سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون
آپؓ سفر ہو یا حضر، ہمیشہ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ رہتے اور ہر وار کے سامنے سینہ سپرہوجاتے۔
اندھیری رات ہے ، چاروں طرف ہو کا عالم ہے۔ دو نورانی صورت انسان خاموشی سے بستی سے نکل کر جنوب کی سمت چل پڑتے ہیں۔ قرائن سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اُن میں سے ایک مقتدا ہے اور دوسرا مقتدی ، مقتدی کی حرکات و سکنات اور اُس کی اضطراب کیفیات سے عیاں ہے کہ وہ سخت خطرے میں ہیں۔ ساتھی اپنے محبوب مرشد و رہنما کے کبھی آگے آگے چلتا ہے اور کبھی پیچھے پیچھے ۔ کبھی اُن کے دائیں طرف ہوجاتا ہے اور کبھی بائیں طرف ۔ اگر کسی طرف سے کوئی حملہ ہو تو وہ اُس پر ہو اور اُس کا جان سے پیارا محبوب ہر قسم کے گزند سے محفوظ رہے۔
تین میل کا فاصلہ طے کر کے وہ پہاڑ کے ایک غار کے دہانے پر پہنچتے ہیں۔ نیا ز مند ساتھی نے نہایت ادب و احترام سے عرض کیا ۔ ’’ اس سے پہلے کہ ہم دونوں اس ویران ، سنسان اور تاریک غار میں پنا ہ کے لیے داخل ہوں ، میرے آقا ! آپ باہر تشریف رکھیے میں تنہا جا کر پہلے اسے صاف کرتا ہوں۔‘‘
اپنے رہنما کی اجازت حاصل کرکے وہ غم گسار اور جاںنثار رفیق غار میں داخل ہوجاتا ہے ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر اُسے صاف کرتا اور اپنی چادر پھاڑ پھاڑ کر زہریلے جانوروں کے سوراخ بند کر دیتا ہے ۔ پورا اطمینان کر لینے کے بعد حاضرِ خدمت ہو کر عرض کرتا ہے۔
’’ حضور تشریف لے آئیے ۔ ‘‘
یہ فدا کار اور عقیدت مند ساتھی چمنستان ِ انسانیت کا وہ گل ِسبد ہے جسے تاریخ ابو بکر صدیق ؓ کے نا م سے یاد کرتی ہے۔ وہ اپنی اس خوش قسمتی پر نازاں ہے کہ اُسے ان خطرناک ، پُر آشوب اور ہولناک حالات میں اپنے مرشد او ر رہنما ، فخر موجودات سر ور کونین محمد مصطفی ﷺ کی رفاقت کی عظیم ترین سعادت عطا ہوئی ہے ۔
خدا کے حکم سے اُس کا آخری رسول ﷺ اپنے رفیق خاص حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ مکے کی بستی سے نکل کر مدینے کی طرف رواں دواں ہونے کی تیاری کرنے لگے۔
اور وہ خوفناک اور بھیانک رات بھی آگئی جب کفر میں ڈوبے ہوئے اہل مکہ محسن ِانسانیت کے گھر کو اس اراے سے محاصرے میں لیے ہوئے تھے کہ جو نہی وہ گھر سے باہر قدم رکھیںان پر یکدم حملہ کرکے معاذ اللہ ان کا کام تمام کر ڈالیں۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ اس کام پر مختلف قبائل کے بارہ مسلح افراد متعین تھے ۔ اس کائنات کا مالک ان کے سارے منصوبے ناکام بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔رسول ﷺ اپنے بستر پر حضرت علی ؓ کو لٹا کر دشمنوں کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور اپنے رفیق خاص حضرت ابو بکر ؓکے گھر تشریف لے گئے جو پہلے ہی اس خطرناک سفر میں اپنی جان سے عزیز ہستی کا ساتھ دینے کے لیے تیا رتھے۔
اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار ، عزیز و اقارب اور سب کچھ چھوڑ کر جانے والے دونوں ساتھی مکے سے جنوب کی طرف چل دیے۔ خطرات چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔ ظلمتِ شب کی تاریکی اور سیاہی نے پورا ماحول اپنی لپیٹ میں لیے لے رکھا تھا ۔ ہوکا عالم تھا مگر یہ دونوں ساتھی ، جن کے دل انوارِالہٰی کی تجلیات سے منور اور رحمت ِ الہٰی پر بے پناہ اعتماد سے مطمئن تھے ، برابر بڑھے چلے جارہے تھے۔ امام بیہقی نے اس پر خطر سفر کی روئیداد بیان کرتے ہوئے حضرت عمرفاروق ؓ کی یہ روایت درج کی ہے کہ اس ہولناک سفر میں حضرت ابوبکر ؓ کا یہ حال تھا کہ وہ کبھی اللہ کے رسول کے آگے آگے چلتے اور کبھی پیچھے پیچھے ….۔۔ سرکا ر ِدو عالم ﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت ابو بکر ؓنے عرض کیا ۔
’’ یا رسول اللہ! جب مجھے تعاقب کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو پیچھے چلنے لگتا ہوں اور جب یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آگے کوئی خطرہ درپیش نہ ہو تو آگے آجاتا ہوں۔ ‘‘
یہ جواب سن کر فخر ِ موجوداتﷺ نے احسان شناسی کے محبت بھرے لہجے میں پوچھا ۔’’ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آفت آئے تو میری بجائے تم پر آئے….؟‘‘ حضور ﷺ کے اس ارشاد پر حضرت ابو بکر ؓنے مہرو محبت اور عقیدت و صداقت کے پاکیزہ جذبات سے سرشار ہو کر عرض کی۔ ’’ جی ہاں۔‘‘
تین میل کا سفر طے کرکے حضور ﷺاور حضرت ابوبکر ؓ غارثور پہنچے ۔ پروگرام کے مطابق یہاں پناہ لینی تھی۔ یہ غار ویران اور سنسان تھی۔ اس کی ویرانی اس شبہے کو تقویت پہنچا رہی تھی کہ یہ زہریلے جانوروں کا مسکن ہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اپنے آقا کی سلامتی کے تحفظ کے پیش ِ نظر نہایت ادب سے عرض کیا ۔
’’ آپ ذرا باہر ٹھہریے ۔ میں اندر جا کر غار کو آپ کے لیے صاف اور محفوظ کر آئوں۔‘‘
ابو بکر ؓ غار میں گئے ۔ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر اُسے صاف کیا ۔ اپنی چادر پھاڑ پھاڑ کر زہریلے جانوروں کے بل بند کیے ۔ تب حضور ﷺ سے اندر تشریف لانے کے لیے درخواست کی۔
طبرانی ، بزار ، حافظ ابو القاسم بغوی نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ غار میں ایک بل رہ گیا تھا ۔ حضرت ابو بکر ؓنے اس پر اپنی ایڑی لگا دی کہ ایسانہ ہو کوئی اذیت دینے والا جانور اس بل سے نکل کر حضورؓ کو کاٹ لے ….۔ یہ تھا حضرت ابو بکر ؓکا اپنے آقا اور رہنما پر اپنی جان نثار کر دینے کا پر خلوص جذبہ۔
کفار مکہ حضور ﷺکی تلاش میں غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے ۔ دشمن سر پر تھا ۔ عشق ِ رسول میں اپنی ہستی فنا کر دینے والے ابو بکر ؓ کے لیے یہ لمحات نہایت اضطراب انگیز تھے۔ اپنے ہادی مرشد کے سامنے اپنی بے چینی اور بے قراری کا اظہار کیا۔ اُدھر سے اللہ پر بھرو سے کی تلقین ہوئی ۔ ان کیمیا اثر ارشادات نے ابو بکر ؓ کے دل کو سکون و اطمینان اور راحت و یقین کی شاداب کیفیت سے معمور کر دیا ۔ ان اہم لمحات کی منظر کشی خود قرآن مجید نے اس طرح کی ہے۔
’’ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ۔ اللہ ان کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اُسے نکال دیا تھا اور وہ صرف دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ ( نبی ) اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ، غم نہ کرو ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون ِ قلب نازل کیا اور اُس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے او رکافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے ۔ اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے ۔ ‘‘ ( سوئہ توبہ )
حضرت ابو بکر ؓجن کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو تیم سے تھا ، عمر میں حضور ﷺ سے تقریباً دو سال چھوٹے تھے۔ باپ کا نام ابو قحافہ تھا ۔ حضرت ابو بکر ؓحضورﷺ کے بچپن کے ساتھی، جوانی کے دوست اور خلوت و جلوت کے رفیق تھے ، دونوں کے تعلقات نہایت گہرے اور باہمی اعتماد پر قائم تھے ۔ اخلاق وعادات اور سوچ کے انداز میں ہم آہنگی اور یکرنگی غالب تھی ۔ عہد جاہلیت میں بھی حضرت ابو بکر ؓکی زندگی بداخلاقیوں کی آلودگیوں سے پاک صاف رہی۔
حضرت ابو بکر ؓکا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ کاروبار میں دیانتداری ، راست بازی اور امانتداری کی بدولت معاشرے میں اخلاقی طور پر ایک اہم اور بلند مقام پر فائز تھے ۔ کاربار ی حلقوںمیں آپ کی ساکھ اور آ پ کا اعتبار قائم تھا ۔ آپ کا شمار خوشحال اور کامیاب تاجروں میں ہوتا تھا۔
مبداء فیض نے حضرت ابو بکر ؓکو بڑی فیاضی سے اعلیٰ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ صفائی و پاکیزگی ، الفت و محبت ، ہمدردی و خیر خواہی ، حق و باطل میں تمیز ، مروم شناسی و جوہر شناسی وسیع الظرفی وشریف النفسی ان کی شخصیت کے فطری جوہر تھے جنہیں حضورﷺ کی رفاقت وہم نشینی نے پوری طرح نکھار دیا تھا ۔ ابن مندہ نے ابن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ18سال کی عمر سے حضورﷺ کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ اس وقت سے دونوں کے درمیان دوستی چلی آرہی تھی ۔
یہ اسی باہمی اعتماد اور واقفیت کا نتیجہ تھا کہ جو نہی حضرت ابو بکر ؓکو علم ہوا کہ ان کے دوست خدا کی طرف سے رسالت کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں تو آپ فوراً اُس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓکے ایمان لانے کے متعلق علامہ زرقانی نے اپنی کتاب ، شرح ِ مواہب میں لکھا ہے کہ وہ حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے حکیم ابن حزام کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں حضرت حکیم کی ایک کنیز اُن کے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ آپ کی پھوپھی آج کہہ رہی تھی کہ اُن کے شوہر حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی طرح نبی ہیں جنہیں اللہ نے مبعوث کیا ہے یہ سنتے حضرت ابو بکر ؓسید ھے اپنے پرانے رفیق محمد رسولِاللہﷺ کے پاس پہنچے اور بلا تامل ایمان لے آئے ابن اسحق نے عبداللہ بن الحصین کی روایت نقل کی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کسی کے سامنے اسلام پیش کیا، اُس نے کچھ نہ کچھ تردد اور سوچ بچار کیا، مگر ابو بکر ؓسے جو نہی میں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کوئی حیل و حجت نہیں کی اور اسے تسلیم کرنے میں ذراسی بھی دیر نہیں لگائی۔
رسالت پر ایمان لانے کے بعد حضرت ابو بکر ؓکا ذات ِ رسالت مآب کے ساتھ لازوال اور پائیدار محبت کا مقناطیسی رشتہ قائم ہو گیا ۔ اس رشتہ محبت نے آپ میں حکمت و فراست ، عزیمت و استفامت ، ایثار قربانی ، جرأت و ہمت ، دلیری و بے باکی ، غمخواری و دلسوزی اور اتباع ِ رسول کی وہ بے پناہ اور بے پایاں قوت اور صلاحیت پیدا کی جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مکے میں توحید کی دعوت جب عام ہوئی اور کچھ بلند ہمت اور سعید الفطرت انسان اسے قبول کرکے میدان ِ عمل میں آگئے تو ان میں کچھ وہ لوگ بھی تھے جو معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے نہایت بے بس اور لاچار تھے ۔ غلام اور کنیزیں آزادی کے حق او ربنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے لیکن اللہ کے دین کے اعجاز نے اُن کے دلوں میں وہ حوصلہ اور ولولہ پیدا کر دیا تھا اور اُن کے کمزور و ناتواں جسموں میں وہ قوت اور عزیمت پیدا کر دی تھی کہ کھلے بندوں معبودان ِ باطل کے مقابلے میں ایک خدائے بزرگ و برترکی خدائی کا اعلان کرنے لگے ۔ ان کی یہ جرأت مشرکانہ نظام کے علمبرداروں کے لیے ناقابل ِ برداشت بنتی جارہی تھی۔ انہوں نے ان مظلوموں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے ۔ انہیں اذیتیں پہنچانے کے نت نئے حربے ایجاد کر لیے، مگر ان بندگان خدا کے پائے استقلا ل میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔
حضرت ابو بکر ؓاپنے پیارے رسول ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ان بے بسوں کو اذیت میں دیکھ کر بے قرار ہوجاتے۔ آپ آگے بڑھتے اور اُن بے سہارا غلاموں اور کنیزوںکے مشرک آقائوں سے بھاری رقموں کے بدلے خریدکر آزاد کر دیتے۔ مشرکین مکہ حضرت ابو بکر ؓکی اس دلی خواہش کو بھانپ گئے تھے اس لیے وہ ان غلاموں اور کنیزوں کی بہت زیادہ قیمت طلب کرتے لیکن حضرت ابو بکر ؓمنہ مانگی قیمت ادا کرکے اپنے محبوب آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کی صورت پیدا کر لیتے۔
ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے بے سہارا غلاموں میں حضرت بلال ؓ حبشی بھی تھے ۔ جب ان کے دامن اسلام سے وابستہ ہونے کا راز کھلاتو امیہ بن خلف نے انہیں طرح طرح کے عذاب دینے شروع کردیے ۔ وہ دوپہر کی سخت گرمی میں مکے کی تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا اور کہتا کہ خدا کی قسم تو اسی طرح پڑا رہے گا جب تک محمد اور اس کی تعلیم کا انکار کرکے لات و عزّیٰ کی عبادت نہ کرے گا۔ وہ اس جاں کنی اور کرب کی حالت میں بھی احد احدہی پکارے چلے جاتے ۔ عمر و بن العاص کی روایت ہے کہ میں نے بلال ؓکو ایسی سخت تپتی اور دہکتی زمین پر لیٹے دیکھا ہے کہ اگر اس پر گوشت رکھ دیا جاتا تو وہ بھی پک جاتا مگر وہ اس حالت میں بھی صاف صاف اور برملا کہہ رہے تھے کہ میں لات وعزی کا انکار کرتا ہوں۔ حضرت ابو بکر ؓاپنے اس عظیم ساتھی اور دینی بھائی کی یہ حالت زار دیکھ کر تڑپ اُٹھے انہیں آزاد کر الیا۔
ہجرت کے بعد مدینے میں بھی حضرت ابو بکر ؓکا یہی معمول رہا کہ ان کا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے وقت تھا ۔ ہر اجتماعی ضرورت کے موقع پر آپ بڑی خو ش دلی سے دولت خرچ کرکے اپنے جذبہ عشق و محبت کی آسودگی اور بالیدگی کا سامان مہیا فرماتے۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر جب اللہ کے رسولﷺ نے مسلمانوں سے جہاد کی تیاری کے لیے مال صدقہ کرنے کی اپیل کی تو مخلص اور وفا شعار مسلمانوں نے اپنی بساط کے مطابق بارگاہِ رسالت میں رقمیں پیش کیں، ضروری سامان فراہم کیا ۔ اس موقع پر حضرت ابو بکر ؓنے ایثار و صداقت اور اخلاص و فدائیت کا جو عظیم الشان اور بے مثل مظاہرہ کیا اس کی روئیداد حضرت عمر ؓ کی زبانی سنیے حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں۔
’’ غزوہ تبوک کے نہایت کٹھن موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کہا۔ میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ میں آج ابو بکر ؓ سے بڑھ کر مال کا صدقہ کروں گا ، چنانچہ اپنے کل اثاثے کا نصف حصہ لے کرجناب رسالتماؐب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سرکارووعالمﷺ نے دریافت فرمایا۔ اپنے اہل و عیال کے لیے کتنا چھوڑ آئے ہو….۔؟ عرض کیا ، نصف حصہ ۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ ؓحاضرِ خدمت ہوئے اور مال پیش کیا ۔ رحمت ِ عالمﷺ نے پوچھا بال بچوں کے لیے کیا چھوڑا….۔؟حضرت ابو بکر ؓ نے نہایت ادب سے کہا ۔ اُن کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی سرپرستی کافی ہے ، یہ سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ میں کسی بات میں بھی ان سے سبقت نہیں لے جاسکتا ۔
حضرت ابو بکر ؓایمان کی سعادت سے بہرہ اندوز ہونے کے بعد پوری جانسوزی اور دلجمعی کے ساتھ اشاعت ِاسلا م اور تبلیغ دین کے پر خطر مشن میں مصروف ہوگئے اور ان کی مخلصانہ اور سرگرم کوششوں کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ بن عفان حضرت زبیر ؓبن عوام ، حضرت عبدالرحمن ؓ عوف ، حضرت سعد ؓ بن وقاص ، حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح اور حضرت عثمان ؓ بن مظعون جیسے بے شمار جلیل القدر ، عظیم المرتبت اور باصلاحیت انسان حلقہ ، ایمان میں داخل ہوئے۔ اس سے حضرت ابو بکر ؓکی مردم شناسی اور معاشرے میں ان کے وسیع اور گہرے تعلقات کا اندا ز ہ ہوتا ہے۔ دعوتی کاموں کے سلسلے میں آپ سفر ہو یا حضر ہمیشہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ رہتے اور ہروار کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے ۔