Yکروموسومز کی قوت اور کارکردگی مسلسل گھٹ رہی ہے۔
مردانہ کروموسومز پر سگریٹ نوشی، ناقص غذا ، کمپیوٹر اور موبائل فون کے منفی استعمال، ماحول اور بعض بیماریوں کے شدید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
لڑکوں کی شرح پیدائش میں کمی اور لڑکیوں کی شرح پیدائش میں اضافہ ہورہا ہے۔
اپنی صحت اور اپنی صنف کی بہتری کے لیے مردوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی۔
مرد کی قوت کمزور پڑرہی ہے
لڑکیوں کی شرح پیدائش میں اضافہ ہورہا ہے۔
چند برس قبل ہونے والے ایک طبی اور ماحولیاتی تحقیقی سروے سے واضح ہوا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ 30 سال کے دوران لڑکوں کی پیدائش میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔
یہ تحقیق ‘‘انوائرمنٹل ہیلتھ پراسیکیٹو’’ کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کو یونیورسٹی آف پیس برگ کے زیر اہتمام مکمل کیا گیا۔ دوران سروے معلوم ہوا کہ کئی ممالک میں لڑکوں کی پیدائش میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے۔ خصوصاً امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، روس، جاپان اور وسطی وجنوبی افریقہ میں لڑکوں کی پیدائش لڑکیوں کی نسبت کم ہو رہی ہے۔
مردانہ کروموسوم خطرات کا شکار:
اس حوالے سے حال ہی میں کی گئی ایک مزید تحقیق کے بعد جینیاتی ماہرین نے بتایا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیرات کے سبب مرد حضرات کی نسل بڑی تیزی کے ساتھ کمزوری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3 لاکھ افراد مردانہ ہارمونز سے محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں صنف نازک کی تعداد اور نشوونما میں اضافہ ہورہا ہے۔
طبی تحقیقات کے مطابق مردانہ جسمانی خلیوں میں کروموسوم کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔ جنہیں جینیاتی اصطلاح میں ‘‘وائی ’’ (Y) اور ‘‘ایکس ’’ (X) کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خواتین میں صرف ‘‘ایکس ’’ (X) کروموسومز پائے جاتے ہیں ۔
‘‘وائی’’ مردانہ کروموسوم جبکہ ‘‘ایکس ’’ زنانہ کروموسوم ہوتا ہے۔
Yکروموسوم کے فروغ اور نشوونما کے لیے 9 سو سے زائد سلامت اور صحتمند جنیر (Genes) کی ضرورت ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ X کروموسوم اس تعداد کا محتاج ہونے کے بجائے خود اپنے اندر ایک ہزار (Genes) کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
مردانہ کروموسوم ہلکا سا منفی اثر لینے سے بڑی سرعت کے ساتھ زوال پذیر ہوجاتے ہیں جبکہ نسوانی کروموسوم کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، یہ کسی منفی اثرات کو بہت کم قبول کرتے ہیں۔ مردانہ کروموسومز پر حالیہ موسمی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی کا بہت زیادہ مضر اثر بڑھ رہا ہے اور اس کی شرح مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ مصری روزنامے النجر میں اس تحقیق کی تائید میں جامعۃ الازہر کے شعبہ طب کے پروفیسر ڈاکٹر، رفعت شیمی اور ڈاکٹر مدحت عامر کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے مردانہ ہارمونز (Pituitary Gland) میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق ، عالم عرب کے مرد جو دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ تولیدی قوت رکھنے کے حوالے سے مشہور تھے، اب بڑی تیزی کے ساتھ مردانہ بانجھ پن کا شکار ہورہے ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک میں فی 100خواتین کے لیے مردوں کی تعداد کا تناسب
وہ ممالک جہاں مرد کم ہیں
ایستونیا 84
یوکرائن 85
روس 85
آرمینیا 89
زمبابوے 91
ہنگری 91
جارجیہ 91
پورٹوریکو 92
چاڈ 92
بلغاریہ 92
موریطانیہ 93
کازخستان 93
کروشیہ 93
بنگلادیش 93
سلواکیہ 94
پولینڈ 94
سنگاپور 95
سربیہ 95
رومانیہ 95
پرتگال 95
شمالی کوریا 95
جاپان 95
ہانگ کانگ 95
گنیابساؤ 95
چیک 95
آسٹریا 95
اسپین 96
نیپال 96
میکسیکو 96
لبنان 96
قرغزستان 96
اٹلی 96
یونان 96
فرانس 96
فِن لینڈ 96
کمبوڈیا 96
بیلجئم 96
امریکہ 97
سوئزرلینڈ 97
سری لنکا 97
برما 97
مراکش 97
ماریشس 97
گوئٹے مالا 97
جرمنی 97
ایتھوپیہ 97
بوسینیا 97
آزربائجان 97
ارجنٹائن 97
برطانیہ 98
ترکمانستان 98
تھائی لینڈ 98
تنزانیہ 98
سویڈن 98
ناروے 98
نیدرلینڈ 98
ڈنمارک 98
کولمبیا 98
چلی 98
وسطی افریقہ98
کینیڈا 98
برازیل 98
ویتنام 99
ازبکستان 99
تاجکستان 99
جنوبی افریقہ 99
سنیگال 99
روانڈا 99
نیوزی لینڈ 99
مالٹا 99
مدغاسکر 99
آئرلینڈ 99
گبون 99
کیوبا 99
کانگو 99
برکینا فاسو 99
وہ ممالک جہاں مردبرابر یا زیادہ ہیں
زمبیا 100
صومالیہ 100
فلپائن 100
نائجیر 100
منگولیہ 100
مقدونیہ 100
جنوبی کوریا 100
اسرائیل 100
انڈونیشیا 100
گھانا 100
آسٹریلیا 100
تیونس 101
پیراگوئے 101
ملائشیا 101
کینیا 101
ترکی 102
پاناما 102
ایران 102
یمن 103
شام 103
سوڈان 103
عراق 103
مصر 103
فلسطین 104
اردن 104
لیبیا 105
افغانستان 105
پاکستان 107
انڈیا 108
بھوٹان 110
سعودی عرب 117
عمان 123
بحرین 124
چین 130
کویت 152
یواےای 220
وجوہات:
گزشتہ 30 سالوں کے دوران اکٹھے کئے جانے والے ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ ایسا ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے ہو رہا ہے مگر یہ عوامل صرف لڑکوں پر ہی کیوں اثر انداز ہو رہے ….؟
اس بارے میں ماہرین غور و خوض کر رہے ہیں لیکن ابھی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آسکی ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈیورالی ڈیوس کے مظابق جو مرد حضرات دھات، زہریلے کیمیکل، محلول اور اس نوعیت کے کام کاج کرتے ہیں ان پر یہ ماحولیاتی عوامل اثر انداز ہو کر ان کے ‘‘وائی کروموسومز’’کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیر سے شادی کرنے والے جوڑوں میں بھی قدرتی طور پر لڑکوں کی پیدائش کم ہوتی ہے۔
پروفیسر ڈیورا نے مزید بتایا کہ مرد کے ‘‘وائی کروموسوم’’ اور ماحولیاتی عوامل کے درمیان کوئی خاص تعلق ضرور ہے ۔
محقق نے اپنے دعویٰ کی تائید کے لیے جاپانی جزیرے ‘‘اوکیناوا’’ میں پائے جانے والے چوہوں کی مثال دی ۔ا ن چوہوں پر کی جانے والی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ تابکاری شعاعوں سے متاثر ہونے والے نر چوہوں میں پائے جانے والے کروموسوم ‘‘ وائی’’ بالکل مفقود ہوچکے ہیں جس کے بعد وہ چوہے ایک ‘‘تیسری صفت’’ بن چکے ہیں ۔ ان کے برعکس مادائیں ان مضر اثرات سے قطعی محفوظ رہیں اور وہ بدستور اپنی پیدائشی صنفی امتیازات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
پروفیسر جینی گریوز Jenny Graves نے اپنی رپورٹ میں مردانہ کروموسوم کی کمزوری کی جو وجوہات بتائی ہیں ان میں ذیابیطس، دل کے امراض، تھکاوٹ، ڈپریشن اور بے خوابی بھی نمایاں ہیں۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مردانہ کروموسوم میں کمی کی وجوہات میں موسمی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ کمپیوٹرز اور موبائل فونز کا زیادہ استعمال اور سگریٹ نوشی بھی شامل ہیں۔
یونیورسٹی آف لندن سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں مردوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو اس مسئلے کا اہم سبب بتایا گیا ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے والے مردوں کی ذہنی صلاحیت، سگریٹ نوشی نہ کرنے والے مردوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے گھٹتی جارہی ہے۔ اس کا اثر سگریٹ نوش افراد کے دماغ میں پائے جانے والے غدود ‘‘ گلینڈز’’ پر مرتب ہوتا ہے جس کی وجہ سے مردانہ کروموسوم پر مضر اثرات پڑتے ہیں۔
اس تحقیق میں برطانوی سول سروس کے 5 ہزار مرد اور 21 سو خواتین کی دماغی صلاحیتوں کا جائزہ 25 برس تک لیا گیا، لیکن ماحولیاتی آلودگی اور دیگر عوامل کے مضر اثرات زنانہ کروموسومز پر دیکھنے میں نہیں آئے۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ بہت زیادہ سگریٹ پینے والے مردوں میں لڑکوں کی پیداہش کی صلاحیت کم ہوسکتی ہے اور ایسے مردوں کے ہاں لڑکیوں کی پیداہش کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
محققین کی رائے ہے کہ شدید ماحولیاتی دباؤ اور جنگ کے دوران بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ ماہرین کا خدشہ ہے کہ جغرافیہ کا بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقے قدرے الگ ہیں اس لیے ابھی نتائج کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ ثقافت، معاشرے اور معاشی حالات کی وجہ سے نتائج میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے ڈاکٹر بلِ جیمز کی تحقیق کے مطابق جب لوگ مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہوں تو اس وقت لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے تاہم اس کے بارے میں بھی تحفظات ہیں۔
وائی کرومووسوم
لڑکا یا لڑکی پیداہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔ جسم انسانی کے تولیدی خلیّات میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتی کہ انہی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کی تعیین ہوتی ہے۔ تولیدی خلیہ میں کرو موسوم کے 23جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جوڑا جنس کی تعیّن کے لیے مخصوص ہوتاہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو Xکروموسوم اور دوسرے کو Yکروموسوم کہتے ہیں۔ عورت کے رحم میں کروموسوم کاجوجوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم Xنوعیت کے ہوتے ہیں، استقرار حمل کے وقت عورت کے رحم سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے اسپرم سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال واتحاد سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے رحم سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں Xہوتا ہے، جب کہ مرد کا کروموسومXبھی ہوسکتا ہے اور Yبھی۔ اگر عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا Xکروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیداہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Yکروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق روز مرہ کے کاموں میں دھات، زہریلے کیمیکل، محلول اور اس نوعیت کے ماحولیاتی عوامل اثر انداز ہو کر ‘‘وائی کروموسومز’’ کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ شدید ماحولیاتی دباؤ اور دیر سے شادی اور جنگ کے دوران لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وائی کروموسوم پر سگریٹ نوشی، کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال اور بعض بیماریوں کے شدید منفی اثرات پڑتے ہیں۔
ابھی دیر نہیں ہوئی:
جارجیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر نوارا کی دنیا میں جنسی تناسب جاننے کے لیے دو سو بیس ممالک میں دس سال تک کی گئی تحقیق کے مطابق عالمی تناسب کے لحاظ سے دنیا میں مردوں کی تعداد ابھی بھی خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے اور اس وقت ایک سو چھ مردوں کے مقابلے میں ایک سو خواتین ہیں۔ جبکہ اس وقت امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، روس، جاپان اور وسطی وجنوبی افریقہ میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
چین، انڈیا اور دیگر چند ممالک میں صورتحال اس سے برعکس ہے جہاں لڑکیوں کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے اور اس کی وجہ ماہرین ان خطوں میں لڑکیوں کے قبل از پیدائش اسقاط حمل جیسے واقعات کا ہونا بتاتے ہیں۔
چین میں خاندانی منصوبہ بندی کی حکمت عملی کے تحت ہر شادی شدہ جوڑے کو محض ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہے جس کے باعث اکثر جوڑے لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ اس مقصد کیلئے جدید سائنسی طریقے بھی آزما ئے جا رہے ہیں ۔ یوں چین میں لڑکوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اس رپورٹ کو جزوی طور پر درست ماننے والے ماہرین کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو اسے کلی طور پر تو نہیں ، البتہ کسی حد تک درست قرار دے چکے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اپنی صحت اور اپنی صنف کی بہتری کے لیے مردوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی۔ مردوں کو اپنی تولیدی صحت خصوصاٍ ً Y کروموسوم کے تحفظ کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی سے اجتناب کرنا ہوگا، موبائل فون اور کمپیوٹر کے استعمال کے طریقوں میں بہتری لانا ہوگی۔