Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
ارطغرل کی داستان – روحانی ڈائجسٹـ
جمعرات , 12 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

ارطغرل کی داستان


روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء  سے انتخاب….

تیرہویں صدی عیسوی میں جب مسلم دنیا انتشار کا شکار تھی، خلافت عباسیہ کمزور پڑ چکی تھی، وسطی ایشیاء کے علاقوں سے آندھی طوفان کی طرح اُٹھنے والے منگول پے در پے حملوں سے ایشیاء اور افریقہ کے کئی علاقوں خصوصاً مسلمانوں کے ممالک تخت و تاراج کررہے تھے، اسی دور میں قائی قبیلہ جو بہت سے دوسرے ترک قبیلوں کی طرح ایک خانہ بدوش قبیلہ تھا، پہلے حلب اور پھر سوگت میں جاکر آباد ہوا۔
قائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغرل نے آج سے ٹھیک آٹھ سو برس پہلے ایک خواب دیکھا، اس نے اپنے اردگرد صلیبیوں کی سازشوں اور منگولوں کے حملوں کے خلاف،ناصرف ترک قبیلوں کو ایک لڑی میں پرو یا بلکہ ایک ایسی ریاست کو بنیاد فراہم کی جو آگے چل کر عظیم عثمانی سلطنت کے نام پر سات سو سال تک دنیا کے نقشے پر قائم رہی۔ اس سلطنت نے خلافت عثمانیہ کے نام سے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے تین براعظموں پر اپنا پرچم لہرایا۔ جس نے عرب و عجم کے مسلمانوں کو پھر سے وحدت تلے اکٹھا کردیا۔
سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران سلیمان شاہ اور ارطغرل کی اولاد میں سے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔ خلافت عثمانیہ کو مسلمانوں کا دوسرا دورِ عروج بھی کہا جاتا ہے۔ کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کو بنیاد فراہم کرنے والے عظیم جنگجو سردار ارطغرل کی زندگی کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا تھا ، ایسے میں ترکی کے معروف مصنف اور ڈرامہ نویس محمد بوزداغ نے ترک مسلمانوں کی تاریخ کے اس باب کو اُجاگر کرنے کا بیڑا اٹھایا، ان کا بنایا ہوا ڈرامہ سیریل دیریلیس ارطغرل منظر عام پر آیا جس نے دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دئیے اور اپنے نام دیریلیس ارطغرل Diriliş Ertuğrul یعنی ‘‘جی اُٹھا اطغرل ’’ کی طرح ارطغرل کے کردار کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔
پاکستان میں ‘‘ارطغرل غازی ’’کے نام سے اردو ڈب میں پیش کیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ ڈرامہ ترکی سے کہیں زیادہ مقبول ہوا ہے اور ناصرف PTV پر بلکہ انٹرنیٹ پر بھی نت نئےریکارڈ قائم کررہا ہے، ڈرامے کی بہترین کہانی، عمدہ اداکاری اور جاندار مکالموں نے پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ، یہ ڈرامہ نوجوان نسل کو گرویدہ بنا رہا ہے،انہیں اپنےشاندار ماضی اور اعلی اقدار سےروشناس کروا رہا ہے ۔ صرف چند ہی دنوں میں ارطغرل کے پاکستان میں لاکھوں مداح بن گئے ہیں۔

 

یہ کوئی ناول،کہانی یا ڈرامہ نہیں بلکہ خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے ایک قبائلی ترک غازی عثمان اول کے والد ، ترک اوغوز کی سب سے بہادر قبیلے اور شاخ قائی کے سردار ارطغرل غازی کی داستان ہے، انہیں عام طور پر غازی کے لقب سے جانا جاتا ہے۔
گیارہویں صدی عیسوی کے آخرتک ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصہ پر مسلمانوں کی حکومتیں تھیں مگر تفرقہ بازی و عصبیت نے وحدتِ ملت کو منتشر کردیا تھا۔ مسلم معاشرے زنگ آلودہوتے جارہے تھے دوسری طرف اسلام دشمن قوتیں سر اٹھا رہی تھیں۔ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جارحیت شروع ہوگئی تھی ۔ اس صلیبی جنگ میں یورپین افواج کے دستے 1096ء میں قسطنطنیہ میں جمع ہوئے جہاں سے انہوں نے مسلم دنیا پر حملہ کردیا ۔ ایک جانب یورپی اقوام مسلم ریاستوں کو فتح کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا تھیں دوسری طرف مسلمان خود فرقوں میں تقسیم اور آپس میں ہی برسرِ پیکار تھے۔ اندلس میں طوائف الملوکی پھیلتی جارہی تھی۔ سلجوقی سلطنت بھی اختلاف کا شکار ہوگئی تھیں ، غزنی اور غوری سلطنتیں آپس میں دست و گریباں تھیں، شمالی افریقہ میں عباسی خلافت کے متوازی فاطمی خلافت کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔
مسلم ریاستیں خانہ جنگی و محلاتی سازشوں میں گھری ہوئی تھیں۔ ان حالات سے یورپ نے بھرپور فائدہ اُٹھایا ، اپنی قوتیں مجتمع کیں اور پوری طاقت سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب مسلم حکمراانوں کی نااہلی سے شوال 496ہجری 1099عیسوی میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس دن یروشلم میں تاریخ کا بدترین قتل عام کیا گیا، گلی کوچوں میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ کہا جاتا ہے اس روز اس شہر میں مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔
بارہویں صدی عیسوی کے آتے آتے اسلامی سلطنت کا پرانا مضبوط شیرازہ بکھر چکا تھا، عظیم الشان اسلامی سلطنت مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی ، سلطنتوں کی تقسیم اور تہذیبوں کے تصادم نے حکمرانوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ بغداد عباسی خلافت کا مرکز تھا۔ وہاں بہت انارکی پھیلی ہوئی تھی۔ فتنہ و فساد کا بازار گرم تھا۔ بغداد کے خلیفہ کا اثر رسوخ برائے نام رہ گیا تھا، دوسری جانب شاہانِ خوارزم کی قوت اوج شباب پر تھی وہ ایران و خراسان اور شام و عراق میں آل سلجوق کے بیش تر علاقوں پر قابض ہوچکے تھے اور ایشیاء کی تمام مسلم سلطنتوں کو فتح کرلینا چاہتے تھے لیکن عین اس وقت چنگیز خانی طوفان اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ اٹھا اور اس نے سلطنت خوارزم کو پاش پاش کر ڈالا۔
اس سلطنت کی تباہی کے بعد ترکی قبائل منگولوں اور صلیبیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے جنوب کی طرف بھاگے، ان میں بعض ایران اور شام میں پہنچے اور وہاں ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں بہت کچھ اقتدار حاصل کیا اور ترکمانی مشہور ہوئے۔ بعض جنوب کی طرف بڑھے اور مصر کے سلاطین مملوک سے معرکہ آرا ہوئے، لیکن مصر میں انہیں شکست ہوئی۔ وہاں سے واپس ہو کر وہ ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سے آملے۔ ان ہی ترکی قبائل میں جو چنگیز خان کے حملہ کے بعد اپنا وطن چھوڑ کر ایشیائے کوچک مارے مارے پھر رہے تھے، ترکان اوغوز کے قبیلہ کا ایک جزو قبیلہ قائی تھا ۔
قائی قبیلہ کے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے بارہ قبیلے بنے پھر مزید تقسیم ہو کر 24 قبائل ہوگئے۔ اوغوز قبیلہ کی شاخ گون خان Gün Han میں سے ایک قبیلہ قائی Kayi تھا۔ قائی ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ‘‘وہ شخص جس کے پاس قوت و اقتدار ہو’’۔ یہ ایک خانہ بدوش اور جنگجو قبیلہ تھا۔ جہاں سر سبز علاقہ اور پانی نظر آیا، یہ لوگ وہیں خیمے گاڑ کر ڈیرہ ڈال لیتے تھے۔ اس دور میں تُرک قوم اپنی شجاعت اور دلیری کی وجہ سے خاص امتیاز رکھتی تھی۔ ترکوں کی آبادی وسط ایشیا میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، بعض ترک قبائل امن کے دنوں میں کسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے اور جنگ کے وقت فوج میں شامل ہوکر دادِ شجاعت حاصل کرتے۔


اطغرل غازی سیریز

ارطغرل کی زندگی پر منبی ڈرامہ سیریز ڈریلریس ارطغرل اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث ہے۔ یہ ڈرامہ دسمبر 2014 میں ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی نے نشرکرنا شروع کیا اور 2019 تک جاری رہا ۔ اس ڈرامہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر محمد بوزدیغ اور ہیرو اینجن آلتن ہیں جنہوں نے ارطغرل غازی کا کردار ادا کیا ۔ یہ ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے ۔ اس میں کل 150 اقساط ہیں اور ہر قسط کا دورانیہ تقریباً دو گھنٹہ کا ہے۔ 90 سے زیادہ زبانوں میں اس کی باضابطہ ڈبنگ ہوچکی ہے۔ اردو زبان میں یہ ڈرامہ ارطغرل غازی کے نام سے پاکستان میں پیش کیا جارہا ہے۔
ارطغرل کے حوالے سے تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ہے ، یہ بھی سچ ہے کہ ڈرامہ میں کچھ ایسے کردار ہیں جن کا تعلق اس عہد سے نہ ہو ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈرامہ سیریز ایک فکشن کہانی ہے۔ تاہم ڈرامہ کے مصنف اور ڈائریکٹر نے اس دور کے واقعات، ماحول ، لباس رہن سہن، رسم و رواج ، تاریخی واقعات پر اس قدر عمدگی سے کام کیا ہے تاریخ پڑھنے والے یہی کہیں گے کہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھاگیا ہے اس وقت کے یہی حالات رہے ہوں گے۔
اس ڈرامے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ارطغرل نامی ایک ترک جنگجو اپنے قبیلہ قائی کو منگولوں کے ظلم وستم اور موسم ، وبا سے محفوظ ر کھنے کے لیے ایک بہتر زمین کی امید میں اناطولیہ آباد ہوتا ہے ۔ یہاں اس نے منگولوں اور صلیبیوں دونوں سے مسلسل لڑائی کی ۔ دونوں کو شکست سے دوچار کرتا رہا اور کئی صلیبی قلعوں کو اس نے فتح کرلیا ۔ ارطغرل کی جنگی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے خوش ہوکر سلجوق سلطنت کے فرماں روا سلطان علاء الدین کیقباد نے سوغوت کا علاقہ دے دیا اور ارطغرل کو وہاں کا سردار اعلی بنا دیا ۔ ارطغرل کی جنگی مہم میں ایک خفیہ تنظیم سفید ڈاڑھی والوں اور شیخ ابن العربی نے روحانی بزرگ کے طور پر مدد کی ۔ ارطغرل کی بیوی حلیمہ کے علاوہ ارطغرل کے تین بہادر ساتھ بامسی بے ، ترغوت بے اور روشان بے اس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور تقریباً پورا ڈرامہ انہیں تینوں کی بہادری ، شجاعت اور جاں نثاری کے ارد گرد ہے ۔
ڈرامہ میں بہت خوبصورتی کے ساتھ بارہویں صدی کے مسلم ترکوں کے شاندار ماضی اور اعلیٰ اقدار کی عکاسی اور اس دور کی تہذیب و ثقافت کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے کی بہترین کہانی، عمدہ اداکاری اور جان دار مکالموں نے لوگوں کو گرویدہ بنا دیا ہے، منظر نگاری ایسی ہے کہ ناظرین کو ایسا محسوس کیا کہ انہیں اکیسویں صدی سے اٹھا کر بارہویں صدی میں منتقل کردیا گیا ہے اور اس تابناک ماضی کی سیر کرا کر واپس اکیسویں صدی میں لاکر چھوڑ دیا۔ کہانی ، پلاٹ، کردار، مکالمے اور پروڈکشن سب بہت جان دار ہیں۔ اس ڈرامے میں دکھائے جانے والے کردار بھی اپنی اپنی جگہ بہت مناسب اور متاثر کن ہیں۔ ان کرداروں کو کرنے والے ادکاروں نے اداکاری کے جوہر بھی اتنے شاندار دکھائے ہیں کہ ناظرین عش عش کر اُٹھتے ہیں۔ خصوصا ًارطغرل اور حلیمہ سلطان کا کردار تو بہت اچھی طرح ادا کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ حائمہ اماں، کردوغلو، سعد الدین کوپیک، تورگت، بامسےاور ابن عربی کے کردار بھی بہت شان دار ہیں۔
ارطغرل غازی کی بےمثال مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس روز ارطغرل غازی کی پہلی قسط پاکستان میں نشر ہوئی اس روز ٹوئٹر پر مسلسل پانچ گھنٹوں تک یہ ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا تھا۔ ڈرامہ ارطغرل اور اس کے کردار سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ لوگوں کی گفتگو میں بھی بات چیت کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی وی ہوم کے یو ٹیوب چینل میں ایک دن میں 40،000 سبسکرائبر کا اضافہ ہوا، پہلے 16 گھنٹوں میں یو ٹیوب پر ڈھائی لاکھ کے قریب لوگوں نے دیکھا ۔ اب تک یہ پہلی قسط یوٹیوب پر 5 کروڑ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اور پی ٹی وی ہوم کے یو ٹیوب چینل کے سبسکرائبر کی تعداد50 لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔

 


قائی قبیلہ گیارہویں صدی میں منگولوں کے حملوں کی وجہ سے اپنے سردار قایہ الپ کے بیٹے قندوز الپ Gündüz Alpجنہیں سلیمان شاہ بھی کہا جاتا ہے کی قیادت میں خراسان کے شہر ماہان میں آباد ہوا لیکن منگولوں اور صلیبیوں کے حملے کے ڈر کے باعث یہاں سے نکل کر شمالی اناطولیہ آگیا تھا جو اُس وقت سلجوقی سلطنت کی عملداری میں تھا۔ اناطولیہ پہنچ کر یہ قبیلہ مشرقی اناطولیہ (آرمینیا کے شمال مغرب ) میں واقع چراگاہوں کی جانب شہر اخلاط میں خیمہ زن ہوا۔ آج بھی مشرقی اناطولیہ میں قائی قبیلہ کے بہت سے آثار و قبریں ملتی ہیں۔


سلیمان شاہ کی بیوی حائمہ خاتون سے اس کے چار بیٹے تھے۔ دوندر Dündar، گوندوغدو Gündoğdu ، ارطغرل Ertuğrul اور سنگرتکین Sungurtekin۔
ارطغرل Ertuğrulکا صحیح تلفظ ارطؤرل ، ارطرول یا ارطرُل ہے۔ ترکش زبان میں غ ملفوظی نہیں بلکہ خاموش حروف Silent Word ہوتا ہے۔ ترکی میں ğ دراصل یموشک گے ہے، یموشک گے سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا، یہ حروف تہجی نہیں بلکہ حرف علت ، حرف کشید کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے آ میں الف کے اوپر مد لفظ کو کشید یعنی کھینچتا ہے۔ اسی طرح ارطغرل میں ğ لفظ غ نہیں بلکہ مد ہے ۔
سلیمان شاہ کے منجھلے بیٹے ارطغرل کی پیدائش روایات کے مطابق 1191 ء میں اناطولیہ کے شہر بروصہ میں ہوئی، ارطغرل بہادر، نڈر، جنگجو شخص تھا، جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا۔ سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کا تحفظ اور انصاف کا بول بالا کرنا شامل تھا کیونکہ یہی وہ وقت تھا جب مسلمان ہر جگہ کمزوری کاشکار تھے، صلیبی طاقتیں اور منگول اپنا سر اٹھا رہے۔ وقت وہ آگیا تھا کہ کوئی بھی مسلم سلطنت مستحکم نہیںرہی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب چنگیز خان کی تاتاری فوجوں نے تباہ کن آندھی کی طرح آکر اپنے مفتوحہ مسلمان اور دیگر ملکوں کوروند دیا تھا۔ تاتاریوں کا سیلاب ترکستان، ماوراء النہر، خراسان، فارس، عراق، جزیرہ اور شام سے گزر تا ہوا وہاں کی بستیوں کو مٹاتا چلا جارہا تھا۔ خلافت عباسیہ کے بعد منگولوں کی منزل اب سلجوق سلطنت تھی۔ بازنطینی سلطنت کےصلیبی اپنی سازشوں کے جال بن رہے تھے۔مسلمانوں کی مضبوط اور طاقتور سلجوق سلطنت ان دنوں زوال کےقریب تھی۔
شام کے علاقے پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے سلطان ملک العزیز ایوبی کی حکومت تھی جبکہ انا طولیہ میں سلجوق سلطان علاؤالدین کیقباد کی حکومت تھی۔ صلیبی دونوں سلطانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے تھے تاکہ اس خطے میں مسلمانوں کو کمزور کر کے ان کا خاتمہ کرسکیں۔
سلمان شاہ ترک قبائل کو متحد کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ مسلمانوں کو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے بچایا جا سکے لیکن صورت حال یہ تھی کہ قائی قبیلہ اکیلا منگولوں اور صلیبیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
دوسر ی جانب اس علاقے میں بے رحم سرد موسم ، وبا اور قحط سے بچنے کے لیے ایک چراہ گاہ کی ضرورت تھی۔ ان حالات وہ اپنے قبیلہ کے لیے ایک محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔


تقریبا 1229 ء میں قائی قبیلہ نے خلاط کے علاقے کو سلطان جلال الدین خوارزمی کی بپا کردہ جنگوں کے نتیجے میں اس علاقے کے بدلتے حالات کے دباؤ تلے چھوڑ دیا ، یہ لوگ دریائے دجلہ کے حوض کی جانب کے علاقوں کی جانب یہ ہجرت کر گئے ، قائی قبیلہ سلیمان شاہ اور ارطغرل کی سرکردگی میں اپنے وطن کو چھوڑ کر مختلف ملکوں میں گھومتا ہوا شام کے مشہورشہر حلب کی جانب روانہ ہوا، تاکہ وہاں کے امیر ملک العزیز سے زمین حاصل کرکے شام کے علاقے میں اپنے قبیلہ کو آباد کیا جائے۔
لیکن اثنائے راہ میں دریائے فرات کے کنارے قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کی وفات ہوگئی۔ شاہ سلیمان کا تیسرا بیٹا ارطغرل قائی قبیلہ کا سردار بنا وہ بہت ذہین اور بہترین جنگجو تھا۔ شاہ سلیمان کی وفات کے بعد قبیلہ کا بیش تر حصہ اس وقت منتشر ہوگیا لیکن جو لوگ رہ گئے وہ ارطغرل کی سربراہی میں سب سے پہلے اخلاط Ahlat آئے تھے پھر اخلاط سے حلب Aleppo گئے۔

1232ء میں حلب میں سلطان صلاح ؒالدین ایوبی کے پوتے العزیز کی حکومت تھی، سب سے پہلے ارطغرل نے العزیز کو اس کی سلطنت میں ہونے والی صلیبی سازشوں کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ، جس کی وجہ سے ایوبی سلطان قائی قبیلے کے دوست بن گئے۔ ارطغرل نے امیر حلب سے زمین حاصل کرکے شام کے علاقے میں اپنے قبیلہ کو آباد کیا جہاں صلیبیوں سے مسلسل اس کی لڑائی رہی اور بالآخر اس قبیلہ کے جانبازوں نے حلب کے علاقے میں صلیبیوں کے خفیہ قلعہ کو مسمار کردیا۔ اس کے بعد ارطغرل نے کچھ جنگجوؤں اور قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کیا ۔
ارطغرل اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف رواں ہوا، یہ جماعت جو تقریباً صرف چارسو گھرانوں پر مشتمل تھی، سلطان علاء الدین کے زیر سایہ پناہ لینے کے لیے پایہ تخت قونیہ کی طرف جارہی تھی کہ راستہ میں انگورا کے قریب ارطغرل کو دو فوجیں مصروف جنگ نظر آئیں، وہ کسی فریق سے واقف نہ تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ ان میں سے ایک تعداد کے لحاظ سے کم زور اور دوسری قوی ہے، اپنے سواروں کے مختصر دستہ کے ساتھ جن کی مجموعی تعداد صرف چار سو چوالیس تھی، کم زور فریق کی حمایت کے لیے بڑھا اور اس جاں بازی سے حملہ آور ہوا کہ دشمن کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ جس فریق کی اس نے یوں بروقت مدد کی تھی، وہ سلجوق سلطنت کے فرماں روا سلطان علاء الدین کیقباد کی فوج تھی، جسے تاتاریوں کی ایک بڑی فوج نے گھیر رکھا تھا۔
ارطغرل کے اس کارنامہ کے صلے میں سلجوق سلطنت کے فرماں روا سلطان علاء الدین کیقباد نے اسے سغوت Söğütکا زرخیز علاقہ جو دریائے سقاریہ کے بائیں جانب بازنطینی سرحد کے قریب واقع تھا، جاگیر میں عطا کیا اور سغوت کا شہر بھی اسے دیا، اس علاقہ میں ارطغرل اور اس کے ساتھیوں نے، جو خراسان اور آرمینیا سے آئے تھے، سغوت بودوباش اختیار کی، علاء الدین نے ارطغرل کو اس جاگیر کا سپہ دار بھی مقرر کیا۔
چونکہ ارطغرل کی جاگیر بازنطینی سرحد سے متصل واقع تھی، اس لیے بازنطینی قلعہ داروں سے اکثر جھڑپوں کی نوبت آتی رہتی تھی، ارطغرل نے تھوڑے ہی دنوں میں اپنی شجاعت کا سکہ بٹھا دیا ، ارطغرل کی ان فتوحات کا یہ اثر ہوا کہ بہت سے ترکی قبائل جو ایشیائے کوچک میں پہلے سے آباد تھے، اس کے ساتھ شامل ہوتے گئے اور اس کی لڑائیوں میں شریک ہونے لگے۔ اس طرح ارطغرل کی قوت روزبروز بڑھتی گئی اور اس کا اقتدار گرد و پیش کے علاقوں میں قائم ہونے لگا۔
ایشیائے کوچک میں دولت سلجوقیہ اندرونی اختلال اور امراء کی بغاوتوں کے سبب زوال کی آخری منزل میں تھی۔ اگرچہ قونیہ میں سلاجقۂ روم کی روایتی شان و شوکت اب بھی نمایاں تھی تاہم حکومت کا دائرہ بہت محدود رہ گیا تھا۔ ایک طرف تاتاریوں نے جنوبی اور مشرقی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا تو دوسری طرف عیسائیوں نے شمال اور مشرق کے قدیم بازنطینی صوبوں کے اکثر حصے واپس لے لیے تھے۔ سلجوقیوں کی منتشر ہوتی قوت کے سبب ان کے کئی امیر خود مختاری کا اعلان کرچکے تھے لیکن ارطغرل نے کبھی علاؤ الدین سے بغاوت کا نہیں سوچا ۔ وفاداری اس کے خون میں تھی اس لیے ارطغرل نے ہر معرکے میں علاؤ الدین کا ساتھ دیا۔ ایسی حالت میں ارطغرل جیسے دلیر سردار اور نائب کی فتوحات سے علاء الدین کو اطمینان نصیب ہوا اور اس نے ارطغرل کو مزید انعامات عطا کیے۔
چنانچہ جب نبی شہر اور بروصہ کے درمیان ایک جنگ میں ارطغرل نے علاء الدین کے نائب کی حیثیت سے تاتاریوں اور بازنطینیوں کی ایک متحدہ فوج کو شکست دی تو سلطان نے اس کے صلہ میں وہ شہر بھی ارطغرل کی جاگیر میں دے دیا اور پوری جاگیر کا نام سلطانونی (صدر سلطانی) رکھا، نیز ارطغرل کو اپنے مقدمہ الجیش کا سپہ سالار مقرر کیا۔
اس وسیع علاقہ میں بکثرت چراگاہوں اور زرخیز زمینوں کے علاوہ متعدد قلعے بھی تھے، مثلاً قراجہ حصار، بلے جیک انینی وغیرہ لیکن سلطانونی کے اکثر حصوں میں خودسر امیروں کا قبضہ تھا۔ اس جاگیر پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ارطغرل اور اس کے بعد ان کے بیٹے عثمان کو مدتوں جنگ کرنی پڑی، سلطان علاء الدین کے علم کا نشان ہلال تھا، ارطغرل نے بھی اس کے نائب کی حیثیت سے اسی نشان کو اختیار کیا جو آج تک ترکوں کی عظمت کا قومی نشان ہے۔
سلجوق سلطان کی بھتیجی حلیمہ سلطان کی شادی ارطغرل سے ہوئی۔ حلیمہ خاتون سے ارطغرل کو تین بیٹے ہوئے، گندوز، ساؤچی اور عثمان۔
عثمان بھائیوں میں چھوٹے تھے۔ ارطغرل غازی نے ان کی دینی اور جنگی تربیت کی اور وہ بڑے ہو کر والد کے شانہ بشانہ جنگوں میں شامل ہوتے رہے ۔
سلجوق سلطنت منگولوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی تھی ۔ ارطغرل غازی نے تمام ترک قبیلوں کو سوگوت میں اکٹھا کیا ۔ صلیبیوں سے چھینے گئے علاقوں کو ریاست کی ایک شکل دی اور تعلیم وتربیت کے لیے درسگاہیں تعمیر کروائیں۔

 


سلطنت عثمانیہ

ارطغرل کے بیٹے عثمان نے اپنے والد کی وفات کے 10 برس بعد خلافتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اس میں تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ء تک 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ اپنے عروج کے زمانے یعنی 16ویں17 ویں صدی میں یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا موجودہ یوکرین سے جنوب میں سوڈان،صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ آج کے شام، عراق، اردن،ایران، مصر،لیبیا،سوڈان ، سعودی عرب،قطر،کویت،عمان اور متحدہ عرب امارات بھی خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھے ۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خلافت ِ عثمانیہ میں ایک جدید اسلامی مملکت کا تصور پیش کیا گیا جس کے حکمرانوں نے اپنی خداداد صلاحیتیوں سے دنیا بھرمیں اپنی قابلیت اور مفتوحات کا لوہا منوایا۔ 1453ء میں فتح قسطنطنیہ نے جنوب مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرنے کی بنیاد رکھی ۔ 1566ء تک یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں فتوحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ ان فتوحات کا سبب فوج کا معیاری نظم و ضبط اور جدید عسکری قوت تھی جس میں بارود کے استعمال اور مضبوط بحریہ کا کردار بہت اہم تھا۔ معیشت کی ترقی اور دفاعی استحکام کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ خصوصا خطاطی ، نقاشی ، ظروف سازی ، ملبوسات، گھریلو سجاوٹ کی اشیاء میں تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا، اس کے علاوہ شعر گوئی اور نثر نگاری میں بہت زیادہ ارتقا اور دیگر کئی شعبوں میں ترقی شامل ہے۔


دین اسلام ، اپنی زبان ، ثقافت اور اپنی تاریخ سے ترک قوم کی والہانہ وابستگی بہت نمایاں ہے۔ ترکی میں موجود کئی پرشکوہ مساجد اور دیگر عمارات ان کی عقیدت اور فن تعمیر میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حجاز، عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی علاقوں میں واقع مسلمانوں کے مقدس مقامات سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ انتظام تھے۔ ترک قوم اپنے عظیم مذہبی اورثقافتی اثاثے کی بھی بھرپور حفاظت کررہی ہے۔ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں اسلامی تاریخ کے نادر تبرکات محفوظ رکھے گئے ہیں۔ ترک قوم اپنی اعلیٰ روایات اوراپنی قومی زبان سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ترکی میں ہرجگہ ہر ادارے میں،بازاروں میں،سرکاری دفاترمیں،ذرائع ابلاغ میں صرف ترکی زبان رائج ہے۔ مشرق کی دانش ،فنون،محبت واخلاص کے ساتھِ ساتھ مغرب کا طرزحکومت یعنی جمہوری نظام، سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی اور مغربی رہن سہن ترک معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف ترکی یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے کوشاں ہے تودوسری طرف عظیم عاشق رسول ،صوفی بزرگ مولانا جلال الدین رومی اور یونس ایمرے کے صوفیانہ افکار کو بھی حرزجان بنائے ہوئے ہے۔

 

 


687ھ (1288ء) میں ارطغرل نے نوے سال کی عمر میں انتقال کیا اور سغوت کے قریب دفن ہوا۔ ارطغرل کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے عثمان قائی قبیلے کے سردار بنے ، وہ اب ریاست سوگوت کے سلطان کہلائے جاتے تھے ۔ عثمان آداب و اخلاق اور ذہانت میں اپنے باپ ارطغرل سے کسی صورت کم نہ تھا۔ یہ بھی اپنے باپ کی طرح ہمیشہ سلجوقیوں کا وفادار رہا۔سلطان علاؤالدین سلجوقی بعد میں اس کے بیٹے سلطان غیاث الدین سلجوقی کی وفات کے بعد عثمان کو ایک آزاد اور خود مختار تاجدار تسلیم کرلیا گیا۔


1299ءمیں عثمان نے اپنی سلطنت قائم کی جو خلافت عثمانیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ ارطغرل کے بیٹے عثمان نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا درخت ہے جس کی بلندی آسمان کو چھوتی ہے اور جس کی چار طویل جڑیں تین براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ خواب کی تعبیر کے مطابق درخت سلطنت عثمانیہ تھا اور جڑیں ان دریاؤں کی طرف اشارہ کرتی تھیں جن کے آس پاس کے علاقوں پر عثمانی اقتدار قائم ہونا تھا۔ چنانچہ ارطغرل کے بیٹے نے عثمان اول بن کر عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے آپ کو تاریخ سازی کے دھارے میں ڈال دیا۔ 1324ء میں اپنی وفات تک عثمان اول نے اپنی سلطنت کو بازنطینی علاقے کی حدود تک وسیع کردیا تھا ۔جب سلطان عثمان کا انتقال ہوا تو سلطنت کا رقبہ 16,000 مربع کلومیٹر تھا، ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔

 

 

روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء  سے انتخاب….

یہ بھی دیکھیں

کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

*….آدمی آدمی کی دوا ہے۔ *….عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کی پہلی منزل ایمان ہے۔ *….انسان …

سانحہ کربلا کا پیغام

نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے