Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 4 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر

آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر

Autism Spectrum Disorder
دماغی نشوونما کی بے ترتیب حالت ….

 

آج کل ہم اکثر آٹزمautismکے بارے میں سنتے ہیں اور کئی فلموں میں بھی اس ڈ س ایبلٹی کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم آ ٹزم کی وجوہات اور علامات کو جاننے کی کوشش کریں گے۔


بعض بچے اردگرد سے بے نیا ز اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ اپنی ذات میں گم رہنے اور بیرونی دنیا سے ہم آہنگ نہ ہونے یا رابطہ نہ کرنے کی یہ ذہنی کیفیت عموماً بچپن سے موجود ہوتی ہے۔ خود میں گم رہنے کی اس ذہنی حالت کے باعث ایسے بچے اپنی بات دوسروں سے کہنے یا ان سے رابطے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ صورت حال ذہن کے ارتقائی عمل پر بھی غالب آجاتی ہے۔ دوسروں سے کٹ کر رہنے کا یہ ذہنی اور نفسیاتی مسئلہ اگر ابتداء میں حل نہ کیا جائے تو یہ عمر بھر کا روگ بن سکتا ہے۔ اس کیفیت کو Autism کہا جاتا ہے۔
بعض بچے تین برس کی عمر سے پہلے ہی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ والدین کے لیے کم عمر بچوں میں پائے جانے والے رجحانات اور مسائل کا شروع میں ہی اندازہ لگانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ وہ اس حوالے سے اس وقت چوکنا ہوتے ہیں جب بچہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح رد عمل ظاہر نہ کرتا ہو یا دوسرے بچوں کی طرح باتیں نہ کرتا ہو۔ ایسے میں بظاہر یہ محسوس ہوتا ہو کہ بچے کو سننے میں دقت پیش آرہی ہے۔
آٹزم پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ کیفیت ان افراد میں پائی جاتی ہے جن کے برین اسٹرکچر میں کوئی بے قاعدگی پائی جائے۔ بعض ماہرین اسے موروثی مسئلہ بھی قرار دیتے ہیں۔ آٹزم میں مبتلا لوگوں کو سماجی تعلقات اور رابطوں میں دقّت کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے بچے ہمیشہ دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں۔ انہیں زبان اور الفاظ کی ادائیگی کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے ان کی دلچسپیاں محدود ہوجاتی ہیں۔ ان کے رویے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کے مصداق تیزی سے بدلتے ہیں۔ موڈ ا ُن کا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر نوعمری میں موڈ ان کی شخصیت پر غالب رہتا ہے اور ڈپریشن انہیں گھیرے رکھتا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق امریکہ میں ہر 36 بچوں میں سے ایک بچے میں آٹزم پایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں میں اس کے امکانات چار سے پانچ گناہ زیادہ ہوتے ہیں۔
آٹزم دماغی نشو ونما کی بےتربیت حالت کا نام ہے۔ جس کی علامتیں بچوں میں پیدائش کے ابتدائی تین برسوں کے دوران کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ نہ کوئی بیماری ہے اورنہ کوئی نفسیاتی عارضہ ۔ یہ نہ تو دوران حمل کسی قسم کی بداحتیا طی، لاپرواہی یا غفلت کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی پیدائش کے بعد بچے کی دیکھ بھال اور تربیت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
آٹزم کو ایک سپیکٹرمSpectrum کے طور لیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بہت سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ آٹزم کی بنیادی وجہ دماغ میں تبدیلیاں ہیں اس کی ایک معلوم وجہ وراثتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں جیسے

  • بھائی بہن میں پہلے سے موجود ہو
  • خاص قسم کے کروموسومز کی موجودگی اور ٹی بی
  • والدین کی زیادہ عمر
  • پیدائش کے دوران پیچیدگی

 

مندرجہ بالا عوامل کو صرف رسک فیکٹرز Risk Factors کےطور پرہی لیا جاتا ہے کیونکہ ابھی تک آ ٹزم کی وجوہات جاننے کے لیے ماہرین کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ایسے بچوں میں سیکھنے، لوگوں سے روابط اور بات چیت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
ان (آٹزم بچوں)میں صلاحیتوں کے اعتبار سے کافی اختلاف بھی پایا جاتا ہے کچھ کی زبانی صلاحیت بہت عمدہ اور کچھ کے پاس چند الفاظ بھی نہیں ہوتے ہیں اسی طرح کچھ کو روزمرّہ کے معمولات میں بھی دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ اپنے معاملات کو بخوبی آزادنہ طور پر انجام دے لیتے ہیں۔
آٹزم ایک ڈیولپمنٹل ڈس ایبلٹی developmental disability یعنی نشونما میں نقص کا مسئلہ ہے اور اس کے اثرات بچے کی پیدائش سے تین سال سے پہلے نمودار ہو جاتے ہیں-
کئی دفعہ آ ٹزم کی علامات پہلے ہی سال ظاہرہو جاتی ہیں اور کئی دفعہ اس کی علامات دو سال اور اس کے بعد بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس دوران بچہ کئی نئی چیزیں سیکھتا ہے اور اپنی عمر کے مطابق کئی باتیں سیکھ لیتا ہے لیکن آ ٹزم کی علامات ظاہر ہونے کے بعد وہ اکثر پرانی سیکھی ہوئی باتوں کو بھول جاتا ہے-
آٹزم میں مبتلا بچے بظاہر عام بچوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر ان کا رویہ انہیں دوسرے بچوں سے مختلف بناتا ہے۔ یہ بچے اپنی کچھ حرکات کو بار بار دہراتے رہتے ہیں یا کسی بھی خود ساختہ کھیل میں مشغول رہتے ہیں۔ مثلاً ڈوری کو ہاتھ میں لے کر مستقل ہلانا ، ٹشو پیپر یا کاغذ کی دھجیاں بنا نا، انہیں ہاتھ سے ہلانا اور مستقل دیکھنا ، صوفے یا کرسی کی پشت پر چڑھ کر کھڑے ہونے کی کوشش میں لگے رہنا ، ہر وقت بھاگ دوڑ کرنا اور کسی ایک ہی عمل کو بار بار انجام دینا ، ایک ہی بات کو بار بار دہرانا وغیرہ۔
یہ بچے بہت جلد ایک مخصوص معمول کے عادی ہو جاتے ہیں اور اس میں کسی بھی تبدیلی کو پسند نہیں کرتے۔جیسے ایک ہی راستے سے گھر واپس آنا ، ایک ہی کمبل کو لے کر سونا ، ایک ہی کھلونے سے مستقل کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔
آ ٹزم میں سب سے زیادہ نمایاں علامت بچے کی معاشرتی تعلقات اور روابط میں خلل ہے یا کچھ خاص کام یا چیز کا شوق اور کسی کام یا رویہ کو بار بار دہرانا۔
سماجی رابطے سے متعلق

 

چند علاماتِ:

آٹسٹک بچے نظریں نہیں ملاتے یا نظریں ملانے سے گریز کرتے ہیں، والدین یا قریبی رشتے داروں کو یا کسی حرکت کو دیکھ کرخوشی و غم اور حیرت کے تاثرات کا اظہار کرنا ایک نارمل اظہار ہے مگر آٹسٹک بچہ اپنے ان جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ چھوٹے بچے والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف سرگرمیاں کرتے ہیں، کھیل کھیلتے ہیں جیسے باۓ باۓ کرنا ٫آنکھیں بند کر کے کھولنا۔ آٹسٹک بچہ اس طرح کی سرگرمیاں میں حصہ نہیں لے پاتا ہے ، آٹسٹک بچے دو سال کی عمر میں بھی کسی کو تکلیف یا پریشان دیکھ کر بھی کوئی اظہار نہیں کرتے چاہے ان کے اپنے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں ۔
عمومی طور پر بچے دوسرے بچوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے مل کر کھیلنے کو پسند کرتے ہیں مگر آ ٹسٹک بچہ دو سال کی عمر میں بھی دوسرے بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ۔
آ ٹسٹک بچے کئی دوسری سرگرمیوں میں بھی حصہ یا دلچسپی نہیں لیتے جیسے بڑا ہوکر ٹیچریا سپر ہیرو بننے کے شوق کا اظہار۔
محدود اور مخصوص رویے اور شوق
آ ٹسٹک بچوں میں کچھ خاص قسم کے رویے اور شوق پائے ۓ جاتے ہیں-
کچھ الفاظ یا جملوں کو بار بار دہرانا ۔ کھلونوں کے ساتھ ایک ہی طرح سے کھیلنا۔ چھوٹی سی تبدیلی سے بہت زیادہ پریشان ہونا۔
جسم کی خاص قسم کی حرکات جیسے ہاتھوں کو ہلانا، جسم کو گھمانا (spinning)….کھلونوں یا چیزوں کے مخصوص حصوں کی طرف زیادہ توجہ دیناجیسے پہیہ…. اپنی ایک مخصوص روٹین پر عمل کرنا۔
آ ٹسٹک بچوں میں کچھ دوسری علامات بھی ہو سکتی ہیں، زبانی مہارت، ذہنی صلاحیتوں ،جسمانی صلاحیتوں میں اپنی عمر کے لحاظ سے پیچھے ہونا،سونے اور کھانے کی غیر معمولی عادتیں، گیسٹرو پرابلمز، تشویش اور خوف ….
مندرجہ بالا علامات کا ہر آٹسٹک بچے میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان کی شدت میں بھی فرق پایاجاتاہے۔

 

 

ایک عام بچے میں، حسی معلومات کو ایمیگڈالا تک پہنچایا جاتا ہے،جو احساسات کو ریگولیٹ کرنے والے لمبک نظام کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذخیرہ شدہ علم کا استعمال کرتے ہوئے، امیگڈالا اس بات کا تعین کرتا ہے کہ بچہ ہر ایک محرک کے لئے احساساتی طور پر کیسے ردِ عمل دکھائے۔ البتہ آٹزم میں مبتلا بچوں میں، اگرچہ، حسی حصوں اور امیگڈالا کے درمیان روابط میں مشکلات ہوسکتی ہیں ، جس کے نتیجے میں معمولی واقعات اور اشیاء کے لیے انتہائی جذباتی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔

 

علاج:
آٹزم کے لیے بہت سے طریقہ علاج استعمال کیے جارہے ہیں جس میں رویوں میں بہتری کی اپروچ behavior approach ،سپیچ تھراپی speech therapy،آکپشنل تھراپی، سماجی روابط کو بہتر کرنے کے طریقہ کار، ایجوکیشنل اپروچ، نفسیاتی طریقہ علاج اور دوائیوں سے علاج شامل ہیں۔
آٹزم میں مبتلا بچوں کے علاج میں بنیادی چیز والدین کو آگاہی حاصل ہونا ہے تاکہ وہ اپنے بچے کی مدد کرسکیں۔ بچے کے رویے میں مثبت تبدیلی کے لیے ٹریننگ کے علاوہ مخصوص تھراپی یا بعض اوقات ادویات سے بچے کو نارمل زندگی کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ والدین، اساتذہ اور ڈاکٹر مل کر ایک بچے کو منصوبہ بندی اور ضروری علاج کے ذریعے آٹزم کے گرداب سے نکال سکتے ہیں۔
وہ والدین جن کا ایک بچہ آٹسٹک ہو۔ان کے دوسرے بچے میں بھی آٹزم کی علامتیں پائے جانے کا اندیشہ ہوتاہے۔ آٹزم کی تشخیص کے لیے تا حال کوئی میڈیکل ٹیسٹ نہیں۔ ماہرین بچے کی عادات اور رویے کے تفصیلی مشاہدے ، والدین سے حاصل کی گئی معلومات اور مخصوص چیک لسٹس سے آٹزم کی تشخیص کرتے ہیں ۔
آٹزم چونکہ دماغ کے ان حصوں پر اثر انداز ہوتا ہےجو بچوں میں قدرتی اور فطری طور پر سیکھنے اور سمجھنے کی عام صلاحیت پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان بچوں کو سکھانے کا عمل قدرے مختلف اوردشوار ہوتا ہے ۔ والدین کو چاہیے کہ ایسے بچوں کو کچھ بھی سکھاتے ہوئے نرمی اور برداشت سے کام لیں ، جلد بازی سے گریز کیا جائے اور اگر بچہ اس وقت دلچسپی نہ لے تو کسی دوسرے مناسب وقت بچے کو سکھائیں۔ان بچوں میں سیکھنے کی صلاحیتیں عام بچوں کی بہ نسبت مختلف اور کم ہوتی ہیں، اس لیےضروری ہے کہ والدین وہ طریقہ اختیار کریں جس کو بچہ زیادہ آسانی سے سمجھ سکے اور سیکھنے میں دلچسپی لے۔
یہ بچے چونکہ ایک مخصوص ما حول کے بہت جلد عادی ہوجاتے ہیں اور اس ماحول میں کسی بھی تبدیلی کو ناپسند کرتے ہیں ، لہٰذا والدین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ شروع سے ہی ان بچوں کو عام معمولات زندگی کا عادی بنائیں ، مثلاً کھانے پینے کی عادات ، سونے جاگنے کے اوقات، پرائیویسی اور ٹوائلٹ ٹریننگ وغیرہ۔
آٹزم کا فی الحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے، لیکن جلد تشخیص ، والدین کی خصوصی توجہ و پیار ، خاندان کے دیگر افراد کی حوصلہ افزائی، خصوصی تعلیم اور معاشرے سے منفی رویے کے خاتمے سے ان بچوں میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے اور یہ بچے بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

 

مضمون نگار : ماہ رخ اکمل،
چائلڈ سائیکلوجسٹ اور پرنسپل حمزہ اکیڈمی، لاہور

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ اگست 2023ء  کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

 

E

یہ بھی دیکھیں

جوان اور صحت مند دل

دھک دھک، دھک…. جی ہاں، دل کی یہی دھڑکن انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت …

ماہِ رمضان ، بے اعتدالیاں اور معدے کے امراض

ماہِ رمضان ، بے اعتدالیاں اور معدے کے امراض رمضان المبارک مہینہ برکتوں والا اور …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے