Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

شاہ عبدللطیف بھٹائی اور علامہ اقبال میں فکری مماثلت

 

تاریخ عالم میں کئی ایسی ہستیاں پیدا ہوئی جو انسان کی سربلندی کے لیے صدائے حق بلند کرتی رہی ہیں ، ان ہستیوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے مردہ دلوں میں روحانی اور اخلاقی رمق پیدا کی، بھٹکی انسانیت کے اندر محبت، اخلاص و اتحاد کا جذبہ پیدا کیا ۔مخلوق خدا کو الخلق عیال اللہ کے تحت ایک کنبہ میں پرونے کی سعی کی۔ یہ ہستیاں احترام آدمیت، محبت اور کامل راہنمائی کی وجہ سے صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔
ان ہستیوں میں حضرت بابا فریدؒ، عمر خیامؒ، شہباز قلندرؒ، حضرت جلال الدین رومیؒ، شیخ سعدیؒ، یونس ایمرےؒ، حافظ شیرازیؒ، عبدالرحمٰن جامیؒ، شاہ حسین ؒ، سرمد شہید ؒ، حضرت سلطان باہوؒ ، رحمان باباؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ، بابا بلھے شاہ ؒ، وارث شاہؒ، سچل سرمستؒ، خواجہ غلام فرید ، میاں محمد بخش ؒ، درخشاں ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں اور اس دنیا سے گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کے کلام اپنے زمانہ کی طرح دعوت حق پھیلا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں کیا جاتا ہے۔
ان میں سے کئی ہستیوں کے زمان و مکان ، زبان و بیان اور لسان و اوزان میں فرق ہے۔ پھر بھی ان کی تعلیمات ایک ہی مرکز سے جُڑی نظر آتی ہیں۔
ان ہستیوں نے تعلیم الگ زبان ، الگ خطوں اور الگ ادوار میں مختلف ذرائع سے حاصل کیں مگر سب نے نتائج ایک جیسے اخذ کئے ہیں مثلا: توحید، عشق رسُول ، ذکر اللہ، شریعت کی پیروی، نیابت الٰہی، حسن اخلاق، ادب و حترام، ترکِ خواہش، ضبطِ نفس ، توکل ، عشق، صبر و شکر ، انسانیت سے پیار وغیرہ
یہاں ہم ایسی ہی دوہستیوں، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی اور علامہ اقبال کا ذکر کررہے ہیں، جن کے درمیان ڈیڑھ صدی کا فاصلہ ہے، ان کی زبان اور اندازِ بیان مختلف ہے، لیکن ان کی تعلیمات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ شاہ بھٹائی اور اقبال ایک ہی چراغ کی کرنیں ہیں۔
وادیٔ مہران سندھ کے عظیم صوفی اور شاعرِ محبت شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ 1689ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء واجداد ہرات سے ہجرت کرکے سندھ آئے تھے۔ شاہ سائیںؒ کے والد بزرگوار سید حبیب شاہ کا شمار بھی اہل اللہ اور بزرگوں میں ہوتا ہے۔ شاہ سائیںؒ کی روحانی تربیت انہوں نے ہی کی تھی۔ جس زمانے میں شاہ سائیںؒ پیدا ہو ئے، بڑے ہو ئے اس وقت سندھ ایک آزاد ریاست کی حیثیت رکھتا تھا اور اس پر کلہوڑا خاندان حکومت کر رہا تھا۔
شاہ سائیںؒ کی شاعری کسی خاص دور کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ زمان و مکان کی قید سے آزاد الہامی شاعری ہے ، جو کہ دل و جگر کو چیر کر باہر نکلتی ہے اور سننے والے کے دل پر وجد کی کیفیت طاری کرتی ہے۔
شاہ سائیںؒ نے کسی مکتب یا مدرسے سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی ، اس کے باوجود عربی اور فارسی پر انہیں عبور تھا۔ شاہ صاحب کی شاعری پڑھو تو وہی وجدانی کیفیات دل پر اثر انداز ہوتی ہیں جنہوں نے مولانا رومؒ کی کایا پلٹ کردی تھی۔
1751ء میں شاہ سائیںؒ اپنا مادی وجود چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ شاہ جو رسالو میں ان کے کلام کے ذریعے ان کا روحانی فیض ان شاء اللہ تاقیامت رہے گا۔
بیسویں صدی میں جن مفکرین نےاپنی فکر سے عالمِ اسلام کو بے حد متاثر کیا، دینی فکر و تعلیمات سے قرب پیدا کیا اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیےایک مثال قائم کی، اُن میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال سب سے نمایاں نظر آتےہیں۔
علامہ اقبال 1877ء میں سیالکوٹ پیدا ہو ئے، وہ انگریزوں کے تسلط کا دور تھا۔ سندھ اپنی خودمختاری کھو چکاتھا۔ اس پر آشوب اور غلام دور میں علامہ اقبالؒ نے خودی اور عشق کے معنیٰ، مطالیب اپنی شاعری میں سموئے، ان کا کلام ایک ڈاکٹریٹ کی ڈگری ر کھنے والے شاعر کا فلسفہ ہے جس نے اس دور کے شان دار تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ یورپ کے ادب کا مطالعہ کیا۔
علّامہ اقبال ،بظاہرایک بیدار ذہن اور مدبّر شاعر تھے۔ فلسفہ ان کا نظام فکر ونظر رہاہے اور حکمت و فلسفہ ان کی زندگی اور فکر و دانش پر محیط رہا، علامہ اقبالؒ نے خودی اور عشق کے معنیٰ، مطالیب اپنی شاعری میں سموئے، حالاں کہ عالم اسلام میں کم ہی اکابر ایسے گزرے ہیں، جنھیں حُسن و عشق سے بھی لگاؤ تھااور وہ فلسفی اور دانش ور بھی تھے۔

 

اقبال کی شاعری کاایک بڑا حصہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس کو ہم تصوف کے اسی اخلاق وعمل کی تعلیم قرار دے سکتے ہیں۔ جن میں فقر، عمل، حرکت، تزکیہ نفس، احسان، خودی، زماں ومکاں،مردِمومن، تقدیر اور عشق قابل ذکر ہیں۔
اس مقالے کا موضوع شاہ سائیںؒ اور علامہ اقبالؒ کی شاعری میں مماثلت کے پہلو پر روشنی ڈالنا ہے ، دونوں بڑے شاعروں کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عشق ایک ایسا موضوع ہےجو ان دونوں کی عظیم الشان شاعری میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔
عشق کے ذریعے ہی انسان کی روح اپنی اصل کو پہچان کر حق میں حل ہو سکتی ہے۔ حقیقی عشق صوفیوں کا مول مقصد ہے۔ شاہ سائیںؒ فرماتے ہیں۔

ڌَڙُ ڍُونڍِيان سِرُ نَہ لَھان، سِرُ ڍُونڍِيان ڌَڙُ ناھِ،
ھَٿَ ڪَرايُون آڱِريون، وِئا ڪَپِجِي ڪانھَن،
وَحدَتَ جي وِھانءِ، جٖي وِئا سي وَڍِئا.

ترجمہ: وصال وحدت کی تپش ایسی ہے کہ سر کو دھونڈتی ہوں تو دھڑ غائب ہوجاتا ہے اور دھڑکی تلاش میں نکلتی ہوں تو سر کو نہیں پاتی حتیٰ کہ ہاتھ، کلائیاں اور انگلیاں بھی کٹ گئی ہیں۔
[شاہ جو رسالو:سُر کلیاں، داستان 1: بیت 13]
اقبالؒ کے نزدیک یہی عشق اس قوت حیات سے عبارت ہے جو اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے لیے درکار ہے۔ کائنات کی ہر شے اصول حرکت پر قائم ہے ۔ اس مسلسل حرکت واضطراب کے پیچھے کائنات گیر اصول جذبہ عشق ہے، جس کے سہارے ہر چیز اپنے مدعا تک رسائی حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
اقبال نے اپنے پہلے خطبے بعنوان علم اور مذہبی مشاہدات کے شروع میں بحث کا آغاز ہی اس نکتے سے کیا ہے کہ فلسفے کے خالص عقلی منہاج کا اطلاق کیا مذہب پر بھی ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد آپ لکھتے ہیں اگر ایمان کے لیے عقل ناکارہ اور عشق کارآمد ہے تو ایمان کے ساتھ استحکام اور شعر کے لیے تعقل کی ضرورت باقی رہتی ہے، اقبال تسخیر فطرت کا کام عشق ہی سے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محبت انسان کی نظر کو بلندتر کرکے اسے کائنات کا حکمران بنادیتی ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
اسی نکتہٰ معنیٰ اصل سے بڑھ کر ہے فراق، کو اقبال سے بہت پہلے شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں اس طرح بیان کیا ہے۔

جيڪي فِراقان، سو وِصالان نَہ ٿِئي،
اَچي اوطاقان، مُون کي پِرِينءَ پاسي ڪِئو.

[شاہ جو رسالو:سُر حسینی، داستان 4: بیت 20]
شاہ سائیںؒ کے نزدیک فراق معنیٰ ہجرو جدائی ہی اصل کیفیت ہے جو درد کو جنم دیتی ہے۔ درد، قلب و جگر میں سوز پیدا ہے۔ سوز، گداز کو جنم دیتا ہے اور یہی گداز اسے اپنے محبوب کے قریب لے جاتا ہے۔ شاہ سائیںؒ عشق کے فلسفے کو بیان کرنے کے لیے لفاظی سے کام نہیں لیے بلکہ شاہ سائیںؒ کے کان قدرت کے کلام کی طرف مائل تھے اور انگلیاں ایک حاذق حکیم کی طرح نوعِ انسان کی طبع کی نبض شناس تھیں۔
اسرارِ قدرت پر تفکر ان کا شعار تھا جس کی وجہ سے قدرت والے نے ان پر اپنے راز منکشف کرکے ترجمانِ الاسرار بنا دیا تھا۔
شاہ سائیںؒ عاشق صادق کے لیے فرماتے ہیں۔
عاشِق زَھَرَ پِياڪَ، وِھُ پَسِي وِھسَنِ گهَڻو،
ڪَڙَي ۽ قاتِلَ جا، ھَميشه ھيراڪَ،
لَڳيءَ لَنئُن لَطِيفُ چئَي، فَنا ڪِئا فِراقَ،
توڻي چِڪَنِ چاڪَ، تَہ آھَ نَہ سَلَنِ عامَ کي.
ترجمہ: عاشق زہر کو پینے والے ہوتے ہیں، وہ یہ کڑا جام دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ان کو قتل ہونے اور سختیاں جھیلنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ حقیقی عشق نے ان کے اندر ایسی جوت جلائی ہوئی ہوتی ہے کہ فراق اس سے فنا ہو جاتا ہے۔ اس راہ پر ان کو کتنی ہی مصیبتیں جھیلنی پڑیں وہ کبھی بھی آہ و زاری نہیں کرتے۔
[شاہ جو رسالو:سُر کلیاں، داستان 2: بیت 29]
ایک اور بیت میں عاشق کے اوصاف بیان کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ
پاٻُوھِيو پُڇَنِ، ڪِٿي ھَٿُ حَبِيبَ جو،
نيزي ھَيٺان نِينھَن جَي، پاسي پاڻَ نَہ ڪَنِ،
عاشِق اَجَلَ سامُھان، اُوچي ڳاٽِ اَچَنِ،
ڪُسڻُ قُربُ جَنِ، مَرَڻُ تَنِ مُشاھِدو.
ترجمہ: بڑے پیار سے حبیب کے ہاتھ کا پو چھتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔ عشق کی تلوار کے نیچے سے وہ اپنے آپ کو پل بھر کے لیئے دور نہیں کرتے ہیں۔ ایسے سچے عاشق موت کے سامنے سر اونچا کر کے بڑی شان سے آتے ہیں۔ ان کے لیے ذبح ہونا قربت کی نشانی ہے۔ اور مرجانا مشاہدے کی مانند ہے۔
[شاہ جو رسالو:سُر کلیاں، داستان 3: بیت 16]
اب ذرا اقبال  کے کچھ اشعار جو عشق کے اوصاف و مقام بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے
کھول کے کیا بیاں کروں سِرِّ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف
یعنی عشق والی موت شرف سے ہمکنار ہوتی ہے جبکہ عشق سے بے نیاز زندگی سرا سر بے شرف ہے
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروع
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
اقبال  کا کہنا ہے کہ اصل حقیقت تک رسائی سوز و ساز سے ہوتی ہے نہ کہ عقل و دلیل سے ۔ رومی سوز و ساز کا ترجمان ہے اور رازی قیل و قال کے دفتر کا مالک۔ اُسی طرح عشق کے جذبے کو عقل پر حاوی قرار دیتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں کہ،
بے خطر کو د پڑا، آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے،لب بام ابھی
علامہ اقبال  اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں کہ،
‘‘عشق ہی جو ہر ہے زندگی کا ، اور عشق ہی ہمارے جملہ مسائل کا حل اور مداوا ہے’’۔
اقبال  نے اپنی شاعری میں عشق اور اس کے مترافادات ولوازمات یعنی وجدان ، خود آگہی ، باطنی شعور ، جذب جنون، دل ، محبت ، شوق ، آرزو مندی ، درد ،سوز ، جستجو ، مستی اور سر مستی کا ذکر تواتر ، تکرار اور انہماک سے کیا ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقبالؒ کے تصورات میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہیٰ اور نعمت ازلی ہے۔ فرماتے ہیں:
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات
شاہ سائیںؒ عشق کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

سُورِي آھِ سِينگارُ، اَصلِ عاشِقَنِ جو،
مُڙَڻُ موٽَڻ ميھَڻو، ٿِئا نِظاري نِروارُ،
ڪُسَڻَ جو قَرارُ، اَصلِ عاشِقَنِ سين.

ترجمہ: عاشقوں کے لیئے اصل سے ہی سولی پر چڑھنا سینگار کی طرح ہے ، سولی سے بچنے کی کوشش کرنا یا سولی دیکھ کر واپس لوٹنا ان کے لیے تازیانہ ہے۔ وہ شہید ہونے کے لیے بے قرار رہتے ہیں کیوں کہ وہ حق سے و اصل ہونے کے لیےجان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔[شاہ جو رسالو:سُر کلیاں، داستان 2: بیت 5]
شاہ سائیں ؒ نے اسی فلسفے کو بیان کرنے کے لیے سندھ میں رائج رومانوی لوک داستانوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان داستانوں کے کردار جس طرح اپنے محبوب کی خاطر جان کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ، اسی طرح ایک بندہ خدا بھی جو حق کا خوگر ہے اور اسے حق سے شناسائی ہو گئی ہے اپنے سر کا سودا کر لیتا ہے۔
سسئ پنواں کی لازوال رومانوی داستان کو شاہ سائیں ؒ نے پانچ سُروں میں بیان فرمایا ہے۔
1) سُر سسئ2) سُر دیسی 3) سُر کوہیاری 4) سُر معذوری 5) سُر حسینی
ان تمام سروں میں سسئ نے جس طرح اپنے محبوب کی تلاش میں سخت قسم کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، ان کو اس کمال خوبی سے بیان فرماتے ہیں کہ پڑھنے والا بخو د ہو جاتا ہے۔ سسئی جب تلاش اور کھوج میں اپنے آپ سے بیگانی ہو جاتی ہے اور اپنے محبوب کے خیال میں سرتا پامحوہو جاتی ہے تو اسے ادراک ہوتا ہے کہ محبوب جس کو تلاشتے وہ پہاڑوں ، میدانی علاقوں ، موسم کی سختیوں کو برداشت کر رہی ہے وہ تو اس کے اندر موجود ہے۔ تب وہ بے اختیار کہتی ہے۔

وَڃين ڇو وَڻِڪارِ، ھوتُ نَہ گهورِيين ھِتَهِين،
لِڪو ڪِينَ لَطِيفُ چئَي، ٻاروچو ٻي پارِ،
ٿيءُ سَتِي ٻَڌُ سَندِرو، پِرتِ پُنهونءَ سين پارِ،
نائي نيڻَ نِهارِ، تو مَنجِهہ ديرو دوسَ جو.

ترجمہ: اپنے دوست کو کھوجنے کے لیئے تم صحرا نوردی کیوں کررہے ہو، تمہارا محبوب تم سے چُھپ کر کسی اور جگہ نھیں گیا ہے بلکہ اپنی نگاہ کو ذرا نیچے کر کے دیکھو تو وہ تمھارے اندر ہی موجود ہے۔
[شاہ جو رسالو:سُر سسئی آبری، داستان 3: بیت 10]
اسی طرح سر مارئی ہو یا سر سوہنی ، سورٹھ ہو یا لیلا شاہ سائیںؒ عشق کے جزبے کو ہی حق سے و اصل ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سُر آسا ، سُر کلیاں ،میں انہوں نے عشق و محبت کے ایسے راز بتائے ہیں جو اصل صوفی ہی سمجھ سکتا ہے باقی تو لفاظی سے کام چلاتے ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی شاعر جب شعوری کوششوں کے ذریعے لاشعوری واردات و کیفیات کو موضوعِ سخن بناتا ہے تو اقبالؒ ہو یا شاہ لطیفؒ ، رومی ہو یا رازی کہیں نہ کہیں ان کے خیالات میں یکسانیت آجاتی ہے۔

 

 

شاہ عبداللطیف بھٹائی سے پہلے کے صوفیانہ ادب میں آفاقیت  نمایاں  نظر  آتی ہے، اس میں علاقائی شناخت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مولانا روم کی شاعری سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ترکی میں بیٹھ کر لکھی گئی۔ سعدی کے اشعار ایران کی ثقافت کو اجاگر نہیں کرتے ۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی  کی شاعری  کی بنیادی اقدار تو آفاقی ہیں ، البتہ اس آفاقی پیغام کو گہرے علاقائی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔  سوہنی، سسی، لیلاں، مومل اور ماروی وغیرہ اس لحاط سے لیلیٰ اور شیریں سے مختلف ہیں کہ یہ اپنے اپنے علاقوں کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں اگرچہ ان کے احساسات  سب انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
اسی طرح علامہ اقبال کے کلام میں ایک خوبی  یہ بھی ہے کہ گویا وہ  اپنے علاقے کی مٹی سے بنے ہوئے پیالے میں عرب کی مے  پیش کر رہے ہیں :

عجمی خُم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

بھٹائی اور اقبال کے درمیان ایک  قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں نے اسلام کا آفاقی پیغام  پیش کرتے ہوئے اپنے اپنے خطے کے رنگ اور مزاج کو پیش نظر رکھا ہے۔ برصغیر میں اس انداز کے خالق شاہ عبداللطیف بھٹائی ہیں  ، علامہ اقبال نے اس انداز کو رفعت عطا بخشی  ہے۔

 

شاہ عبدللطیف بھٹائی اور علامہ اقبال میں فکری مماثلت

تحقیق : ڈاکٹر سعیدہ پروین میمن

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ اپریل 2023 کے شمارے سے انتخاب
اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر رجب طیب اردوان کی ثنا خوانی

آج کل صدرِ جمہوریہ تُرک جناب رجب طیب اردوان Recep Tayyip Erdoğan پرنٹ، الیکٹرانک اور ...

المصطفیٰ المصطفیٰ – سماعتوں میں رس گھولتی نعت  رسول مقبول ﷺ

المصطفیٰ المصطفیٰ – سماعتوں میں رس گھولتی نعت  رسول مقبول ﷺ شیخ مشاری راشد العفاسی ...

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے