوری دنیا میں اس تصویر پر تبصرے ہو رہے تھے ، اس عظیم فوٹوگرافر نے عین جوانی میں ہی خاموشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا …

If you can’t feed a hundred people, then feed just one. ~Mother Teresa

‘‘اگر آپ سو لوگوں کو نہیں کھلا سکتے تو ایک کو تو کھلائیں’’۔ [مدر ٹریسا]

 

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

تھوڑی سی محنت سے کامیاب زندگی گزارئیے….

خوش گوار اور کامیاب زندگی ہر انسان کا خواب ہوتی ہے، آدمی آگے بڑھنا چاہتا ...

ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا….

خوشی و غم اور کامیابی و ناکامی کی آنکھ مچولی زندگی بھر انسان کے ساتھ ...

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے