جادوئی ذرّات
چودہواں دن
تمام مذاہب اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ آپ جو کچھ بھی کسی کو دیتے ہیں وہ پلٹ کر آپ کے پاس ضرور آتا ہے، چاہے وہ خوشیاں ہو ںیا غم ، محبت ہو یا نفرت، تعریف ہو یا گالی ، تنقید ہو یا حوصلہ افزائی ۔
برائی تو اسی تناسب سے آتی ہے جس تناسب سے کی جائے جبکہ نیکی کا معاملہ مختلف ہے۔ کہیں دس گنا اور کہیں 100 گنا۔
آپ کو کس تناسب سے ملے گا اس کا دارومدار آپ کے اخلاص پر ہے یعنی آپ کتنی محبت ، خوشی، اپنائیت خلوص یا شدت کے ساتھ کسی کو دے رہے ہیں۔ شکرگزاری بھی انہی میں سے ہے۔
آپ کو نعمتیں کس مقدار میں دی جائیں گی اس کا دارومدار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ آپ شکریہ کہنے کے محض عادی ہوگئے ہیں یا واقعی دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کررہے ہیں۔
یہ شکر گزاری صرف اللہ کی ہی نہیں، اس کے بندوں کی بھی واجب ہے۔برائن ٹریسی نے کہا ہے کہ آپ ہر شخص سے اس طرح ملیں جیسے وہ آپ کے پاس دس کروڑ ڈالر کا گاہگ ہے۔ آپ کی زندگی تیزی سے بدلنا شروع ہوجائے گی۔
آپ جیسے جیسے شکر اداکرنا شروع کرتے ہیں آپ کی زندگی میں سکون اور خوشیاں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ شکر گزاری کو جادوئی ذرات کی طرح لوگوں پر برسانا شروع کردیں تو اُن کی زندگی میں خوشیاں آنا شروع ہوجائیں گی یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ ہم جو کچھ کسی کو دیں گے وہ پلٹ کر ہمارے پاس ضرور آئے گا۔
آپ جن لوگوں سے بھی ملیں شکر گزاری کے ذرات ان پر نچھاور کریں اور دیکھیں کیا ہوتاہے۔
Be kind, for everyone you meet is fighting a hard battle. [ John Watson]
‘‘رحم دل بنیں، کیونکہ جس شخص سے بھی آپ ملتے ہیں وہ ایک مشکل جنگ لڑ رہا ہے’’۔ [جان واٹسن]
ہم روزانہ بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں …. آمنے سامنے، فون پر ، فیکس پر ، ای میل پر، بسوں میں، اسٹاپ پر، ریسٹورنٹ میں ،لفٹ میں اور دیگر جگہوں پر ۔ یہ تمام لوگ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے کیونکہ یہ تمام لوگ کسی نہ کسی طرح ہماری زندگی میں اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہوتےہیں۔
روزانہ جب آپ گھر سے نکلتے ہیں تو کوئی گلیوں میں جھاڑو لگا چکا ہے یا لگا رہا ہوتا ہے ، کتنی مرتبہ آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے؟ دکانوں اورہوٹلوں میں کتنی مرتبہ آپ کو عزت کے ساتھ خدمات فراہم کی گئی ہیں، بس یا ٹیکسی ڈرائیور ، جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں کا اسٹاف، باتھ روم کی صفائی کرنے ولا ، سبزی یا گوشت فراہم کرنے والا یا ریسیپشنسٹ۔
اب آپ جب کسی روڈ کو صاف ستھرا دیکھیں فوراًالفاظ سے‘‘الحمد للہ ’’ کہیں ،جب بھی کسی ملازم پر نظر پڑے فوراً ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ ‘‘الحمدللہ ’’ کہیں، بس میں ، ٹیکسی میں یا اپنی گاڑی میں سفر کریں تو ان تما م لوگوں کا شکریہ ادا کریں جو آپ کو گھر سے منزل تک لے کر جارہے ہیں۔ چاہے وہ ڈرائیور ہوں، کنڈیکٹرہوں، پیڑول پمپ پر کام کرنے والے لوگ ہوں یا آپ کی سواری کے لئے راستہ دینے والے ہوں ، آپ ٹریفک سارجنٹ کا بھی شکر ادا کریں۔ اگرچہ ہمیں لگتا ہے کہ وہ اپنا کام ایمانداری سے نہیں کر تے۔ تنقید تو سب کرہی رہے ہیں، لیکن اس تنقید سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ آج ان کی خدمات کا شکریہ ادا کرنا شروع کردیں۔ پولیس کے جوانوں کا بھی شکریہ ادا کریں جن کی اکثریت آج بھی انتہائی بدحالی کا شکار ہے۔
آپ کسی بھی عہدے پر کام کر رہے ہوں ، چاہے کلرک ہوں، ڈرائیور ہوں، اعلی افسران میں سے ہوں ، آپ کے پاس ترقی کے مواقع ہیں ، شکر گزاری کی صورت میں جیسے جیسے آپ ان سب کا شکریہ ادا کرتے جائیں گے، حالات تبدیل ہوتےجائیں گے۔
جب کوئی شخص آپ سے بد تمیزی کرتا ہے، آپ کی بات نہیں مانتا، آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اس وقت آپ کے لئے شکر ادا کرنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں یہ وقت دل سے شکر ادا کرنے کا ہے۔ اس وقت انسان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اللہ کی خوشی کیلئے شکر ادا کر رہا تھا یا اپنے مفادات کیلئے۔
ان حالات میں شکر آپ کو بے پناہ روحانی ترقی دیگا۔ آپ اللہ کے قریب ہو جائیں گے۔ اُس وقت جو خوشی اور سکون ملے گااس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ آپ حالات کے غلام نہیں ہیں کہ اگر موافق ہوئے تو خوش ہوکر شکر ادا کردیا، مخالف ہوئے تو شکوہ شکایت پر اتر آئے۔ سچا اور نیک انسان وہ ہے جو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے۔
ایاز ہندستان کے شہنشاہ محمود غزنوی کاایک انتہائی وفادارغلام تھا۔ محموداس غلام پربے انتہا اعتماد کیاکرتا۔اس بناء پراکثروزرا ءایازسے حسدکرتے کہ ایک دن محمود غزنوی دربار لگا کے بیٹھا تھا کہ اس کے پاس کوئی شخص ککڑی لے کر حاضِر ہوا۔ سُلطان نے ککڑی قَبول فرما لی اور پیش کرنے والے کو انعام دیا ۔
پھر سلطان نے اپنے ہاتھ سے ککڑی کی ایک قاش کاٹ کاٹ کر اپنے منظورِ نظر غلام ایاز کو عطا فرمائی۔ ایاز ککڑی کی قاشیں مزے لے لے کر کھا رہا تھا۔ تمام درباری حسد کی آگ میں جل رہے تھے ۔ اسی دوران بادشاہ نے ایک کھیرا قریب کھڑے ہوئے وزیرکی جانب بڑھایا، وزیر خوشی سے پھولے نہیں سمایا اور فورا ہی منہ میں ڈال دیا۔ جیسے ہی کھیرا اس کے منہ میں گیا پورا منہ کڑوا ہوگیا اوروہ بےاختیار تھوکنے پر مجبور ہوگیا۔بادشاہ نے پوچھا
‘‘کیا ہوگیا’’۔ وزیر نے جواب دیا، ‘‘حضور ، یہ توبہت کڑوا ہے’’۔ بادشاہ نے ایاز سے استفسار کیا،
‘‘ایاز ، تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ یہ کھیراکڑوا ہے؟’’
ایاز نے عاجزی سے جواب دیا،‘‘بادشاہ سلامت، آپ کے ہاتھ سے میں نے بے شمار لذیز نعمتیں اور میٹھے پھل کھائے ہیں۔اب اگرایک پھل کڑوانکل آیاتوکیا ہوا؟ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ سے ملی ہوئی کسی شے کو نا پسند کروں۔’’
اللہ نے ہمیں بے شمار نعمتیں دی ہیں اور ہر لمحہ دیتا رہتا ہے، لیکن ہم انہیں اللہ کا احسان سمجھنے کے بجائے ان پر اتراتے اور تکبر کرتے ہیں۔ یہ تکبر ہی نا شکری ہے۔
یاد رکھیں جو شخص آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے یا بد تمیزی کر رہاہے وہ بیچارا آپ کے شکر کا زیادہ مستحق ہے، کیونکہ وہ اذیت کا شکار ہے۔ جبھی تو اس طرح کرتا ہے۔ اس کا شکریہ ا دا کریں ۔ شاید آپ کی محبت اور شکر گزاری اس کے دن کو خوبصورت بنادے۔ آپ کسی کا شکریہ ادا کریں تو صرف ‘‘شکریہ’’ نہ کہیں بلکہ اسے وجہ بتائیں کہ آپ کیوں شکر گزار ہیں۔
‘‘میری مدد کرنے کا بہت بہت شکریہ’’….
‘‘اپنا وقت نکال کے میرا کام کرنے کا شکریہ’’….
‘‘اگر تم نہیں ہوتے تو یہ کام کبھی نہیں ہوتا، بہت شکریہ’’وغیرہ….
اس طرح اس شخص کو بہت خوشی ہوگی جس کا آپ شکریہ ادا کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں، جب آپ شکریہ ادا کرر ہے ہوں تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شکریہ ادا کریں۔اگر آپ ہواؤں میں دیکھتے ہوئے یا ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے شکریہ ادا کرتے ہیں تو آپ شکرگزاری کا موقع ضائع کردیتے ہیں۔آج شکر گزاری کے ذرات کا تھیلا بھر کر اپنے ساتھ لے جائیں، جن لوگوں سے ملیں ان پر شکر گزاری محسوس یا غیر محسوس طریقے سے نچھاور کرتے جائیں ۔
آج کم از کم دس لوگوں پر ان ذرات کی بارش کردیں اور دیکھیں کہ اللہ آپ پرکیسے رحم و کرم کی بارشبرساتاہے۔
مثال کے طور پر ۔
میں صفائی کرنے والوں کا شکر گزار ہوں کیونکہ یہ صبح صبح اٹھ کر گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ نہ کریں تو ہر طرف بیماریاں اور گندگی کا ڈھیر نظر آئے۔ میں نے زندگی میں کبھی بھی ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ یہ لوگ بہت بڑا کام کر رہے ہیں ۔ شکریہ بہت بہت۔۔
اگر آپ گھر میں ہی رہتے ہیں تو کاغذ اور پین لیں یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھیں اور ان دس لوگوں کی لسٹ بنائیں جن کے آپ شکر گزار ہیں۔ اور پھر آنکھیں بند کر کے ان پر جادوئی ذرات نچھاور کریں۔محسوس کریں وہ اور آپ کتنے خوش ہیں۔
پین لیں اور ان دس ان لوگوں کی لسٹ بنائیں جن کے آپ شکر گزار ہیں۔یہ شکریہ کس طرح ادا کرنا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔نام۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔شکریہ کی وجہ ۔۔۔۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوائد و تاثرات: ‘‘The allegory of the long spoons’’ نامی یہ کہانی دنیا بھر کے معاشروں میں مشہور ہے ۔ ایک نیک شخص نے خدا سے گزارش کی کہ اسے دکھایا جائے کہ جنّت اور دوزخ کیسے ہیں۔ اسے دوبڑے بڑے کمروں کے پاس لے جایا گیا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ‘‘مسلمان اپنی ذات میں سراپا فائدہ پہنچاتا ہے ۔ جب تم اس کے ساتھ چلو تو وہ تم کو نفع پہنچاتا ہے۔اگر تم اس سے مشورہ کرو تو اس حالت میں بھی وہ تم کو نفع پہنچاتاہے۔ اگر کسی معاملے میں تم اس کے ساتھ شرکت کرو تو بھی وہ تم کو نفع پہنچاتا ہے۔ غرض اُس کی ہر بات فائدہ رسانی کی ہوتی ہے۔ [حلیہ الاولیاء ۔ ابو نعیم اصفہانی ] (جاری ہے) دسمبر 2016ء [چودہواں دن ]
(تفصیلات اوپر مضمون میں ملاحظہ فرمائیں۔ )
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________جنت اور جہنم
(ایک تمثیل)
پہلے کمرے میں اس شخص نے دیکھا کہ کمرے کے درمیان میں ایک بڑی سی کھانے کی میز ہے جس پر انواع واقسام کے کھانے رکھے ہوئے ہیں،جن کی خوشبو سے پورا کمرا معطر رہاہے ۔ گرما گرم کھانے سامنے رکھے ہونے کے باوجود کو ئی کھا نہیں رہا ہے کیوں کہ کمرے میں موجود تمام لوگ کھانے سے معذور ہیں۔ معذوری کی وجہ یہ ہے کہ سب کے ہاتھ میں چمچ اتنے لمبے ہیں کہ وہ منہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسے بتایا جاتا ہے،‘‘یہ دوزخ ہے۔ ’’
اب وہ دوسرے کمرے میں جاتا ہے وہ کمرہ بھی ہو بہو ویسا ہی ہے، ویسے ہی کھانا رکھاہے اور اسی طرح لوگ بیٹھے ہوئے محوِ گفتگو ہیں، چہروں سے تروتازگی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں چمچ بھی لمبے لمبے ہی ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کو کھلا رہے ہیں۔ یہ شخص ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا ہے کہ آواز آتی ہے، ‘‘جنّت میں جانے کے لئے ایک خوبی کی ضرورت ہے، ایک دوسرے کو کھلانا، ایک دوسرے کے کام آنا۔ جبکہ جہنم ان لوگوں کے لئے ہے جو لالچی ہیں۔’’
کوئی بھی گھر ، آفس یا معاشرہ اسی وقت خوشحال ہو جاتا ہے جب سب ایک دوسرے کے متعلق سوچتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ جہا ں ایسا نہیں کیا جاتاوہاں پورامعاشرہ جہنم بن جاتا ہے۔
جنت اور جہنم کا راز
(شاعر : ارشاد عرشی ملک)جہنم
اِک فرشتہ خواب میں اِک شب مجھے عرشیؔ ملا
ہاتھ میرا تھام کر پھر سیر کو وہ لے گیا
اِک بڑے دالان میں لے جا کے یوں کہنے لگا
آ تجھے جنت ، جہنم کا دکھاؤں ماجرا
اُس نے کھولا اپنی بائیں سمت اِک کمرہ بڑا
اس کھلے کمرے کے بیچوں بیچ تھا رکھا ہوا
گول سا اک میز جو سائز میں تھا بے حد بڑا
گرد اس کے کرسیاں تھیں جن پہ تھا کپڑا چڑھا
اور ہر کرسی پہ تھا اک آدمی بیٹھا ہوا
سامنے جس کے بڑا سا ایک چمچہ تھا دھرا
درمیاں اُس میز کے رکھا تھا اک برتن بڑا
جو کہ تازہ گرم کھانے سے لبالب تھا بھرا
تھی بہت ہی اشتہا انگیز کھانے کی مہک
بھوک میری بھی گئی تھی دفعتاً بے حد چمک
پر مجھے حیرت ہوئی جو لوگ تھے بیٹھے ہوئے
اُن کے چہرے تھے سُتے اور جسم بھی کمزور تھے
وہ کسی بھی طور اس کھانے کو کھا سکتے نہ تھے
منہ تلک وہ بھر کے اُن چمچوں کو لا سکتے نہ تھے
لمبے لمبے ہینڈلوں والے یہ چمچے تھے عجیب
تھی طوالت ہینڈلوں کی ڈیڑھ دو گز کے قریب
الغرض کوئی نہیں تھی پیٹ بھرنے کی سبیل
سب کے لب پر تھا گِلہ کہ اُف یہ چمچے ہیں ذلیل
تب فرشتے نے کہا کہ دیکھ لے دوزخ ہے یہ
بھوک، حسرت، چڑچڑاہٹ، دوریاں اور فاصلے جنت
دوسرے کمرے میں پھر مجھ کو فرشتہ لے گیا
اس کے دائیں ہاتھ کی جانب تھا یہ کمرہ بڑا
میز بھی ویسا ہی تھا سائز بھی اتنا ہی بڑا
کرسیوں پر ہُوبہو ویسا ہی کپڑا تھا چڑھا
درمیاں اس میز کے ویسا ہی برتن تھا دھرا
جو کہ تازہ گرم کھانے سے لبالب تھا بھرا
لمبے لمبے ہینڈلوں والے تھے چمچے بھی پڑے
جن کے ہینڈل تھے یقیناً ڈیڑھ دو گز تک بڑے
پھر بھی یہ افراد سارے مطمئن ، خوش باش تھے
تازگی لہجوں میں تھی اور پیٹ تھے کافی بھرے
اُن کے چہروں پر تھی خوش حالی مسرت اطمنان
ایسا لگتا تھا بہت الفت ہے ان کے درمیان
جب فرشتے نے کہا کہ دیکھ لے جنت ہے یہ
گڑبڑا سی میں گئی گویا کہ چونکی خواب سے
ایک سا سب کچھ ہے پھر کیوں خوش ہیں یہ اور وہ اداس
اپنے لہجے میں فرشتے نے کہا بھر کر مٹھاس
جانتی ہے تو کہ یہ کیوں مست اورخوش حال ہیں
پیٹ ہیں ان کے بھرے دل مطمئن چونچال ہیں
ایک بھی ان میں نہیں ہے بھوک کا مارا ہوا
نہ ہے کوئی خود غرض ، نہ مطلبی ، نہ چڑچڑا
ان کی اس آسودگی کی تہہ میں اِک راز ہے
راز بھی کیا ہے محض اِک مختلف انداز ہے
کوئی بھی کرتا نہیں یاں لمبے ہینڈل کا گِلہ
بھر کے چمچے ایک دوجے کو یہ دیتے ہیں کِھلا