Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
اس ماہ کی کتاب – مذہب اور جدید چیلنج – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 4 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

اس ماہ کی کتاب – مذہب اور جدید چیلنج

 

اس ماہ کی کتاب….

روئے زمین پر انسان کے حاصلات میں افضل اور مفید ترین حاصل (Achievement) کتاب ہے۔ کتاب ایسا بیش بہا خزانہ ہے جس کی بدولت انسان نے قدرت کے سربستہ رازوں کو کھولا اور ان پر پڑے پردے اُٹھا دیے۔اسی کے ذریعہ مختلف دریافتیں ہوئیں۔ اسی کی بدولت انسان نے ہوا کو مسخر کیا، سمندر کی اتاہ گہرائیوں کا کھوج لگایا، ہزاروں میل کے فاصلوں کو قابومیں کیا۔ کتاب کی بدولت آج دنیا کی وسعتیں انسان کے سامنے سمٹ کررہ گئی ہیں۔ اکیسویں صدی کی گلوبلائزڈ دنیا کی گہماگہمی میں انسان کا کتاب سے تعلق ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے ذوقِ کتب بینی کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔
اس مقصد کے پیش نظر روحانی ڈائجسٹ میں ہر ماہ ایک معیاری، کلاسک کتاب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔

 

مذہب اور جدید چیلنج:

مذہب اور سائنس کے درمیان تضاد کی بحث صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جوں جوں سائنس میں ترقی ہوئی ہے، ایک خاص گروہ زور پکڑتا گیا۔ یہ لوگ ہر وقت بحث مباحثے میں مصروف رہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس دو متضاد چیزیں ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ کہ مذہب اور سائنس میں کہیں کوئی تضاد نہیں۔ سائنس کو مذہب کا حریف سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ، مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔ سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں۔
مذہب اور سائنس کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور ان کے درمیان مکالمہ و تبادلہ خیال کی فضا پیدا کرنے کے لیے،برصغیر کے نامور دانش ور، مفکر اور عالمِ دین مولانا وحید الدین خاں (1925 تا 2021ء)نے کتاب ‘‘مذہب اور جدید چیلنج’’ تصنیف کی۔ یہ کتاب 1966ء میں شایع ہوئی۔اس کتاب کے دس ابواب ہیں، ان ابواب کا انداز بیان اور علمی و عقلی دلائل اتنے سادہ اور اپیل کرنے والے ہیں کہ انسان کو بے ساختہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 1970ء میں اس کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں ‘‘الاسلام یتحدی’’ کے نام سے شائع ہوا۔ 1985ء میں اس کتاب کے انگریزی ترجمے سے کتاب اور مصنف کو بین الاقوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب یونیورسٹی لیول پر کئی جگہ تعلیمی نصاب میں داخل کرلی گئی۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ پانچ عرب ممالک قطر، قاہرہ (مصر)، طرابلس (لیبیا)، خرطوم (سوڈان) اور تیونس کی جامعات میں تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔
کتاب مذہب اور جدید چیلنج میں مذہب کو سائنسی اسلوب میں سمجھا کر مذہب کی حقانیت کو واضح کیا گیا ہے۔

 

 کتاب کا نام ‘‘مذہب اور جدید چیلنج’’ اس لیے رکھا گیا کہ یہ جواب میں اس چیلنج کا جو سائنس کی طرف سے مذہب کو دیا گیا ہے۔  عصر حاضر کے مشہور سائنسدان جولین ہکسیلے Julian Huxley   نے ایک کتاب Religion without Revelation  یعنی  ‘‘مذہب  بغیر الہام’’لکھی    اور اس میں  دورِ جدید کا تصور  ایسے پیش کیا کہ  

‘‘دور جدیدکا خدا خود سماج اور اس کے سیاسی اور معاشی مقاصد ہیں۔ اس خدا کا پیغمبر پارلیمنٹ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی سے انسانوں کو باخبر کرتا ہے، اور اس کی عبادت گاہیں ، مسجد اور گرجا نہیں بلکہ ڈیم اور کارخانے ہیں۔ جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہوگئے ،اسی طرح پچھلی صدی میں علم کی جو ترقی ہوئی ہے وہ بھی ایک قسم کا علمی دھماکہ  Knowledge Explosion تھا۔ جس کے ذریعے خدا اورمذہب کے بارے میں تمام پرانے خیالات بھک سے اڑ گئے’’۔

جولین ہکسیلے کے الفاظ میں مذہب اور خدا کے خلاف یہ علم جدید کا چیلنج ہے ۔ مولانا وحید الدین خاں نے اپنی کتاب میں اس چیلنج کا جواب دیا ہے۔ اگر جولین ہکسیلے بقید حیات ہوتا اور  اس نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ پڑھ لیا ہوتا تو ممکن ہے اس کی رائے بدل جاتی، ممکن ہے نہ بدلتی،  لیکن اسے علم ضرور ہوتا کے چیلنج کا جواب دیا گیا ہے۔

کتاب مذہب اور جدید چیلنج   میں معروف دانشور مولانا وحید الدین خاں نے مذہب کو درپیش جدید چیلنجز اور ان کے حل کو پیش کیا  ہے۔انہوں نے اس کتاب کے دس  ابواب ترتیب دئیے ہیں۔جن میں سے باب اول میں مخالفین مذہب کا مقدمہ پیش کیا ہے اور باب دوم میں مخالفین مذہب کے دلائل پر  تبصرہ کرتے ہوئے اس کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔ باب سوم  میں ‘‘استدلال کا طریقہ’’ بیان کیا ہے ،  اس کے بعد کے  ابواب ایجابی انداز میں مذہب کے بنیادی تصورات یعنی خدا، رسالت اور آخرت کا اثبات پر بات کرتے ہیں۔ ‘‘کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے’’ وہ باب  ہے جس کا تعلق خدا کے وجود کے اثبات سے ہے، پھر ایک باب دلیل آخرت سے متعلق ہے اور ایک باب میں رسالت کا اثبات ہے۔ ایک باب کا نام ہے‘‘قرآن خدا کی آواز’’ اس باب میں وحی کا سائنسی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور پھر ایک باب  تمدنی مسائل سے متعلق ہے جس سے اسلام کی صداقت آشکار ہوتی ہے ، پھر آخر میں باب   آخری بات    ہے۔

کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے  کے باب میں خدا کے وجود سے متعلق ہیں اس کا ایک مختصر اقتباس سے کتاب کے علمی اسلوب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

‘‘پچھلے صفحات میں کائنات کے حیرت انگیز نظم اور اس کے اندر غیر معمولی حکمت و معنویت کا جو حوالہ دیا گیا ہے۔ مخالفین مذہب اس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی دوسری توجیہ کرتے ہیں۔ اس میں انہیں کسی ناظم اور مدبر کااشارہ نہیں ملتا۔بلکہ سب کچھ ان کے نزدیک محض‘‘اتفاق’’سے ہو گیا ہے۔ ٹی ایچ ہکسیلے کے الفاظ میں چھ بندر اگر ٹائپ رائٹر پر بیٹھ جائیں اور کروڑوں سال تک اسے پیتے رہیں تو ہو سکتا ہے ان کے سیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیر میں سے آخری کاغذ پر شکسپیئر کی ایک نظم Sonnet نکل آئے۔ اس طرح اربوں کھربوں سال مادہ کی اندھا دھند گردش کے دوران موجودہ کائنات بن گئی ہے۔ [The Mysterious Universe, Pg. 34]

یہ بات اگرچہ فوری طور پر لغو ہے، کیونکہ ہمارے آج تک کے تمام علوم ایسے کسی اتفاق سے تک ناواقف ہیں، جس کے نتیجے میں اتنا عظیم اس قدر منظم، بامعنی اور مستقل واقعہ وجود میں آجائے۔  [مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 76]

ایٹم کی منفی برق پارے جو الیکٹرون کہلاتے ہیں، وه مثبت برق پارے کے گرد گهومتے ہیں جن کو پروٹون کہا جاتا ہے، یہ برقیے جو روشنی کی کرن کے ایک موہوم نقطہ سے زیاده حقیقت  نہیں رکهتے، اپنے مرکز کے گرد اسی طرح گردش کرتے ہیں، جیسے زمین اپنے مدار پر سورج کے گردش کرتی ہے، اور یہ گردش اتنی تیز هوتی ہے کہ الیکٹرون کا کسی ایک جگہ تصور نہیں  کیا جا سکتا، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا وه پورے مدار پر ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود ہے، وه اپنے مدار پر ایک سیکنڈ میں ہزاروں ارب چکر لگا لیتا ہے۔ یہ ناقابل قیاس اور ناقابل مشاہده تنظیم اگر سائنس کے قیاس میں اس لیے آ جاتی ہے کہ اس کے بغیر ایٹم کے عمل کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی تو ٹهیک اسی دلیل سے آخر ایک ایسے ناظم کا  تصور کیوں نہیں کیا جا سکتا جس کے بغیر ایٹم کی اس تنظیم کا برپا ہونا محال ہے۔[مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 60۔61]

جان اسٹوارٹ مل نے اپنی آٹو بائیوگرافی میں لکھا ہے کہ میرے باپ نے مجهے یہ سبق دیا کہ یہ سوال کہ کس نے مجهے پیدا کیا خدا کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد فوراً  دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا ، چنانچہ برٹرینڈ رسل نے بهی اس اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے محرک اول کے استدلال کو رد کر دیا ہے۔   یہ منکرین خدا کا بہت پرانا استدلال ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا اگر کوئی خالق مانیں تو اس خالق کو لازمی ازلی ماننا پڑے گا، پهر جب خدا کو ازلی ماننا ہے تو کیوں نہ کائنات کو ہی ازلی  مان لیا جائے اگر چہ یہ بالکل بے معنی بات ہے، کیونکہ کائنات کی کوئی ایسی صفت ہمارے علم میں نہیں آئی ہے، جس کی بنا پر اس کو خود اپنا خالق فرض کیا جاسکے …..تاہم  انیسویں صدی  تک منکرین  کی اس دلیل میں ایک ظاہری فریب حسن موجود تها، مگر اب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون Second Law of  Thermodynamics  کے انکشاف کے بعد تو یہ دلیل بالکل بے بنیاد ثابت ہو چکی ہے۔  یہ قانون جسے ضابطہ ناکارگیLaw of Entropy کہا جاتا ہے، ثابت کرتا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی، ضابطہ ناکارگی بتاتا ہے کہ حرارت مسلسل با حرارت  وجود سے بے حرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے، مگر اس چکر کو الٹا چلایا نہیں جا سکتا کہ خود بخود یہ حرارت، کم حرارت کے وجود سے زیادہ حرارت کے وجود میں منتقل ہونے لگے،  ناکارگی، دستیاب توانائی اور غیر دستیاب توانائی کے درمیان تناسب کا نام ہے، اور اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کائنات کی ناکارگی برابر بڑھ  رہی ہے، اور ایک وقت ایسا آنا مقدر ہے جب  تمام موجودات کی حرارت یکساں ہو جائے گی اور کوئی کار آمد توانائی باقی نہ رہے گی، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کیمیائی اور طبعی عمل کا خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی بهی اسی کے ساتھ ختم ہو جائے  گی، لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ کیمیائی اور طبعی عمل جاری اور زندگی کے ہنگامے قائم ہیں، یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجود نہیں ہے ورنہ اخراج  حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبهی کی ختم ہو چکی ہوتی اور یہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بهی موجود نہ ہوتی۔

اس جدید تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیواناتEdward Luther Kessel  لکھتا ہے: ‘‘اس طرح غیر ارادی طور پر سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز رکھتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے، کیونکہ جو چیز اپنا  ایک آغاز رکھتی ہو وه اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی، یقیناً وه محرک اول ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے”۔[The Evidence of God, Pg. 51]

[مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 55۔57]

   بعض سائنس دانوں کو کو اس غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی فکروتحقیق کو مادیت تک محدود رکھا اور اس سے اوپر کا معاملہ خالق مادہ کے حوالے کردیا، مثلاً امریکی عالم طبیعیات جارج ارل ڈیوس Eral Davis اپنی کتاب The Evidence of God.P.7میں دو ٹوک لفظوں میں کہتا ہے: ‘‘اگر کائنات خود اپنے آپ کو پیدا کر سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اندر خالق کے اوصاف رکھتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ کائنات خود خدا ہے، اس طرح اگر چہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کر لیں گے،لیکن وہ نرالا خدا ہوگا جو بیک وقت مافوق الفطرت بھی ہوگا اور مادی بھی ،میں اس طرح کے مہمل تصور کو اپنانے کے بجائے ایک ایسے خدا پر عقیدے کو ترجیح دیتا ہوں جس نے عالم مادی کی تخلیق کی ہے اور اس عالم کا وہ خود کوئی جزو نہیں بلکہ اس کا فرماں روا اور ناظم ومدبر ہے۔’’[مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 84]

علم حیاتیات کے مشہور عالم ہیکل Haeckel نے کہا تها  ۔ ‘‘مجهے هوا، پانی، کیمیائی اجزاء اور وقت دو، میں ایک انسان بنا دونگا’’۔ 

مگر یہ کہتے هوئے وه بهول گیا کہ اس اتفاق کو وجود میں لانے کے لیے ایک ہیکل اور مادی حالات کی موجودگی کو ضروری قرار دے کر وه خود اپنے دعوے کی تردید کر رہا ہے، بہت خوب  کہا ہے ماریسن نے:‘‘ہیکل نے یہ کہتے ہوئے جین اور خود زندگی کے مسئلہ کو نظر انداز کر دیا، انسان کو وجود میں لانے کے لیے اس کو سب سے پہلے ناقابل مشاہده ایٹم فراہم کرنے ہوں گے، پهر ان کو  مخصوص ڈهنگ سے ترتیب دے کر جین بنانا ہو گا، اور اس کو زندگی دینی ہوگی، پهر بهی اس کی اس اتفاقی تخلیق کا امکان کروڑوں میں ایک کا ہے، بالفرض اگر وه کامیاب بهی ہو جائے تو  اس کو وه اتفاق نہیں کہہ سکتے بلکہ وه اس کو اپنی ذہانت کا ایک نتیجہ قرار دے گا’’۔[Man Does Not Stand Alone Pg.87]

[مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 83۔84]

کتاب The origin of man   کے مصنف  امریکی عالم حیاتیات Cecil Boyce  Hamann کے الفاظ  ہیں : ‘‘غذا ہضم ہونے اور اس کے جزوبدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منصوب کیا جاتا تها، اب جدید مشاہده میں وه کیمیائی رد عمل کا نتیجہ نظر آتا ہے، مگر کیا اس کی وجہ سے  خدا کی وجود کی نفی ہو گئی؟  آخر وه کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزاء کو پاپند کیا کہ وه اس قسم کا مفید رد عمل ظاہر کریں، غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب و  غریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکهنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم هوتی ہے، کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں  آ گیا، حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہده کی بعد تو اور زیاده ضروری ہو گیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعہ عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے’’۔ 

[The Evidence of God in an
Expanding Universe Pg. 221]

[مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 22]

 

دلیل آخرت  کا  نفسیاتی پہلو کے متعلق لکھتے ہیں کہ ‘‘کننگھم  Kenningham نے اپنی کتاب plato’s Apology میں زندگی بعد موت کے عقیدے کو خوش کن لا ادریت cheerful Agnosticism کہا ہے، یہی موجوده زمانے میں تمام بے  خدا مفکرین کا نظریہ ہے، ان کا خیال ہے کہ دوسری زندگی کا عقیده انسان کی اس ذہنیت نے پیدا کیا ہے کہ وه اپنے لیے ایک ایسی دنیا تلاش کرنا چاہتا ہے جہاں وه موجوده دنیا کی محدودیتوں  اور مشکلات سے آزاد ہو کر خوشی اور فراغت کی ایک دل پسند زندگی حاصل کر سکے، یہ عقیده انسان کی محض ایک مفروضہ خوش فہمی ہے، جس کے ذریعے وه اس خیالی تسکین میں مبتلا رہنا چاہتا   ہے کہ مرنے کے بعد وه اپنی محبوب زندگی کو پالے گا، ورنہ جہاں تک حقیقت واقعہ کا تعلق ہے، ایسی کوئی دنیا واقعہ میں موجود نہیں ہے۔

مگر انسان کی یہ طلب بذات خود آخرت کا ایک نفسیاتی ثبوت ہے، جس طرح پیاس کا لگنا پانی کی موجودگی اور پانی اور انسان کے درمیان ربط کا ایک داخلی ثبوت ہے، اسی طرح ایک بہتر دنیا  کی طلب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی ایک دنیا فی الواقع موجود ہے، اور ہم سے اس کا براه راست تعلق ہے۔

 تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے سے عالمگیر پیمانے پر یہ طلب انسان کے اندر  موجود رہی ہے، اب یہ ناقابل قیاس ہے کہ ایک بے حقیقت چیز اتنے بڑے ہیمانے پر اور اس قدر ابدی شکل میں انسان کو متاثر کردے، ایک ایسا واقعہ جو ہمارے لیے اس امکان کا قرینہ  پیدا کرتا ہے کہ دوسری بہتر دنیا موجود ہونی چاہئے، خود اسی واقعہ کو فرضی قرار دینا صریح ہٹ دهرمی کے سوا اور کچھ نہیں۔

  جو لوگ اتنے بڑے نفسیاتی تقاضے کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ غیر حقیقی ہے، مجهے نہیں معلوم کہ پهر اس زمین پر وه کون سا واقعہ ہے جس کو وه حقیقی سمجهتے ہیں، اور اگر سمجهتے ہیں تو  اس کے لیے ان کے پاس کیا دلیل  ہے، یہ خیالات اگر صرف ماحول کا نتیجہ ہے تو وه انسانی جذبات کے ساتھ اتنی مطابقت کیوں رکهتے ہیں؟ کیا دوسری کسی ایسی چیز کی مثال دی جا سکتی ہے جو ہزاروں سال کے دوران میں اس قدر تسلسل کے ساتھ انسانی جذبات کے ساتھ اپنی مطابقت باقی رکھ سکی ہو؟   کیا کوئی بڑے سے بڑا قابل شخص یہ صلاحیت رکهتا ہے کہ ایک فرضی  چیز گهڑے اور اس کو انسانی نفسیات میں اس طرح شامل کر دے، جس طرح یہ احساسات انسانی نفسیات میں سموئے ہوئے ہیں۔ [مذہب اور جدید چیلنج ، صفحہ 101۔102]

وحید الدین خان کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج  کے تراجم  عربی، فارسی، فرانسیسی اور ترکی زبان میں
وحید الدین خان کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج کے تراجم عربی، فارسی، فرانسیسی اور ترکی زبان میں

ترقی یافتہ دور میں بڑھتی ہوئی بے سکونی ، اسڑیس اور ڈپریشن کے مسائل پر مولانا وحید الدین خان نےآج سے تقریباً 60 برس قبل لکھا ….
‘‘موجوده زمانے میں طب اور سرجری میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے، یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ سائنس موت اور بڑهاپے کے سوا ہر جسمانی تکلیف پر قابو پا سکتی ہے، مگر اسی کے ساتھ بیماری کی اقسام میں نہایت تیزی سے ایک نئے نام کا اضافہ ہورہا ہے۔
‘‘اعصابی بیماریاں ’’ یہ اعصابی بیماریاں کیا ہیں۔
یہ دراصل اسی تضاد کا ایک عملی ظہور ہے جس میں جدید سوسائٹی شدت سے مبتلا ہے۔ مادی تہذیب نے انسان کے اس حصے کو جو نمکیات، معدنیات اور گیسوں کا مرکب ہے، ترقی دینے کی کافی کوشش کی، مگر انسان کا وه حصہ جو شعور، خواہش اور اراده پر مشتمل ہے، اس کی غذا سے اس کو محروم کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلا حصہ تو بظاہر فربہ اور خوش منظر دکهائی دینے لگا، مگر دوسرا حصہ جو اصل انسان ہے، وه طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہو گیا۔ موجوده امریکہ کے بارے میں وہاں کے ذمہ دار ذرائع کا اندازه ہے کہ وہاں کے بڑے بڑے شہروں میں اسی فیصد مریض ایسے ہیں جن کی علامت بنیادی طور پر نفسیاتی سبب کے تحت واقع ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے اس سلسلے میں جو تحقیقات کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان بیماریوں کے پیدا ہونے کے چند اہم ترین وجوه یہ ہیں۔ جرم، ناراضگی، اندیشہ، پریشانی، مایوسی، تذبذب، شبہ، حسد، خود غرضی اور اکتاہٹ۔ یہ سارے عوارض اگر گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو بےخدا زندگی کا نتیجہ ہیں۔ خدا پر ایمان آدمی کے اندر وه اعتماد پیدا کرتا ہے، جو مشکلات میں اس کے لئے سہارا بن سکے۔ وه ایسا برتر مقصد اس کے سامنے رکھ دیتا ہے جس کے بعد وه (انسان) چهوٹے چهوٹے مسائل کو نظر انداز کر کے اس کی طرف بڑھ سکے، وه (اللہ پر یقین )اس کو ایسا محرک دیتا ہے، جو سارے اخلاقی محاسن کی واحد بنیاد ہے، وه عقیدے کو وه طاقت دیتا ہے، جس کے متعلق ڈاکٹر سر ولیم اوسلر نے کہا ہے ‘‘وه ایک عظیم قوت محرکہ ہے، جس کو نہ کسی ترازو میں تولا جا سکتا ہے، اور نہ لیبارٹری میں اس کہ آزمائش کی جا سکتی ہے’’۔
عقیدے کی طاقت دراصل نفسیاتی صحت کا خزانہ ہے۔ جو نفسیات اس سر چشمہ سے محروم ہو وه بیماریوں کے سوا کسی اور انجام سے دوچار نہیں ہو سکتی۔

 

وحید الدین خاں کی تمام کتب دئیے گئے لنکس سے آن لائن مطالعہ کی جاسکتی ہیں۔
https://maulanawahiduddinkhan.com/books
https://cpsglobal.org/books

 

 

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ ستمبر 2023 کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن مطالعہ کرنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیجیے!

روحانی ڈائجسٹ آن لائن کی سالانہ سبسکرپشن صرف 1000 روپے میں حاصل کیجیے۔

یہ رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش، منی آرڈر یا ڈائریکٹ بنک ٹرانسفر کے ذریعے بھجوائی جاسکتی ہے ۔

    • بذریعہ JazzCash  ۔ 03032546050 
    • بذریعہ Easypaisa  ۔ 03418746050
  • یا پھر اپنی ادائیگی براہ راست ہمارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں
    .Roohani Digest : IBAN PK19 HABB0015000002382903

مزید رابطے کے لیے   سرکیولیشن مینیجر

manageroohanidigest@gmail.com

واٹس ایپ نمبر   03418746050

فون نمبر : 02136606329

یہ بھی دیکھیں

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عطا کردہ وظائف

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عطا کردہ وظائف خوشحالی کا وظیفہ:  حضرت بابا فرید …

ترک صدر رجب طیب اردوان کی ثنا خوانی

آج کل صدرِ جمہوریہ تُرک جناب رجب طیب اردوان Recep Tayyip Erdoğan پرنٹ، الیکٹرانک اور …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے