Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
کورونا وائرس اور بلڈ گروپ – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 16 اکتوبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

کورونا وائرس اور بلڈ گروپ

یہ خون ہی تو ہے جس کے رشتوں کے احترام سے انسان کا مرتبہ بلند ہوتا ہے اور یہی خون تو ہے جس جو انسان اپنے پیاروں کے لیے پسینے کی جگہ بہاتا ہے اور اسی خو ن سے آزادی اور حرمت انسانی کی تحریکوں کی آبیاری ہوتی ہے اور یہی خون غیرت سے کھول اٹھتا ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے خون تو خون ہوتا ہے ٹھیک ہے ناں؟ …. سرخ رنگ کا ایک سیال مادہ جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔
خون میں بنیادی عناصر تو سب انسانوں میں یکساں ہوتے ہیں البتہ اس کی بناوٹ ہر جسم میں مختلف ہوتی ہے جس سے انسان کا بلڈ گروپ یا بلڈ ٹائپ بنتا ہے ۔ ایک آسٹرین سائنسدان کارل لینڈینیر (Karl (Landstiener نے خون کی عام قسمیں 1901ء میں دریافت کیں۔ اس ایجاد پر اُنہیں سوشیالوجی اور میڈیسن پر نوبل پرائز دیا گیا۔
سائنس دان ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر انسانوں کے اتنے بلڈ گروپس کیوں ہیں ۔ ہم میں سے بہت لوگ جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر خون کے چار گروپ یعنی اے A، بی B، اے بی AB، اور اوO ہوتےہیں۔
بلڈ گروپنگ کے عام طریقے کے تحت 4 بنیادی بلڈ ٹائپس اے ، بی، او اور اے بی میں سے ہر ایک، مزید دو قسم کا ہوتا ہے یعنی آر ایچ مثبتRH+ اور آر ایچ منفی RH-، اس طرح سے یہ کل آٹھ گروپ بن جاتے ہیں یعنی اے( پازیٹو)، اے( نیگیٹو)، بی (پازیٹو)، بی (نیگیٹو)، او (پازیٹو)، او( نیگیٹو)، اے بی (پازیٹو)، اے بی (نیگیٹو)۔ اسے بلڈ پولی مارفزم (Blood Poly Morphism) یا خون کا ایک سے زیادہ شکلوں میں ہونا بھی کہتے ہیں۔
ان بلڈ گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے وہ اینٹی جنز (Antigens)ہے یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہوکر اینٹی باڈیز بنانے کا عمل تیز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر A بلڈ گروپ میں اینٹی جنز بھی Aہوتے ہیں، جب کہ B بلڈ گروپ میں ٹائپ B اینٹی جنز ہوتے ہیں۔
خون کے اندر خلیات اور زرد رنگ کا پانی موجود ہوتا ہے جسے پلازما کہتے ہیں ۔ دو اقسام کے بلڈ گروپ سسٹمز ہوتے ہیں:
اے بی او اینٹی جنز(ABO Antigens) اور ریزس اینٹی جنز(Rehsus Antigens) ۔
بیکٹیریا اور وائرسز میں اینٹی جن موجود ہوتا ہے۔ انفیکشن کے دوران ، ان اینٹی جن کی ہی وجہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیکٹریا باہر سے جسم میں داخل ہوا ہے اور جسم کا حصہ نہیں ہے۔ خون کے سفید خلیات( وائٹ بلڈ سیلز ) اینٹی باڈیز بناتے ہیں جو کہ جسم کا مدافعاتی نظام تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز اینٹی جنز کو ٹارگیٹ کرکے بیرونی مادے جیسے کہ بیکٹیریاز کا خاتمہ کرتے ہیں۔
جسم میں باہر خون منتقل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ خون دینے والے اور جس کو خون چڑھایا جا رہا ہے ان کے خون میں موجود اینٹی جنز ایک جیسے ہوں ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جسم نئے اینٹی جنز کومسترد کردیتا ہے اور اینٹی باڈیز نئے ریڈ بلڈ سیلز پر حملہ کر دیتی ہیں ۔ دونوں اینٹی جنز جسم کے اندر ایک جنگ شروع کردیتے ہیں۔ یہ ری ایکشن انسان کی جان بھی لے سکتا ہے ۔ لہٰذا خون دیتے اور لیتے ہوئے بلڈ ٹائپ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا ضروری ہے ۔
سائنس ابھی تک خون کو متوازن رکھنے کے انداز سے پوری طرح واقفیت نہیں حاصل کر پائی ۔ خون میں شکلی اختلاف بہرحال ایک قدرتی حقیقت ہے جس کی اصل وجہ ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔لیکن یہ بات ضرور ہمارے مشاہدے میں ہے کہ خون کے بعض گروپ، دوسرے گروپوں کی نسبت کچھ مفید خصوصیات رکھتے ہیں۔

 

ایک صحت مند انسان کے جسم میں 5 لیٹر کے قریب خون ہوتا ہے ۔ انسانی خون کا سب سے اہم کام سارے جسم کو آکسیجن مہیا کرنا ہے۔ خون میں وائٹ سیلز ، ریڈ سیلز اور پلیٹلس موجود ہوتے ہیں۔خون پلازمہ پر مشتمل ہوتا ہے۔خون کا پلازمہ 90 فیصد پانی سے بنتا ہے۔بلڈ پلازمہ ہارمون، پروٹین، گیسز، الیکٹرولائٹس اور نؤٹرینٹس پر مشتمل ہے۔
سرخ ذرات ہمارے جسم میں آکسیجن مہیا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔یہ ہیموگلوبن پر مشتمل ہوتے ہیں ،ہیمو گلوبن ایک پروٹین ہے جو کہ آئرن پر مشتمل ہوتا ہے۔
وائٹ بلڈسیلز جسم کی حفاظت کرتے ہیں۔یہ وائرس،بیکٹیریااور دوسری انفیکشن پھیلانے والی بیماریوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔یہ کینسر سے بھی مقابلہ کرتے ہیں۔
پلیٹلس بہت مختلف ہیں جسم میں اگر کوئی کٹ لگ جائے۔تو یہ خون کو ضائع ہونے سے روکتے ہیں۔خون صرف آکسیجن پہنچانے کا ہی سبب نہیں بنتا ۔بلکہ یہ جسم میں موجود غیر ضروری مواد کو بھی نکالتا ہے۔

 

1930 میں ایک جاپانی پروفیسر ٹوکی جی فیوریکاوا نے دعویٰ کیا کہ خون کے گروپس اے، بی، اے بی اور او، شخصی خصلتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم ہم اس بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ کوئی سائنسی طور پر تصدیق شدہ نہیں تاہم موجودہ طبی سائنس نے بلڈ گروپس کے حوالے سے کچھ چیزوں کوضرور ثابت کیا ہے۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر کورائن وڈ (Dr. Corrine Wood) کی تحقیق کے مطابق خون کے اےگروپ والے افراد میں ٹائیفائڈ، وائرس سے ہونے والی بیماریاں (خصوصاً پولیو)، جریان خون، خود مدافعتی بیماریاں (Auto Immune Diseases) اور معدے کا السر ہونے کا زیاہ امکان ہوتا ہے۔
مختلف طبی رپورٹس کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق اس بلڈ گروپ میں مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر جی جارگینسون (Dr. G. Jorgenson) کی تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ گروپ اےA والے خون کے حامل لوگ، گروپ بی B، او یا اے بی والوں کی نسبت ملیریا، کینسر، چیچک، ذیابیطس، دل کے دورے، خون کی مہلک کمی، رہیومے ٹک بیماریاں، اور گردوں میں پتھریوں کے بننے کے امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
جن لو گو ں کا بلڈ گروپ O ہوتا ہے وہ افراد بہت خاص ہوتے ہیں اور وہ اس لیے خاص ہوتے ہیں کیونکہ گروپ O کے خون کے سرخ خلیات میںA یا B اینٹی جنز نہیں ہوتے مگر پلازما میں AاورB اینٹی باڈیز ہوتے ہیں، O+ سب سے عام خون کا گروپ ہے ۔ O- گروپ رکھنے والے ہر کسی کو خون کے سرخ خلیات کا عطیہ کرسکتے ہیں۔لیکن بلڈ گروپ O کے افراد صرف اپنے ہی بلڈ گروپ کےلوگوں سےخون لے سکتے ہیں۔
یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ Oگروپ کے خون والوں کو دل کے دورے کا خطرہ دوسرے لوگوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اے، بی اور اے بی گروپ والے لوگوں میں خون جمانے والی ایک پروٹین کی مقدار او گروپ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بلڈ گروپ Oوالے افراد میں کئی خصوصیات موجود ہوتی ہیں، جو ان کو دوسروں سے منفرد بناتی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق بلڈ گروپ O والے افراد بہت تخلیقی اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں اور ہر کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔ جاپان میں انٹرویو کے دوران لوگوں سے بلڈ گروپ بھی پوچھا جاتا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں بلڈ گروپ O والے افراد بہت محنتی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ذمہ دار، سلیقےوالے، اپنے کام پر توجہ دینے والے تصور کیے جاتے ہیں۔
بلڈ گروپ O والے افراد جب ذہنی دباؤمیں ہوتے ہیں تو ان کو بہت غصہ آتا ہے ۔
مزید یہ کہ ملیریا پھیلانے والے مچھر ‘‘او’’ گروپ کے انسان کا خون چوسنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ ابھی تک معلوم نہیں کیا جاسکا۔ او بلڈ گروپ کے حامل افراد مچھروں کے لیے زیادہ پرکشش ہوتے ہیں ۔
ان افراد میں لبلبے کے کینسر اور ملیریا جیسے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ بلڈ گروپ او والے افراد کا نظام ہاضمہ دوسروں کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ بلڈ گروپ O والے افراد کی صحت کو کیفین نقصان پہنچا سکتی ہے۔
نوول کورونا وائرس کی دنیا میں پھیلنے کی رفتار سائنسدانوں کی توقعات سے بہت زیادہ ہے ۔ سائنس دان مسلسل جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایسے کون سے عناصر ہیں جو اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شرح میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں
سائنسدانوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ کسی فرد کے خون کا گروپ بھی کووڈ 19 کے خطرے میں اضافے یا کمی پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
برطانوی ویب سائٹ ‘‘ڈیلی میل’’ کے مطابق چین کے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ‘‘ووہان ’’ میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہواہے کہ بلڈگروپ (A)” اے “ والے افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے سب سے زیادہ امکانات ہیں ۔ دوسری طرف جن افراد کا بلڈ گروپ ” او“ (O) ہے ان کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے کم امکانات ہیں ۔ یہ انکشاف چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد پر کی جانے والی تحقیق کے دوران ہوا ہے ۔ اس تحقیق کے دوران دو ہزار سے زیادہ کووڈ 19 کے مریضوں اور لاکھوں صحت مند افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔ چینی سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ دیکھا گیا جبکہ او بلڈ گروپ کے افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک دیکھا گیا۔
تحقیق کے مطابق ووہان کی آباد ی میں او بلڈ گروپ کے لوگ زیادہ یعنی 34 فیصد اور اے بلڈ گروپ کے لوگ کم 32 فیصد تھے، پھر بھی کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی فہرست میں اے بلڈ گروپ والے زیادہ متاثر ہوئے۔
تحقیق کے مطابق جو افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے ان میں زیادہ تر افراد کا بلڈ گروپ اے تھا جبکہ “او”بلڈ گروپ رکھنے والے افراد کورونا سے سب سے کم متاثر ہوئےاور ان میں سے اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہوا بھی ہے تو وہ جلدی صحتیابہوگیا۔
ایک جائزے کے مطابق چلی ، ایکواڈور ، کولمبیا ، سمبابوی اور میکسیکو جیسے ممالک میں جہاں او بلڈ گروپ کے حامل افراد کی تعدادا 59 سے 85 فیصد ہے ان ممالک میں کرورونا وائرس COVID-19 سے متاثر ہونے یا اموات کے واقعات انتہائیکمہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ مختلف بلڈ گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں فرق ممکنہ طور پر خون میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مختلف بلڈ گروپس کا کووڈ 19 کے خطرے پر ممکنہ اثر مریضوں کا علاج کرنے والے طبی ماہرین کے لیے اہم ہوسکتا ہے جبکہ اے بلڈ گروپ والے افراد کو مضبوط ذاتی تحفظ کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ وہ انفیکشن کے امکان کو کم کرسکیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کو طبی ماہرین کی زیادہ نگرانی اور علاج کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
پاکستان میں سب سے عام گروپ B±ہے، جو آبادی کا 38 فیصد بنتا ہے، جب کہO± گروپ تقریباً 29 فیصد لوگوں میں ہے۔ گروپ A± تقریباً 23 فیصد اور AB±گروپ 9 فیصد ہیں۔
کورونا وائرس پر کامیابی کے ساتھ کنٹرول کرنے والے چینی ماہرین کے کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو، یعنی سگریٹ پینے والے، موٹاپا یا ذیابیطس کے مریضوں میں کورونا وائرس کی علامات کا خطرہ زیادہ موجود رہتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ بلڈ گروپ اور کورونا کے متعلق یہ تحقیق طبی ماہرین کے لیے تو شاید مددگار ہو مگر عام شہریوں کو ان اعداد و شمار کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ شمار کی وجہ سے اپنے رویے متعین نہیں کرنے چاہئیں۔ ہر بلڈ گروپ کے حامل سب افراد کو ماہرین صحت کی جانب سے بتائی گئی سب احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان احتیاطی تدابیر میں باہمی فاصلہ رکھنا، صابن سے ہاتھ دھونا اور دیگر تدابیر شامل ہیں۔

خون ، شخصیت اور غذا

1930 میں ایک جاپانی پروفیسر ٹوکی جی فیوریکاوا نے ایک مقالے میں کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خون کے گروپس اے، بی، اے بی اور او، شخصی خصلتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ کینیڈین نیچروپیتھک ڈاکٹر جیمز ڈی اڈامو اور ان کے بیٹے پیٹر ڈی اڈامو کے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ بلڈ گروپ سے انسانی شخصیت کی انفرادیت کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔آج کل یہ بات عام ہے کہ جاپانی بلڈگروپ پوچھتے ہیں جبکہ امریکن بروج پوچھتے ہیں۔90 فیصد جاپانی اپنے بلڈگروپ کے بارے میں جاننا ضروری سمجھتے ہیں، یہاں تک کے جاپان میں نوکری اور شادی کے لیے بھی بلڈ گروپ ضرور پوچھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جیمز کی تھیوری یہ کہتی ہےکہ بلڈ ٹائپ گروپ کھانے پینے اور زندگی گزارنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔انتخاب از حد اہمیت کا حامل ہے۔ایک انسان کا پسندیدہ کھانا دوسرے کے لئے غیر مفید یا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر پیٹر کی تحقیق کے مطابق غلط خوراک نہ صرف وزن بڑھاتی ہے۔بلکہ امیون سسٹم کو خراب کر کے انسان کو جلد بوڑھا کر دیتی ہے۔
کیا خون کی اقسام شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں؟ …. کیا غذاؤں کا استعمال خون کے گروپ کے لحاظ سے کی جائے ….؟ اس موضوع پر روحانی ڈائجسٹ میں آئندہ کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

ٹینشن سے دوری! صحت مند زندگی کے لیے ضروری….

                    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے …

جوان اور صحت مند دل

دھک دھک، دھک…. جی ہاں، دل کی یہی دھڑکن انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے